سودے میں قیمت طے کرنے کی اہمیت

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدنے بکرکو موبائل اس طرح فروخت کیاکہ میرے کاروبارمیں منافع ہواتویہ 60 عمانی ریال کاہے اورنہیں ہواتو100ریال کا، بکر60ریال دے چکاہے اب تک منافع نہیں ہوا۔اس بیع کا کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم

ھدایۃ الحق والصواب

جواب: خریدوفروخت کے صحیح ہونے کے بنیادی اصولوں میں ثمن (Price) کا معلوم ہونابھی ہے کہ عقد (Agreement/Deal) ہوتے وقت لازمی طور پر قیمت (Price) کا تعین (Determine) ہو جائے۔ اگر سودا ہوجائے لیکن قیمت (Price)میں جہالت (Confusion) باقی رہے تو شریعت مطہرہ اس عقدکوفاسد قراردیتی ہے۔ پوچھی گئی صورت میں کی گئی خرید و فروخت جائز نہیں کہ یہاں قیمت (Price) میں جہالت (Confusion) پائی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ عقد فاسد یعنی غیر شرعی ہےاور اس کا توڑنا واجب ہے۔فتاویٰ شامی میں بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں ہے: ’’وَمَعْلُومِيَّةُ الثَّمَنِ بِمَا يَرْفَعُ الْمُنَازَعَةَ‘‘ ترجمہ: اور ثمن کا اس طرح معلوم ہونا کہ جھگڑا نہ ہو سکے۔(فتاویٰ شامی،7/14)

صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ بہارِ شریعت میں بیع(Selling Deal) کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں:’’مبیع (Merchandise) و ثمن (Price) دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع (جھگڑا) پیدا نہ ہوسکے اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو تو بیع (Selling Deal) صحیح نہیں مثلاً اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام پربیچا یا اس قیمت پر بیچا جو فلاں شخص بتائے۔(بہارِشریعت،2/617مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم