أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَوۡمَ نَـقُوۡلُ لِجَهَـنَّمَ هَلِ امۡتَلَـئْتِ وَتَقُوۡلُ هَلۡ مِنۡ مَّزِيۡدٍ ۞

ترجمہ:

(آپ یاد کیجئے ! ) جس دن ہم جہنم سے فرمائیں گے : کیا تو پُر ہوگئی ؟ اور وہ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ (لوگ) ہیں ؟

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آپ یاد کیجئے) جس دن ہم جہنم سے فرمائیں گے : کیا تو پُر ہوگئی ؟ اور وہ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ (لوگ) ہیں ؟۔ اور جنت کو متقین کے قریب لایا جائے گا وہ ان سے دور نہ ہوگی۔ یہ وہ (انعام) ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا، (اپنے دین کی) حفاظت کرنے والا ہو۔ جو بن دیکھے اللہ سے ڈرتا رہا، اور (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا دل لایا۔ اس جنت میں ہمیشہ کے لیے سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ متقین کے لیے جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔ (قٓ:30-35)

دوزخ میں اللہ کے قدم رکھنے کے متعلق احادیث

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

لاملن جہنم من الجنۃ والناس اجمعین۔ (ھود :119، السجدۃ :13)

ترجمہ : میں تمام (کافر) جنات اور انسانوں سے ضرور جہنم کو پُر کر دوں گا۔

اس لیے اللہ تعالیٰ جہنم سے فرمائے گا : کیا تو پُر ہوگئی ؟ اور وہ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ لوگ ہیں ؟

اللہ تعالیٰ جہنم میں نطق پیدا کر دے گا جس طرح وہ انسان کے اعضاء میں نطق پیدا فرمائے گا، اس لیے وہ جواب دے گی۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہنم میں کفار کو ڈالا جاتا رہے گا، حتیٰ کہ وہ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ (لوگ) ہیں ؟ یہاں تک کہ رب العزت اس میں اپنا قدم رکھ دے گا، پھر دوزخ کے بعض حصے بعض کی طرف سکڑ جائیں گے، اور وہ کہے گی : بس بس تیری عزت اور کرم کی قسم ! ، اور جنت میں گنجائش رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جنت کی فاضل جگہ کے لیے ایک مخلوق پیدا کرے گا اور ان کو اس جگہ میں رکھے گا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :6661، صحیح مسلم رقم الحدیث :2848، سنن ترمذی رقم الحدیث :3272)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دوزخ پُر نہیں ہوگی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا پیر رکھ دے گا اور وہ کہے گی : بس بس ! اس وقت وہ پُر ہوجائے گی اور اس کے بعض حصے بعض کی طرف سکڑ جائیں گے پس اللہ سبحانہٗ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور رہی جنت تو اللہ عزوجل اس کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :4850، صحیح مسلم رقم الحدیث :2846، سنن ترمذی رقم الحدیث :2861، مسند احمد ج 2 450)

دوزخ میں اللہ کے قدم رکھنے کے محامل

قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا قدم رکھ دے گا، متقدمین کے نزدیک قدم میں کوئی تاویل اور تحریف نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قدم ہے جو اس کی شان کے لائق ہے اور مخلوق میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور کسی چیز پر اپنا قدم رکھنا اس چیز کی اہانت کو مستلزم ہوتا ہے سو جب دوزخ مزید بھراؤ کا مطالبہ کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اور متاخرین نے جب دیکھا کہ بہ ظاہر یہ آیت اور یہ احادیث اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے اور اس کے اعضاء کو مستلزم ہیں تو انہوں نے قدم کی مختلف تاویلیں کیں، چناچہ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

(١) قدم سے مقدم اعمال مراد ہیں۔ یعنی اہل دوزخ جو برے اعمال پہلے کرچکے ہیں ان اعمال کو مجسم کر کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(٢) اس سے مراد بعض مخلوق کے قدم ہیں۔

(٣) ایک مخلوق کا نام قدم ہے، اس مخلوق کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(٤) قدم انسان کے اعضاء کے آخر میں ہوتا ہے، پس جو آخری مخلوق دوزخ کی اہل ہوگی، اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(٥) جن موحدین کو دوزخ سے نکالا جائے گا ان کے بدلہ میں یہود اور نصاریٰ کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور چونکہ وہ موحدین پر مقدم ہیں اس لیے ان کو قدم سے تعبیر فرمایا۔

(٦) ابلیس کفر میں سب پر مقدم ہے اس لیے قدم سے مراد ابلیس ہے۔

(٧) بعض روایات میں قدم کی جگہ ” رجل “ کا لفظ ہے یعنی پیر، اس کی بھی یہی تاویل ہے کہ اس سے مراد بعض مخلوق کا پیر ہے یا کسی مخلوق کا نام ” رِجل “ ہے اس سے وہ مراد ہے۔

(٨) حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مخلوق کو پیدا کر کے اس سے جنت کو بھر دے گا، اور دوزخ کے ذکر میں فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا یعنی کوئی مخلوق پیدا کر کے اس کو بےقصور دوزخ میں نہیں کرے گا، جب کہ بغیر کسی استحقاق کے ایک مخلوق کو جنت میں داخل کر دے گا، اس سے معلوم ہوا کہ ثواب کسی عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جنت عطا فرما دے گا جنہوں نے کوئی عمل نہیں کیا جیسے کم سن بچے اور عذاب دینا کفر اور برے اعمال پر موقوف ہے سو وہ کسی بےقصور کو عذاب نہیں دے گا۔ (فتح الباری ج 9 ص 573-574، دارالفکر، بیروت، 1420 ھ)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :

یہ احادیث مشاہیر احادیث الصفات ہیں اور علماء کے اس میں دو مذہب ہیں : ایک مذہب یہ ہے کہ قدم اور پیر سے اللہ تعالیٰ کی جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے اور قدم اور پیر سے وہی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اور اس کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے۔ جمہور متقدمین اور متکلمین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے اور دوسرا مذہب ان علماء اور متکلمین کا ہے جو اس آیت اور ان احادیث میں تاویل کرتے ہیں۔

پھر علامہ عینی نے وہ تاویلات ذکر کی ہیں جن کو ہم اس سے پہلے علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے ذکر کرچکے ہیں۔ (عمدۃ القاری ج 19 ص 269-270، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1421 ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں :

بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ قدم سے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت جلال مراد ہے جیسا کہ بعض چیزوں سے صفت جمال مراد ہوتی ہے، ایک قول یہ ہے کہ دوزخ میں قدم رکھنے سے مراد دوزخ کا جوش ٹھنڈا کرنا ہے اور اس سے مراد دوزخ کی اہانت کرنا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : فلاں چیز تو میرے قدم یا پیر کے نیچے ہے، نیز جس چیز کی توہین کرنا مقصود ہو اس کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔ (روح المعانی جز 26 ص 283، دارالفکر، بیروت، 1423 ھ)

دوزخ کو بھرنے کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کر کے بغیر کسی جرم کے اس کو دوزخ میں ڈال دینا

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے سامنے مباحثہ کیا، جنت نے کہا : اے میرے رب ! کیا سبب ہے کہ جنت میں صرف کمزور اور ناتواں لوگ داخل ہوں گے ؟ اور دوزخ نے کہا کہ مجھے متکبرین کے ساتھ ترجیح دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ جنت سے فرمائے گا : تم میری رحمت ہو اور دوزخ سے فرمائے گا : تم میرا عذاب ہو، میں جس کو چاہوں گا تم سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک میں بہت بھرنے کی گنجائش ہے، رہی جنت تو بیشک اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی کے اوپر ظلم نہیں کرے گا اور دوزخ کے لیے جن کو چاہے گا پیدا فرما دے گا اور ان کو دوزخ میں ڈال دے گا، پھر بھی دوزخ کہے گی : کیا کچھ اور بھی زیادہ لوگ ہیں ؟ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا، پھر دوزخ بھر جائے گی اور اس کے بعض حصے بعض کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے اور دوزخ (تین بار) کہے گی : بس ! بس ! بس !

(صحیح البخاری رقم الحدیث :7449)

امام بخاری نے قٓ:30 کی تفسیر میں بھی اس کی مثل حدیث کو روایت کیا ہے (رقم الحدیث :4850) اور اس کے آخر میں یہ مذکور ہے کہ اللہ عزوجل اپنی مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا اور رہی جنت تو اللہ عزوجل اس کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا۔

اور یہاں حدیث رقم الحدیث :7449 میں اس کے برعکس دوزخ کے متعلق فرمایا ہے کہ دوزخ کے لیے جن کو چاہے گا پیدا فرما دے گا اور ان کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ اور یہ حدیث صرف ” صحیح بخاری “ میں ہے، اس کے برخلاف پہلی حدیث ” صحیح بخاری “ کے علاوہ اور بہت کتب حدیث میں ہے۔ (مثلاً صحیح مسلم رقم الحدیث : 2846، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20893 طبع قدیم، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :21057 طبع جدید، مسند احمد ج 2 ص 314)

اس حدیث پر اعتراض کا وارد ہونا

اور اس حدیث پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق کو پیدا کرکے اس کو جہنم میں ڈال دے گا تو لازم آئے گا کہ اللہ سبحانہٗ اس نئی مخلوق کو بغیر کسی معصیت اور جرم کے دوزخ میں ڈال دے اور یہ ظلم ہے، حالانکہ اسی حدیث میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وہ اپنی کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرے گا اور قرآن مجید میں بھی متعدد جگہ اسی طرح فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ :

ان اللہ لا ظلم مثقال ذرۃٍ (النسائ :40)

ترجمہ : اللہ تعالیٰ کسی پر رائی کے دانے کے ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرے گا۔

اس بناء پر بعض محققین نے اس روایت کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہاں راوی نے الٹ روایت کردی ہے، اصل حدیث میں جنت کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرنے کا ذکر تھا اور راوی نے دوزخ کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرنا روایت کردیا اور بعض شارحین نے اس حدیث کی تاویلات اور توجیہات ذکر کی ہیں۔

اس حدیث کی شرح علامہ ابن بطال سے

علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی متوفی 449 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ مہلب نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اللہ کے علم ازلی میں جس مخلوق کا کفر اور اس کی معصیت ثابت تھی، ان کو اللہ سبحانہٗ پیدا کرکے دوزخ میں ڈال دے گا۔

اور دوسرے علماء نے کہا ہے کہ اللہ ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو دنیا میں نہیں تھی اور اس کو دوزخ میں ڈال دے گا اور اس میں اہل سنت کی یہ دلیل ہے کہ اللہ اس بات کا مالک ہے کہ جس کو اس نے دنیا میں بھیج کر اپنی عبادت کا مکلف نہیں کیا اس کو بھی بغیر کسی جرم کے دوزخ میں ڈال دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” ویفعل اللہ مایشائ ۔ “ (ابراہیم :27) اللہ جو چاہے وہ کرتا ہے، اس کے برخلاف بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر غیر مکلف کو عذاب دیا تو یہ اس کا ظلم ہوگا اور یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال ج 10 ص 472-473، مکتبۃ الرشد، ریاض، 1420 ھ)

اس حدیث کی شرح حافظ ابن حجر عسقلانی سے

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ ابوالحسن القابسی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور دوزخ میں اپنا قدم رکھ دے گا، اور میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ کے لیے بھی کوئی مخلوق پیدا کرے گا، یہ حدیث سورة قٓ:30 کی تفسیر میں گزر چکی ہے اور ہم نے کہاں بیان کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دوزخ میں قدم رکھنے کی کیا تاویلات اور توجیہات ہیں۔ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا اور دوزخ میں صرف اپنا قدم رکھ دے گا، اس سے معلوم ہوا کہ نئی مخلوق کو پیدا کرنا اور دوزخ میں اپنا قدم رکھنا دو الگ الگ اور متغائر چیزیں ہیں۔ (اس کے بعد علامہ ابن حجر نے علامہ مہلب کی عبارت نقل کی ہے جس کو ہم علامہ ابن بطال کے حوالے سے نقل کرچکے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ ابن حجر لکھتے ہیں :) اہل سنت کے نزدیک یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر جرم کے سزا دے، اور یہ اس کا ظلم نہیں ہوگا، لیکن یہ صرف جواز کی حد تک ہے، اہل سنت اس کے وقوع کے قائل نہیں ہے اور اس حدیث میں علماء اہل سنت کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس حدیث میں تاویل ہوسکتی ہے، ائمہ کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس حدیث میں برعکس اور الٹ روایت ہے، اصل حدیث میں جنت کے لیے مخلوق پیدا کرنے کا ذکر ہے اور اس روایت میں اس کے برعکس دوزخ کے لیے مخلوق پیدا کرنے کا ذکر ہے، اس لیے یہ حدیث مقلوب ہے اور ابن قیم نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت غلط ہے اور انہوں نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جہنم ابلیس اور اس کے متبعین سے بھر جائے گی، قرآن مجید میں ہے :

لا ملن جہنم منک و ممن تبعک منہم اجمعین۔

(ص :85)

ترجمہ : (اے ابلیس ! ) میں تجھ سے سے اور تیرے تمام متبعین سے جہنم کو بھر دوں گا۔

تو جب جہنم ابلیس اور اس کے متبعین سے بھر جائے گی تو وہ کب اتنی خالی ہوگی کہ اس کو بھرنے کے لیے ایک نئی مخلوق کو پیدا کرنے کی ضرورت ہو ؟

اسی طرح ہمارے شیخ علامہ البقلینی نے بھی اس روایت کو رد کردیا ہے اور ان کا استدلال اس آیت سے ہے :

ولایظلم ربک احداً ۔ (الکہف :49)

ترجمہ : اور آپ کا رب کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔

اور انہوں نے کہا ہے کہ اس روایت کو ان پتھروں پر محمول کرنا زیادہ لائق ہے جن کو دوزخ میں ڈالا جائے گا، بہ نسبت اس ذی روح مخلوق کے جس کو بغیر گناہ کے عذاب دیا جائے، علامہ بلقینی کا کلام ختم ہوا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں : اور یہ التزام کرنا بھی ممکنہی کہ وہ مخلوق ذی روح ہو اور اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے اور اس کو عذاب نہ دیا جائے، جیسا کہ دوزخ کے محافظین دوزخ میں ہوں گے اور ان کو عذاب نہیں ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نئی مخلوق کو پیدا کرنے اور ان کو دوزخ میں ڈالنے سے کفار کو ابتداء دوزخ میں ڈالنا مراد ہو، اور انتہاء اور اخیر سے مراد ابتداء اور شروع ہو۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ جب کفار کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا تو دوزخ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ لوگ بھی ہیں ؟ اور اس کو تین بار کہے گی، پھر اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا تو دوزخ کہے گی : بس ! بس ! (انتہاء اور اخیر سے ابتداء اور شروع کو مراد لینا بہت دور کی تاویل ہے) ۔

علامہ عسقلانی نے اس حدیث کی تائید میں بعض علماء کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، اس کا محمل یہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی نیکی کرنے والے کو اس کی نیکی کا اجر نہ دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیوکاروں کو اجر عطا فرمانے کے بارے میں اجر ضائع نہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور اجرضائع نہ کرنے سے ظلم نہ کرنا مراد ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

ان الذین امن وعملوا الصلحت انا لانضیع اجرمناحسن عملاً ۔ (الکہف :30)

ترجمہ : بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے، بیشک ہم ان کے نیک اعمال کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔

(فتح الباری ج 15 ص 400-401، دارالفکر، بیروت، 1420 ھ)

نئی مخلوق پیدا کر کے اس کو بلا جرم دوزخ میں ڈالنے کے متعلق مصنف کی تحقیق

ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نئی مخلوق پیدا کر کے دوزخ میں نہیں ڈالے گا کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا ظلم کرنا لازم آتا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے الکہف :30 سے جو تاویل کی ہے وہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار پر عذاب نازل کرنے کے سیاق میں بھی اپنی ذات سے ظلم کی نفی فرمائی ہے، قرآن مجید میں ہے :

ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلھا وہم لا یظلمون۔ (الانعام :160)

ترجمہ : اور جس شخص نے کسی جرم کا ارتکاب کیا اس کو اسی جرم کی سزا دی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

فاذا جاء رسولہم قضی بینہم بالقسط و ہم لا یظلمون۔ (یونس :47)

ترجمہ : اور جب ان کے پاس ان کا رسول آجاتا ہے تو ان کا عدل سے فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر بالکل ظلم نہیں کیا جاتا۔

ہل ینظرون الا ان تاتیہم الملئکۃ اویاتی امر ربک کذلک فعل الذین من قبلہم و ما ظلہم اللہ و لکن کانوا انفسہم یظلمون۔ (النحل :33)

ترجمہ : کیا یہ (کفار) اس کا انتظار کرر ہے ہیں کہ (ان کی روح قبض کرنے کے لیے) ان کے پاس فرشتے آجائیں، یا ان کے پاس ان کے رب کا حکم (عذاب یا قیامت) آجائے، اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے کیا تھا، اور ان پر اللہ نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

اس طرح کی اور بہت آیتیں ہیں اور ان سب آیتوں میں ظلم کا معنی ہے : بغیر جرم کے سزا دینا، لہٰذا ” صحیح بخاری “ کی حدیث : 7449، کی حافظ ابن حجر عسقلانی نے جس قدر تاویلات اور توجیہات کی ہیں وہ سب نہایت ضعیف اور کیک ہیں اور زیادہ قوی بات یہی ہے کہ اس حدیث کا متن غلط ہے جیسا کہ علامہ ابن قیم اور حافظ ابن حجر عسقلانی کے استاذ علامہ بلقینی نے کہا ہے۔

نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے علامہ مہلب وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے وہ اپنی مخلوق میں جو چاہے تصرف کرے یہ اس کا ظلم نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کا مالک ہے اور مالک اپنی ملک میں جو چاہے تصرف کرے وہ اس کا ظلم نہیں ہوتا، اگر وہ تمام آسمانوں اور زمینوں والوں کو بہ شمول نیکوکاروں کے دوزخ میں ڈال دے تو وہ ایسا کرسکتا ہے اور یہ اس کا ظلم نہیں ہوگا اور عقلایہ چیز جائز ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں یہ خبر دی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا، وہ کسی نیوکار کو اس کی نیکی کے اجر سے محروم نہیں کرے گا جیسا کہ اس نے الکہف :30 میں فرمایا ہے اور نہ وہ کسی فاسق یا کافر کو بغیر جرم کے سزا دے گا جیسا کہ اس نے الانعام :160، یونس :47 اور النحل :33 میں فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے، اس کے خلاف کرنا محال ہے اسی طرح اس نے ظلم نہ کرنے اور بغیر جرم کے سزا نہ دینے کی جو خبر دی ہے اس کے خلاف کرنا بھی محال ہے، کیونکہ اپنی دی ہوئی خبر کے خلاف کرنا اس خبر کے کذب کو مستلزم ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کی خبر کا کاذب ہونامحال ہے، اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق کو پیدا کرے اور اس کو بغیر کسی جرم کے دوزخ میں ڈال دے۔ باقی رہا حافظ ابن حجر کا یہ کہنا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس مخلوق کو دوزخ میں ڈال دیا جائیارو اس کو عذاب نہ ہو جیسا کہ دوزخ کے محافظ فرشتے دوزخ میں ہوں گے اور ان کو عذاب نہیں ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض ایک احتمال ہے اور اس کے وقوع پر کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ احتمال قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہے، قرآن مجید ہے :

لا ملن جہنم منک و ممن تبعک منہم اجمعین۔

(صٓ:85)

ترجمہ : (اے ابلیس ! ) میں تجھ سے اور تیرے تمام متبعین سے جہنم کو بھر دوں گا۔

قرآن مجید کی اس نص صریح سے معلوم ہوا کہ ابلیس اور اس کے متبعین سے جہنم بھر جائے گی اور اس میں کوئی خالی جگہ اور گنجائش نہیں ہوگی جس کے لیے کسی نئی مخلوق کو پیدا کرنا پڑے۔

اس لیے صحیح بات وہی ہے جس کو حافظ ابن حجر نے بعض ائمہ سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث مقلوب ہے، اصل حدیث اس طرح ہے، جیسا کہ قٓ:30 کی تفسیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور دوزخ میں اپنا قدم رکھ دے گا۔ ” صحیح البخاری “ رقم الحدیث :7449 میں راوی نے اس حدیث کو الٹ کردیا اور جنت کے بجائے دوزخ کے لیے نئی مخلوق کے پیدا کرنے کو روایت کردیا اور یا پھر علامہ ابن قیم اور حافظ بلقینی کی تصریح کے مطابق اس حدیث کا متن غلط ہے۔

میرے ایک فاضل دوست اور برطانیہ کے مشہور مسلم اسکالرحافظ عبدالمجید نقشبندی (برسٹل) نے مجھے فون کر کے کہا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی امام بخاری کے بہت مداح ہیں اور وہ بخاری کی جن احادیث پر اعتراضات ہوں ان کا زبردست دفاع کرتے ہیں لیکن ” کتاب التوحید “ کی اس حدیث کا حافظ عسقلانی بھی مکمل دفاع نہیں کرسکے، اگرچہ انہوں نے اس حدیث کی بعض دو راز کار تلاویلات کی ہیں لیکن ان کو بہرحال یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اس حدیث کا متن مقلوب ہے یا پھر غلط ہے۔ آپ قٓ:30 کی تفسیر میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح کو نقل کریں، سو میں نے حافظ عسقلانی کی شرح کو بھی نقل کیا ہے اور اس حدیث کے متعلق اپنی تحقیق بھی ذکر کردی ہے اور اب میں اس حدیث کے متعلق دوسرے شارحین کی آراء کو بھی ذکر کر رہا ہوں۔

زیر بحث حدیث کے متعلق دیگر شارحین کی آراء

حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ القابسی نے کہا ہے : اس جگہ میں معروف یہ حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے ایک مخلوق پیدا کرے گا اور رہی دوزخ تو اس میں اپنا قدم رکھ دے گا، اور علامہ القابسی نے کہا : میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ کے لیے ایک مخلوق پیدا کرے گا اور پھر دوزخ میں اپنا قدم رکھ دے گا اور انہوں نے کہا کہ بخاری کی اس حدیث کے علاوہ دوزخ کے لیے مخلوق پیدا کرنے کا کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے۔ اور علامہ کرمانی نے کہا : سورة قٓ:30 کی تفسیر میں اس کے برعکس حدیث گزر چکی ہے اور وہاں حدیث میں ہے کہ رہی دوزخ تو وہ بھر جائے گی اور اللہ کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرے گا اور رہی جنت تو اللہ اس کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور اسی طرح ” صحیح مسلم “ میں بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ ” بخاری “ کی اس روایت میں (رقم الحدیث :7449) راوی کو وہم ہوا ہے کیونکہ بغیر گناہ کے کسی کو عذاب دینا اللہ تعالیٰ کی شان کرم کے لائق نہیں ہے، اس کے برخلاف جو اطاعت گزار نہ ہو اس کو انعام دینا اس کا کرم ہے، اس کے بعد علامہ کرمانی نے یہ کہا کہ جس کا گناہ نہ ہو اس کو عذاب دینے میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے، کیونکہ یہ خرابی اس قاعدہ کی بناء پر ہے کہ حسن اور قبح عقلی ہیں اور یہ قاعدہ باطل ہے، اس لیے اگر اللہ تعالیٰ غیر عاصی کو بھی عذاب دے تو یہ اس کا عدل ہے، بنابریں دوزخ کے لیے مخلوق پیدا کر کے اس کو بلا معصیت عذاب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ جو چاہے کرتا ہے لہٰذا اس حدیث کو راوی کے وہم پر محمول کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

علامہ کرمانی کی یہ تقریر ان کی شرح کے جزء 25 ص 160 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت 1401 ھ میں موجود ہے۔

(عمدۃ القاری جز 25 ص 206، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1421 ھ)

میں کہتا ہوں کہ حسن و قبح کا عقلی ہونا ماتریدیہ کے نزدیک ہے اور یہی احناف کا مذہب ہے اور یہی مذہب حق ہے اور حسن و قبح کا شرعی ہونا شاعرہ کے نزدیک ہے اور یہی شوافع کا مذہب ہے اور یہ مذہب باطل ہے۔ اس کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر حسن و قبح عقلی نہ ہوتا تو پھر یہ جائز تھا کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کے بھیجے بغیر کفار پر عذاب نازل فرما دیتا۔ لیکن ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے عدل کے خلاف تھا اور یہ کفار پر ظلم ہوتا اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بھیج کر پہلے کفار پر حجت قائم فرمائی اور جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو پھر ان پر عذاب نازل فرمایا۔ قرآن مجید میں ہے :

