اسلام میں روحانیت کی نفی بدعت ہے۔

اور کرامات کو ائمہ اسلام نے ضروریات اہلسنت قرار دیا ہے۔

اور متقدمین سے ہی ائمہ حدیث نے زھد کے باب کو بہت اہمیت دی ہے اور مستقل کتب لکھی ہیں

جیسا کہ

امام عبداللہ بن مبارک نے کتاب الزھد لکھی

پھر امام احمدبن حنبل نے کتاب الزھد لکھی

پھر امام ابو داود نے کتاب الزھد لکھی ۔

اور انکے بعد دیگر ائمہ نے اس باب کو اہمیت دی۔

 

ائمہ علل اور حدیث کے علماء نے اولیاء اللہ کی باطنی فیض اور زھد کے سامنے اپنے ظاہری علم کو اہمیت نہ دی۔

 

جیسا ائمہ نے امام معروف کرخی، امام بھلول دانا ، امام فضیل بن عیاض امام بشر حافی جیسے صوفیاء کی عظمت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ علم تصوف اور باطنی فیض کے حصول کی تک و دو کی ہے۔

 

اور جو لوگ اہلسنت سے خارج ہوئے انکے گمراہ ہونے کا اصل سبب صوفیاء اور علم باطنی کی مطلق نفی تھی۔ انہوں نے اسلام کی روحانیت کی حقیقت کو تسلیم نہ کیا۔ اور اسلام کو ظاہری معملات پر محمول کیا بس روزہ زکاتہ حج نماز اور حلال وحرام کے علم تک اسلام کو محدود کر دیا۔

 

اسکا انجام آخر کار یہ نکلا کہ ایسے گمراہ گروہ کے نزدیک علم تصوف اور باطنی فیض ایک فضول چیز بن گئی اور انکے نزدیک ایسے صوفیاء بابوں کے علاوہ کچھ حیثیت نہ رہی۔

 

اور صوفیاء کی آڑ میں کچھ لوگ ایسے نکلے جنہوں نے علم تصوف اور باطنی فیض کو سب کچھ سمجھ لیا اور اعمال کی نفی کر دی اور فقہ حدیث اور عبادات کو ثانوی چیز سمجھ لی ایسے لوگ بھی گمراہ ہوگئے ۔۔۔

 

اہلسنت کا منہج یہ ہے کہ صوفیاء کی صحبت حاصل کی جائے ان سے باطنی فیض حاصل کیا جائے اور سلسلہ طریقت کو تھامہ جائے۔

 

والسلام