امام سفیان بن عیینہ کا امام ابو حنیفہؓ کے احسانات کو بھلانا پھر دوبارہ انکی عظمت کا قائل ہونا !!!

تحریر: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

امام سفیان ابن عیینہ وہ شخصیت تھے جنکو کوفہ میں حدیث بیان کرنے کا موقع امام ابو حنیفہ نے دیا اور انکو محدث بنانے میں امام ابو حنیفہ کا ہاتھ تھا جیسا کہ اس بارے مشہور گواہی امام ابن عیینہ خود پیش کرتے ہیں ۔ امام سفیان بن عیینہ پہلے امام ابو حنیفہؓ کی عبادت تقویٰ اور نیک نامی کی گواہی دیا کرتے تھے اور انکو دعا دیتے ۔۔

 

جیسا کہ امام خطیب بغدادی اپنی سند صحیح سے روایت کرتے ہیں :

 

أخبرنا أبو نعيم الحافظ، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن فارس- فيما أذن لي أن أرويه عنه- قال: حدثنا هارون بن سليمان، حدثنا علي بن المديني قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: كان أبو حنيفة له مروءة، وله صلاة في أول زمانه. قال سفيان: اشترى أبي مملوكا فأعتقه، وكان له صلاة من الليل في داره، فكان الناس ينتابونه فيها يصلون معه من الليل، فكان أبو حنيفة فيمن يجيء يصلي.

امام علی بن مدینیؒ کہتے ہیں مین نے امام سفیان بن عیینہؒ سے سنا وہ کہتے ہیں :امام ابو حنیفہ ؓاپنی زندگی کے شروعاتی دور سے ہی نماز کے پابند تھے ۔ اور امام سفیان ؒنے کہا کہ میرے والد نے ایک غلام کو آزاد کیا تھا جو (ساری)رات عبادت گزاری میں گزارتا تھا ایک گھر میں اور لوگ اسکے پاس آتے تھے عبادت میں شامل ہونے کے لیے اور امام ابو حنیفہ ؓبھی انکے ساتھ عبادت میں مشغول رہتے۔

[تاریخ بغداد وسند صحیح ]

سند کے رجال مشہور ثقہ ائمہ حدیث ہیں

پہلا راوی: امام ابو نعیم اصبھانی ہیں

دوسرے راوی: امام عبداللہ بن جعفر بن فارس ثقہ ہیں

تیسرے راوی: امام ھارون بن سلیمان الاصبھانی بھی ثقہ ہیں

چوتھے راوی: امام علی بن مدینی ائمہ علل اور

پانچوے راوی: امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام سفیان بن عیینہ ہیں۔

 

اسی طرح امام سفیان بن عیینہ سے دوسری سند سے بھی یہ روایت مروی ہے :

أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق قال: سمعت أبا نصر وأبا الحسن بن أبي بكر، أخبرنا أبو نصر أحمد بن نصر بن محمد بن إشكاب البخاري قال: سمعت أبا إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان يقول: سمعت علي بن سلمة يقول: سمعت سفيان بن عيينة يقول: رحم الله أبا حنيفة كان من المصلين- أعني أنه كان كثير الصلاة-.

امام سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں : اللہ کی ان ابو حنیفہ ؓپر رحمت ہو ۔ وہ بہت زیادہ عبادت گزار تھے یعنی وہ بہت زیادہ نماز (و نفلی عبادات) ادا کرتےتھے

[تاریخ بغداد وسند حسن]

 

یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ امام سفیان تو امام ابو حنیفہ کی عظمت کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ انکے تقوی اور ورع کے سبب انکا ذکر خیر کرتے۔۔

 

لیکن امام سفیان بن عیینہ جب حدیث میں اعلیٰ درجہ تک پہنچے اور امام مالک کی شاگردی میں آئے تو یہ اصحاب الحدیث سے معیوب ہو گئے اور امام ابو حنیفہ پر طعن و تشنیع کرنے میں آگے آگے رہے ۔۔۔۔!!!

 

اخبرنا ابن رزق اخبرنا عثمان بن احمد الدقاق حدثنا حنبل بن اسحاق حدثنا الحمیدی قال سمعت سفیان یقول: کان ھذا الامر مستقیما حتی نشا ابو حنیفۃ بالکوفۃ وربیعہ بالمدینہۃ والبتی بالبصرہ قال ثم نظر الی سفیان فقال : فاما بلدکم فکان علی قول عطاء ثم قال سفیان : نظرنا فی ذلک فظننا انہ کما قال ھشام بن عروہ عن ابیہ ان امر بنی اسرائیل لم یزل مستقیما معبتدلا حتی ظھر فیھم المولدون ابناء سبایا الامم فقالو فھم بالرای فضلو ا واضلو قال سفیان فنظرنا فوجدنا ربیعۃ ابن سبی، والبتی ابن سبی، و ابو حنیفۃ ابن سبی، فنری ان ھذا من ذالک

