صحیح البخاری : تعلیقات اور ان کے اسباب و اقسام
تعلیقات اور ان کے اسباب و اقسام
حدیث معلق اس حدیث کو کہتے ہیں، جس میں سند کے شروع سے رواة کو حذف کر دیا جائے خواہ بعض کو یہ سب کو صحیح بخاری میں احادیث معلقہ کی وافر مقدار ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ احادیث معلقہ میں سند ذکر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس حدیث کی سند پہلے گزر چکی ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس سے انہوں نے سماع کیا ہوتا ہے اس میں انہیں شک واقع ہو جاتا ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کا باقاعده ساع نہیں کیا ہوتا’ بلکہ شیخ سے دوران گفتگو ضمنا اس حدیث کا سماع حاصل ہوتا ہے۔
تعليقات دو قسم کی ہیں ایک وہ ہیں جن کو امام بخاری نے دوسری جگہ موصولا بیان کیا ہے دوسری وہ ہیں جن کو انہوں نے موصولا بالکل ذکر نہیں کیا قسم اول کی صحت یقینی ہے اور قسم دوم کی پھر دو قسمیں ہیں اول وہ تعلیقات ہیں جو امام بخاری کی شرائط کے مطابق نہیں ہیں ان کی پھر دو میں ہیں اول وہ جن کو امام بخاری صیغہ جزم مثلا قال “ یا ”ذکر“ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور ثانی وہ جن کو امام بخاری صیغہ تمریض مثل “روی” یا “يذكر “ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں قسم اول میں بعض روایات کسی اور امام کی شرط پر کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی معمولی سے ضعف کی حامل ہوتی ہیں، حسن کی مثال کتاب الطهارة‘‘ کی یہ تعلیق ہے:”وقالت عائشة رضي الله تعالی عنها كان النبي صلى الله عليه و سلم يذكر الله على كل احيان یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے اورحسن کی مثال بھی کتاب الطہارة‘ کی تعلیق ہے:”قال بهز بن حكيم عن أبيه عن جده الله احق ان يستحيي منه الناس اور قدرے ضعیف کی مثال کتاب الزکوتہ ‘ کی یہ تعلیق ہے:”قال طاوس قال معاذ بن جبل لاهل اليمن ایتونی بعوض ثياب خميص اوليس في الصدقة مكان الشعير والذرة اهون عليكم وخير لاصحاب محمد صلی الله علیہ وسلم ‘‘اس حدیث میں ضعف یہ ہے کہ طاؤس کا معاذ سے سماع ثابت نہیں ہے مگر یہ ضعف معمولی ہے کیونکہ طاؤس تک اسناد صحیح ہیں۔
اور جو تعلیقات کو امام بخاری نے صیغہ تمریض کے ساتھ ذکر کیا ہے ان کی پانچ قسمیں ہیں اول وہ جوامام بخاری کی شرط صحیح ہیں ثانی وہ جو غیر کی شرط پر صحیح ہیں ثالث حسن رابع ضعیف مع الموید اور خامس ایسی ضعیف جس کا کوئی موید نہیں ہے اول کی مثال کتاب الطب‘ کی تعلیق ہے:”ويذكر عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرقي بفاتحة الكتاب‘‘ یہ سند صحیح ہے اور اس کو امام بخاری نے خود دوسری جگہ سند موصول کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ثانی کی مثال کتاب الصلوة کی یی تعلیق ہے: “ويذكر عن عبد الله بن سائب قال قراء النبی صلی الله عليه وسلم المؤمنون في صلوة الصبح حتى اذا جاء ذكر موسی وهارون اخذته سلعة يہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور انہوں نے اس کا اپنی صحیح میں اخراج بھی کیا ہے اور ثالث کی مثال “کتاب البیوع‘‘ کی یہ تعلیق ہے:”ويذكر عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان النبی صلی الله عليه وسلم قال اذا بعث فلكل واذا ابتعت فاكتل “(جب تم فروخت کر لوتو پیمائش کر لو اور جب تم خریدو رہائش کرلو ) یہ حدیث حسن ہے اور اس کو دارقطنی نے روایت کیا ہے اور رابع کی مثال کتاب الوصایا کیایہ تعلیقہے: “ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قضى بالدين قبل الوصية ‘اس حدیث کو امام بخاری نے موصولا روایت کیا ہے مگر اس کی سند میں ایک راوی ہے حارث اور وہ ضعیف ہے مگر یہ حدیث اہل علم کے قول کی وجہ سے تقویت پاگئی اور خامس کی مثال کتاب الصلوة‘ کی یہ تعلیق ہے:”ويذكر عن ابي هريرة رفعه لا لبتطوع الإمام في مكانه ‘‘اس حدیث کو امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے لیکن اس میں شدید ضعف ہے کیونکہ ۔ اس کی سند میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے اور وہ ضعیف ہے اور اس کا شیخ الشیخ مجہول ہے اور اس ضعف کے لیے کوئی مقوی نہیں ہے۔
مذکور الصدر تفصیل سے یہ ظاہر ہوگیا کر تعليقات بخاری میں غیر صحیح احادیث بھی موجود ہیں اور اسی وجہ سے یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ امام بخاری کا یہ قول کیونکر درست ہوگا کہ میں نے اپنی اس جامع“ میں صرف صحیح احادیث مندرج کی ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری نے ان احادیث کی صحت کا التزام کیا ہے جن کو انہوں نے پوری سند کے ساتھ ترجمة الباب کے اثبات کے قصد سے ذکر کیا ہے اور تعلیقات چونکه مکمل سند کے ساتھ نہیں ہوتی اس لیے ان کے غیر صحیح ہونے سے جامع صحیح ‘‘ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