*طلاق کو مشکل بناؤ…نکاح آسان بناؤ…وفا و برداشت کی ترغیب دلاؤ…اور ہمبستری کے کچھ مسائل*

سوال:

علامہ صاحب ایک صاحب ہیں جو پنچایت میں بیٹھتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ہے کہ ہم فیصلہ یہ کرتے ہیں کہ جو زانی ہوتا ہے اس کا زانیہ سے نکاح کرا دیتے ہیں لیکن ایک سید صاحب نے اعتراض اٹھایا ہے کہ زانی کا زانیہ سے نکاح نہیں ہو سکتا تو کچھ حوالہ جات عطا فرمائیں کہ جس سے ہم شاہ صاحب کو سمجھا سکیں

.

جواب:

زانی کا زانیہ سے نکاح بالکل جائز ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب و افضل ہے

القرآن:

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ

اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بےنکاح ہوں

(سورہ نور آیت32)

وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ

اور ان محرمات کے علاوہ دیگر تمام رشتے تم پر حلال ہیں

سورہ النساء آیت 24)

اس قسم کی آیات مبارکہ کو دلیل بناکر مفسرین و فقہاء نے دوٹوک لکھا کہ زانی کا زانیہ سے نکاح جائز ہے مگر فرض واجب نہیں…….چند حوالے ملاحظہ کیجیے:

.

فَذَهَبَ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الثَّلَاثَةُ إِلَى جَوَازِ نِكَاحِ الزَّانِيَةِ مَعَ الْكَرَاهَةِ التَّنْزِيهِيَّةِ عِنْدَ مَالِكٍ وَأَصْحَابِهِ، وَمَنْ وَافَقَهُمْ، وَاحْتَجَّ أَهْلُ هَذَا الْقَوْلِ بِأَدِلَّةٍ:مِنْهَا عُمُومُ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ [4 \ 24] وَهُوَ شَامِلٌ بِعُمُومِهِ الزَّانِيَةَ وَالْعَفِيفَةَ، وَعُمُومُ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ الْآيَةَ [24 \ 32] ، وَهُوَ شَامِلٌ بِعُمُومِهِ الزَّانِيَةَ أَيْضًا وَالْعَفِيفَةَ

امام ابو حنیفہ وغیرہ دیگر علماء کی اکثریت کا قول و فتوی ہے کہ ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زانی کا زانیہ سے نکاح جائز ہے اور زانی کا غیر زانیہ سے اور زانیہ کا غیر زانی سے بھی نکاح جائز ہے

(أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن ,5/418)

 

وَجَمَاعَةٌ: إِنَّ حُكْمَ الْآيَةِ مَنْسُوخٌ، فَكَانَ نِكَاحُ الزَّانِيَةِ حَرَامًا بِهَذِهِ الْآيَةِ فَنَسَخَهَا قَوْلُهُ تَعَالَى: “وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ” فَدَخَلَتِ الزَّانِيَةُ فِي أَيَامَى الْمُسْلِمِينَ

وہ جو آیت ہے کہ زانی کا نکاح صرف زانیہ سے ہوسکتا ہے وہ اس آیت سے منسوخ ہے تو زانیہ کا زانی سے نکاح ہو سکتا ہے اور زانی کا غیر زانیہ سے بھی نکاح ہو سکتا ہے

(تفسير البغوي – طيبة ,6/9)

 

بِخِلَافِ مَا إذَا تَزَوَّجَتْ بِالزَّانِي الَّذِي حَبِلَتْ مِنْهُ؛ لِأَنَّ الْأَحْكَامَ مَرْتَبَةٌ عَلَيْهِ مِنْ حِلِّ الْوَطْءِ وَوُجُوبِ النَّفَقَةِ وَالسُّكْنَى وَغَيْرِ ذَلِكَ وَلَهُمَا قَوْله تَعَالَى {وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ} [النساء: 24] وَلِأَنَّ امْتِنَاعَ النِّكَاحِ لِحُرْمَةِ صَاحِبِ الْمَاءِ لَا لِلْحَمْلِ بِدَلِيلِ جَوَازِ التَّزَوُّجِ بِهَا لِصَاحِبِ الْمَاءِ فِي ثَابِتِ النَّسَبِ وَغَيْرِهِ وَلَا حُرْمَةَ لِلزَّانِي، وَلَوْ كَانَ لِأَجْلِ الْحَمْلِ لَمَا اخْتَلَفَ، وَامْتِنَاعُ الْوَطْءِ كَيْ لَا يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ لِقَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِيَنَّ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ»؛

کسی اور کے زنا سے حمل ہو اور دوسرا شخص اس سے نکاح کرے تو نکاح اگرچہ ہو جائے گا لیکن جماع وغیرہ جائز نہیں ہوگا ، نکاح ہو جانے کی دلیل مذکورہ آیات ہیں اور جماع وغیرہ ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنا پانی کسی اور کی کھیتی(کسی اور کے حمل) کو نہ پلائے

برخلاف اس کے کہ زانی کا زانیہ سے نکاح ہو تو نکاح بھی صحیح اور جماع وغیرہ بھی جائز ہو جائے گا

(تبيين الحقائق ,2/113)

 

مِنْ الْمُحَلَّلَاتِ بِالنَّصِّ وَحُرْمَةُ الْوَطْءِ كَيْ لَا يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ….أَمَّا تَزَوُّجُ الزَّانِي لَهَا فَجَائِزٌ اتِّفَاقًا وَتَسْتَحِقُّ النَّفَقَةَ عِنْدَ الْكُلِّ وَيَحِلُّ وَطْؤُهَا عِنْدَ الْكُلِّ

زانیہ سے نکاح نص کی وجہ سے جائز ہے پھر اگر حمل کسی اور سے ہے اور یہ پاکدامن شخص ہے تو پھر اس کے لیے جماع وغیرہ جائز نہیں اور اگر زنا اسی نے کیا تھا اور زانیہ سے نکاح کیا تو نکاح بھی جائز اور جماع وغیرہ بھی جائز اور بیوی نان نفقہ وغیرہ کی بھی مستحق کہلائے گی

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق,3/114)

.

آیت مبارکہ اور اس سے فقہاء کا دلیل اخذ کرکے فرمانا کہ

زانی کا نکاح زانیہ سے جائز ہے ،واضح دلیل ہے کہ زانی کا نکاح زانیہ سے لازم نہیں بلکہ جائز و بہتر ہے

.

*صحابہ کرام کا فتوی و عمل*

فَأَمَرَ بِهِمَا أَبُو بَكْرٍ فَضُرِبَا الْحَدَّ، ثُمَّ زَوَّجَ أحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ

غیر شادی شدہ لڑکی اور لڑکے کا معاملہ آیا انہوں نے زنا کیا تھا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں زنا کی سزا دی اور ان دونوں کا آپس میں نکاح کر دیا

(جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير»14/206)

.

عمر…فَاعْتَرَفَا فَجَلَدَهُمَا، وَحَرَّضَ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا فابي

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک لڑکا اور لڑکی لائے گئے تو انہوں نے زنا کا اعتراف کرلیا تو سیدنا عمر نے ان دونوں کو کوڑے مارے اور انہیں ترغیب دلائی کے ان دونوں کا نکاح کردیا جائے لیکن لڑکے نے انکار کر دیا(اور سیدنا عمر نے زبردستی نہ کی)

(المصنف – ابن أبي شيبة – ت الحوت3/527)

یہاں سے یہ بھی اشارتا ثابت ہوا کہ زانی کا زانیہ سے نکاح کرنا لازم نہیں ہے بلکہ بہتر ہے

.

عن ابنِ عباسٍ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا- فيمَن فجَرَ بامرأةٍ ثُمَّ تَزَوَّجَها، قال: أوَّلُه سِفاحٌ وآخِرُه نِكاحٌ، لا بأسَ بهِ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے کسی عورت سے زنا کیا پھر اس سے شادی کی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ پہلا زنا ہے اور دوسرا نکاح ہے تو اس نکاح میں کوئی حرج نہیں

(السنن الكبرى – البيهقي – ت التركي14/235)

زانی کا زانیہ سے نکاح واجب نہیں جائز ہے تبھی تو سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ حرج نہیں…اگر لازم ہوتا تو فرماتے نکاح زانیہ سے لازمی ہے

.

*فقہ سے چند حوالہ جات*

وَ) صَحَّ نِكَاحُ (حُبْلَى مِنْ زِنًا) عِنْدَ الطَّرَفَيْنِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى لِدُخُولِهَا تَحْتَ النَّصِّ وَفِيهِ إشْعَارٌ بِأَنَّهُ لَوْ نَكَحَ الزَّانِي فَإِنَّهُ جَائِزٌ بِالْإِجْمَاعِ

کسی اور کے زنا سے کوئی حاملہ ہو تو اس کا نکاح پاکدامن لڑکے سے ہو تو نکاح طرفین کے نزدیک جائز ہے اور اسی پر فتویٰ ہے لیکن اگر زانی کا زانیہ سے نکاح ہو تو تمام کے نزدیک نکاح جائز ہے

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/329)

.

ولو كان الحمل من الزنا من الزوج فالنكاح جائز عند الكل، ويحل له وطؤها وتستحق النفقة عند الكل

اگر کوئی کسی سے زنا کرے اور حمل ٹھہر جائے تو اس سے زانی کا نکاح کرنا تمام کے نزدیک جائز ہے اور اس سے جماع وغیرہ بھی کرسکتا ہے اور وہ عورت نان و نفقہ کی مستحق ٹھہرے گی

(البناية شرح الهداية ,5/57)

 

لَوْ نَكَحَهَا الزَّانِي حَلَّ لَهُ وَطْؤُهَا اتِّفَاقًا

اور اگر زانی نے زانیہ سے نکاح کیا تو(نکاح صحیح ہے اور) تمام علماء کے نزدیک اس سے جماع وغیرہ جائز ہے

(الدر المختار رد المحتار فتاوی شامی ,3/49)

.

امام اہلسنت سے اسی قسم کا سوال ہو تو آپ نے نکاح کے جواز کا فتوی دیا….سوال اور جواب دونوں ملاحظہ کیجیے

سوال:

مسئلہ ١٧١: ایک شخص کا حمل ایک عورت کو رہا اور بعد معلوم ہونے حمل کے وہ عورت چاہتی ہے کہ راز فاش نہ ہو مابین حمل عقد درست ہوگا یا نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب:

درست ہے اگرچہ غیر زانی سے ہو مگر وطی و دواعی اسے روا نہیں جب تک وضع نہ ہو،اور جو زانی سےنکاح کرے تو یہ (جماع وغیرہ)بھی روا( یعنی جائز ہے)….(فتاوی رضویہ جلد11 ص329)

.

ایک اور مقام پر امام اہلسنت سے سوال ہوا کہ ایک شخص ایسے نکاح کو جائز نہیں کہتا تو آپ نے جواب میں لکھا کہ:

جسے زنا کا حمل ہو والعیاذ بالله تعالٰی اور وہ شوہر دار نہ ہو اس(زانیہ) سے زانی و غیرزانی ہر شخص کا نکاح جائز ہے فرق اتنا ہے کہ غیر زانی کو اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں جب تک وضع حمل نہ ہو لے،اور جس کا حمل ہے وہ نکاح کرے تو اسے قربت بھی جائز….زید کا قول محض غلط ہے اور اس کا کہنا اگرچہ حاملہ اسی مرد سے ہے جب بھی نکاح جائز نہیں شریعت پر افترا ہے بلکہ صحیح و مفتی بہ یہ ہے کہ اگر چہ حمل دوسرے کا ہو جب بھی نکاح جائز ہے

(فتاوی رضویہ جلد11 ص302..303)

.

*سوال کا جواب یہاں پورا ہوجاتا ہے مگر ہم نکاح کے حوالے سے چند معروضات لکھ رہے ہیں نفع عوام کے لیے،معاشرتی بھلائی کے لیے*

.

*نکاح اور ایک دوسرے کی رضامندی و پسند*

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ نَرَ – يُرَ – لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلُ النِّكَاحِ

محبت کرنے والوں میں نکاح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں

(ابن ماجه ,1/593حدیث1847)

یہ حدیث مبارکہ انتہائی جامع ہے جس میں اشارہ موجود ہے کہ نکاح سے پہلے بغیر گناہ کے محبت ہو، اشارہ ہے کہ نکاح کے بعد بھی محبت ہو….یہ محبت اس طرح پیدا ہوگی کہ ایک دوسرے کے متعلق معلومات لینی چاہئے ، نکاح سے پہلے ایک دوسرے کی رضامندی ہونی چاہیے ، ایک دوسرے کو پسند کرنا چاہیے، حتیٰ کہ علمائے کرام نے یہ اجازت بھی دی ہے کہ نکاح سے پہلے باپردہ ہو کر ایک دوسرے کو اہلخانہ کی موجودگی میں دیکھا جا سکتا ہے اور دیگر ذرائع سے ، عورتوں کے ذریعے سے، رشتہ داروں کے ذریعے سے ایک دوسرے کی معلومات ایک دوسرے کی صفات وغیرہ معلوم کرنی چاہیے تاکہ برے رشتے سے بچا جائے اور اچھے رشتے سے محبت پیدا ہو اور اس محبت کو دوام و وفا نکاح سے ملے….

