عمدة القاری
عمدة القاری
یہ شرح الشيخ الامام حافظ بدر الدین محمود بن احمد االعینی المتوفی ۸۵۵ھ کی تصنیف ہے۔ “صحیح بخاری” کی اس سے بہتر شرح آج تک نہیں لکھی گئی ۔ حافظ بدرالدین عینی نے اس شرح کو 821ھ میں لکھنا شروع کیا اور 847ھ میں اس کو پچیس اجزاء میں مکمل کیا، جو بارہ مجلدات پر مشتمل ہے۔
علامہ ابن حجر اور حافظ عینی میں معاصرانہ چشمک تھی علامہ عینی جامع مویدی میں برج شمالی پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے ۔ اس مسجد کا ایک مناره بوسیدہ ہو چکا تھا اس کو تعمیر جدید کے لیے گرا دیا گیا اس موقع پر حافظ ابن حجر نے یہ اشعار کہے
الجامع مولانا الموید رونق
منارته تزهو بالحسن و بالزين
تقول وقد مالت عليهم امهلوا
فليس علی حسنی اضرمن العين
” جامع موید بڑی بارونق ہے اس کا منارہ بہت حسین و جمیل تھا وہ جھکتے وقت زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ مجھے چھوڑ دو کیونکہ میرے حسن و جمال کے لیے اصل نقصان دہ چیز نظر بد یا علامہ عینی ہیں، اس میں لفظ “عین “سے علامہ عینی کا توریہ کیا گیا ہے۔
علامہ عینی کو جب ان اشعار کا پتا چلا تو انہوں نے حافظ ابن حجر کی طرف یہ اشعار لکھوا کر بھیجے
منارة كعروس الحسن قد حليت
وھدھما بقضاء اللہ والقدر
قالوا اصيبت بعين قلت ذا غلط
ما “افة الحجر الا خسة الحجر
“وہ منارہ دلہن کی طرح حسین اور خوبصورت تھا جس کا گرنا حقیقت میں قضا و قدر کے سبب سے تھا۔ لوگوں نے کہا: اس کو نظر لگ گئی، میں کہتا ہوں : وہ غلط ہیں ۔ لیکن اس کو گرانے کا سبب حجر ( پتھر یا ابن حجر ) کی خستہ حالی تھی۔ ان اشعار میں علامہ عینی نے جوابا “حجر“ کے لفظ سے ابن حجر کا کنایہ کیا ہے۔
جس زمانہ میں علامہ عینی شرح لکھ رہے تھے حافظ ابن حجر بھی لکھ رہے تھے اور وہ علامہ عینی سے پہلے لکھنا شروع کر چکے تھے۔ برہان بن خضر نے حافظ ابن حجر کی اجازت سے ان کا مسودہ لیا اور علامہ عینی نے ان سے مسودہ عاریتہ مانگ لیا۔ حافظ عینی نے علامہ ابن حجر کے مسودہ کا مطالعہ کیا اور اپنی شرح میں اس کا ساتھ ساتھ رد لکھتے گئے جب یہ شرح مکمل ہو کر لوگوں کے سامنے آئی تو حافظ ابن حجر اور ان کے تلامذه حیران رہ گئے ۔ حافظ ابن حجر نے بعد میں علامہ عینی کے اعتراضات کے جواب میں “انتقاض الاعتراض“ کے نام سے ایک کتاب لکھنی شروع کی، لیکن عمر نے وفا نہ کی اور کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی ابن حجر کا انتقال ہو گیا ۔ بہرحال انہوں نے جتنی کتاب لکھی ہے اس میں بھی عینی کے اکثر اعتراض کے جوابات نہیں بن سکے۔
حافظ بدرالدین عینی اپنی شرح میں پہلے حدیث کی قرآن کریم سے مطابقت بیان کرتے ہیں پھر کتاب ترجمة الباب اور حدیث سابق سے اس کی مناسبت بیان کرتے ہیں اس کے بعد رجال پر گفتگو کر تے ہیں اور جس صحابی سے حدیث مروی ہو اس کی مختصر سوانح لکھتے ہیں انواع حدیث میں سے اس حدیث کی نوع بیان کرتے ہیں “صحیح بخاری” میں جن ابواب کے تحت وہ حدیث مکرر آتی ہے ان کا ذکر کرتے ہیں ۔ امام بخاری کے علاوہ جن محدثین نے اپنی تصانیف میں اس حدیث کا اخراج کیا ہے ان کا بیان کرتے ہیں پھر الفاظ حدیث کی لغت، اعراب ،معانی، بیان اور بدیع کے اعتبار سے اس حدیث کی شرح کرتے ہیں حدیث کا مورد اس سے مستنبط مسائل اور فوائد اور اس کے تحت مختلف فقہی مسالک بیان کرتے ہیں ۔ امام اعظم کے مذہب کو دلائل سے ثابت کرتے ہیں اور جس جس مقام پر دیگر شراح اور بالخصوص ابن حجر سے اختلاف ہو اس کا رد کرتے ہیں ۔
عینی کی ایک خاص خوبی جس میں وہ تمام شراح سے ممتاز ہیں یہ ہے کہ وہ حدیث کی شرح کو متعدد اجزاء اور ابحاث میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر بحث سے پہلے اس کی ذیلی سرخی اور عنوان قائم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کتاب سے استفادہ میں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔
جو احادیث مکرر ہیں ان میں علامہ عینی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی بار جس باب کے تحت وہ حدیث آتی ہے وہاں اس کی مفصل شرح کر دیتے ہیں اور بعد میں جب اس حدیث کا دوباره ذکر آتا ہے تو اس پر سرسری گفتگو کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری کی پہلی جلد کی علامہ عینی نے سوله اجزاء میں شرح کی ہے اور دوسری جلد کی شرح باقی نو اجزاء میں پوری کر دی ہے۔ اب دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ کی طرف سے عمدة القاری، نہایت ترتیب اور ترقیم کے ساتھ پچیس جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