وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۲۲)

اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوا (ف۵۳) کہا قریب ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ بتائے (ف۵۴)

(ف53)

مدیَن وہ مقام ہے جہاں حضرت شعیب علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے اس کو مدیَن ابنِ ابراہیم کہتے ہیں مِصر سے یہاں تک آٹھ روز کی مسافت ہے یہ شہر فرعون کے حدودِ قلمرو سے باہر تھا حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس کا رستہ بھی نہ دیکھا تھا ، نہ کوئی سواری ساتھ تھی ، نہ توشہ ، نہ کوئی ہمراہی ، راہ میں درختوں کے پتوں اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی ۔

(ف54)

چنانچہ اللہ تعالٰی نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ کو مدیَن تک لے گیا ۔

وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ٘۬-وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِۚ-قَالَ مَا خَطْبُكُمَاؕ-قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُٚ-وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ(۲۳)

اور جب مدین کے پانی پر آیا (ف۵۵) وہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور اُن سے اس طرف (ف۵۶) دو عورتیں دیکھیں کہ اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں (ف۵۷) موسیٰ نے فرمایا تم دونوں کا کیا حال ہے (ف۵۸) وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتے جب تک سب چرواہے پلاکر پھیر نہ لے جائیں (ف۵۹) اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں (ف۶۰)

(ف55)

یعنی کنوئیں پر جس سے وہاں کے لوگ پانی لیتے اور اپنے جانوروں کو سیراب کرتے تھے یہ کنواں شہر کے کنارے تھا ۔

(ف56)

یعنی مَردوں سے علیٰحدہ ۔

(ف57)

اس انتظار میں کہ لوگ فارغ ہوں اور کنواں خالی ہو کیونکہ کنوئیں کو قوی اور زورآور لوگوں نے گھیر رکھا تھا ان کے ہجوم میں عورتوں سے ممکن نہ تھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلا سکتیں ۔

(ف58)

یعنی اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلاتیں ۔

(ف59)

کیونکہ نہ ہم مَردوں کے انبوہ میں جا سکتے ہیں نہ پانی کھینچ سکتے ہیں جب یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر واپس ہو جاتے ہیں تو حوض میں جو پانی بچ رہتا ہے وہ ہم اپنے جانوروں کو پلا لیتے ہیں ۔

(ف60)

ضعیف ہیں خود یہ کام نہیں کر سکتے اس لئے جانوروں کو پانی پلانے کی ضرورت ہمیں پیش آئی جب موسٰی علیہ السلام نے ان کی باتیں سنیں تو آپ کو رقت آئی اور رحم آیا اور وہیں دوسرا کنواں جو اس کے قریب تھا اور ایک بہت بھاری پتھّر اس پر ڈھکا ہوا تھا جس کو بہت سے آدمی مل کر ہٹا سکتے تھے آپ نے تنہا اس کو ہٹا دیا ۔

فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(۲۴)

تو موسیٰ نے اُن دونوں کے جانوروں کو پانی پلادیا پھر سایہ کی طرف پھرا (ف۶۱) عرض کی اے میرے رب میں اس کھانے کا جو تو میرے لیے اُتارے محتاج ہوں (ف۶۲)

(ف61)

دھوپ اور گرمی کی شدت تھی اور آپ نے کئی روز سے کھانا نہیں کھایا تھا بھوک کا غلبہ تھا اس لئے آرام حاصل کرنے کی غرض سے ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے اور بارگاہِ الٰہی میں ۔

(ف62)

حضرت موسٰی علیہ السلام کو کھانا ملاحظہ فرمائے پورا ہفتہ گزر چکا تھا اس درمیان میں ایک لقمہ نہ کھایا تھا شکمِ مبارک پُشْتِ اقدس سے مل گیا تھا اس حالت میں اپنے ربّ سے غذا طلب کی اور باوجود یکہ بارگاہِ الٰہی میں نہایت قرب و منزلت رکھتے ہیں اس عجز و انکسار کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا طلب کیا اور جب وہ دونوں صاحب زادیاں اس روز بہت جلد اپنے مکان واپس ہو گئیں تو ان کے والد ماجد نے فرمایا کہ آج اس قدر جلد واپس آ جانے کا کیا سبب ہوا ؟ عرض کیا کہ ہم نے ایک نیک مرد پایا اس نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے جانوروں کو سیراب کر دیا اس پر ان کے والد صاحب نے ایک صاحبزادی سے فرمایا کہ جاؤ اور اس مردِ صالح کو میرے پاس بلا لاؤ ۔

فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘-قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَاؕ-فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَۙ – قَالَ لَا تَخَفْٙ- نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۲۵)

تو اُن دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی (ف۶۳) بولی میرا باپ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہیں مزدوری دے اس کی جو تم نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے (ف۶۴) جب موسیٰ اس کے پاس آیا اور اسے باتیں کہہ سنائیں (ف۶۵) اس نے کہا ڈرئیے نہیں آپ بچ گئے ظالموں سے (ف۶۶)

(ف63)

چہرہ آستین سے ڈھکے جسم چھپائے یہ بڑی صاحبزادی تھیں ان کا نام صفوراء ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھوٹی صاحبزادی تھیں ۔

(ف64)

حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام اجرت لینے پر تو راضی نہ ہوئے لیکن حضرت شعیب علیہ السلام کی زیارت اور ان کی ملاقات کے قصد سے چلے اور ان صاحبزادی صاحبہ سے فرمایا کہ آپ میرے پیچھے رہ کر رستہ بناتی جائیے یہ آپ نے پردہ کے اہتمام کے لئے فرمایا اور اس طرح تشریف لائے جب حضرت موسٰی علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچے تو کھانا حاضر تھا حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا بیٹھئے کھانا کھائیے حضرت موسٰی علیہ السلام نے منظور نہ کیا اور اعوذ باللہ فرمایا حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کیا سبب کھانے میں کیوں عذر ہے کیا آپ بھوک نہیں ہے ؟ فرمایا کہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اس عمل کا عوض نہ ہو جائے جو میں نے آپ کے جانوروں کو پانی پلا کر انجام دیا ہے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں کہ عملِ خیر پر عوض لینا قبول نہیں کرتے حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا اے جوان ایسا نہیں ہے یہ کھانا آپ کے عمل کے عوض میں نہیں بلکہ میری اور میرے آباؤ اجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان خوانی کیا کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں تو آپ بیٹھے اور آپ نے کھانا تناول فرمایا ۔

(ف65)

اور تمام واقعات و احوال جو فرعون کے ساتھ گزرے تھے اپنی ولادت شریف سے لے کر قبطی کے قتل اور فرعونیوں کے آپ کے درپے جان ہونے تک کے سب حضرت شعیب علیہ السلام سے بیان کر دیئے ۔

(ف66)

یعنی فرعون اور فرعونیوں سے کیونکہ یہاں مدیَن میں فرعون کی حکومت و سلطنت نہیں ۔

مسائل : اس سے ثابت ہوا کہ ایک شخص کی خبر پر عمل کرنا جائز ہے خواہ وہ غلام ہو یا عورت ہو اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اجنبیہ کے ساتھ ورع و احتیاط کے ساتھ چلنا جائز ہے ۔ (مدارک)

قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ٘-اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(۲۶)

ان میں کی ایک بولی (ف۶۷) اے میرے باپ ان کو نوکر رکھ لو (ف۶۸) بےشک بہتر نوکر وہ جو طاقتور امانت دار ہو (ف۶۹)

(ف67)

جو حضرت موسٰی علیہ السلام کو بلانے کے واسطے بھیجی گئی تھی بڑی یا چھوٹی ۔

(ف68)

کہ یہ ہماری بکریاں چَرایا کریں اور یہ کام ہمیں نہ کرنا پڑے ۔

(ف69)

حضرت شعیب علیہ السلام نے صاحبزادی سے دریافت کیا کہ تمہیں ان کی قوت و امانت کا کیا علم ؟ انہوں نے عرض کیا کہ قوت تو اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے تنہا کنوئیں پر سے وہ پتھّر اٹھا لیا جس کو دس سے کم آدمی نہیں اٹھا سکتے اور امانت اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ہمیں دیکھ کر سر جھکا لیا اور نظر نہ اٹھائی اور ہم سے کہا کہ تم پیچھے چلو ایسا نہ ہو کہ ہوا سے تمہارا کپڑا اڑے اور بدن کا کوئی حصّہ نمودار ہو یہ سُن کر حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے ۔

قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷)

کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں (ف۷۰) اس مہر پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو (ف۷۱) پھر اگر پورے دس برس کرلو تو تمہاری طرف سے ہے (ف۷۲) اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا (ف۷۳) قریب ہے کہ اِنْ شَاءَ اللہ تَعَالٰی تم مجھے نیکوں میں پاؤ گے (ف۷۴)

(ف70)

یہ وعدۂ نکاح تھا الفاظِ عقد نہ تھے کیونکہ مسئلہ عقد کے لئے صیغۂ ماضی ضروری ہے مسئلہ اور ایسے ہی منکوحہ کی تعیین بھی ضروری ہے ۔

(ف71)

مسئلہ : آزاد مرد کا آزاد عورت سے نکاح کسی دوسرے آزاد شخص کی خدمت کرنے یا بکریاں چَرانے کو مَہر قرار دے کر جائز ہے ۔

مسئلہ : اور اگر آزاد مرد نے کسی مدّت تک عورت کی خدمت کرنے کو یا قرآن کی تعلیم کو مَہر قرار دے کر نکاح کیا تو نکاح جائز ہے اور یہ چیزیں مَہر نہ ہو سکیں گی بلکہ اس صورت میں مہرِ مثل لازم ہوگا ۔ (ہدایہ و احمدی)

(ف72)

یعنی یہ تمہاری مہربانی ہو گی اور تم پر واجب نہ ہو گا ۔

(ف73)

کہ تم پر پورے دس سال لازم کر دوں ۔

(ف74)

تو میری طرف سے حسنِ معاملت اور وفائے عہد ہی ہو گی اور ان شاء اللہ تعالٰی آپ نے اللہ تعالٰی کی توفیق و مدد پر بھروسہ کرنے کے لئے فرمایا ۔

قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَؕ-اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ۠(۲۸)

موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان اقرار ہوچکا میں ان دونوں میں جو میعاد پوری کردوں (ف۷۵) تو مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں اور ہمارے اس کہے پر اللہ کا ذمہ ہے (ف۷۶)

(ف75)

خواہ دس سال کی یا آٹھ سال کی ۔

(ف76)

پھر جب آپ کا عقد ہو چکا تو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی کو حکم دیا کہ وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو ایک عصاء دیں جس سے وہ بکریوں کی نگہبانی کریں اور درندوں کو دفع کریں حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس انبیاء علیہم السلام کے کئی عصاء تھے صاحبزادی صاحبہ کا ہاتھ حضرت آدم علیہ السلام کے عصاء پر پڑا جو آپ جنّت سے لائے تھے اور انبیاء اس کے وارث ہوتے چلے آئے تھے اور وہ حضرت شعیب علیہ السلام کوپہنچا تھا حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ عصاء حضرت موسٰی علیہ السلام کو دیا ۔