ترجمہ: امام حمیدیؒ نے کہا کہ میں نے امام سفیان بن عیینہ کو کہتے ہوئے سنا کہ دین اسلام سیدھا اور صحیح چلتا رہا یہاں تک کہ ابو حنیفہ کوفہ میں ،ربیعہ مدینہ میں ، اور البتی بصرہ میں پیدا ہوئے پھر سفیان نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہارا شہر بھی عطا کے قول طرح ہے اس کے بعد امام سفیان بن عیینہ نے کہا ہم نے دیکھا تو اسی طرح پایا کہ جس طرح ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان کیا کہ بنی اسرائیل کا حال صحیح دیا۔ یہاں تک کہ ان کے اندر باندھیوں کے لڑکے پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی رائے سے باتیں کیں خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا امام سفیان نے کہا ہمارا بھی یہی حا ل رہا ربیعہ بھی لونڈی کا پچہ بتی بھی لونڈی کا بچہ ابو حنیفہ بھی لونڈی کا بچہ ۔ لہذا ہم اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔

(اسنادہ صحیح) (تاریخ بغداد جلد 13 ص 414)

 

اسی طرح ایک قول امام ابن عبدالبر نے الانتقاء میں بھی نقل کیا ہے :

امام سفیان بن عیینہؒ سے کہ امام بن عیینہؒ نے ابو حنیفہ کے سامنے یہ حدیث البیعان بالخیار مالم یتفرقا بیان کی تو ابو حنیفہ نے کہا اگر خرید فروخت کرنے والے کشتی میں بیٹھے ہوں تو وہ جدا کیسے ہوں گے پھر ابن عیینہ کہتے ہیں کہ کیا اس سے بری بات اور بھی کوئی ہو سکتی ہے ۔۔۔

 

خیر اس طرح کی جروحات امام سفیان بن عیینہ کرتے رہے اور اپنی ماضی کی باتوں کے برعکس وہ سب کہتے رہے جسکے برعکس پہلے خود بیان کرتے تھے امام ابو حنیفہ کے بارے۔۔۔

 

لیکن آخر میں انکو پچھتاوا ہوا اس بات کا ۔۔۔

 

کیونکہ امام ابن عیینہ کا مقدم شاگرد یعنی علامہ حمیدی جو متاخر شاگرد بھی ہیں وہ بیان کرتے ہیں جسکو امام خطیب نے اپنی سند صحیح سے بیان کیا ہے :

أخبرني إبراهيم بن مخلد المعدل، حدثنا القاضي أبو بكر أحمد بن كامل- إملاء- حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي، حدثنا عبد الله بن الزبير الحميدي قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة وقد بلغا الآفاق:قراءة حمزة، ورأي أبي حنيفة.

 

محدث حمیدیؒ (جو امام ابو حنیفہؓ سے تعصب کی وجہ سے انکو ابو جیفہ کہتے تھے ) وہ کہتے ہیںوہ کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہؒ کو یہ کہتے سنا:

دو چیزیں جسکے بارے میں میرا گمان یہ تھا کہ یہ کوفہ سے باہر نہیں نکلیں گیں جبکہ وہ توآفاق میں پھیلی ہوئی ہیں ایک حمزہ کی قرات اور دوسری امام ابو حنیفہؓ کی (اجتہادی) رائے۔

[تاریخ بغداد وسند صحیح]

 

سند کی تحقیق:

پہلا راوی : إبراهيم بن مخلد بن جعفر بن مخلد بن سهل بن حمران بن مافناجُشنُس بن فيروز بن كسرى

كتبنا عنه، وكان صدوقا صحيح الكتاب،

[تاریخ بغداد برقم: 3203]

 

دوسرا راوی: قاضی احمد بن کامل

امام خطیب انکے بارے کہتے ہیں :

وَكَانَ من العلماء بالأحكام، وعلوم القرآن، والنحو والشعر، وأيام الناس، وتواريخ أصحاب الحديث، وله مصنفات فِي أكثر ذلك.

کہ یہ ان علماء میں سے ہیں جو احکام ، علوم قرآن ، نحو ، ادب ، لوگوں کی تاریخ اور اصحاب الحدیث کی تاریخ میں انکی اکثر تصانیف ہیں

سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَن بْن رزقويه ذكر أَحْمَد بْن كامل، فَقَالَ: لم تر عيناي مثله.

ابو حسن بن زرقویہ کے سامنے جب احمد بن کامل کا ذکر ہوا تو کہتے ہیں میں نے اسکی مثل کوئی نہیں دیکھا ہے

امام دارقطنی انکے بارے کہتے ہیں :

كَانَ متساهلا وربما حدث من حفظه بما ليس عنده فِي كتابه،

بل خالفه واختار لنفسه وأملى كتابا فِي السير، وتكلم على الأخبار.

