《《عورتوں کا مساجد میں جانا فتنے کا باعث کیوں ہے ؟》》

تحریر: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

امام عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ مشہور زمانہ کتاب الزھد میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :

 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا السَّوَّارِ يَقُولُ لِمُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَدِيٍّ: ” تَجِيءُ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَتَضَعُ رَأْسَهَا وَتَرْفَعُ اسْتَهَا، قَالَتْ: وَلِمَ تَنْظُرُ؟ اجْعَلْ فِي عَيْنَيْكَ تُرَابًا وَلَا تَنْظُرْ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَسْتَطِيعُ إِلَّا أَنْ أَنْظُرَ ثُمَّ إِنِّي اعْتَذَرْتُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا سَوَّارٍ إِذَا كُنْتُ فِي الْبَيْتِ شَغَلَنِي الصِّبْيَانُ وَإِذَا كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ كَانَ أَنْشَطَ لِي قَالَ: النَّشَاطَ أَخَافُ عَلَيْكِ “

 

▪︎حضرت ابو خلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو السوار سے سنا تھا، آپ نے معاذہ عدویہ (عورت) سے اس وقت کہا جب وہ بنوعدی کی مسجد میں تھیں”تم میں سے کوئی (عورت) مسجد میں آجاتی ہےتو سر رکھ کر پچھلا حصہ اٹھا لیتی ہے”

اس (عورت) نے کہا آپ نے دیکھا ہی کیوں ؟ آنکھوں میں مٹی ڈال لی ہوتی، اب دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔ انہوں نے کہا کیا کروں ؟ خدا کی قسم! نظر تو پڑ جاتی ہے اور پھر میں نے معذرت کرلی۔ اس (عورت) نے کہا! اے ابو السوار میں گھر میں ہوتی ہوں تو بچے پریشان کرتے ہیں اور مسجد میں آجاتی ہوں تو خوشی ہوتی ہے ۔

انہوں (ابو سوار) نے کہا! اسی خوشی کا مجھے تم پر خوف ہے (کہ عورتوں کے سبب ہماری نظریں محفوظ نہیں )

[کتاب الزھد للعبداللہ بن احمد بن حنبل ، برقم: 1853]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سند کے رجال کا تعارف!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

■1۔پہلے راوی: عمرو بن علي بن بحر بن كنيز،

قال النَّسائيّ: ثقة حافظ، صاحب حديث.

امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ حافظ اور حدیث والا ہے

[تاریخ الاسلام للذھبی برقم: 350]

 

■2۔دوسرے راوی: سليمان بن داود أبو داود الطيالسي

الحَافِظُ الكَبِيْرُ، صَاحِبُ (المُسْنَدِ) ،

امام ذھبی کہتے ہیں کہ بڑے حافظ الحدیث اور مسند کے مصنف ہیں

[سیر اعلام النبلاء للذھبی برقم: 123]

 

■3۔تیسرے راوی: خالد بن دينار، أبو خَلْدة التَّميميُّ البَصْريُّ الخَيَّاط

وثقه يزيد بن زريع، وابن معين، والنسائي.

امام ذھھبی کہتے ہیں امام یزید ، امام ابن معین اور امام نسائی نے انکو ثقہ قرار دیا ہے

[تاریخ الاسلام للذھبی برقم: 30]

 

■4۔چوتھے راوی: أبو السوار العدوي، البصري،

ثقة

[تقریب الہتذیب ابن حجر عسلانی برقم: 8152]

 

■اور جس عورت سے امام ابو سوار نے بات کی انکا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

 

▪︎معاذة بنت عبد الله أم الصهباء العدوية

السيدة، العالمة، أم الصهباء العدوية، البصرية، العابدة، زوجة السيد القدوة: صلة بن أشيم.

روت عن: علي بن أبي طالب، وعائشة، وهشام بن عامر.

وحديثها محتج به في الصحاح.

وثقها: يحيى بن معين.

امام ذھبی کہتے ہیں : یہ سیدہ عالمہ اور صھبا کی والدہ تھیں ۔ یہ بصرہ کی تھیں اور بہت عبادت گزار تھیں اور یہ صلہ بن اشیم کی زوجہ تھیں۔

انکی حدیث سے صحاح میں احتجاج کیا گیا ہے

اور امام یحییٰ بن معین نے بھی انکو ثقہ قرار دیا ہے۔

[سیر اعلام النبلاء برقم: 200]

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ خیر القرون کے اس پاکیزہ دور میں امام ابو سوار جیسے صحب تقوی اور محدث حیثیت کے مالک لوگ بھی عورت کے مسجد میں آنے کے سبب اپنی نظروں پر بشری تقاظے کے سبب کنٹرول نہ کر پاتے ، یہی وجہ ہے کہ اس امت کے محدث حضرت عمر بن خطاب نے عورتوں کو مسجد میں آنے کو نا پسند کیا ۔ کیونکہ انکی سوچ آنے والے وقت کو پہلے بھانپ گئی تھی۔ اور آج کو دور جو فتنوں سے بھرا ہوا ہے اور آج کے دور میں کچھ نادان لوگوں کا یہ سوچنا کہ عورتوں کو مسجد میں جانے کی ترغیب دینی چاہیے بلکہ یہ لوگ تو اصرار کرتے ہیں تو انکے لیے مقام فکر ہے ۔۔۔

 

اور دوسری بات :

چونکہ امام ابو السوار حضرت عمر بن خطاب کے شاگرد تھے۔

تو عورت کے سجدہ کرنے کے طریقہ کو بھی امام ابو سوار نے اچھا نہیں سمجھا مردوں کی طرح ۔

یعنی اپنی ڈگی اٹھا کر عورتوں کا سجدہ کرنا بھی مکروہ فعل سمجھا 

 

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی