اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰىۙ ۞- سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 38
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰىۙ ۞
ترجمہ:
کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
تفسیر:
” کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا “ اس پر ایک سوال کا جواب
النجم : ٣٨ میں فرمایا : کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دو سے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے ایک شخص کو دوسرے کے گناہ میں پکڑ لیا جاتا تھا اور ایک شخص کو اپنے باپ اور اپنے بیٹے اور اپنے بھائی اور اپنے چچا اور اپنے ماموں اور اپنے غم زاد، اور اپنے رشتہ دار اور اپنی بیوی کے قتل کرنے کے بدلہ میں قتل کردیا جاتا تھا اور ان کے جرائم کے بدلہ میں اس کو سزا دی جاتی تھی تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو یہ حکم پہنچایا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
( الکشف والبیان ج ٩ ص ١٥١، التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ علی بن محمد الماوری المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیان کے زمانہ میں یہی ہوتا تھا کہ باپ کے جرم میں بیٹے کو اور ایک رشتہ دار کو جرم میں دوسرے کو پکڑ لیا جاتا تھا تاآنکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مبعوث ہو کر اس چلن کو ختم کردیا۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٤٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
کہا جاتا ہے کہ ایک حدیث اس آیت کے خلاف ہے :
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت تک جس شخص کو بھی ظلما ًقتل کیا جائے گا اس کے خون کے عذاب میں سے ایک حصہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) کو بھی دیا جائے گا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کے طریقہ کو ایجاد کیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٧٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٣، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٩٨٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦١٦)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ قیامت تک ہونے والی قتل کی تمام وارداتوں کے بوجھ کا ایک حصہ قابیل پر بھی ہوگا اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کسی برائی اور گناہ کو ایجاد کیا تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی پر عمل کریں گے تو ان کے گناہوں کی سزا میں اس برائی کے ایجاد کرنے والے کا بھی حصہ ہوگا، کیونکہ وہ ان سب لوگوں کے لیے اس برائی کے ارتکاب کا سبب بنا تھا اور بعد کے لوگوں کی سزا میں کوئی کمی نہیں ہوگی، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی تو اس کو ہدایت پر تمام عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان متبعین کے اجروں میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے کسی گمراہی کی دعوت دی، تو اس کو اس گمراہی پر تمام عمل کرنے والوں کے برابر سزا ملے گی اور ان متبعین کی سزائوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٠٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨٣، مؤطا امام مالک رقم الحدیث : ٥٠٧، مسند احمد رقم الحدیث : ٩١٧١)
” کوئی شخص دوسرے کے جرم کی سزا نہیں پائے گا “ اس قاعدہ کے بعض مستثنیات
” کسی شخص کو دوسرے کے گناہ کی سزا نہیں ملے گی “ یہ قاعدہ اس صورت میں ہے جب وہ شخص دوسروں کو اس گناہ سے منع کرتا رہے، لیکن اگر کوئی خود نیک ہو اور اس کے سامنے دوسرے گناہ کرتے رہیں اور وہ ان کو منع نہ کرے تو اس نیک شخص کو اس لیے عذاب ہوگا کہ اس نے ان دوسروں کو برائی سے نہیں روکا۔ قرآن مجید میں ہے :
کَانُوا لَا یَتَنَا ھَونَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُط لَبِئسَ مَا کَانُوا یَفعَلُونَ (المائدہ : ٧٩)
وہ ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے نہیں روکتے تھے جو انہوں نے کیے تھے البتہ وہ بہت برا کام کرتے تھے
حضرت زینب بنت جحش (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیند سے یہ فرماتے ہوئے بیدار ہوتے۔ ” لا الہ الا اللہ “ عرب کے تباہی ہو، اس شر سے جو قریب آپہنچا، یاجوج ماجوج کی رکاوٹ کے ٹوٹنے سے، آج روم فتح ہوگیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے دس کا عقد بنایا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے، حالانکہ ہم میں نیک لوگ موجودہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! جب برائیاں زیادہ ہوجائیں گی۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث ٣٣٤٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٠٢، سنن التزمذی رقم الحدیث : ٢١٩٤، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٢٠٧٤٩، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٣٠٨، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ١٩٠٦١، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٧٤٨٦، سنن کبریٰ ، للبیقہی ج ١٠ ص ٩٣)
اسی طرح اس قاعدہ سے بعض احکام بھی مستثنیٰ ہیں، مثلاً اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو خطاء قتل کر دے یا اس کا قتل شبہ عمدہو (قتل شبہ عمد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو سزا دینے کے قصد سے لاٹھی، کوڑے یا ہاتھ سے ضرب لگائے اور اس کا قصد قتل کرنا نہ ہو) تو اس کی دیت عاقلہ پر لازم آتی ہے، تاکہ اس کا خون رائیگاں نہ ہو، اب یہاں جرم تو ایک شخص نے کیا ہے اور اس کا تاوان اس کے عاقلہ ادا کریں گے۔ عاقلہ سے مراد مجرم کے باپ کی طرف سے راشتہ دار ہیں جن کو عصبات کہتے ہیں، حدیث شریف میں ہے :
حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمہ کی ایک چوب سے مارا اور آں حالیکہ وہ مضروبہ حاملہ تھی اور ( اس ضرب سے) اس کو ہلاک کردیا۔ ان میں سے ایک عورت بنو لحیان کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتلہ کے عصبات ( باپ کی طرف سے رشتہ دار) پر مقتولہ کی دیت لازم کی، اور اس کے پیٹ کے بچے کے تاوان میں ایک باندی یا ایک غلام کا دینا لازم کیا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣١٤۔ ١٦٨٢۔ ٣٧، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٥٦٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤١٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٨٤٢۔ ٤٨٣٧۔ ٤٨٣٦۔ ٤٨٢٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٣٣)
ایصال ِ ثواب کے عدم جواز پر معتزلہ کا استدلال اور اہل سنت کے جوابات
درج ذیل آیت سے معتزلہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اموات کے لیے ایصال ثواب جائز نہیں ہے اور اہل سنت نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ یہ آیت منسوخ ہے اور بھی بہت جوابات ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 38