شاہ است حسین رباعی کے انکار پر علامہ شریف الحق امجدی کے دلائل کا تحقیقی جائزہ….!!!

دیکھا گیا ہے شاہ است حسین رباعی کو لے لوگوں میں عجیب تاثر پیش کیا جا رہا ہے کوئی کہتا ہے اس کی سند پیش کرو ، کوئی کہتا ہے یہ کسی کتاب میں ثابت نہیں، کوئی کہتا رباعی کا آخری مصرعہ کفریہ ہے وغیرہ وغیرہ۔۔

اس موضوع پر لوگ زیادہ تر علامہ شریف الحق امجدی کے فتاوی کا سہارالے رہے ہیں چلیں ہم چلتے ہیں ان کے دلائل کی طرف کے کس بنا پر وہ اس رباعی کا انکار کر رہے ہیں۔

علامہ امجدی اس رباعی کے بارے میں لکھتے ہیں:

باوجود تتبع تام و ستقراء کے حتی الامکان حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ یا ان کے سلسلے کے بزرگوں یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کی تصنیفات میں کہیں بھی اس رباعی کا تذکرہ نہیں۔ قصاص قسم کے واعظین بڑے طمطراق سے اسے حضرت غریب نواز کی طرف منسوب کرتے ہیں میں نے ان قصاصین سے پوچھا کہ اس کی سند کیا ہے تو اب تک کوئی بھی سند نہیں پیش کر سکا۔ کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا۔ کسی نے اور کسی واعظ کا حوالہ دیا۔ حد یہ ہے کہ غریب نواز قدس سرہ کی طرف ایک دیوان منسوب ہے اس میں رباعی موجود نہیں ہے۔ غرض کہ اب تک ثابت نہیں کہ حضرت سلطان الہند رضی اللہ عنہ کی رباعی ہے۔

[فتاوی شارح بخاری ج2 ص 205-206]

آگے لکھتے ہیں:

یہ صحیح ہے کہ رفاض نے دسیسہ کاری کر کے دیوان حافظ اور مثنوی شریف میں بہت الحاقات کر دئیے ہیں۔ حضرت شیخ محقق کی اس وقت تک 25 تصانیف کا مطالعہ کر چکا ہوں کہیں بھی اس رباعی کا ذکر نہیں۔ واللہ اعلم

[فتاوی شارح بخاری ج2 ص 206]

اس میں علامہ شریف الحق امجدی تین دلائل سے اس رباعی کا رد کیا ہے کہ اس کی سند نہیں ہے اور دوسرا جو دیوان منسوب ہے حضرت معین الدین چشتی علیہ الرحمہ اس میں بھی نہیں ہے اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی تصانیف وغیرہ میں بھی وہ رباعی موجود نہیں۔

سب سے پہلے ہم اس رباعی کے سند کے حوالے خود علامہ امجدی کی کتاب سے حوالہ دیتا چلو کہ وہ ایک حدیث کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں:

“صرف سند نہ معلوم ہونے کی بنا پر اس کو رد کر دینا جہالت ہی نہیں ہے حدیث سے عداوت ہے ۔ تلقی امت بالقبول کسی بھی حدیث کے ہونے پرکی دلیل ہے اگرچہ سند نہ معلوم ہو، یا اس سند میں خلل ہو۔”

[فتاوی شارخ بخاری ج 1 ص 332]

آگے لکھتے ہیں:

“کسی حدیث کے بارے میں معتمد عالم کا فرمانا کہ یہ حدیث صحیح ہے تو اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہے ، جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل نہ قائم ہو۔ اس لئے یہ حدیث جابر بلاشبہہ صحیح ہے اگرچہ اس کی سند ہم کو معلوم نہیں اس لئے دو دو معتمد کتابوں میں مذکور ہے اور اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہیں، کسی نے کوئی کلام نہیں کیا، نیز اسے تلقی امت قبول بھی حاصل ہے۔”

[فتاوی شارخ بخاری ج 1 ص 332]

یہاں دیکھیں علامہ امجدی کسی طرح یہاں سند کے حوالے سے تاویلات پر تاویلات کر رہے ہیں اور وہاں رباعی کی سند کی مانگ کر رہے ہیں۔ حالانکہ حدیث جابر کو متاخرین ائمہ نے بنا سند کے ساتھ لکھا ہے لیکن امام سیوطی نے اس کی سند پر کلام کیا ہے اپنے کتاب “الحاوی للفتاوی” میں اور علامہ امجدی کہتے ہیں ” کسی نے کوئی کلام نہیں کیا” یہ بات تو بہت عجیب تر ہے۔

اگر واقعی سند کے حوالے سے اس رباعی کو رد کیا جا سکتا ہے پھر تو اس طرح علامہ امجدی کے فتوے کے مطابق ” مکتوبات امام ربانی” بھی ثابت نہیں ہیں۔ جیسے مکتوبات ربانی کی عبارت کے حوالہ سے ایک فتوے میں لکھتے ہیں:

“پہلی بات یہ ہے کہ مکتوبات امام ربانی کی اسناد میں ضعف ہے انہوں نے مختلف دیار و امصار میں اپنے مریدین و معتقدین کو خطوط روانہ کئے جو ان کے وصال کے بعد کسی نے تلاش کر کے جمع کیا ۔ اس میں بھی امکان ہے کہ الحاق ہوا ہو جو مکتوب حقیقت میں ان کا نہ ہو کسی ناترس نے شامل کر دیا ہو۔”

[فتاوی شارح بخاری ج 2 ص 342]

لہذا جو اس رباعی کا رد سند کی وجہ سے کر رہے ہیں پہلے وہ “مکتوبات امام ربانی” کی صحیح و حسن پیش کریں اور ان کو جمع کرنے والے والے لوگوں کی توثیق پیش کریں ورنہ اسے شیخ مجدد کی طرف منسوب نہ کریں ۔

باقی رہی بات کہ علامہ امجدی کی بات یہ ” کہ غریب نواز قدس سرہ کی طرف ایک دیوان منسوب ہے اس میں رباعی موجود نہیں ہے” یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ جو دیوان ان کی طرف منسوب ہے یہ رباعی اس کے اندر موجود ہے جو دیوان کے صفحہ نمبر 196 پر موجود ہے ۔ لہذا علامہ امجدی صاحب کا یہ دعوی بھی درست نہیں۔

باقی جو لوگ دعوی کرتے ہیں یہ رباعی کوئی معین الدین سنجری کوئی شیعہ شاعر ہے اس کی ہے اس کا سب سے پہلے دعوی تحفہ اثناء عشریہ کا مترجم خلیل الرحمن نعمانی مظاہری جو دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اس نے حاشیہ ص 106 پر کیا لیکن ثبوت کے لئے کوئی حوالہ یا سند نہ دی اور لوگوں نے اس بات کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کر دیا جو کہ غلط و باطل ہے جب کہ اصل فارسی نسخہ میں یہ بات موجود نہیں۔اور دیوبندی مترجم کی بنا دلیل کے بات کرنا غلط و باطل ہے۔

اورکچھ لوگ اس رباعی کے آخری شعر میں اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کفریہ وغیرہ ہے جب کہ اس شعر سے سخت باتیں تو “مکتوبات ربانی” میں موجود ہیں جب وہاں بھی تاویل کی جاتی ہے تو وہی تاویل یہاں کیوں نہیں کی جا سکتی؟؟ آخر کونسا قاعدہ کلیہ ہے جو مکتوبات پر لگ سکتا ہے لیکن یہاں نہیں لگ سکتا؟؟؟

اس شعر سے زیادہ اور سخت شعر کی تاویل خود علامہ امجدی نے کی ہے جو یہ ہے:

سوال: اس شعر کی تکفیر کی جاتی ہے یا نہیں؟

وہی مستوی عرش تھا خدا ہو کر۔۔ اترا آیا مدینے میں مصطفی ہو کر

الجواب: یہ شعر آپ نے غلط لکھا ہے ، شعر صحیح یوں ہے

وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر ۔۔۔۔ اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر

اس شعر پر تکفیر کس طرح جائز نہیں۔ اس کا مطلب وہی ہے جو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:” یا جابر ان اللہ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ” اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہیں تحریر فرمایا ہے۔ (اس وقت یاد نہیں پڑ رہا اور آنکھوں میں تکلیف بھی ہے) دیگر انبیائے کرام اللہ عزوجل کے صفات کے مظہر ہیں۔ مگر حضور اقدس ﷺ اللہ کی ذات کے مظہر ہیں۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں صاف فرما رہے ہیں” وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر” اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا اور ہے جو اس وقت مستوی ہے اور مصطفی ﷺ اور ہیں جو مدینے میں ہیں۔

[فتاوی شارح بخاری ج 1 ص 608]

جب اس طرح کے اشعار پر علامہ امجدی صاحب نے تکفیر نہیں کی اور اس کی تاویل کی تو ” حقا کہ بنا” کی تاویل کیوں نہیں ہو سکتی اسے روافض کے کھاتے میں ڈالنا نا انصافی نہ ہو گئی اس اصول سے؟؟

مجھے نہیں لگتا کہ تحفہ اثناء عشریہ کے دیوبندی مترجم اور علامہ امجدی سے پہلے اس رباعی کا انکار کیا ہو اور اسے رافضی شاعر معین الدین سنجری کی منسوب کیا ہو جب کہ حضرت معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ سے منسوب دیوان 1868، اور 1933ء میں چھپ چکا تھا (دیوان خواجہ معین الدین ص 8) اس وقت بہت سے علماء موجود تھے کسی نے اس رباعی کا اس دیوان سے انکار کا فتوی نہیں دیا اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس رباعی کو اچھی تاویل کے ساتھ مانا جائے مطلقا رد کرنے سے تصوف کی بہت سی باتوں کا انکار لازم آئے گا کیونکہ تصوف کا 95 فیصد مواد بنا سند کے ہمارے ہاں موجود ہے لہذا سند کی شرط رکھنا یہاں درست نہیں۔

واللہ اعلم

 

خادم صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم

✍️عسقلانی الشافعی غفراللہ لہ

13 ستمبر 2021ء