أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالنَّجۡمِ اِذَا هَوٰىۙ ۞

ترجمہ:

روشن ستارے کی قسم ! جب وہ زمین کی طرف اتر

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : روشن ستارے کی قسم جب وہ زمین کی طرف اترا۔ تمہارے آقا ( محمد) نے نہ (کبھی سیدھا) راستہ گم کیا اور نہ کبھی راہ ( راست) کے بغیر چلے۔ وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ ان کا کہا ہوا وہی ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ ( النجم : ٤۔ ١)

” نجم “ کی معانی

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں۔

نجم اصل میں طلوع ہونے والے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم ہے اور نجم زمین پر پھیلنے والی بیل کو بھی کہتے ہیں، وقت کے ایک مقررحصہ اور قسط کو بھی نجم کہتے ہیں، ستاروں کے علم میں غور و فکر کرنے کو بھی نجم کہتے ہیں اسی سے منجم ( نجومی) بنا ہے، نجم ستارے کے طوع ہونے کو بھی کہتے ہیں، عرب ثریا کو بھی نجم کہتے ہیں ( وہ ستا ستارے جو ایک دوسرے کے نزدیک ہیں ان کو ثریا کہتے ہیں، ان کو سات ستاروں کا جھمکا بھی کہتے ہیں)

فنظر نظرۃ ی النجوم (الصافات : ٨٨) پس اس نے ستاروں کے علم میں نظر کی، یعنی غور کیا۔

والنجم اذا ھوی (النجم : ١) روشن ستارے کی قسم ! جب وہ زمین کی طرف اترا۔

اس سے مراد ستارہ ہے اور ستارے کے اترنے کا ذکر کیا ہے کیونکہ ستارے کے طلوع کا معنی خود النجم میں موجود ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ثریا ہے اور عرب جب مطلقاً نجم کا لفظ بولیں تو اس سے ثریا کا ارادہ کرتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے قرآن مجید مراد ہے جو کہ قسط وار اور بہ تدریج نازل ہوا ہے اور ” ھویٰ “ سے مراد قرآن مجید کا نزول ہے۔

فلا قیم بموقع النجم۔ ( الواقعہ : ٧٥) پس میں ستاروں کے گرنے یا قرآن کے بہ تدریج نازل ہونے کی قسم کھاتا ہوں۔

والنجم الشجر یسجدن۔ ( الرحمن : ٦) زمین پر کھڑے ہوئے درخت اور زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں دونوں سجدہ کرتی ہیں۔

(المفردات ج ٢ ص ٦٢٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

علامہ مجدد الدین المبارک بن محمد المعروف ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

نجم کا معنی کسی چیز کا ظہور اور خروج ہے، حضرت حذیفہ (رض) نے یہ حدیث بیان کی :

سراج من النار یظھر فی اکنافھم حتی ینجم فی صدورھم

آگ کا شعلہ منافقین کے کندھوں میں ظاہر ہوگا اور ان کے سینوں سے نکلے گا۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠، مسند احمد ج ٤ ص ٣٢٠ طبع قدیم)

نجم کا معنی ستارہ ہے اور اس کی جمع نجوم ہے اور کبھی اس سے مراد ثریا ہوتا ہے اور عرب ثریا کو ستاروں کا علم ( نام) قرار دیتے ہیں اور جب وہ مطلقاً نجم کہیں تو اس سے مراد ثریا ہوتا ہے، درج ذیل حدیث میں ثریا کا اطلاق اسی معنی پر ہے۔

ما طلع النجم قط و فی الارض عاھۃ الا رفعت جب بھی ثریا طلوع ہوتا ہے تو زمین سے پھلوں کی آفت اٹھالی جاتی ہے۔

( مسند احمد ج ٢ ص ٣٨٨ طبع قدیم، مشکل الآثار ج ٣ ص ٩٢)

اور اس کا معنی قسطوں میں کسی چیز کا دینا ہے، حضرت سعد (رض) نے کہا :

واللہ لا ازیدک علی اربعۃ الاف منجمعۃ اللہ کی قسم ! میں تم کو قسط وار چار ہزار سے زیادہ نہیں دوں گا۔

(النہایہ ج ٥ ص ٢٠۔ ٢١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٨، ١٤ ھ)

