سانحہ سیالکوٹ

بچپن میں بہن بھائیوں میں لڑائی ہوتی تو جو مظلوم ہوتاوہ روتا ہواابا کے پاس چلا جاتااور ابا دوسرے فریق کو فورا اپنی عدالت میں طلب کرتے اس کی بات سنتے

وہ کہتا اس نے میری کاپی پھاڑ دی تھی

ابا کہتے؛ ٹھیک ہے لیکن تمہیں مارنے کا اختیار کس نے دیا؟ تم ہمارے پاس آتے شکایت کرتے.

یہ سن کر فریق ثابی سر جھکا لیتا ہے اس کی سرزنش ہوتی ہے

آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ابھی ابا کی ڈانٹ فریق ثانی کو پڑ ہی رہی ہوتی ہے کہ چھوٹا بھائی جو مظلوم ہوتا ہے جس نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا دہائی دے دے کر انصاف مانگ رہا تھا ابا کے اس عمل کے بعد اس کے آنسو خشک ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور چہرے پر مسکراہٹ اجاتی ہے.

جہاں گھر میں ابا کا عمل یہ نہ ہو وہاں کچھ دنوں بعد اپنی پوری طاقت کے ساتھ چھوٹا بھائی بغیر کسی لحاظ کے بڑی بہن اور بھائی کو مارتا ہے جب کہ بڑا چھوٹے کی درگت بنا تا ہے.

سانحہ سیالکوٹ پر مذہبی اور لبرل افراد نے اپنی اپنی دانست میں بھرپور دلائل دئیے میری نظر میں مسئلہ نظام انصاف کا ہے.

…………………………………………………………

حکیم صاحب کہا کرتے تھے مرض کی جڑ کو پکڑو تب ہی علاج ممکن ہے. صرف سرسری علاج تو دیگر بیماریوں کو جنم دے گا..

اس معاشرے میں مسائل کی جڑ مذہبی وغیر مذہبی نہیں بلکہ نظام انصاف کا درست اور صالح نہ ہونا ہے اگر قوم کے حکمااسی طرح مختلف معجون تجویز کرتے رہے تو شاید ایک بیماری دور ہوجائے لیکن جلد ہی اس سے زیادہ ہولناک دوسری بیماری سر اٹھا لے گی.

…………………………………………………………

معاشرہ پورا دوغلا ہے صاحب

جہاں لکھا ہے کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بنے گا وہیں سودی نظام اپنی آب وتاب کے ساتھ جاری ہے

اسی دوغلے نظام میں شراب کے پرمٹ بھی جاری ہورہے ہیں.

سیاسی لیڈروں بلکہ ملک کے صدور اور وزرائے اعظم کو دیکھ لیجیے اقتدار میں آنے سے پہلے کچھ اور بعد میں کچھ

حصول تخت سے پہلے وعدے اور حصول تخت کے بعد جھانسے

حکمائے ملت کی جانب سے دعوے علم کی نشو نما کے اور آبیاری محض جذبات کی

حال یہ ہے کہ ایک دوغلا دوسرے دوغلے سے کہہ رہاہے تم دوغلے ہو.

اسمعیل بدایونی

8 دسمبر 2021