حضور اکرمﷺ نے اپنے مختلف فیصلو ں سے یہ اشارہ فرمادیا تھا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر ؓ پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضر ت عثمانؓ جانشین ہونگے

تحریر: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

جہاں اہلسنت کے پاس اس امر کے بے شمار دلائل ہیں کہ امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے پھر حضرت عمر بن خطابؓ اور پھر حضرت عثمانؓ تھے اور نبی اکرمﷺ نے متعد مقامات پر اس طرح اشارہ دیا تھا جن میں سے ایک دلیل درج ذیل ہے ۔

 

امام طبرانی اپنی معجم میں ایک روایت بیان کرتےہیں :

 

حدثنا معاذ بن المثنى ثنا مسدد، ثنا خالد بن زياد الزيات، حدثني أبو زرعة بن عمرو بن جرير، عن جرير، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة قال لأصحابه: انطلقوا بنا إلى أهل قباء فنسلم عليهم، فأتاهم فسلم عليهم ورحبوا به، ثم قال: يا أهل قباء إيتوني بأحجار من هذه الحرة فجمعت عنده أحجار كثيرة ومعه عنزة له، فخط قبلتهم، فأخذ حجرا، فوضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: يا أبا بكر خذ حجرا، فضعه إلى حجري ، ثم قال: يا عمر خذ حجرا فضعه إلى جنب حجر، أبي بكر ، ثم التفت فقال: يا عثمان خذ حجرا فضعه إلى جنب حجر عمر ، ثم التفت إلى الناس بآخرة فقال: وضع رجل حجره حيث أحب على ذي الخط

 

حضرت جریرؓ فرماتے ہیں : کہ جب حضور اکرمﷺ مدینہ میں آئے ، آپنے صحابہؓ سے فرمایا”ہم کو قباء والوں کے پاس لے چلو تاکہ انہیں سلام کریں” آپﷺ انکے پاس آئے، انہیں کیا اور انہوں نے آپﷺ کے آنے پر مرحبا کہا، پھر فرمایا ”اے قباء والوں! میرے پاس اس سیاہ پتھروں والی زمین سے پتھر لاؤ!” آپﷺ کے پاس بہت زیادہ پتھر جمع کیے گئے، آپﷺ کے پاس ایک نیزہ تھا ، ان کا قبلہ مقرر کیا ، ایک پتھر پکڑا، رسول اکرمﷺ نے اسے رکھا ، پھر فرمایا ”اے ابو بکرؓیہ پتھر پکڑو! اسے میرے پتھر کے ساتھ رکھو”۔پھر فرمایا ”اے عمرؓ! یہ پتھر پکڑواور اسکو ابو بکرؓ والے پتھر کے ساتھ رکھو”۔ پھر متوجہ ہوئے فرمایا ”اے عثمانؓ! یہ پتھر پکڑو، اسکو عمرؓ کے پتھر کے ساتھ والے پتھر کے ساتھ رکھ دو” پھر دوسرے تمام لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ”اس لکیر پر جس جگہ جس آدمی کو اپنا پتھر رکھنا پسند ہو رکھے۔

 

[المعجم الکبیر برقم: 2418]

 

سند کے رجال کا مختصر تعارف!

 

۱۔پہلا راوی: معاذ بن المثنى بن معاذ بن معاذ.

 

ثقة جليل

 

[تاريخ الإسلام برقم: 539]

 

۲۔دوسرا راوی: مسدد بن مسرهد بن مسربل الأسدي

 

الإمام، الحافظ، الحجة

 

[سیر اعلام النبلاء برقم: 208]

 

۳۔تیسرا راوی:خالد بن زياد الأزدي الترمذي

 

قلت: صندوق – إن شاء الله -. مَحَلُّهُ الصِّدْقُ، مَا ضَعَّفَهُ أَحَدٌ.

 

[تاريخ الإسلام برقم: 93]

 

صدوق

 

[تقريب التهذيب برقم: 1632]

 

۴۔چوتھا راوی: أبو زرعة بن عمرو بن جرير

 

الكوفي، من ثقات التابعين، وعلمائهم.

 

[سیر اعلام النبلا ء برقم: 3]

 

۵۔پانچوے راوی: جرير بْن عَبد الله البجلي (صحابی رسولﷺ)

 

نوٹ: امام ابو زرعہ بن عمرو کا اپنے والد حضرت جریر بن عبداللہ صحابی رسولﷺ سے سماع ثابت ہے اور انکی اپنے دادا سے مرویات صحیحین میں موجود ہیں۔اسکے علاوہ انکا سماع حضرت ابو ھریرہؓ سے بھی ہے اور اس طریق سے مرویات بھی صحیحین میں موجود ہیں ۔پس حضرت نبی اکرمﷺ نے جس ترتیب سے اپنے اصحابؓ کو پتھر رکھنے کے لیے بلایا اسی ترتیب سے یہ خلفاء منتخب ہوئے اور انکی خلافت پر اجماع بھی ہوا ۔

 

 

 

تحقیق: دعاگو اسد اطلحاوی الحنفی البریلوی