وَالۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِۙ ۞- سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 6
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِۙ ۞
ترجمہ:
اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی قسم
الطور : ٦ میں فرمایا : اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی قسم۔
” البحر المسجور “ کے معنی اور مصداق میں اقوال مفسرین
اس آیت میں ” مسجور “ کا لفظ ہے یہ ” سجر “ کا معنی ہے : تنور کو ایندھن سے گرم کرنا ‘” سجر الماء النھر “ کا معنی ہے : پانی کا دریا کو بھر نا ” سجر البحر “ کا معنی ہے : سمندر کا جوش مارنا ” سجر المائ “ کا معنی ہے : پانی جاری کرنا ‘” سجر التنور “ کا معنی ہے : تنور کو ایندھن سے بھر کر گرم کرنا۔ صالمنجد اردو ص ٤٥٧ )
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
” سجرت التنور “ کا معنی ہے : تنور کو آگ سے بھڑکایا ‘ قرآن مجید میں ہے :
واذا البحارسجرت۔ (التکویر : ٦) اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے۔
ایک قول یہ ہے کہ سمندر کا پانی زمین میں دھنسادیا جائے گا اور اس میں آگ بھڑکا دی جائے گی۔
ثم فی النار یسجرون۔ (المؤمن : ٧٢) اور پھر کفار دوزخ کی آگ میں جلائے جائیں گے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٩٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)
مجاہد نے کہا : ” المسجور “ کا معنی ہے : ” الموقد “ حدیث میں ہے : سمندر قیامت کے دن آگ بن جائے گا۔
قتادہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے : ” المملوئ “ (بھرا ہوا) یعنی قیامت کے دن سمندر آگ سے بھرا ہوا ہوگا۔
حضرت علی (رض) نے ایک یہودی سے پوچھا : جہنم کہاں ہے ؟ اس نے کہا : سمندر میں ‘ حضرت علی نے فرمایا : میرا گمان ہے کہ وہ صادق ہے اور یہ آیات تلاوت فرمائیں : ” والبحرالمسجور۔ “ (الطور : ٦) ” واذا البحار سجرت۔ “ (التکویر : ٦) ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے فرمایا : سمندر کے پانی سے اس لیے وضو نہیں کیا جاتا کہ وہ جہنم کا ایک طبقہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : ” المسجور “ اس حوض کو کہتے ہیں جس کا پانی خشک ہوگیا ہو ‘ ایک عورت حوض سے پانی بھرنے کے لیے گئی تو کہنے لگے : ” الحوض مسجور “ حوض کا پانی خشک ہوچکا ہے۔
ابومکین کہتے ہیں : میں نے عکرمہ سے ” البحر المسجور “ کا معنی پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ عرش کے نیچے سمند رہے۔
حضرت علی (رض) کا دوسرا قول یہ ہے کہ عرش کے نیچے بہت گاڑھا پانی ہے اس کو ” بحر الحیوان “ کہتے ہیں ‘ پہلے صور کے چالیس سال بعد اس سے بارش ہوگی اور لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٧ ص ٥٨‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
امام ابودائود سجستانی متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ سمندر کا سفر صرف وہی شخص کرے جو حج کرنے والا ہو یا عمرہ کرنے والا ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٤٨٩‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
علامہ خطابی نے کہا : اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ سمندر تہ در تہ ہے اور سمندر کی آفتوں کا اس میں سفر کرنے والوں تک پہنچنے کا خطرہ ہے اور جو شخص آگ کے قریب ہو اس کی ہلاکت ہو اس کی ہلاکت کا خطرہ ہے۔
علامہ مصلح الدین مصطفیٰ بن ابراہیم رومی حنفی متوفی ٨٨٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ سمندر کی آفات ایک دوسرے کے پیچھے لگاتا آرہی ہیں اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ دنیا کی کسی فانی غرض کے لیے سفر کو اختیا کرنا بےوقوفی اور جہالت ہے کیونکہ اس میں جان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور جان کو خطرہ میں ڈالنا صرف اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے محمود ہے۔ ( حاشیۃ ابن التمجید علی البیضاوی ج ١٨ ص ٢٣٩‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ فی الحال سمندر پانی سے بھرے ہوئے ہیں ‘ لیکن قیامت کے دن ان میں آگ بھڑک اٹھے گی اور حضرت علی کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ اس جگہ ہوگی ‘ جیسا کہ ” صحیح بخاری “ اور ” جامع ترمذی “ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت سات آسمانوں کے اوپر اور عرش کے نیچے ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 6