فیض الباری

یہ شرح چار جلدوں میں ہے اور علماء دیوبند کی طرف سے کی جانے والی شروع میں یہ واحد شرح ہے جومکمل ہے یہ شرح شیخ محمد انور کشمیری دیوبندی متوفی ۱۳۵۲ھ نے عربی میں لکھوائی ہے ان کے شاگرد شیخ محمد بدر عالم میرٹھی نے ان کی تقریرات کو جمع کیا ہے۔یہ  پہلی بار 1357ھ میں مطبع حجازی قاہرہ میں چھپی اس کے بعد یہ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف مطابع میں چھپتی رہی ہے اس کی پہلی جلد کتاب التیمم ” پرمحیط ہے اس میں مفصل شرح ہے دوسری جلد کتاب الصلوة، کتاب الجنائز‘‘ تک ہے اس کی شرح میں اختصار ہے تیسری جلد کتاب الزکوة سے کتاب الجہاد تک ہے اس میں اور زیادہ اختصار ہے اور چوتھی جلد کتاب بدء الخلق سے لے کر اخیر صحیح بخاری‘‘ تک ہے اس میں بہت زیاره اختصار ہے۔

شیخ انور کشمیری نے اس شرح میں بانی دیوبند شیخ قاسم نانوتوی متوفی 1297ھ سے کھل کر اختلاف کیا ہے امام بیہقی متوفی 458ھ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اثر روایت کیا ہے کہ اللہ تعالی نے سات زمینیں پیدا کی ہیں ہرزمین میں ہمارے آدم کی طرح آدم ہیں اور ہمارے سے نوح کی طرح نوح ہیں اور یہاں تک ذکر کیا کہ ہمارے سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح محمد ہیں۔

شیخ انورشاه کشمیری لکھتے ہیں:

یہ اثر مرہ کی وجہ سے شاذ ہے اور جو چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر ثابت ہو اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور جو چیز آپ سے ثابت نہ ہو اس کا تسلیم کرنا اور اس پر ایمان لانا ہم پر واجب نہیں ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے لہذا اس کی شرح میں اپنے آپ کو تھکانا نہیں چاہیے۔ مولانا نانوتوی نے اس اثر کی شرح میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام انہوں نے تحذیر الناس عن انکار اثر ابن عباس رکھا ہے اور اس میں یہ تحقیق کی ہے کہ نجی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی اور زمین میں دوسرا خاتم بو جیسا کہ اثر ابن عباس میں ہے اور مولانا نانوتوی کے کلام سے یہ ظاہر بوتا ہے کہ تمام سات آسمان صرف اسی زمین کے لیے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابن عباس کے اس اثر کے ساتھ ہماری نماز اور روزہ کا کوئی امر متعلق نہیں ہے تو اس اثر کی شرح کو چھوڑنا بہتر ہے۔ (فیض الباری ج ۳ ص 334-333 مطبع حجازی قاہرہ 1357ھ )

شیخ انور شاہ کشمیری کی شرح کی درج ذیل عبارت بہت خطرناک ہے:

قرآن مجید میں تحریف معنوی بھی غیر قلیل ہے اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ قرآن مجید میں تحریف لفظی بھی ہے یہ تحریف ان سے عمدا ہوئی ہے یاغلطی کی وجہ سے۔ (فیض الباری ج ۳ ص395 مطبع حجازی قاہرہ 1357ھ)

ہمارے پاس دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے جنہوں نے اس عبارت پر قائل کی تکفیر کر دی ہے۔