أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىٖ وَنُمِيۡتُ وَاِلَيۡنَا الۡمَصِيۡرُۙ ۞

ترجمہ:

بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے

قٓ:43-44 میں فرمایا : بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ جس دن زمین ان سے پھٹ جائے گی تو وہ دوڑتے ہوئے نکلیں گے یہ حشر بپا کرنا ہم پر بہت آسان ہے۔

یعنی ہم زندوں پر موت طاری کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کردیتے ہیں۔

جس دن زمین پھٹ جائے گی اور مردے زندہ ہو کر حضرت اسرافیل کی طرف دوڑیں گے جو صور پھونکنے والے ہیں اور سب بیت المقدس کی طرف دوڑیں گے جہاں حشر برپا ہوگا اور یہ ہم پر بہت آسان ہے، یہ حشر شام کی سرزمین پر برپا ہوگا۔

گناہ گاروں کے حشر کی کیفیت

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ روحیں مختلف صورتوں میں ہیں پس جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو ہر روح اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی۔ محمد بن کعب القرظی نے کہا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کا حشر اندھیرے میں کیا جائے گا، آسمان کو لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے جھڑ جائیں گے اور ایک منادی نداء کرے گا اور اس دن لوگ اس منادی کی آواز کے پیچھے ہوجائیں گے، جیسا کہ اس آیت میں ہے :

یومیذٍ یتبعون الداعی لاعوج لہ (طٰہ :108)

ترجمہ : جس دن لوگ منادی کے پیچھے چلیں گے جس میں کوئی کجی نہیں ہوگی۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اذا السماء انفطرت۔ و اذالکواکب انتثرت۔

واذا البحار فجرت۔ واذا القبور بعثرت۔

(الانفطار :1-4)

ترجمہ : جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور جب ستارے جھڑ جائیں گے۔ اور جب سمندر (اپنی جگہ سے) بہا دیئے جائیں گے۔ اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی۔

یعنی زمین سے تمام مردے باہر نکال دیئے جائیں گے۔

اذا السماء انشقت۔ واذنت لربھا وحقت۔ واذا الارض مدت۔ والقت مافیھا وتخلت۔

(الانشقاق :1-4)

ترجمہ : جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور اپنے رب کا حکم مانے گا اور یہ اس پر واجب ہے۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔ اور جو اس کے اندر ہے وہ اس سب کو باہر ڈال کر خالی ہوجائے گی۔

یعنی زمین سے تمام مردوں کو باہر نکال دیا جائے گا۔

امام مسلم نے حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کا حشر میدے کی طرح سفید روئی پر کیا جائے گا۔

ابوبکر احمد بن علی الخطیب نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو بھوکا پیاسا جمع کیا جائے گا، اس سے زیادہ وہ کبھی بھوکے پیاسے نہیں ہوں گے اور ان کا بےلباس حشر کیا جائے گا اور وہ بہت زیادہ تھکے ماندے ہوں گے، پس جس کو اللہ کھلائے گا، وہ کھالے گا اور جس کو اللہ پلائے گا، وہ پی لے گا اور جس کو اللہ پہنائے گا، وہ پہن لے گا اور جس کی اللہ مدد فرمائے گا وہ راحت پائے گا۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اس آیت کے متعلق بتائیے :

یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجاً ۔ (النبائ :18)