علامہ ابن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ نے ” المفردات “ اور ” النہایہ “ کی عبارات کو جمع کردیا ہے۔

( لسان العرب ج ١٤ ص ٢٠٣، داراصادر، بیروت، ٢٠٠٢ ئ)

” النجم “ کے معانی اور محامل میں مفسرین کے اقوال

حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : ” والنجم اذا ھوی “ کا معنی ہے : ثریا کی قسم ! جب وہ فجر کے وقت نیچے اترے اور عرب ثریا کو نجم کہتے ہیں، ہرچند کہ وہ تعداد میں کئی ستارے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سات ستارے ہیں، ان میں سے چھ ظاہر ہیں اور ایک مخفی ہے، اس سے لوگوں کی آنکھوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ قاضی عیاض نے ” شفائ “ میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثریا میں گیارہ ستارے دیکھے تھے۔

مجاہد سے یہ بھی روایت ہے کہ اس کا معنی ہے : اور قرآن کی قسم ! جب وہ نازل ہوا، کیونکہ قرآن مجید قسط وار بہ تدریج نازل ہوا ہے۔

فزاء اور حسن بصری نے کہا : اس کا معنی ہے : ستاروں کی قسم ! جب وہ ڈوب جائیں اور نجوم کو نجم سے تعبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حسن بصری سے یہ بھی روایت ہے کہ ستاروں کی قسم ! جب وہ چھڑ جائیں گے۔

ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے ساتھ شیاطین کو رجم کیا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ کی ولادت سے پہلے بہ کثرت ستارے ٹوٹنے لگے، پس بہت عرب خوف زدہ ہوگئے، ان کے ہاں ایک نابینا کاہن تھا وہ گھبرا کر اس کے پاس گئے، جو ان کو مستقبل کی خبریں بتاتا تھا، اس نے کہا : بارہ برج کو دیکھو اگر ان میں سے کوئی برج ٹوٹ گیا ہے تو اب دنیا ختم ہونے والی ہے، اور اگر ان میں سے کوئی برج نہیں ٹوٹا ہے تو دنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگا، سو تم دیکھو کیا رونما ہوتا ہے، پھر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوگئے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہی وہ امر عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نہ یہ آیت نازل فرمائی :” والنجم اذا ھوی “ یعنی یہ ستارہ ہے جو نیچے اترا ہے یہ ستارہ اس نبوت کا ہے جو اب ظاہ ہوئی ہے۔

اور جعفر بن محمد بن علی بن حسین (رض) نے کہا : اس کا معنی ہے : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم ! جب وہ شب معراج کو آسمان سے زمین پر آئے۔

حضرت عروہ بن زبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ عتبہ بن ابی لہب جس کے نکاح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحب زادی تھیں، اس نے شام کی طرف جانے کا ارادہ کیا اور کہا : میں ضرور ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائوں گا اور ان کو ایذاء پہنچائوں گا، اس نے کہا : اے محمد ! میں ” والنجم اذا ھوی “ اور ” دنی فتدلی “ کا انکار کرتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس پر تھوک دیا اور آپ کی صاحب زادی آپ کی طرف بھیج کر ان کو طلاق دے دی، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : اے اللہ ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط کر دے، اس موقع پر ابو طالب تھی تھے، انہوں نے غم گین ہو کر کہا : اے بھیجتے ! اس دعا سے آپ کو کیا فائدہو گا ؟ عتبہ نے جا کر اپنے باپ کو یہ خبر دی، پھر وہ شام کی طرف چلے گئے اور ایک جگہ ٹھہرے، ان کے پاس گر جا سے ایک راہب آیا اور کہا : اس زمین میں درندے آتے ہیں، ابو لہب نے اپنے اصحاب سے کہا : اے قریش کی جماعت ! ہماری مدد کرو کیونکہ آج رات مجھے اپنے بیٹے پر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے ضرر کا خطرہ ہے، پھر انہوں نے اپنے ارد گرد اپنے اونٹوں کو بٹھا لیا اور عتبہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، پھر شیرآ کر سب کے چہروں کو سونگھتا رہا حتیٰ کہ عتبہ پر حملہ کر کے اس کو قتل کردیا۔ ( دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٣٨٣۔ ٣٨١، تفسیر امام عبد الرزاق ج ٢ ص ٢٠٢۔ رقم الحدیث : ٣٠٢١، دارالمعرفۃ، بیروت، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٣، دارالفکر، الکشف والبیان ج ٩ ص ١١٣٥، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٥٠٩٤، الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٧٨، الدرالمنثور ج ٧ ص ٢٦٣، الکشاف ج ٤ ص ٤١٩، روح البیان ٩ ص ٢٤٩، السنن الکبریٰ ج ٥ ص ٢١١، حضرت حسان بن ثابت (رض) نے اس واقعہ کو اشعار میں نظم کیا ہے جس کو تفصیل سے ” الکشف “ اور ” الجامع الاحکام القرآن “ میں ” دلائل النبوۃ “ رقم الحدیث : ٢٢٠ کے حوا لے سے نقل کیا ہے۔ )

