3 – باب( من الوحي الرؤيا الصالحة)

٣- حدثنا يحيى بن بكير قال حدثنا الليث ، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بين الزبير،عن عائشة أم المومنین أنها قالت أول ما بدیء به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم فكان لا يرى رؤيا الا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء فیتحنث فیہ التعبد الليالى ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله، ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجتہ، فيتزود لمثلها حتى جاءہ الحق وهو في غار حراء فجاءہ الملك فقال اقرا، قال ما أنا بقارئ، قال فاخذني فغطنى حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلنی فقال اقرا قلت ما أنا بقاری ، فأخذني فغطنى الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلنی ، فقال اقرأ فقلت ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثالثة ثم أرسلني فقال ا(قرأ باسم ربك الذي خلق، خلق الإنسان من علق، اقرأ وربك الأكرم( العلق :1-3)، فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها فقال زملونی زملونی فزملوہ حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة وأخبرها الخبر لقد خشیت على نفسي فقالت خديجتہ کلا ، والله ما يخزيك الله أبدأ انک لتصل الرحم وتحمل الكل، وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين على نوائب الحق فانطلقت به خدیجه حتى أتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى ابن عم خديجة وكان امرا تنصر في الجاهلية ، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يکتب، وكان شیخا كبيرا قد عمى فقالت له خديجه يا ابن عم اسمع من ابن أخيك فقال له ورقه یا ابن اخى ماذا تري؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رای، فقال له ورقتہ هذا الناموس الذي نزل الله على موسی، یالیتني فيها جذعا ليتنى اكون حیا إذا يخرجك قومك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم او مخرجی هم؟ قال نعم لم يأت رجل قط بمثل ما جنت به الا عودى ، وان یدرکنی یومک انصرک نصرا موزرا ثم لم ينشت ورقتہ ان توفى وفتر الوحی( اطراف الحدیث : 6882-4953)

صحیح مسلم:۱۶۰- مصنف عبدالرزاق :9719 – مسند اسحاق بن راھویہ :840 مسند ابوعوانہ ج اص 113 صحیح ابن حبان : ۳۳ الشریعہ للآجری: 439-440 ابن مندو683، دلائل النبوتہ لابی نعیم : 164 دلائل النبوتہ للبیہقی ج 2 ص 135-137 مسند احمد ج 6 ص 233 طبع قدیم، مسند احمد 25957- ج43 ص 112-114 مؤسسة الرسالةبیروت 1421 ھ)

 

سچے خواب وحی سے ہیں

امام بخاری نے کہا کہ ہمیں یحیی بن بکیر نے حدیث بیان کی،انہوں نے کہا کہ ہمیں لیث نے حدیث بیان کی از عقیل از ابن شباب از عروہ بن زبیر از حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے وحی کی جو ابتداء کی گئی، وہ نیند میں (دکھائے ہوئے ) سچےخواب تھے، آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے،روشن صبح کی مثل اس کی تعبیر آجاتی تھی، پھر آپ کی طرف تنہائی کی محبت ڈالی گئی ،آپ غار حراء تنہائی میں جاتے اور گھر لوٹنے سے پہلے وہاں کئی کئی راتیں عبادت کرتے ،آپ وہاں قیام کے لیے کھانے کی چیزیں لے جاتے تھے ،پھر آپ حضرت خدیجہ کے پاس واپس آتے تو تو پھر آپ اسی طرح کھانے کی چیزیں لے لیتے، حتی کہ آپ کے پاس وحی آ گئی، اس وقت آپ غارحرا میں تھے، آپ کے پاس فرشته آیا ،اس نے کہا: پڑھیے۔ آپ نے فرمایا: ” میں پڑھنے والا نہیں ہوں آپ فرماتے ہیں : پس اس نے مجھے پکڑا اور اتنے زور سے بجھینچا کہ مجھے انتہائی مشقت ہوئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس نے پھر کہا: ” پڑھیے”۔ میں نے کہا: “میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور اتنے زور سے بھینچا کہ مجھے انتہائی مشقت ہوئی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا:” پڑھیے”۔ میں نے کہا: “میں پڑھنے والا نہیں ہوں” پس اس نے مجھے پکڑا اور تیسری بار اتنے زور سے مجھے بھینچا کہ مجھے انتہائی مشقت ہوئی ،پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ،پھر کہا:'(اے رسول مکرم!) اپنے رب کے نام سے پڑ ھیے جس نے (آپ کو) پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون سے انسان کو پیدا کیا ۔پڑھیے اور آپ کا رب سب سے زیادہ کریم ہے ۔‘‘ العلق : 1-3) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو پڑھا، پھر اس حال میں گھر لوٹے کہ آپ کا دل کپکپا رہا تھا، آپ حضرت خدیجہ بنت خوید رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: “مجھے چادر اڑھاؤ، مجھےچادر اڑھائو” ۔ سو گھر والوں نے آپ کو چادر اڑھائی، حتی کہ جب آپ کا خوف دور ہو گیا تو آپ نے حضرت خدیجہ کو اس واقعہ کی خبر دی اور فرمایا : مجھے اپنے نفس پر خطرہ ہے ۔ حضرت خدیجہ نے کہا: هرگز نہیں ! اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی شرمندہ نہیں کرے گا، آپ رشتہ داروں سے میل جول رکھتے ہیں، کم زوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کو لے گئیں، حتی کہ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کے پاس پہنچیں جو حضرت خدیجہ کے عم زاد تھے ۔وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے، وہ عبرانی زبان میں کتاب لکھتے تھے چنانچہ وہ انجیل کو جتنا الله چاہتا عبرانی زبان میں لکھتے تھے وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیہ نے ان سے کہا: اے میرے عم زاد ! اپنے بھتیجے کی بات سنیے، پس آپ سے ورقہ نے کہا: اے بھتیجے!آپ کیا دیکھتے ہیں؟ تب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا، پھر آپ سے ورقہ نے کہا: یہ وہی ناموس ( پیغام رساں فرشته )ہے، جس کو اللہ نے حضرت موسی پر نازل کیا تھا ،کاش میں اس وقت جوان ہوتا! کاش میں اس وقت زندہ وتا! جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ مجھ کو نکالنے والے ہیں ؟ ورقہ نے کہا : ہاں ! جو شخص بھی آپ جیسا پیغام لے کر آیا اس سے عداوت رکھی گئی ، اگر مجھ کو اس زمانہ نے پایا تو میں آپ کی بہت قوی مدد کروں گا، اس کے بعد ورقہ زیادہ دن زندہ نہ رہے اور ان کی وفات ہوگئی اور وحی کا نازل ہونا رک گیا۔

