بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

(ف1)

سورۂ عنکبوت مکیّہ ہے اس میں سات رکوع انہتر ۶۹ آیتیں نو سو اسی ۹۸۰ کلمے چار ہزار ایک سو پینسٹھ حرف ہیں ۔

الٓمّٓۚ(۱)

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)

کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دئیے جائیں گےکہ کہیں ہم ایمان لائے اور اُن کی آزمائش نہ ہوگی (ف۲)

(ف2)

شدائدِ تکالیف اور انواعِ مصائب اور ذوقِ طاعات و ترکِ شہوات و بدلِ جان و مال سے ان کی حقیقتِ ایمان خوب ظاہر ہو جائے اور مؤمنِ مخلص اور منافق میں امتیاز ظاہر ہو جائے ۔

شانِ نُزول : یہ آیت ان حضرات کے حق میں نازِل ہوئی جو مکّہ مکرّمہ میں تھے اور انہوں نے اسلام کا اقرار کیا تو اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں لکھاکہ مَحض اقرار کافی نہیں جب تک ہجرت نہ کرو ان صاحبوں نے ہجرت کی اور بقصدِ مدینہ روانہ ہوئے ، مشرکین ان کے درپے ہوئے اور ان سے قتال کیا بعض حضرات ان میں سے شہید ہو گئے بعض بچ آئے ان کے حق میں یہ دو آیتیں نازِل ہوئیں اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ مراد ان لوگوں سے سلمہ بن ہشّام اور عیّاش بن ابی ربیعہ اور ولید بن ولید اور عمّار بن یاسر وغیرہ ہیں جو مکّہ مکرّمہ میں ایمان لائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمّار کے حق میں نازِل ہوئی جو خدا پرستی کی وجہ سے ستائے جاتے تھے اور کُفّار انہیں سخت ایذائیں پہنچاتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام حضرت مہجع بن عبداللہ کے حق میں نازِل ہوئیں جو بدر میں سب سے پہلے شہید ہونے والے ہیں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی نسبت فرمایا کہ مہجع سید الشہداء ہیں اور اس اُمّت میں بابِ جنّت کی طرف پہلے وہ پکارے جائیں گے ان کے والدین اور ان کی بی بی کو ان کا بہت صدمہ ہوا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازِل کی پھر ان کی تسلّی فرمائی ۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(۳)

اور بےشک ہم نے اُن سے اگلوں کو جانچا (ف۳) تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا (ف۴)

(ف3)

طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا ، بعض ان میں سے وہ ہیں جو آرے سے چیر ڈالے گئے ، بعض لوہے کی کنگھیوں سے پرزے پرزے کئے گئے اور مقامِ صدق و وفا میں ثابت و قائم رہے ۔

(ف4)

ہر ایک کا حال ظاہر فرما دے گا ۔

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(۴)

یا یہ سمجھے ہوئے ہیں وہ جو بُرے کام کرتے ہیں (ف۵) کہ ہم سے کہیں نکل جائیں گے (ف۶) کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں

(ف5)

شرک و معاصی میں مبتلا ہیں ۔

(ف6)

اور ہم ان سے انتقام نہ لیں گے ۔

مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍؕ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۵)

جسے اللہ سے ملنے کی امید ہو (ف۷) تو بےشک اللہ کی میعاد ضرور آنے والی ہے (ف۸) اور وہی سُنتا جانتا ہے (ف۹)

(ف7)

بعث و حساب سے ڈرے یا ثواب کی امید رکھے ۔

(ف8)

اس نے ثواب و عذاب کا جو وعدہ فرمایا ہے ضرور پورا ہونے والا ہے چاہیئے کہ اس کے لئے تیار رہے اور عملِ صالح میں جلدی کرے ۔

(ف9)

بندوں کے اقوال و افعال کو ۔

وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۶)

اور جو اللہ کی راہ میں کوشش کرے (ف۱۰) تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے (ف۱۱) بےشک اللہ بے پرواہ ہے سارے جہان سے (ف۱۲)

(ف10)

خواہ اعداءِ دین سے محاربہ کر کے یا نفس و شیطان کی مخالفت کر کے اور طاعتِ الٰہی پر صابر و قائم رہ کر ۔

(ف11)

اس کا نفع و ثواب پائے گا ۔

(ف12)

انس و جن و ملائکہ اور ان کے اعمال و عبادات سے اس کا امر و نہی فرمانا بندوں پر رحمت و کرم کے لئے ہے ۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۷)

اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم ضرور اُن کی برائیاں اُتار دیں گے (ف۱۳) اور ضرور انہیں اس کام پر بدلہ دیں گے جو ان کے سب کاموں میں اچھا تھا (ف۱۴)

(ف13)

نیکیوں کے سبب ۔

(ف14)

یعنی عملِ نیک پر ۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ-اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸)

اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی (ف۱۵) اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہا نہ مان (ف۱۶) میری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے تو میں بتادوں گا تمہیں جو تم کرتے تھے (ف۱۷)

(ف15)