یہ متساہل تھے اور کبھی کبھار وہ حافظے سے بیان کرتے تو ایسا بیان کر دیتے جو انکی کتاب میں نہ ہوتا

انکے ساتھ اختلاف کے باوجود میں نے انکی کتب سے لکھا ہے سیر اور اخبار کے باب میں

[تاریخ بغداد برقم: 2477]

 

امام دارقطنی کی جرح میں ربما کی تصریح ہے نیز مذکورہ روایت میں اس نے املاء کی تصریح بھی کوئی ہے اس لیے مذکورہ روایت پر کوئی اثر نہیں اس کلام کا

 

تیسرا راوی : محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي

الإمام، الحافظ، الثقة،

[سیر اعلام النبلاء برقم: 123]

 

چوتھا راوی: محدث حمیدیؒ صاحب مسند مشہور ثقہ ہیں

پانچویں راوی امام سفیان بن عیینہؒ ہی

 

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام سفیان بن عیینہ کو اپنے پچھلے موقف پر ملال ہوتا تھا اور وہ پھر سے امام ابو حنیفہؓ کے بارے اپنے غلط موقف سے رجوع کر لیا ۔۔۔

 

امام سفیان بن عیینہؒ امام ابو حنیفہ کی فقاہت اور رائے پر مبنی منقبت بھی بیان کرتےتھے جو کہ امام مسار الوراق کوفی شاعر نے امام ابو حنیفہؓ کے لیے لکھی تھیاور یہ خود محدث بھی تھے ۔

 

انکی توثیق امام احمد بن حنبل بھی کرتے ہیں :

قال عبد الله بن أحمد: سألته (يعني أَباه) عن مساور الوراق، قال: حدث عنه وكيع، وابن أبي زائدة، وابن عيينة، وكان مساور يقول الشعر، قلت له: كيف هو؟ قال: ما أرى بحديثه بأسًا.

امام عبداللہ کہتے ہیں میں نے والد سے سوال کیا مساور الوراق کے بارے تو انہوں نے کہا :

ان سے حدیث بیان کرنے والے امام وکیع ، ابن ابی زائدہ ، سفیان بن عیینہ ، وغیرہم ہیںیہ شاعری کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا حدیث میں انکا کیا مقام ہے ؟تو کہا میرے نزدیک اسکی بیان کردہ حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے

 

ونا أبو الحسن محمد بن الحسن الطوسى وأبو محمد بن المقرى قالا نا محمد بن إدريس بن عمر وراق الحميدي قال نا الحميدي قال نا سفيان بن عيينة قال قال مساور الوراق وكان رجلا صالحا في أبي حنيفة وكان له فيه رأي

(إذا ما الناس يوما قايسونا … بمعضلة من الفتيا لطيفة)

(رميناهم بمقياس مصيب … صليب من طراز أبي حنيفة)

(إذا سمع الفقيه به وعاه … وأثبته بحبر فى صحيفه)

[الانتقاء وسند صحیح ص ۱۲۹]

 

نیز اسکو امام شعبہ بھی اس منقبت کو بیان کرتے تھے امام ابو حنیفہ کی مدح میں :

 

قال أبو يعقوب حدثنا أبو مروان عبد الملك بن الحر الجلاب وأبو العباس محمد بن الحسن الفارض قال نا محمد بن إسماعيل الصائغ قال سمعت شبابة بن سوار يقول كان شعبة حسن الرأي في أبي حنيفة وكان يستنشدني أبيات مساور الوراق

(إذا ما الناس يوما قايسونا … بآبدة من الفتيا طريفة)

(رميناهم بمقياس مصيب … صليب من طراز أبي حنيفة)

(إذا سمع الفقيه به وعاه … وأثبته بحبر فى صحيفه)

[الانتقاء ص ۱۲۶ ، وسند صحیح ]

 

اور امام خطیب نے بھی اسکو اپنی سند سے تاریخ بغداد میں نقل کیا ہے

اب اس روایت کو امام شعبہ ، امام سفیان بن عیینہ بیان کرتے تھے ۔

اسکا ترجمہ درج ذیل ہے :

 

جس دن بھی لوگ پیچیدہ اور باریک مسائل کے بارے میں

فتویٰ سے متعلق ہمارا مقابلہ کرنے کی کوشش کرینگے

 

تو ہم امام ابو حنیفہ کی کمان میں سے نشانہ پر لگنے

والے مضبوط تیر کے زریعےان پر تیر اندازی کرینگے

 

جب کوئی فقیہ انکی (ابو حنیفہ) کی بات کو سنے گا

اور اسکے قلم دوات کے زریعے صفحوں میں اثبت (محفوظ) کر لےگا

 

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی