اس اعتراض کا جواب کہ موت کی دعا مانگنا ممنوع ہے پھر امام بخاری نے موت کی دعا کیوں کی؟

اس جگہ یہ اشکال ہوتا ہے کہ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے حالات سے بددل ہو کر اپنی موت کی دعا کی اور یہ کہا: اے خدا! یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے مجھے اپنے پاس واپس بلالے حالانکہ موت کی دعامانگنا ممنوع ہے حدیث میں ہے:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے ہرگز موت کی تمنا نہ کرنے اگر اس نے ضرور دعا کرنی ہو تو وہ یوں دعا کرے:اے اللہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو مجھے موت عطا کر۔ صحیح البخاری5671 صحیح مسلم:2680، سنن ابوداؤد 3108 سنن نسائی 1819، سنن ترمذی971 سنن ابن ماجہ 4265 صحیح ابن حبان 968 مسند احمد ج 3 ص ۱۰۱)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت آنے سے پہلے اس کی دعا کرے جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے اور زندگی مومن میں صرف نیکیوں کو زیادہ کرتی ہے۔ (صحیح مسلم : 2682)

اس کا جواب یہ ہے کہ پے در پے صدمات کی وجہ سے امام بخاری کا ذہن بے حد منتشر ہو چکا تھا اور ان کو ذہول ہوگیا تھا اور اس وقت یہ یاد نہ رہا کہ موت کی دعا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور نسیان کی حالت میں ممنوع کام کیا جائے اس پر مواخذہ نہیں کیا جاتا یا پھر امام بخاری نے اجتہاد کیا کہ دنیاوی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا منع ہے لیکن اب ان کے دین پر مصیبت آئی ہوئی ہے ان کو دینی خدمت کرنے سے روکا جا رہا ہے اور درس اور تدریس کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں اور اس سے پہلے کہ میرے دین پرکوئی بڑی آفت اور مصیبت آئے تو اے اللہ! مجھے اپنے پاس بائے امام بخاری فقیہ اور مجتہد تھے انہوں نے موت کی دعا کرتے وقت ضرور اس دعا کی کوئی بہترین توجیہ کی ہوگی۔