احسان اور نیک سلوک کی ۔

شانِ نُزول : یہ آیت اور سورۂ لقمان اور سورۂ احقاف کی آیتیں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں و بقول ابنِ اسحق سعد بن مالک زہری کے حق میں نازِل ہوئیں ان کی ماں حمنہ بنتِ ابی سفیان بن امیہ بن عبدِ شمس تھی حضرت سعد سابقین اوّلین میں سے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے جب آپ اسلام لائے تو آپ کی والدہ نے کہا کہ تو نے یہ کیا نیا کام کیا خدا کی قَسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں کھاؤں نہ پیوں یہاں تک کہ مر جاؤں اور تیری ہمیشہ کے لئے بدنامی ہو اور تجھے ماں کا قاتل کہا جائے پھر اس بڑھیا نے فاقہ کیا اور ایک شبانہ روز نہ کھایا ، نہ پیا ، نہ سایہ میں بیٹھی اس سے ضعیف ہو گئی پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی تب حضرت سعد اس کے پاس آئے اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اے ماں اگر تیری سو ۱۰۰ جانیں ہوں اور ایک ایک کر کے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین چھوڑ نے والا نہیں تو چاہے کھا چاہے مت کھا ، جب وہ حضرت سعد کی طرف سے مایوس ہو گئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں تو کھانے پینے لگی اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کُفر و شرک کا حکم دیں تو نہ مانا جائے ۔

(ف16)

کیونکہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کو کسی کے کہے سے مان لینا تقلید ہے معنٰی یہ ہوئے کہ واقع میں میرا کوئی شریک نہیں تو علم و تحقیق سے تو کوئی بھی کسی کو میرا شریک مان ہی نہیں سکتا مَحال ہے رہا تقلیداً بغیر علم کے میرے لئے شریک مان لینا یہ نہایت قبیح ہے اس میں والدین کی ہرگز اطاعت نہ کر ۔

مسئلہ: ایسی اطاعت کسی مخلوق کی جائز نہیں جس میں خدا کی نافرمانی ہو ۔

(ف17)

تمہارے کردار کی جزا دے کر ۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ(۹)

اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ضرور ہم انہیں نیکوں میں شامل کریں گے (ف۱۸)

(ف18)

کہ ان کے ساتھ حشر فرمائیں گے اور صالحین سے مراد انبیاء و اولیاء ہیں ۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِؕ-وَ لَىٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْؕ-اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ(۱۰)

اور بعض آدمی کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے پھر جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی تکلیف دی جاتی ہے (ف۱۹) تو لوگوں کے فتنہ کو اللہ کے عذاب کے برابر سمجھتے ہیں (ف۲۰) اور اگر تمہارے رب کے پاس سے مدد آئے (ف۲۱) تو ضرور کہیں گے ہم تو تمہارے ہی ساتھ تھے (ف۲۲) کیا اللہ خوب نہیں جانتا جو کچھ جہاں بھر کے دلوں میں ہے(ف۲۳)

(ف19)

یعنی دین کے سبب سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے جیسے کہ کُفّار کا ایذا پہنچانا ۔

(ف20)

اور جیسا اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے تھا ایسا خَلق کی ایذا سے ڈرتے ہیں حتی کہ ایمان ترک کر دیتے ہیں اور کُفر اختیار کر لیتے ہیں یہ حال منافقین کا ہے ۔

(ف21)

مثلاً مسلمانون کی فتح ہو یا انہیں دولت ملے ۔

(ف22)

ایمان و اسلام میں اور تمہاری طرح دین پر ثابت تھے تو ہمیں اس میں شریک کرو ۔

(ف23)

کُفر یا ایمان ۔

وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ(۱۱)

اور ضرور اللہ ظاہر کردے گا ایمان والوں کو (ف۲۴) اور ضرور ظاہر کردے گا منافقوں کو (ف۲۵)

(ف24)

جو صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اور بَلا و مصیبت میں اپنے ایمان و اسلام پر ثابت و قائم رہے ۔

(ف25)

اور دونوں فریقوں کو جزا دے گا ۔

وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۲)

اور کافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے (ف۲۶) حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے بےشک وہ جھوٹے ہیں

(ف26)

کُفّارِ مکّہ نے مومنینِ قریش سے کہا تھا کہ تم ہمارا اور ہمارے باپ دادا کا دین اختیار کرو تمہیں اللہ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے گی اس کے ہم کفیل ہیں اور تمہارے گناہ ہماری گردن پر یعنی اگر ہمارے طریقہ پر رہنے سے اللہ تعالٰی نے تم کو پکڑا اور عذاب کیا تو تمہارا عذاب ہم اپنے اوپر لے لیں گے اللہ تعالٰی نے ان کی تکذیب فرمائی ۔

وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ٘-وَ لَیُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠(۱۳)

اور بیشک ضرور اپنے (ف۲۷) بوجھ اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ (ف۲۸) اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے (ف۲۹)

(ف27)

کُفر و معاصی کے ۔

(ف28)

ان کے گناہوں کے جنہیں انہوں نے گمراہ کیا اور راہِ حق سے روکا ۔ حدیث شریف میں ہے جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالا اس پر اس طریقہ نکالنے کا گناہ بھی ہے اور قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں ان کے گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان پر سے ان کے بارِ گناہ میں کچھ بھی کمی ہو ۔ (مسلم شریف)

(ف29)

اللہ تعالٰی ان کے اعمال و افتراء سب جاننے والا ہے لیکن یہ سوال تو بیخ کے لئے ہے ۔