ترجمہ : جس دن (دوسری بار) صور میں پھونکا جائے گا پھر تم فوج در فوج چلے آؤ گے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے معاذ بن جبل ! تم نے بہت عظیم چیز کے متعلق سوال کیا ہے، پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، پھر آپ نے فرمایا : میری امت میں سے دس مختلف قسم کے گروہوں کا حشر کیا جائے گا جن کو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت سے ممتاز اور ممیز کرے گا اور انکی صورتوں کو تبدیل کر دے گا۔ (١) ان میں سے بعض بندر کی صورتوں میں ہوں گے (٢) اور ان میں سے بعض خنزیروں کی صورت میں ہوں گے (٣) اور ان میں سے بعض اندھے ہوں گے اور ان کی ٹانگیں اوپر ہوں گی اور وہ سر کے بل گھسٹ رہے ہوں گے (٤) اور ان میں سے بعض اندھے ہوں گے اور ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے (٥) اور ان میں سے بعض بہرے اور گونگے ہوں گے، وہ کچھ سمجھ نہیں رہے ہوں گے (٦) اور ان میں سے بعض لوگوں کی زبانیں منہ سے باہر ان کے سینوں تک لٹکی ہوں گی اور ان کے مونہوں سے پیپ بہہ رہی ہوگی جس سے تمام اہل محشر کو گھن آئے گی (٧) اور ان میں سے بعض کے ہاتھ اور پیر کٹے ہوئے ہوں گے (٨) اور ان میں سے بعض کو آگ کے درختوں کے تنوں پر سولی دی ہوئی ہوگی (٩) اور ان میں سے بعض مردار سے زیادہ بدبودار ہوں گے (١٠) اور ان میں سے بعض تارکول کی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔ (ان لوگوں کے مصادیق حسب ذیل ہیں :)

(١) جن لوگوں کا حشر بندروں کی شکلوں میں ہوگا وہ لوگوں کی چغلی کھانے والے ہوں گے۔

(٢) اور جن لوگوں کا حشر خنزیر کی شکلوں میں ہوگا وہ رشوت، ناجائز ٹیکس اور حرام کی کمائی کھانے والے ہوں گے۔

(٣) اور جو لوگ سر کے بل گھسٹ رہے ہوں گے اور اوندھے کھڑے ہوں گے وہ سود کھانے والے ہوں گے۔

(٤) اور جن لوگوں کو اندھا بنا کر حشر میں لایا جائے گا وہ مقدمات کا ظالمانہ فیصلہ کرنے والے ہوں گے۔

(٥) اور جن لوگوں کو بہرا گونگا اٹھایا جائے گا یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے کاموں پر فخر کرتے تھے۔

(٦) اور جن لوگوں کی زبانیں منہ سے باہر سینے تک لٹکی ہوئی ہوں گی یہ وہ علماء اور واعظین ہیں جو اپنے قول کے خلاف کام کرتے تھے۔

(٧) اور جن لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچاتے تھے۔

(٨) اور جن لوگوں کو آگ کے درختوں کے تنوں پر سولی دی ہوگی یہ وہ لوگ ہیں جو حاکموں کے پاس عوام کی شکایات پہنچاتے تھے۔

(٩) اور جو لوگ مردار سے زیادہ بدبو ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی شہوتوں اور لذتوں میں ڈوبے رہتے تھے اور اپنے مالوں سے اللہ کے حق کی ادائیگی سے منع کرتے تھے۔

(١٠) اور جو لوگ تارکول کی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے یہ وہ ہیں جو فخر اور تکبر کیا کرتے تھے۔

بندہ کا جن گناہوں پر خاتمہ ہو، ان ہی گناہوں پر قیامت کے دن اس کو اٹھایا جانا

علامہ ابو حامد نے ” کشف الاخرۃ “ نام کی کتاب میں لکھا ہے : لوگوں کو دنیا میں کیے ہوئے گناہوں میں مبتلاء اور ملوث کر کے حشر میں لایا جائے گا اور اس کی تفصیل یہ ہے :

(١) جو لوگ ساری عمر موسیقی سننے میں مبتلا رہے، جب وہ قبر سے اٹھیں گے تو ان کا اپنا ہاتھ ان کو پکڑ کر پھینک دے گا اور کہے گا :

تیرے لیے دوری ہو تو نے مجھے اللہ کی یاد سے منحرف رکھا پھر وہ ہاتھ اس کی طرف واپس آئے گا اور کہے گا کہ میں تیرا صاحب ہوں، حتیٰ کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والا ہو اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔

(٢) اور جو شخص ہر وقت نشے میں رہتا تھا اور جو شخص بانسری بجاتا تھا اور ان میں سے ہر شخص اسی حال میں اٹھے گا جس حال میں وہ اللہ سے منحرف ہوا تھا۔

(٣) اسی کی مثل وہ صحیح حدیث ہے کہ شراب پینے والا اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ شراب کی صراحی اس کے گلے میں لٹکی ہوئی ہوگی اور شراب کا پیالہ اس کے ہاتھ میں ہوگا اور اس سے ایسی بدبو آرہی ہوگی جیسے مردار زمین پر پڑا ہو اور مخلوق میں سے ہر گزرنے والا شخص اس پر لعنت کرے گا۔

نیز ابو حامد نے ذکر کیا کہ جب ہر شخص اپنی قبر پر بیٹھا ہوا ہوگا، ان میں سے بعض برہنہ ہوں گے اور بعض کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے، سیاہ اور سفید ان میں سے بعض کا نور مدہم چراغ کی طرح ہوگا اور ان میں سے بعض کا نور آفتاب کی طرح ہوگا، ان میں سے ہر ایک سر جھکائے ایک سال تک بیٹھا رہے گا، حتیٰ کہ مغربی جانب سے ایک آگ کا ظہور ہوگا، اس آگ کو دیکھ کر تمام مخلوق دہشت زدہ ہوجائے گی، خواہ وہ انسان ہوں یا جن، پرندے ہوں یا وحوش، پھر ہر شخص کے پاس اس کا عمل آئے گا اور اس سے کہے گا : اٹھو اور محشر کی طرف چلو اور جس کے عمل نیک ہوں گے اس کے لیے خچر کی سواری لائی جائے گی اور کسی کے لیے گدھے کی سواری لائی جائے گی اور کسی کے لیے مینڈھا لایا جائے گی جو اس کو کبھی سوار کرے گا اور کبھی گرا دے گا اور ان میں سے ہر ایک کے لیے نور کی شعاع ہوگی جو اس کے سامنے ہوگی اور اس کے دائیں جانب اور اندھیرے میں وہ نور اس کے سامنے رہے گا، قرآن مجید میں ہے :

یسعی نورہم بین ایدیہم و بایمانہم (الحدید :12)

ترجمہ : ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔

ان کی بائیں جانب نور نہیں ہوگا بلکہ سخت سیاہ اندھیرا ہوگا، نظر اس سے نفوذ نہیں کرسکے گی، کفار اس میں حیران ہوں گے اور ادھر ادھر پھر رہے ہوں گے اور مومن سخت سیاہ اندھیے کے باوجود اس کے پاردیکھ سکے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ انعام یافتہ مومن کے لیے عذاب یافتہ کافروں کے احوال منکشف کر دے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے کیا ہے، قرآن مجید میں ہے :

قال ہل انتم مظلمون۔ فاطلع فراہ فی سواء الجحیم۔ قال تاللہ ان کدت لتردین۔ ولولا نعمۃ ربی لکنت من المحضرین۔

(الصفت :54-57)

ترجمہ : جنتی (اپنے اصحاب سے) کہے گا : کیا تم (دوزخیوں کو) جھانک کر دیکھو گے ؟ پس جب وہ جھانکے گا تو اس کو دوزخ کے بیچ میں (جلتا ہوا) دیکھے گا۔ وہ (اس سیض کہے گا : اللہ کی قسم ! تو مجھے بھی ہلاک کرنے کے قریب تھا۔ اگر مجھ پر میرے رب کا انعام نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کیے جانے والوں میں ہوتا۔

اسی طرح یہ آیات ہیں :

واذا صرفت ابصارہم تلقاء اصحاب النار قالوا ربنا لاتجعلنا مع القوم الظلمین۔ ونادی اصحب الاعراف رجالاً یعرفونہم بسیمہم قالوا ما اغنی عنکم جمعکم و ما کنتم تستکبرون۔ (الاعراف :47-48)

ترجمہ : اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف متوجہ ہوں گی تو وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔ اور اصحابِ اعتراف بہت سے لوگوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر کہیں گے : تمہارا جتھا اور تمہارا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا کچھ کام نہ آیا۔

ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے اور زندگی کی قدر صرف مردے ہی جان سکتے ہیں اور تونگری اور خوش حالی کی قدر صرف فقراء ہی سمجھ سکتے ہیں اور جوانی کی قدر صرف بوڑھوں ہی کو معلوم ہوتی ہے اور کسی بھی نعمت کا ادراک صرف اس نعمت سے محروم شخص ہی کرسکتا ہے، قیامت کے دن بعض لوگ اپنے قدموں پر اور پنجوں کے بل کھڑے ہوں گے اور ان کا نور کبھی مدہم ہوگا اور کبھی خوب چمکے گا اور دنیا میں ان کا ایمان جس درجہ کا ہوگا آخرت میں ان کا حال اسی کے اعتبار سے ہوگا۔

