أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰى ۞

ترجمہ:

( آپ کی) نظر نہ کج ہوئی نہ بہکی

شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے پر ایک دلیل

النجم : ١٧ میں فرمایا : آپ کی نظر نہ کج ہوئی نہ بہکی۔

” مازاغ البصر “ کا معنی ہے : آپ کی نظر منحرف نہیں ہوئی، ابن بحر نے کہا : آپ کی نظرکم نہیں ہوئی، ” وما طغٰی “ کا معنی ہے : آپ کی نظر حق سے متجاوز نہیں ہوئی، آپ کی نظر حد سے بڑھی نہیں، یعنی آپ کی نظر ادراک کرنے سے عاجز نہیں ہوئی اور نہ اس کی تخیل سے واقع کے خلاف زیادہ وہم کیا۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٧)

یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر دائیں بائیں نہیں ہوئی اور نہ زیادہ ہوئی اور نہ متجاوز ہوئی۔

( زاد المسیر ج ٨ ص ٧١۔ ٧٠)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے فرمایا :

ظہور نور کے وقت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر ادھر ادھر ہٹی، نہ نور سے متجاوز ہوئی، اس کے بر خلاف جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کی نظر بےاختیار ادھر ادھر ہوجاتی ہے اور آپ نے اتنے عظیم نور کو دیکھا اور آپ کی نظر ادھر ادھر نہیں ہوئی۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٤٦، داراحیاء التراث العربی، ١٤١٥ ھ)

علامہ قونوی حنفی متوفی ١١٩٥ ھ نے لکھا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے سر کی آنکھ سے اور دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ (حاشیۃ القونوی علی البیضاوی ج ١٨ ص ٢٨١، دارالکتب، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر جنت اور اس کی زیب وزینت کی طرف مڑی اور نہ دوزخ اور اس کے ہولناک عذاب کی طرف گئی، بلکہ آپ صرف اللہ عزوجل کی ذات کو دیکھنے میں محو اور مستحق رہے۔

سہل بن عبد اللہ تستری نے کہا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر شب معراج اپنی ذات میں الوہیت کے دلائل کی طرف متوجہ ہوئی نہ اس رات کی عظیم نشانیوں کی طرف ملتفت ہوئی، بلکہ آپ صرف اپنے رب کی ذات کا مشاہدہ کرتے رہے اور اپنے رب کی صفات کا مطالعہ کرتے رہے۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ اسماعیل حقی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو بیداری میں سر کی آنکھوں سے دیکھا تھا کیونکہ اگر آپ نے اپنے رب کو اپنے قلب سے دیکھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا

ما زاغ قلب محمد وما طغی محمد کا قلب نہ بہکانہ کج ہوا۔

اس کے بر خلاف اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کی بصر نہ بہکی اور نہ کج ہوئی اور بصر سر کی آنکھ کو کہتے ہیں، اس سے واضح ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیداری میں اپنے سر کی آنکھ سے اپنے رب کو دیکھا۔

البقلی (رح) نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اپنے رب کو دوبارہ دیکھا ہے اور یہ دوسری بار دیکھنے کا ماجرا ہے کیونکہ جب آپ نے پہلی بار اپنے رب کو دیکھا تو وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اور کچھ نہ تھا اس لیے وہاں یہ نہیں فرمایا کہ ” ما زاع البصر و ما طغی۔ “ (النجم : ١٧) آپ کی بصر ادھر متوجہ ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنے سے متجاوز ہوئی بلکہ اسی کی ذات کو دیکھنے میں محو اور مستغرق رہی اور جب آپ نے دوسری بار واپسی کے بعد اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو آپ کے سامنے جنت، دوزخ اور دیگر عجیب و غریب نشانیاں بھی تھیں لیکن آپ اور کسی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ صرف اسی کی ذات کو ٹکٹکی باندھ کر لگاتار دیکھتے رہے۔ ( روح المعانی ج ٩ ص ٢٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 17