أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ لَـهُ الۡبَنٰتُ وَلَـكُمُ الۡبَنُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

کیا اس ( اللہ) کی بیٹیاں ہیں اور تمہارے بیٹے ہیں

اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیوں کو ثابت کرنا پرلے درجہ کی حماقت ہے

الطور : ٣٩ میں فرمایا : کیا اس ( اللہ) کی بیٹیاں ہیں اور تمہارے بیٹے ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی حماقت پر متنبہ کیا ہے اور ان کو ڈانٹ پلائی ہے کہ تم اپنے لیے بیٹیوں کو باعث عار سمجھتے ہو اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں مانتے ہو اور جو لوگ اس حد تک حماقت کو پہنچے ہوئے ہوں ان سے یہ کب بعید ہے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور حشر ونشر کا انکار کردیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی نفی اور مشرکین کے عقیدہ شرک کے باطل ہونے کی طرف بہت بلیغ اشارہ فرمایا ہے کہ کسی شخص کو اپنا شریک وہ شخص بناتا ہے جو اکیلا کام کرنے یا بنانے سے عاجز ہو اور اللہ سبحانہ ٗ ہر کام کو کرنے اور ہر چیز کو بنانے پر قادر ہے تو اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ مشرکین نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ ہم ان بتوں کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کے افعال میں شریک نہیں کہتے، ہم ان بتوں کی اس لیے تعظیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اس کا یہ جواب اس لیے باطل ہے کہ کسی شخص کے لیے بیٹوں اور بیٹیوں کو اس لیے پیدا کیا جاتا ہے کہ اس شخص کا فنا ہونا اور اس کا مرنک ممکن ہے، پس اگر توالد اور تناسل کا سلسلہ قائم نہ ہو تو پھر انسان کی نسل ختم ہوجائے گی اور اس کی نسل کو باقی رکھنے کے لیے اور کوئی چیز موجود نہیں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نسل انسانی کو قائم اور جاری رکھنے کے لیے توالد اور تناسل کو ذریعہ بنایا اور یہی وجہ ہے کہ جنت میں اولاد پیدا ہونے کا سلسلہ نہیں ہوگا کیونکہ جنت دارالبقاء ہے اور وہاں لوگوں کے آباء پر موت نہیں آئے گی حتیٰ کہ لوگوں کی اولاد کو پیدا کیا جائے اور جب یہ واضح ہوگیا کہ اولاد اس صورت میں ہوتی ہے جب کسی شخص کی موت کا امکان ہو اور اللہ تعالیٰ توحی اور قیوم ہے، اس پر موت نہیں آسکتی، قرآن مجید میں ہے :

کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ط (القصص : ٨٨) اللہ کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔

کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ۔ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ (الرحمن : ٢٧۔ ٢٦ )

زمین پر ہر ایک فنا ہونے والا ہے۔ اور آپ کے رب کی ذات باقی ہرے گی جو عظمت اور عزت والی ہے۔

اللہ سبحانہٗ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آئے گی اور وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس میں کوئی تغیر اور کسی قسم کے ضعف کا آنا ممکن نہیں ہے، اس لیے اس کو اولاد کی مطلقاً حاجت نہیں ہے جو اس کی قائم مقام ہو۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں مانتے ہیں اور خود اپنے لیے بیٹے مانتے ہیں حالانکہ بیٹیوں کا وجود ان کے زیادہ لائق ہے، کیونکہ بیٹیوں کی کثرت اولاد کی کثرت کے لیے معاون ہوتی ہے، ایک مرد سے متعدد عورتوں کے ہاں اولاد ہوسکتی ہے اور متعدد مردوں سے ایک عورت حاملہ نہیں ہوتی کسی ایک مرد کے نطفہ سے ہی اسقرار حمل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بالعموم بکری کو دبح نہیں کیا جاتا، بکرے کو ذبح کرتے ہیں اور متعدد مادہ جانوروں سے افزائش نسل کے لیے ایک نر کافی ہوتا ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ نوع کی بقاء مذکر کی بہ نسبت مؤنث سے زیادہ نفع آور ہوتی ہے تو پھر یہ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حی قیوم ہے اس کو فنا اور موت نہیں ہے اور اس کو اپنی نوع کی بقاء کے لیے کسی شخص کو حادث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ان مشرکوں کو موت آنے والی ہے اور اس جہان کے جانداروں کی بقاء زیادہ تر مؤنث سے ہوتی ہے تو یہ کس قدر حمایت کی بات ہے کہ یہ مشرکین مؤنث سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ان کو مؤنث کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیوں کو ثابت کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ مؤنث سے مستغنی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 39