(التذکرۃ فی احوال الموتی واحوال الاخرۃ 1 ص 313-313، دارالبخاری، المدینۃ المنورۃ، 1417 ھ)

علامہ قرطبی نے امام ابوحامد کے حوالے سے قیامت کے دن لوگوں کے اٹھائے جانے کے جو احوال بیان کیے ہیں ان کی تائید میں حسب ذیل احادیث ہیں :

بندوں کا جن اعمال پر خاتمہ ہو، ان ہی اعمال پر ان کو اٹھائے جانے کے متعلق احادیث

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب نازل فرماتا ہے تو جو لوگ بھی اس قوم میں ہوں سب پر عذاب نازل فرماتا ہے، پھر لوگوں کو ان کی نیات کے اعتبار سے اٹھایا جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :7108، صحیح مسلم رقم الحدیث :2879، شرح السنۃ ج 14 ص 402، المستدرک ج 2 ص 490، مسند احمد ج 2 ص 136, 110 تاریخِ بغداد ج 6 ص 88)

حضرت ابوہریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، جو شخص بھی اللہ کے راستہ میں زخمی ہوتا ہے (اور اللہ ہی کو علم ہے کہ کون اس کے راستہ میں زخمی ہوتا ہے) تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا، اس کا رنگ خون کا ہوگا اور اس سے مشک کی خوشبو آرہی ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2803، صحیح مسلم رقم الحدیث :1876، سنن ترمذی رقم الحدیث :1656، سنن نسائی رقم الحدیث :5029، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2753، مسند احمد ج ص 242، سنن بیہقی ج 7 ص 81، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 2502 ض

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں : انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے جہاد اور غزوہ کے متعلق خبر دیجیے ! آپ نے فرمایا : اے عبداللہ ! اگر تم اس حال میں قتل کیے جاؤ کہ تم صبر کرنے والے ہو اور ثواب کی نیت کرنے والے ہو تو قیامت کے دن تم صابر اور طالب ثواب کے طور پر اٹھائے جاؤ گے اور اگر تم ریاکاری اور دکھاوے کے حال میں قتل کیے جاؤ تو تم ریاکار کے طور پر اٹھائے جاؤ گے، تم جس حال میں بھی قتال کرتے ہوئے قتل کیے جاؤ گے اسی حال میں اٹھائے جاؤ گے۔

(سنن ابوداؤد رقم الحدیث :2502، المستدرک ج 2 ص 112 85-)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص نشہ کی حالت میں مرا وہ ملک الموت کو بھی نشہ میں دیکھے گا اور منکر نکیر کو بھی نشہ میں دیکھے گا اور قیامت کے دن اس کو نشہ میں اٹھایا جائے گا وہ جہنم کی ایک خندق کے وسط میں ہوگا، اس کا نام سکران (نشہ والے) ہوگا، اس میں خون کا دریا بہہ رہا ہوگا، اس کا کھانا اور پانی اسی دریا سے ہوگا۔ (الفردوس بماثور الخطاب للدیلمی رقم الحدیث :5578)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھا اس کو اونٹنی نے گرا دیا وہ جاں بحق ہوگیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اس کو اس کے ان ہی کپڑوں میں کفن دو اور اس کو خوشبو لگاؤ اور نہ اس کا سر ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ (اللہم لبیک اللہم لبیک) پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1265، صحیح مسلم رقم الحدیث :1406، سنن ترمذی رقم الحدیث : 951، سنن نسائی رقم الحدیث :2714، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3084، مسند احمد ج 1 ص 215، سنن بیہقی ج 3 ص 390-391، حلیۃ الاولیاء ج 4 ص 330)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے والوں پر موت کے وقت وحشت نہیں ہوگی، نہ ان کی قبروں میں اور نہ حشر میں گویا کہ میں ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے والوں کے ساتھ ہوں وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہوں اور وہ کہہ رہے ہوں گے : اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے ہم سے غم دور کردیا۔