صحیح البخاری : ۳ کے رجال کا تعارف و تبصرہ

(1) ابوزکریا یحیی بن عبد الله بن بکیر القرشی المخزومی المصری، امام بخاری نے ان کا نام لکھا ہے : یحیی بن بکیر اور ان کو اور ان کے باپ کے بجائے ان کے دادا کی طرف منسوب کر کے تدلیس کی ہے کی یحیی 154 ھ یا 155ھ یا 156ھ میں پیدا ہوئے اور 231ھ میں فوت ہوئے، وہ مصریوں میں بہت بڑے حفاظ حدیث میں سے تھے اور لیث بن سعد سے روایت حدیث کرنے میں زیادہ مستند تھے، امام بخاری نے ان سے متعدد روایت کی ہیں ۔ اسی طرح امام بخاری نے محمد بن یحیی الذھلی سے بھی متعدد روایات کی ہیں، ان کے نام میں بھی امام بخاری نے تدلیس کی ہے المقدسی نے کہا: وہ کبھی ان کو محمد لکھتے ہیں اور نسب ذکر نہیں کرتے اور کبھی محمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں، حالانکہ ان کا پورا نام محمد بن عبد الله بن خالد بن فارس بن ذويب الذھلی ہے امام بخاری کبھی ان کو تدلیس کرتے ہوئے ان کے دادا کی طرف منسوب کر کے محمد بن خالد بن فارس لکھتے ہیں اور انہوں نے کسی جگہ نہیں لکھا کہ ہمیں محمد بن یحیی نے حدیث بیان کی ، ابوحاتم نے کہا : یحیی بن عبد الله بن بکیر حدیث کی فہم رکھتے تھے، ان کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جاتا، ان کی حدیث لکھی جاتی ہے، امام نسائی نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہیں، اور ان دونوں کے غیر نے ان کی توثیق کی ہے، الدارقطنی نے کہا: میرے نزدیک ان میں کوئی حرج نہیں امام مسلم نے لیث اور یعقوب بن عبد الرحمان سے ان کی روایت ذکر کی ہے امام مالک نے ان سے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔

(۲) اس حدیث کے دوسرے راوی لیث بن سعد بن عبدالرحمن مصری ہیں، یہ اہل مصر کے عالم اور تبع تابعین میں سے تھے، قاہرہ سے چار فرسخ کی مسافت پر واقع بستی قلقشندہ میں ۹۳ ھ یا ۹۴ ھ میں پیدا ہوئے اور 175ھ میں وفات پائی، ان کی قبر قرافہ مصر میں ہے اور اس کی زیارت کی جاتی ہے، یہ بہت بڑے امام تھے ان کی جلالت، ثقاہت اور کرامت پر اجماع ہے ۔یہ امام ابوحنیفہ کے مذہب پر تھے جیسا کہ قاضی ابن خلکان نے کہا ہے

(۳) اس حدیث کے تیسرے راوی ابوخالد عقیل بن خالد بن عقيل القرشی الاموی ہیں، کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ۔141ھ میں مصر میں ان کی وفات ہو گئی، یہ حافظ حدیث تھے ،صحاح ستہ میں اور کوئی راوی نہیں ہے جس کا نام عقیل ہو