وماکنا معذبین حتی نبعث رسولاً ۔

(بنی اسرائیل :15)

ترجمہ : جب تک ہم رسولوں کو نہ بھیج دیں ہم (کفار پر) عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں۔

اگر حسن و قبح عقلی باطل ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے لیے ظلم جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ رسولوں کے بھیجے بغیر عذاب نازل فرما دیتا۔ پس معلوم ہوا کہ حسن و قبح شرعی نہیں، عقلی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ظلم کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ اس نے متعدد آیات میں اپنی ذات سے ظلم کی نفی کی ہے۔ سو اس حدیث کو راوی کے وہم پر محمول کیے بغیر اور اس کو مقلوب قرار دیئے بغیر اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ علامہ شہاب الدین احمد القسطلانی المتوفی 911 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

یہ حدیث سورة قٓ:30 میں گزر چکی ہے، اس میں مذکور تھا کہ رہی جنت تو اللہ اس کے لیے مخلوق کو پیدا کرے گا اور اس حدیث میں اس کے برعکس ہے کہ رہی دوزخ تو اللہ اس کے لیے مخلوق کو پیدا کرے گا، اسی وجہ سے ائمہ کی ایک جماعت نے کہا کہ یہ حدیث مقلوب ہے اور ابن قیم نے جزماً کہا : یہ حدیث غلط ہے، اور حافظ بلقینی نے بھی اس کا انکار کیا اور ان کا استدلال الکہف :49 سے ہے کہ آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا اور ابوالحسن القابسی نے کہا کہ معروف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے مخلوق کو پیدا کرے گا اور میرے علم کے مطابق کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ کے لیے مخلوق کو پیدا کرے گا سوا اس حدیث کے۔

اس کے بعد علامہ قسطلانی نے اس حدیث کی وہ ریک تاویلات ذکر کی ہیں جن کو ہم حافظ عسقلانی سے نقل کر کے ان کو رد کرچکے ہیں۔ (ارشاد الساری ج 15 ص 492، دارالفکر، بیروت، 1421 ھ)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ القابسی نے کہا کہ راوی نے اس حدیث کو مقلوب (الٹ) کردیا ہے اور معروف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے مخلوق کو پیدا کرے گا۔ علامہ ابن قیم، علامہ بلقینی، اور دوسرے علماء نے بھی اسی طرح کہا ہے۔

(التوشیح علی الجامع الصحیح ج 5 ص 293، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1420 ھ)

شیخ محمد انور کشمیری دیوبندی متوفی 1352 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں بلاشک و شبہ راوی کی غلطی ہے اور ارحم الراحمین کی شان کے لائق یہ نہیں ہے کہ وہ دوزخ کے لیے مخلوق کو پیدا کرے اور بغیر جرم کے ان کو دوزخ میں ڈال دے، البتہ معاملہ اس کے برعکس ہے، اللہ تعالیٰ جنت کے لیے مخلوق کو پیدا کرے گا اور اپنے فضل سے اس کو جنت میں داخل کر دے گا اور وہ کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا کہ بغیر کسی گناہ کے مخلوق کو دوزخ میں ڈال دے۔ (فیض الباری ج 4 ص 521، مجلس علمی، ہند، 1357 ھ)

ہم نے اپنے فاضل دوست مولانا عبدالمجید (برسٹل) کی فرمائش پر اس حدیث کی کافی تحقیق کی ہے اور اس تحقیق سے یہ واضح ہوگیا کہ حدیث کے متن کی چھان پھٹک میں بعض اوقات امام بخاری سے بھی سہو ہوجاتا ہے اور وہ مقلوب متن کی بھی روایت کردیتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ بعض بخاری پرستوں کو یہ ناگوار گزرے لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم کی نسبت کرنے کی بہ نسبت یہ آسان سمجھتے ہیں کہ امام بخاری کی محبت ہے اور ان کی عظمت ہمارے دل میں جاگزین ہے، لیکن سب سے زیادہ ہمارے دل میں اللہ سبحانہٗ کی محبت اور عظمت ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے قارئین کو بھی اس محبت سے حظ وافر عطا فرمائے۔ (آمین)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 30