(تاریخ بغداد ج 1 ص 266 ۔ ج 5 ص 305، الجامع الصغیر رقم الحدیث : 7620، مجمع الزوائد ج 10 ص 82، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ہر بندہ کو (قیامت کے دن) اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت میں وہ مرا ہے، مومن کو اس کے ایمان پر اور منافق کو اس کے نفاق پر۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :9072، حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 1 ص 113)

حضرت فضالۃ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ان مراتب میں سے جس مرتبہ پر بھی مرے گا قیامت کے دن اسی مرتبہ پر اٹھایا جائے گا۔ (مسند احمد ج 1 ص 19-20، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :694، المستدرک ج 1 ص 34-35، المعجم الکبیرج 18 ص 305 ۔ رقم الحدیث : 784-785، حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ )

آیاتِ حشر میں بہ ظاہر تعارض

قرآن مجید میں حشر کے متعلق جو آیات ہیں ان میں بہ ظاہر تعارض ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :

ویوم یحشرہم کان لم یلبثوا الا ساعۃ من النہار یتعارفون بینہم۔ (یونس :45)

ترجمہ : جس دن اللہ ان کو (میدانِ حشر) میں جمع فرمائے گا (تو ان کو یوں محسوس ہوگا) جیسے وہ (دنیا میں ض دن کی ایک ساعت رہے ہوں گے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان رہے ہوں گے۔

ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کو پہچاننا تب ہی متصور ہوگا جب وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں، حالانکہ ایک اور آیت سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کو اندھا، گونگا اور بہرا اٹھایا جائے گا، وہ آیت یہ ہے :

ونحشرہم یوم القیمۃ علی وجوہم عمیا وبکما وصما۔ (بنی اسرائیل :97)

ترجمہ : اور ہم قیامت کے دن ان کو ان کے مونہوں کے بل اٹھائیں گے، اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔

اور جب وہ اندھے اٹھائے جائیں گے تو کیسے ایک دوسرے کو پہچانیں گے ؟ نیز اس آیت میں ان کو گونگے ہونے کے حال میں اٹھانے کا ذکر ہے حالانکہ ایک اور آیت میں ان کے کلام کرنے کا ذکر فرمایا ہے :

یویلنا من بعثنا من مرقدنا۔ (یٰس :52)

ترجمہ : ہائے افسوس ! ہم کو ہماری قبروں سے کس نے اٹھا دیا۔

اور درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنتے بھی تھے اور جواب بھی دیتے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خطاب کر کے فرمایا :

فلنسئلن الذین ارسل الیہم ولنسئلن المرسلین۔ (الاعراف :6)

پس ہم ان لوگوں سے ضرور سوال کریں گے جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور ہم رسولوں سے بھی ضرور سوال کریں گے۔

اور ان سے سوال کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ سوال کو سن سکیں اور اس کا جواب بھی دے سکیں اور یہ ان کے بہرے اور گونگے ہونے کے منافی ہے، نیز بنی اسرائیل :97 میں فرمایا تھا : ” ان کو منہ کے بل اٹھایا جائے گا “ اور دوسری آیتوں میں حشر کے دن ان کے دوڑنے کا ذکر بھی ہے اور یہ ان کو منہ کے بل اٹھائے جانے کے منافی ہے، جن آیتوں میں ان کے تیز تیز چلنے اور دوڑنے کا ذکر ہے، وہ یہ ہیں :

ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الی ربہم ینسلون۔ (یٰس :51)

ترجمہ : اور صور میں پھونکا جائے گا پس وہ اسی وقت قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف تیز تیز چلنے لگیں گے۔

یوم یخرجون من الاجداث سراعاً کا نہم الی نصیب یوفضون۔ (المعارج :43)

ترجمہ : جس دن وہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے گویا کہ وہ کسی مطلوب کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں۔

آیاتِ حشر میں تعارض کا جواب

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور ان کو ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا تو اس وقت ان سب کی ایک حالت نہیں ہوگی اور نہ ان سب کے قیام کی جگہ واحد ہوگی، ان کے قیام کی جگہیں بھی مختلف ہوں گی اور ان کے احوال بھی مختلف ہوں گے، ان کے احوال کی پانچ قسمیں ہیں : (١) جس وقت ان کو قبروں سے نکالا جائے گا (٢) جب ان کو حساب کی جگہ کی طرف روانہ کیا جائے گا (٣) جس وقت ان سے حساب لیا جائے گا (٤) جس وقت ان کو دارالجزاء کی طرف روانہ کیا جائے گا (٥) جب ان کو ان کے دالجزاء میں ٹھہرایا جائے گا۔ ان احوال کی تفصیل حسب ذیل ہے :

(١) جس وقت ان کو ان کی قبروں سے نکالا جائے گا، اس وقت کافر کے اعضاء اور حواس کامل ہوں گے، جیسا کہ قرآن مجید کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے۔

و یوم یحشرہم کان لم یلبثوا الا ساعۃ من النہار یتعارفون بینہم۔ (یونس :45)

ترجمہ : جس دن اللہ ان کافروں کو اپنے سامنے جمع فرمائے گا تو (ان کو یوں معلوم ہوگا) گویا وہ دنیا میں دن کی صرف ایک ساعت رہے تھے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان رہے ہوں گے۔

یوم ینفخ فی الصور و نحشر المجرمین یومیذٍ زرقاً ۔ یتتخافتون بینہم ان لبثم الاعشراً ۔ (طہٰ :102-103)

ترجمہ : جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور مجرموں کو ہم (خوف سے) نیلی آنکھوں کے ساتھ اٹھائیں گے۔ وہ (مارے دہشت کے) ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہیں گے : تم تو دنیا میں صرف دس دن ہی رہے تھے۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ جب کفار کو ان کی قبروں سے نکالا جائے گا اس دن وہ سلیم الاعضاء ہوں گے اور ایک دوسرے سے باتیں بھی کرر ہے ہوں گے۔

(٢) دوسراحال یہ ہے جب ان کو حساب کی جگہ لے جائے گا، اس وقت بھی ان کے اعضاء اور حواس سلامت ہوں گے، جیسا کہ ان آیات سے واضح ہے :

احشروا الذین ظلموا ازواجہم وما کانوا یعبدون۔

من دون اللّٰہ فاہدوہم الی صراط الحجیم۔ وقفوہم انہم مسئولون۔ (الصفت :22-24)

ترجمہ : ان ظالموں کو اور ان کے موافقین کو اور جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، (ان سب کو) جمع کرو۔ سو ان سب کو دوزخ کا راستہ دکھاؤ۔ اور ان کو ٹھہراؤ، کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا۔

ان آیات میں فرمایا ہے : ان کو راستہ دکھاؤ، اس سے معلوم ہوا کہ وہ مشرکین اس وقت نابینا ہوں گے کیونکہ نابینا کو راستہ نہیں دکھایا جاتا، اور وہ چلنے والے ہوں گے۔ نیز فرمایا ہے : ان سے سوال کیا جائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ وہ بہرے نہیں ہوں گے سوال کو سنیں گے اور گونگے بھی نہیں ہوں گے، وہ سوال کا جواب دیں گے کیونکہ سوال اسی لیے کیا جائے گا۔

(٣) اور تیسرا حال وہ ہے جب ان سے حساب لیا جائے گا اس وقت بھی ان کے اعضاء سلامت ہوں گے، کیونکہ وہ کہیں گے :

یویلتنا مال ہذالکتب لایغادر صغیرۃً ولاکبیرۃً الا احصھا۔ (الکہف :49)

ترجمہ : ہائے افسوس ! یہ کیسا صحیفہ اعمال ہے جس نے نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا نہ بڑا گناہ چھوڑا، مگر سب کا احاطہ کرلیا۔

اور ظاہر ہے کہ وہ یہ بات تب ہی کہہ سکیں گے جب وہ اپنے صحیفہ اعمال کو پڑھیں گے اور افسوس کا اظہار کریں گے، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت وہ نہ اندھے ہوں گے، نہ گونگے ہوں گے اور اس وقت وہ اپنے گناہ دیکھ کر افسوس کررہے ہوں گے۔

(٤) اور چوتھا حال وہ ہے جب مجرموں کو جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا، اس وقت ان کی بصارت، سماعت اور گویائی سلب کرلی جائے گی اور ان کو اندھا، بہرا اور گونگا بنا کر جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا، جیسا کہ اس آیت میں ہے :

ونحشرہم یوم القیمۃ علی وجوہم عمیاً وبکماً وصماً ماوئہم جہنم۔ (بنی اسرائیل :97)

ترجمہ : اور ہم قیامت کے دن ان کو ان کے مونہوں کے بل اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔

(٥) اور پانچواں حال وہ ہے جب وہ دوزخ کی آگ میں مقیم ہوں گے اور اس حالت کی دو قسمیں ہیں، ایک ابتداء کی اور ایک اس کے بعد قیام کی، وہ حساب کی جگہ سے دوزخ کے کنارے تک کی مسافت اندھے، گونگے اور بہرے ہونے کے حال میں طے کریں گے، تاکہ ان کی ذلت دکھائی جائے اور ان کو دوسروں سے ممیز اور ممتاز کیا جائے، پھر ان کے حواس لوٹا دیئے جائیں گے تاکہ وہ دوزخ کی آگ کو دیکھ سکیں اور ان کے لیے جو عذاب تیار کیا گیا ہے اس کو محسوس کرسکیں اور عذاب کے فرشتوں کا معائنہ کرسکیں اور ہر اس چیز کا مشاہدہ کرسکیں جس کی وہ دنیا میں تکذیب کرتے تھے، پھر وہ اس حال میں دوزخ میں رہیں گے کہ وہ بولیں گے اور سنیں گے اور دیکھیں گے اور حسب ذیل آیتوں میں اس پر دلیل ہے :

ولو تری اذ وقفوا علی النار فقالوا یلیتنا نردولا نکذب بایت ربنا ونکون من المومنین۔ (الانعام :27)

ترجمہ : اور کاش ! آپ اس وقت دیکھتے جب ان کو دوزخ میں کھڑا کیا جائے گا تو وہ کہیں گے : ہائے افسوس، کاش ! ہمیں لوٹا دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتوں کی تکذیب نہیں کریں گے اور ہم مومنین میں سے ہوجائیں گے۔

کلما القی فیھا فوجٌ سالہم خزنتھا الم یاتکم نذیرٌ۔

قالوا بلی قدجاء نا ندیرہ فکذبنا وقلنا مانزل اللّٰہ من شیئٍ ان انتم الا فی ضللٍ کبیرٍ ۔ (الملک :8-9)

ترجمہ : جب بھی کفار کا کوئی گروہ دوزخ میں ڈالا جائے گا تو دوزخ کے محافظ اس سے سوال کریں گے : کیا تمہارے پاس کوئی عذاب سے ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟۔ وہ کہیں گے : کیوں نہیں ! ہمارے پاس عذاب سے ڈرانے والا آیا تھا، سو ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور ہم نے کہا : تم تو بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دوزخی اہل جنت کو پکار کر کہیں گے :

افیضوا علینا من الماء اومما رزقکم اللّٰہ (الملک :50)

ترجمہ : ہمارے اوپر کچھ پانی ڈالو یا ان چیزوں میں سے کچھ ڈالو، جو تمہیں اللہ نے دی ہیں۔

اور اہل جنت دوزخیوں کو پکار کر کہیں گے :

ان قد وجدنا ماوعدنا ربنا حقا فہل وجدتم ماوعد ربکم حقاً قالوانعم۔ (الاعراف :44)

ترجمہ : بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہم نے برحق پا لیا، پس تم سے تمہارے رب نے جو عدہ کیا تھا آیا تم نے بھی اس کو برحق پالیا ؟

اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ میں کفار کے اعضاء اور حواس سلامت ہوں گے ‘ اور خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار اپنی قبروں سے نکلیں گے اور جب انکو محشر کی طرف ہانکا جائے گا اور جب وہ حساب کے لیے پیش ہوں گے اور جب وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے ‘ ان چاروں حالتوں میں ان کے اعضاء اور حواس سلامت ہوں گے صرف اس وقت ان کے اعضاء اور حواس سلامت نہیں ہو گے جب انکو حساب کی جگہ سیدوزخ کے کناروں کی طرف دھکیلا جائے گا۔ (التذکرہ ج ١ ص ٣١٨۔ ٣١٦‘ ملخصا ‘ دارالبخاری ‘ المدینۃ المنور ۃ ‘ ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 43