(۴) اس حدیث کے چوتھے راوی امام ابوبکر محمد بن مسلم بن عبيدالله بن شہاب الزہری المدنی ہیں، انہوں نے شام میں سکونت اختیار کی، یہ صغیر السن تابعی ہیں، انہوں نے حضرت انس، حضرت ربیعہ بن عباد اور متعدد صحابه رضی اللہ عنہم سے حدیث کا سماع کیاہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے اور ان سے دو حدیثیں روایت کی ہیں اور ان سے کبار تابعین کی جماعت نے حدیث کو روایت کیا ہے ان میں عطاء اور عمر بن عبدالعزيز قابل ذکر ہیں، صغار تابعین اور تبع تابعین نے بھی ان سے حدیث کو روایت کیا ہے، یہ رمضان ۱۲۴ھ میں ۷۲ سال کی عمر میں شام میں فوت ہو گئے تھے

(۵) اس حدیث کے پانچویں راوی عروہ بن زبیر ہیں ان کا ذکر صحیح البخاری :۲ کے رجال میں ہو چکا ہے

(6)اس حدیث کی چھٹی راویہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں ،آپ کا تذکرہ بھی حدیث سابق

کے رجال میں ہو چکا ہے ۔ (عمدۃ القاری ج 1 ص 122-123)

حدیث مذکور کی فنی حیثیت

ہم نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کی سند میں یحیی بن بکیر کے نام میں تدلیس کی ہے تدلیس کا معنی ہے: اشتباہ، جیسے جب نور او ظلمت مخلوط ہوں تو اندھیرے اور اجالے میں اشتباہ ہوجاتا ہے، اس حدیث کی سند میں یحیی بن بکیر کے نام میں جو تدلیس ہے، اس کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ ھ لکھتے ہیں:

امام بخاری نے کہا ہے کہ ہمیں یحیی بن بکیر نے حدیث بیان کی، ان کا نام ہے: یحیی بن عبدالله بن بکیر، امام بخاری نے یحیی کو باپ کے بجائے دادا کی طرف منسوب کردیا کیونکہ یحیی کی نسبت باپ کے بجائے دادا کی طرف زیادہ مشہور تھی۔فتح الباری ج ا ص ۵۰۲ دار المعرفہ بیروت 1426ھ)

بعض شارحین نے کہا ہے کہ امام بخاری نے سند میں یحیی بن بکیر کا نام بغیر ہمزہ کے لکھا ہے یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ ابن کا ہمزه وہاں حذف ہوتا ہے جہاں دوعلم متناسل ہوں اور چونکہ یحیی بکیر کے بیٹے نہیں ہیں، اس لیے امام بخاری کو چاہیے تھا کہ وہ “بن بکیر” کی بجائے “ان بکیر” لکھتے۔ امام بخاری کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ امام بخاری اس نام میں تدلیس کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ یحیی بکیر کے بیٹے ہیں اس لیے انہوں نے ابن کو ہمزہ کے ساتھ نہیں لکھا اور ایسا وہ اس لیے چاہتے تھے کہ یحیی کی نسبت باپ کی بجائے دادا کی طرف زیاد مشہور تھی۔

یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے کیونکہ اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے، وہ ابتداء وحی کے وقت موجود نہیں تھیں، وہ اعلان نبوت کے سات سال بعد پیدا ہوئی ہیں، ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ نے ابتداء وحی کی تفصیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو یاکسی صحابی سے سنی ہو، حافظ ابن الصلاح وغیرہ نے کہا ہے : کم سن صحابہ نے جو ایسے واقعات بیان کیے ہیں، جن کے وقت وہ موجود نہیں تھے اور انہوں نے ان واقعات کے وقت کو نہیں پایا ان کی احادیث متصل اور مسند کے حکم میں ہیں، کیونکہ ان کی روایات صحابہ سے ہیں اور صحابی کا مجہول ہونا اس کی روایت میں موجب طعن نہیں ہے، استاد ابواسحاق اسفرائنی نے کہا: اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ وہ یہ نہ کہہ دے کہ وہ صرف صحابی سے روایت کرتا ہے، علامہ نووی نے کہا ہے کہ صحیح پہلا قول ہے اور یہی امام شافعی اور جمہور کا مسلک ہے علامہ الطبیی نے کہا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے کہا: آپ نے فرمایا: پس حضرت جبریل نے مجھ کو پکڑا اور اتنے زور سلے بھینچا کہ مجھے مشقت ہوئی ۔ اگر حضرت عائشہ نے یہ حدیث کسی صحابی سے سنی ہوتی تو وہ کہتے کہ حضرت جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ اور بھینچا، تاہم اس پر یہ اعتراض ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس صحابی نے بہ طور حکایت اس طرح کہا ہو اس لیے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت عائشہ نے اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو بہرحال ہر تقدیر پر یہ حدیث المتصل المسند کے حکم میں ہے۔ (عمدة القاری ج ا ص 89 دار الکتب العلمیہ بیروت 1421ھ)

شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کے عنوانات

اس حدیث کی شرح ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ”شرح صحیح مسلم” میں کی ہے اور اس میں درج ذیل عنوانات کے تحت مبسوط گفتگو کی ہے:

(1)وحی کا لغوی معنی (۲) وحی کا شرعی معنی (۳) لہام و فراست کی تعریفیں (4) نزول وحی کی صورتیں اور اقسام (5) خواب کی تعریف اور اقسام (6) ابتداء نبوت میں غار حراء جانے کی حکمتیں (7) بعثت سے پہلے آپ کی عبادت کی تحقیق (8)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرشتے کو پہچاننے کی تحقیق (9) حراء میں فرشتہ کی آمد (10)” ما أنا بقارئ‘‘ کی تحقیق (11) پہلی وحی نازل ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف اور گھبراہٹ کی توجیه (12) حضرت خ0⁰دیجہ کے تسلی آمیز کلمات کی تشرح (13) ورقہ بن نوفل کے پاس جانے کی توجیه (14) آیا وحی رک جانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو پہاڑ سے گرا دینے کا ارادہ کیا تھا؟ (15) انقطاع وحی کی مدت کا بیان (16) اعلان نبوت سے پہلے آپ کے نبوت سے متصف ہونے کی تحقیق۔

یہ تمام مضامین شرح صحیح مسلم:311- ج ا ص 649-671 میں بیان کیے ہیں وہاں ملاحظه فرمائیں ۔

“مجھے اپنے پر خطرہ ہے” اس کی تشریح علامہ ابن جوزی سے

اس حدیث میں ہے: نبی صلی صلی اللہ علیہ نے فرمایا:” مجھے اپنے نفس پر خطرہ ہے “علامہ ابن جوزی متوفی ۵۹۷ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتداء میں یہ خوف ہوتا تھا کہ جو کچھ آپ دیکھتے ہیں، وہ شیطان کی طرف سے ہے کیونکہ کبھی کبھی باطل حق کے ساتھ مشتبہ ہو جاتا ہے، اور آپ مسلسل دلائل کی تلاش کرتے رہتے اور دلائل کا سوال کرتے رہتے یہاں تک کہ آپ پر صحیح چیز واضح ہوگئی اور جس طرح ہم میں سے کسی ایک پر واجب ہے کہ وہ رسول کے لائے ہوئے دین کے صدق کو معلوم کرے اور معجزات میں اس کے صدق پر جو دلائل ہیں، ان پر غور کر ے اسی طرح رسولوں پر یہ واجب ہے کہ ان کے پاس جو اللہ کا فرستاده آیا ہے، اس کے متعلق تفتیش کریں آیا وہ فرشتہ ہے یا شیطان؟ پس حق اور باطل کی تمیز میں ان کا اجتہاد ہمارے اجتہاد سے کہیں بڑے مرتبہ کا ہے ،اسی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کا مرتبہ ہم سے بہت بلند ہے کیونکہ وہ ہم سے بڑی آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہیں۔

ابتداء میں آپ کو تفتیش اور تشویش تھی بعد میں آپ کو منکشف ہو گیا کہ آپ کی نبوت برحق ہے اور زیادہ دلائل سے آپ کو اپنی نبوت پر اطمینان قلب ہوگیا اس کے بعد امام ابن جوزی نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حجون میں یہ دعا کی: اے اللہ! مجھے کوئی ایسی نشانی ( معجزہ) دکھا، جس کے بعد میں قریش کے ان لوگوں کی پروا نہ کروں جو میری تکذیب کرتے ہیں آپ سے کہا گیا کہ آپ اس درخت کو بلائیں، آپ نے اس درخت کو بلایا تو وہ زمین کو چیرتا ہوا اپنی جڑوں سمیت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ، پھر اس درخت نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایا : “اپنی جگہ واپس جائو” درخت واپس چلا گیا، پھر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! پھر مجھے قریش کی تکذیب کی کبھی پروا نہیں ہوئی۔

علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں: شیطان بہت لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے شبہات ڈالتا ہے جیسے شبہات اس نے ابن صیاد کے دل میں ڈالے تھے حتی کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا اور میں نے اس کا ذکر ” تلبیس ابلیس میں کیا ہے۔(کشف المشکل ج ا ص ۲۵- ۲۴” دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۴ھ)

“مجھے اپنے نفس پرخطرہ ہے” اس کی تشریح مصنف سے

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد :” مجھے اپنے نفس پرخطرہ ہے” کی جو تشریح علامہ ابن جوزی نے کی ہے کہ آپ کو یہ خوف تھا کہ جو کچھ آپ دیکھتے ہیں، کہیں وہ شیطان کی طرف سے تو نہیں ہے ،آپ کو اس قسم کا خطرہ اور خوف بالکل نہیں تھا۔ آپ کو یہ خطرہ اورخوف کیسے ہوسکتا تھا جب کہ آپ کو اس وقت نبی بنادیا گیا تھا جب ہنوز حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے ۔ (سنن ترمندی:۶۲۴ ۳، مسند احمد ج 5 ص 89) اور بچپن ہی میں آپ کو اپنے نبی ہونے کا یقین ہوگیا تھا حدیث میں ہے:

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : یا رسول اللہ! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں اور کس چیز سے آپ کو علم ہوا حتی کہ آپ کو یقین ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا: اے ابوذر میں مکہ میں تھا تو میرے پاس دو فرشتے آۓ، ایک زمین پر آ گیا اور دوسرا آسمان اور زمین کے درمیان تھا ایک نے اپنے صاحب سے پوچھا: کیا یہ وہی ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں ! یہ وہی ہیں اس نے کہا: پھر ان کا ایک مرد کے ساتھ وزن کرو پھر میرا ایک مرد کے ساتھ وزن کیا تو میں غالب آگیا۔ اس نے کہا: پھر ان کا دس مردوں کے ساتھ وزن کرو تو میرا دس مردوں کے ساتھ وزن کیا تو میں ان پر غالب آ گیا، پھر اس نے کہا: ان کا سومردوں کے ساتھ وزن کرو پھر میراسو مردوں کے ساتھ وزن کیا تو میں ان پر غالب آ گیا، پھر ہزار مردوں کے ساتھ وزن کیا تو میں ان پر بھی غالب آ گیا لوگ میزان کے پلے میں گرتے جارہے تھے پھر ایک فرشتہ نے دوسرے سے کہا: ان کا پیٹ شق کرو پھر میرا پیٹ شق کیا گیا پھر میرے دل کو نکالا گیا، اس میں سے سیاہ خون کا لوتھڑا نکالا گیا جو شیطان کا حصہ تھا پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ان کا پیٹ اچھی طرح دھوو اور ان کا دل اچھی طرح دھوو تو پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ان کے پیٹ سی دو، تو انہوں نے میرے پیٹ کو سی دیا پھر انہوں نے میرے دو کندھوں کے در میان مہر نبوت کورکھ دیا وہ اب تک اسی طرح ہے اور میں یہ تمام واقعہ دیکھ رہا تھا ۔

(دلائل النبوتہ لابی نعیم:167، سنن دارمی : 14) ‘ مسند احمد ج 4 ص 184-185 مجمع الزوائد ج 8 ص 256)

* تبیان القرآن میں الانشراح:1 کی تفسیر میں ہم نے اس کی بہت زیادہ تفصیل اور تحقیق کی ہے۔

نیز حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعلان نبوت سے پہلے مکہ میں ایک پتھر مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں ۔ (صحیح مسلم : 2277)

میں کہتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتداء نبوت کی بات تو الگ رہی اعلان نبوت سے پہلے بھی آپ کو اپنی نبوت کے متعلق کسی قسم کا تردد اور شک نہیں تھا اور آپ کو اپنے نبی ہونے پر جزم اور یقین تھا اور آپ نے جو حضرت خدیجہ سے فرمایا تھا: مجھے اپنے نفس پرخطرہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کو اپنی نبوت میں شک تھا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ پر بالفعل نبوت کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے آپ کو یہ پریشانی تھی کہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں کہیں آپ سے کوئی کمی یا کوتاہی نہ ہو جائے تب ہی تو حضرت خدیجہ نے آپ کو یہ جواب دیا: ہرگز نہیں ! الله کی قسم ! الله آپ کو کبھی شرمندہ نہیں کرے گا ۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مختصر سوانح

اس حدیث میں چونکہ حضرت ام المومنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کا ذکر آ گیا ہے اس لیے ہم حضرت خدیہ کا تذکرہ پیش کر رہے ہیں : حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852ھ لکھتے ہیں:

ان کا پورا نام ہے: خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی القرشیہ الاسدیہ، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اور جن لوگوں نے آپ کی نبوت کی تصدیق کی ان میں مطلقا سب سے اول ہیں ۔

الزبیر بن بکار نے کہا: بعثت سے پہلے ان کا لقب طاہرہ تھا ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ قرشیہ ہے وہ پہلے ابو ھالہ بن زرارہ بن النباش کے نکاح میں تھیں ابوھالہ کے بعد عتیق بن عائذ بن عبداللہ بن عمر نے ان سے عقد کیا ۔ اس کی وفات کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ اکثر کا قول ہی ہے۔

قتادہ نے اس کے برعکس کہا ہے کہ ان کے پہلے خاوند عتیق تھے اور دوسرے خاوند ابو ھالہ تھے امام ابن اسحاق کی رائے بھی قتادہ کے موافق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت سے پندرہ سال پہلے حضرت خدیجه رضی اللہ عنہا سے عقد کیا تھا، وہ بہت امیر خاتون تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے نکاح کی رغبت کا سبب یہ تھا کہ ان کے غلام میسرہ نے اعلان نبوت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی علامات نبوت کا مشاہدہ کیا تھا اور حضرت خدیجہ نے آپ کے متعلق بحیرا راهب سے بھی کلمات ثناء سنے تھے اس وقت جب کہ حضرت خدیجہ کی تجارت کے سلسلہ میں آپ نے میسرہ کے ساتھ سفر کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ سے ہوئی ہے ماسوا حضرت ابراہیم کے وہ حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔

امام ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خدیجہ وہ پہلی خاتون ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کی اور ان کی وجہ سے الله تعالی نے آپ پر معاملات آسان کر دیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کوئی ایک بات سنتے، جس کا جواب دینا آپ کو ناگوار ہوتا تو وہ حضرت خدیجہ سے اس کا ذکر کرتے تو وہ آپ کوتسلی دیتیں اور مطمئن کرتیں ۔

امام ابونعیم نے دلائل النبوتہ میں سند ضعیف کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک شخص کو دیکھا۔ حضرت خدیجہ نے آپ سے کہا کہ آپ میرے قریب ہوجائیں ، آپ ان کے قریب ہوئے پھر حضرت خدیجہ نے پوچھا: آپ اس کو دیکھ رہے ہیں آپ نے فرمایا: ہاں! حضرت خدیجہ نے کہا: آپ اپنا سر میری قمیص کے اندر کر لیں، آپ نے ایسا کر لیا، حضرت خدیجہ نے پوچھا: آپ اس کو دیکھ رہے ہیں ، آپ نے فرمایا: نہیں، حضرت خدیجہ نے کہا: آپ کو مبارک ہو, یہ فرشتہ ہے کیونکہ اگر یہ شیطان ہوتا تو حیا نہ کرتا پھر آپ نے اس فرشتہ کو اجیاد میں دیکھا وہ آپ کے پاس آیا اور آپ کے لیے کشادہ ہو گیا، پھر اس نے زمین کو کھودا تو اس میں سے پانی نکل یا پھر حضرت جبریل نے آپ کو بتایا کہ کس طرح وضو کریں، پھر انہوں نے وضو کیا اور کعبہ کی طرف منہ کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور آپ کو نبوت کی بشارت دی اور آپ کو اقرأ باسم ربك ‘‘ (العلق:۱) کی تعلیم دی، پھر حضرت جبریل چلے گئے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس درخت اور پتھر کے پاس سے گزرتے تھے وہ کہتا تھا: “سلام عليك يا رسول الله‘‘ آپ نے حضرت خدیجہ کے پاس جا کر اس  واقعہ کی خبر دی حضرت خدیجہ نے کہا: آپ مجھے سکھائیں انہوں نے کس طرح وضو کیا تھا پھر حضرت خدیجہ نے اس طرح وضو کیا اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر کہا: میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ (دلائل النبوتہ لابی نعیم:165)

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت خدیجہ کے سب سے پہلے اسلام لانے کی زیادہ تصریح ہے۔

امام واقدی نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ یعلی بن امیہ کی بہن نفیسہ نے بیان کیا کہ حضرت خدیجہ بہت معزز اور بہت حسین تھیں اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بصری میں تجارت کے لیے بھیجا’ آپ دوسروں کی بہ نسبت بہت زیادہ نفع لے کر آئے حضرت خدیجہ نے آپ کو کسی کی معرفت نکاح کا پیغام دیا آپ نے اس کو قبول فرمالیا، جس وقت آپ نے حضرت خدیجہ سے عقد کیا اس وقت آپ کی عمر پچیس سال تھی حضرت خدیجہ سے آپ کے بیٹے حضرت قاسم اور حضرت عبد الله پیدا ہوئے حضرت عبد اللہ ہی کو طیب اور طاہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمانہ اسلام میں پیدا ہوئے اور حضرت خدیجہ سے آپ کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں الواقدی نے کہا: اس پر ہمارا اجماع ہے اور جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے نکاح کیا۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔

عبد الله بن جعفر بن ابی طالب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمام عورتوں میں افضل خدیجہ بنت خوید ہیں اور تمام عورتوں میں افضل مریم بنت عمران ہیں ۔

(صحیح مسلم :۲۴۳۰ ، سنن ترمذی: 3877 مسند احمد ج 1 ص 84-116، سنن بیہقی ج 9 ص 367 المستدرک ج ۲ ص 498، کنز العمال : 34405)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس حضرت جبرئیل نے آ کر کہا: یارسول الله ! یہ آپ کے پاس خدیجہ آ رہی ہیں ان کے ساتھ طعام اور مشروب ہے جب یہ آئیں تو آپ ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور میری طرف سے سلام ہیں ۔ ( المعجم الکبیر ج ۵ ص ۲۳)

امام ابن السنی نے روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت خدیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈتی ہوئی مکہ کی اونچائی پر گئیں، ان کے پاس آپ کی غذا تھی حضرت جبریل آپ کو ایک انسان کی صورت میں ملے اور انہوں نے حضرت خدیجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا ۔ حضرت خدیجہ ان سے خوف زدہ ہوئیں کہیں وہ آپ کو اغواء نہ کرلیں، حضرت خدیجہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : وہ جبریل تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو سلام کروں اور آپ کو جنت میں ایسے گھر کی بشارت دوں جو موتیوں سے بنا ہوا ہے اس میں شور ہوگا نہ تھکاوٹ ہو گی ۔ (المستدرک ج 3 ص 185 مجمع الزوائد ج 9 ص227)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلتے تھے تو حضرت خدیجہ کا ذکر کرتے اور ان کی تعریف اور تحسین کرتے، پھر ایک دن مجھے ان پر غیرت آ گئی اور میں نے کہا: وہ ایک بوڑھی عورت تھیں اور الله تعالی نے آپ کو ان کے بدلہ میں ان سے بہتر بیوی عنایت کردی ہے، آپ غضب میں آ گئے اور آپ نے فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم : اللہ نے مجھے ان سے بہتر بیوی عنایت نہیں کی، وہ اس وقت ایمان لائیں جب سب کافر تھے، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب میری تکذیب کررہے تھے اور جب لوگوں نے محروم کر دیا تھا تو انہوں نے اپنے مال سے میری غم خواری کی اور اللہ تعالی نے مجھے صرف ان ہی سے اولاد عطا کی ہے نہ کہ دوسری بیویوں سے ۔ (مسند احمد ج 1 ص ۱۱۸ ۱۱۷)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کرتے تو آپ فرماتے : اس کا گوشت خدیجہ کی سہیلیوں کی طرف بھیجو، ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے آپ سے ان کی سہیلیوں کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : میں ان کی سہیلیوں سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ (صحیح مسلم : 2435، کنز العمال : ۱۸۳۳۹)

امام ابن اسحاق نے کہا: حضرت خدیہ رضی اللہ عنہا اور ابو طالب کی وفات ایک سال میں ہوئی ہے اور دوسروں نے کہا کہ ان کی وفات ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حضرت خدیجہ کی وفات فرضیت نماز سے پہلے ہوئی ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج سے پہلے ۔

الواقدی نے کہا: حضرت خدیجہ کی وفات دس رمضان کو ہوئی ہے اس وقت ان کی عمر 65 سال تھی ان کو الحجون میں دفن کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے تھے اس وقت تک جنازہ کی نماز مشروع نہیں ہوئی تھی۔ الاصابہ ج ۸ ص ۱۰۳ – ۹۹ ملخصا و مخرجا دار الکتب العلمیہ بیروت1415ھ)

اس حدیث میں ورقہ بن نوفل کا بھی ذکر آ گیا ہے اس لیے اب ہم ان کا تذکرہ کررہے ہیں:

ورقہ بن نوفل کا تذکرہ

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ لکھتے ہیں:

ان کا پورا نام ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی بن قصی القرشی الاسدی ہے یہ نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد تھے۔

الطبری، البغوی، ابن قانع، ابن السکن وغیرھم نے ان کا صحابہ میں شمار کیا ہے اور سب نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ورقہ بن نوفل بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: یا محمد! آپ کے پاس جو فرشتہ آتا ہے وہ کیسے آتا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ میرے پاس آسمان سے آتا ہے اس کے پر موتیوں کے ہیں اور اس کے تلوے سبز رنگ کے ہیں ۔

امام ابن عساکر نے یہ کہا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ورقہ سے سماع نہیں ہے اور میں نے کسی سے نہیں سنا کہ ورقہ اسلام لے آئے تھے۔

اس پر یہ اعتراض ہے کہ صحیح البخاری : ۳ میں ہے کہ ورقہ نے کہا: یہ وہ ناموس ہے جو حضرت موسی پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا’ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی الحدیث اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اس کے بعد ورقہ زیادہ دن زندہ نہ رہے اور ان کی وفات ہوگئی، اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کی نبوت کا اقرار کرلیا تھا، لیکن وہ اس سے پہلے فوت ہو گئے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے پس ورقہ بن نوفل کا حال بحیراء راہب کی مثل ہے۔

ورقہ بن نوفل کے صحابی ہونے میں اشکال ہے لیکن عمرو بن شرحبیل جو کبار تابعین میں سے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے فرمایا: میں جب تنہائی میں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ایک نداء سنی، پس اللہ کی قسم! مجھے اپنے نفس پر خطرہ ہوا حضرت خدیجہ نے کہا: معاذ اللہ! الله آپ کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا پس اللہ کی قسم! آپ امانتوں کو ادا کرتے ہیں الحدیث، پھر ورقہ نے کہا: آپ کو بشارت ہو، پھر بشارت ہو، بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی نبی ہیں، جس کی ابن مریم نے بشارت دی تھی اور بے شک آپ کے پاس ناموس موسی کی مثل ہے اور بے شک آپ نبی مرسل ہیں اور بے شک چند دنوں کے بعد آپ کو جہاد کرنے کا حکم دیا جائے گا اور اگر اس زمانہ نے مجھے پالیا تو میں ضرور آپ کے ساتھ جہاد کروں گا، پھر جب وہ فوت ہو گئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے القس (راہب ) کو جنت میں دیکھا اس پر ریشم کا لباس تھا کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور اس نے میری تصدیق کی تھی۔ (دلائل النبوتہ للبیہقی ج 2 ص 158 دارالکتب العلمیہ بیروت)

امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ اس کی سند منقطع ہے۔

لیکن اس حدیث کی تقویت اس سے ہوتی ہے کہ الزبير بن بکار نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مکہ کی تپتی ہوئی ریت میں پیٹھ کے بل لٹاکر عذاب دیا جارہا تھا اور وہ” أحد أحد‘‘ کہہ رہے تھے تو ورقہ اس وقت وہاں سے گزرے اور انہوں نے کہا: اے بلال! ” أحد أحد‘‘ کہتے رہو اللہ کی قسم ! اگر تم لوگوں نے اس کوقتل کردیا تو اللہ کی رحمت اس کو ڈھانپ لے گی ۔

یہ حدیث عمدہ مرسل ہے اور یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ ورقہ اس وقت تک زندہ تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، حتی کہ حضرت بلال اسلام لے آئے اور اس حدیث میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس طرح تطبیق ہوگی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو فرمایا تھا کہ پھر ورقہ زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور فوت ہو گئے اس کا محمل یہ ہے کہ وہ اسلام کے مشہور ہونے اور جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے فوت ہوگئے ۔

لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ محمد بن عائذ نے “المغازی” میں عثمان بن عطاء خراسانی کی سند سے روایت کیا کہ ورقہ بن نوفل نصرانیت پر فوت ہو گئے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ عثمان ضعیف راوی ہے۔

الزبیر نے کہا ہے کہ ورقہ بتوں کی عبادت کو برا جانتے تھے اور انہوں نے متعدد شہروں میں پھر کر صحیح دین کو تلاش کیا اور کتابوں کا مطالعہ کیا اور حضرت خدیجہ ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا کرتی تھیں اور وہ کہتے تھے کہ میرا یہی یقین ہے کہ وہ اس امت کے نبی ہیں اور یہ وہی ہیں جن کی حضرت موسی اور حضرت عیسی نے بشارت دی ہے۔

امام ابن عدی المتوفی 365ھ نے”الکامل” میں اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ورقہ کو جنت کے نشیب میں دیکھا، ان ریشمی لباس تھا امام ابن عدی نے کہا : اس کی سند میں اسماعیل اپنے والد سے منفرد ہے ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال ج 1 ص 520 دارالکتب العلمیہ بیروت 1418ھ)

حافظ ابن حجر کہتے ہیں : لیکن امام ابان السکن نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے، اس میں یہ عبارت ہے: میں نے جنت کے دریائوں میں ایک دریا پر ورقہ کو دیکھا کیونکہ وہ کہتے تھے : میرا اور زید کا دین ایک ہے اور میرا اور زید کا معبود ایک ہے۔

امام محمد بن ابی شیبہ اور امام بزار نے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے۔

یونس بن بکیر کی” مغازی” میں عروہ سے روایت ہے کہ ورقہ کے بھائی نے ایک شخص کو برا کہا اس نے جواب میں ورقہ کو برا کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے اس کو منع کیا اور فرمایا: : میں نے ورقہ کے لیے ایک جنت یا دو جنتیں دیکھی ہیں، پھر آپ نے اس کو برا کہنے سے منع فرمایا ۔

امام بزار نے اور امام احمد نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت خدیجہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ بن نوفل کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: میں نے اس کو سفید لباس میں دیکھا ہے، میرا گمان ہے کہ اگر وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا تو اس پر سفید لباس نہ ہوتا ۔ (مسند احمد ج6 ص ۵۶ طبع قدیم، مسند احمد :۲۴۳۶۷ – ج ۰ ۴ ص 430′ مسند عبد الرزاق :۰۹ ۹۷ سنن ترمذی: 2288 المستدرک ج 4 ص 393 مسند ابو یعلی 2047)( الاصابہ ج 6 ص 474-476 ملخصا دارالکتب العلمیہ بیروت )