” النجم “ کی تفسیر میں مرغوب اور پسندیدہ اقوال اور ان کی توجیہات اور نکات

” النجم “ سے ثریا کو مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ آسمان کے ستاروں میں ثریا سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ واضح ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کثرت معجزات اور دلائل کے اعتبار سے نبیوں میں سب سے زیادہ روشن اور واضح ہیں، نیز اور اخر خریف میں جب عشاء کے وقت ثریا کا ظہور ہوتا ہے تو زمین سے پھلوں کی آفات دور ہوجاتی ہیں اور پھل پک جاتے ہیں، اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جب ظہورہوا تو دلوں کی بیماریاں دور ہوگئیں اور ایمان اور عرفان کے پھل پک کر تیار ہوگئے، اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی ثریا ہے۔

النجم سے آسمان کے ستارے مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ ستاروں سے سمندر، جنگلوں اور ریگستانوں میں راستے کی ہدایت حاصل ہوتی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں صحیح راستہ کی ہدایت حاصل ہوتی ہے، اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی آسمان کے ستارے ہیں۔

النجم سے ستاروں کو رجم کرنا اور ان سے شیاطین کو آسمانوں سے بھگانا یعنی شہاب ثاقب مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ جس طرح شہاب ثاقب سے شیاطین کو آسمانوں سے دور کیا جاتا ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سے زمین پر لوگوں سے شیاطین کو دور کیا جاتا ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی شہاب ثاقب ہے۔

النجم سے قرآن مجید مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ قرآن مجید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کے صدق پر دلالت کرتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (یٰسین : ١۔ ٤)

یٰسین۔ قرآن حکیم کی قسم۔ بیشک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔ سیدھے راستے پر قائم ہیں۔

اور یہاں فرمایا : قرآن کی قسم ! جو قسط وار نازل ہوا، تمہارے آقا اور پیغمبر نے نہ کبھی سیدھا راستہ گم کیا اور نہ کبھی بےراہ چلے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی قسط وار ہے۔

النجم کا معنی زمین پر پھیلنے والی بیل مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ ان بیلوں کے پھلوں سے جسم کی تقویت اور نشو و نما ہوتی ہے اور آپ کی تعلیمات سے روح کی تقویت اور نشو و نما ہوتی ہے۔

علامہ ابو عبد اللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ، علامہ محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، علامہ اسماعیل حنفی متوفی ١١٣٧ ھ اور علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے النجم کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے :

امام جعفر بن محمد علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں کہ النجم سے مراد ہے : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم ! جس وہ شب معراج آسمان سے زمین پر آئے اور یہ اس لیے مناسب ہے کہ اس آیت کے بعد والی آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے قرب ” دنا فتدلی “ اور اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہے جس کا تعلق شب معراج ہے۔

( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٧٨، البحر المحیط ج ١٠ ص ٩، روح البیان ج ٩ ص ٢٤٩، روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٠)

نیز علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ ” اذا ھوی “ سے یہ مراد ہو کہ شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عروج لا مکان تک ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسم کھا کر یہ بتایا کہ آپ راہ راست سے گم ہونے اور راہ راست کے بغیر چلنے کے شائبہ سے بھی مبرا، منزہ اور پاک ہیں۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٠، دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 1