.

اس حدیث پاک میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک دوسرے کے خاندان کو قریب کرنے کے لیے نکاح و رشتے داریاں کرنی چاہیے…

.

اس حدیث پاک میں یہ بھی اشارہ ہے کہ زناکاری بری چیز ہے اس کے بدلے میں نکاح کرنا چاہیے،کیا ہی حق و اچھی بات ہے کہ محبت والا نکاح ہو….زنا دراصل محبت ہے ہی نہیں یہ تو ہوس و مفادپرستی استحصال و استعمال ہے….!!

.

*نکاح آسان و سستا کرو*

قال النّبي – صلى الله عليه وسلم -: “إن أعظم النّكاح بركة أيسره مؤنة

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عظیم برکت والا نکاح وہ ہے کہ جو بوجھ کے لحاظ سے آسان ہو

(مشکاۃ،شعب الإيمان – ط الرشد8/502)

.

حکیم الامۃ مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:

جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے،مہر بھی معمولی ہو،جہیز بھاری نہ ہو،کوئی جانب مقروض نہ ہو جائے،کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو ، ﷲ کے توکل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے ایسی شادی خانہ آبادی ہے آج ہم حرام رسموں بیہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہا ئے بربادی بنالیتے ہیں

(مراۃ شرح مشکاۃ5/11)

.

*اعلی تعلیم و مقاصد و کیریر و مستقبل بعد میں یا ساتھ میں مگر پہلے نکاح کیجیے کرائیے*

قال عمرُ بن الخطاب: زَوِّجوا أولادَكم إذا بَلَغوا، لا تَحمِلُوا آثامَهم

سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہاری اولاد بالغ ہو جائے تو(جلد از جلد مناسب رشتے دیکھ کر)انکا نکاح کراؤ اور ان کے گناہوں کا سبب نہ بنو کہ تم پر بھی گناہ کا بوجھ آ جائے

(مسند الفاروق لابن كثير ت إمام2/141)

.

اپنے ہمسفر(شوہر یا بیوی) سے وہ جگھڑے وہ محبتیں… وہ روٹھنا وہ منانا… وہ سمجھنا وہ سمجھانا… وہ کبھی آنسو تو کھبی مسکراہٹیں… وہ طعنے وہ تعریفیں… وہ غصہ وہ شرارتیں.. وہ غربت وہ تنگ حالی… وہ دکھ درد میں ایک دوسرے کا ساتھ…

مل کر رو بیٹھنا کبھی ..وہ خود ہی تسلی دینا کبھی وہ شکوے وہ اعتراف… وہ حکم وہ مشورے… وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا.. سہارہ بننا سہارا بنانا… وہ تھک کر کندھے پے سو جانا..

وہ کبھی انا کی ضد… وہ کبھی چاہتوں میں فنا

وہ کبھی بے توجھی… وہ کبھی سینے سے لگانا

وہ کبھی دنیاداری….. وہ کبھی عبادات مین جگانا

وہ کبھی جائز تفریح…. وہ کبھی علم پڑھنا پڑھانا…سیکھنا سکھانا

وہ پھر اولاد کی طلب محبت و شرارتیں اور اولاد کی دیکھ بھال و تربیت

وہ پھر مل کر گھر کو بسانا… وہ زندگی سجانا

یہ سب حق ہے اس حقدار کا

جو مستحق ہوتا ہے نکاح والے پیار کا…………!!

.

.

شادی نا تو کوئ قابلِ نفرت چیز ہے اور نا ہی کوئ عام سا بندھن.. نا روحانیت میں رکاوٹ ہے اور نا ہی کوئ تفریح

.

شادی کسی کو غلام بنانے یا بن جانے کا نام نہیں اور نا ہی کوئ عام سا بندھن کہ جب چاہا توڑ دیا.. کہ کچھ تکالیف میں چھوڑ دیا…. ہرگز نہیں

.

یہ ایک پاکیزہ فطری دوستی محبت اور ساتھ کا نام ہے،جیسے بھوک پیاس فطری چیز ہیں…شادی سیکھنے سیکھانے کی عمر کا نام ہے… الجھنے سلجھنے کا نام ہے

.

شادی تعلیم و تربیت تجارت میں رکاوٹ نہیں… پہلے کچھ بن جاو بہت کچھ سیکھ جاو پھر آرام سے شادی کرنا یہ نظریہ ہی ٹھیک نہیں.. بلکہ زندگی تمام کی تمام سیکھنے سکھانے کا نام ہے… دکھ اور خوشی دونوں کا نام ہے… چند دن کچھ لمحات ارام اور پھر مشکلات پھر کچھ آرام پھر وہی مسائل و مشکلات…. زندگی اسی کا نام ہے

.

شادی کیجیے پھر نبھائیے اور ساتھ میں ہنر سکیھیے تجارت کیجیے ، جاب نوکری تلاش کیجیے، اعلیٰ تعلیم حاصل کیجیے…شادی کو ان معاملات میں روکاوٹ مت بنائیے

 

.

ہاں زندگی کے اس حصے میں جگھڑے بھی ہوسکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں… سیکھنا سکھانا صبر کرنا معاف کرنا برداشت کرنا سمجھنا سمجھانا ان جگھڑوں کا علاج ہے… شادی ہی علاج ہے.. زندگی کا زندگی ہی علاج ہے… اور کوئ علاج نہیں…….!!

.

.

اسلام پسندکی شادی کےخلاف نہیں…شادی سےقبل بےراہ روی کےخلاف ہے….روزہ کی پابندی کے بعد افطاری کا مزہ و سرور ہے اگر روزہ کے دوران ہی پابندی نہ کی جائے تو افطاری کا مزہ ہی نہیں رہے گا…یہ سب اونچ نیچ اور پیار شادی سے پہلے ہوں جیسے مغرب و عیاشوں ملحدوں کا کلچر ہے تو شادی زندگی کا مزہ ہی نہیں آتا…طلاقیں کثرت سے ہوتی ہیں، بےوفائیاں بے حیائیاں زیادہ ہوتی ہیں……..ارینج میریج بلارضا و بلاپسند زبردستی جیسا کیسا رشتہ تھوپ دینا عقلا شرعا اخلاقا ٹھیک نہیں، جانچ پڑتال و پسند کی اسلام نے ہدایت کی ہے….پسند کے بعد بےراہ روی کی اجازت شرعا عقلا ٹھیک نہیں….

.

شادی کیجیے پھر بھرپور محبت کیجیے دکھ درد لطف جوڑ توڑ سلجھانا الجھانا رونا رلانا ہنسانا سیکھنا سکھانا برداشت کرنا وفا کرنا شکوہ کرنا روٹھنا منانا کبھی فاقے کبھی عیش

کبھی دنیا کبھی دین و عبادت یہ سب کچھ شادی کے بعد سلسلہ جاری رہے گا اسی میں شادی و زندگی کا مزہ ہے بلکہ یہی تو زندگی ہے،یہی بہترین کامیاب ترین زندگی ہے یہی بہترین شادی ہے….. دین دنیا کا حسین امتزاج اسلام کی تعلیمات والی زندگی شادی ہی بہترین و کامیاب ترین ہے…….!!

 

.

*کبھی جگھڑا اور صلح معافی معذرت*

معاف کرنا اختیار کرو(سورہ اعراف آیت199)

خود کو ہر اس چیز(بات.کام.انداز.الفاظ)سے بچاؤ جس پر تمھیں معذرت کرنی پڑے..(المستدرک حدیث7928) سچے دل سے معذرت معافی رجوع سوری کرنا سب برحق و لازم ہیں مگر

اصل مقصد معذرت کرنا نہیں بلکہ اصل مقصد ان چیزوں الفاظوں کاموں باتوں اندازوں سے بچنا ہے کہ جن کی وجہ سے معذرت کرنی پڑے……!!

.

صلح میں خیر و بھلائی ہے(سورہ نساء آیت128)

کبھی کبھار شادی کے بعد جھگڑے ہو جائیں تو ایسا ہو سکتا ہے اکثر ہوتا ہے… اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے وضاحت و صفائی کر دینی چاہیے، معذرت کرنی چاہیے، ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے ، غصہ جلد ختم کرنا چاہئے ، آئندہ احتیاط کرنی چاہیے

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسے عظیم الشان جوڑے مین بھی ایک دفعہ جھگڑا اور ناراضگی ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آپس میں صلح کروا دی

(دیکھیے بخاری روایت441)

.

*برداشت وفا کی ترغیب دی جائے اور طلاق کو مشکل بنایا جائے*

القرآن: وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ

ترجمہ:

اور آپس کے تعلقات کو نیک.و.پاکیزہ رکھو…(سورہ انفال آیت1) چاہے وہ تعلق دوستی کا ہو، چاہے وہ تعلق رشتہ داری کا ہو، چاہے وہ تعلق شادی کا ہو ، چاہے وہ تعلق استاد شاگردی کا ہو ، چاہے وہ تعلق پیری مریدی کا ہو ، چاہے وہ تعلق سیاسی و سماجی ہو

ہر قسم کے تعلق کو نیک اور پاکیزہ بنانا چاہیے….حتی المقدور جائز فائدہ پہنچانا چاہیے، تعلق نبھانا چاہیے… طلاق بے وفائی لالچ مفاد استحصال اور استعمال سے بچنا چاہیے

.

القرآن:

اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا

عہد(تعلق وعدے عقد) پورے کرو بےشک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا..(سورہ بنی اسرائیل آیت34)

ایمان وعدے ارادے دوستی رشتے داری شادی سب وفا کرنے چاہیے، طلاق و بے وفائی کو مشکل بنانا چاہیے کہ کوئی طلاق و بے وفائی کے متعلق سوچے ہی ناں بلکہ برداشت صبر معافی صلح صفائی پیار سلجھنے سلجھانے سمجھنے سمجھانے کی طرف ہی سوچے کیونکہ تکبر مکاری استعمال اور استحصال اور بے وفائی اسلام و انسانیت کے خلاف ہے

.

جو اللہ کی رضا کےلیےجھک جائےاللہ اسےرفعت و عظمت عزت عطاء فرمائےگا…(ترمذی حدیث2029)حق پےہوتےہوئےجھک جائیےسمجھائیے سلجھائیے ، معذرت کیجیے معاف فرمائیےرشتے تعلقات دوستیاں بچائیے نبھائیے…خود کو متعلقین کو پاکیزہ بنائیے

.

جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو(دوستی رشتےداری ایمانداری وغیرہ نبھاؤ)

(جامع صغیر حدیث5004)

آؤ دوریاں نا بڑھائیں.. تعلقات اچھے اور پاکیزہ بنائیں..

امن سکون حیاء ایمان اور محبت پھیلائیں…ایک دوسرے کو سمجھیں سمجھائیں اور مسائل سلجھائیں…معذرت کریں کرائیں ، معاف کریں، برداشت کریں ، نفرتوں رنجشوں کو دل سے بھلائیں… دوسروں کو ساتھ لیکر چلیں اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں..

.

*زنا کا سدباب کرو*

خوشخبری ہو اسے جسے اللہ نے خیر(رشد و ہدایت وغیرہ) کی کنجی(ذریعہ)اور شر کے لیے تالا(سدباب، روکنے والا)بنایا

(ابن ماجہ حدیث238)

مجرموں زانیوں کو پکڑنا سزا دینا اصل مقصد نہیں ہے اگرچہ پکڑنا سزا دینا بھی لازمی ہے مگر اصل مقصد یہ ہے کہ ایسی تدابیر کی جائیں، ایسے طور اطوار اپنائے جائیں، ایسے بندوبست و اہتمام کیے جائیں کہ جرم و برائی نہ ہو پائے ، بے حیائی نہ ہو پائے ، گناہ نہ ہو پائے اور برائی بے حیائی فحاشی گناہ زنا کا موقعہ ہی نہ ملے

.

مثلا:

مخلوط تعلیم پر پابندی لگائی جائے اور مردوں کو مرد پڑھائیں، عورتوں کو عورتیں پڑہائیں، مردوں کے لئے الگ ادارے ہو عورتوں کے لیے الگ ادارے ہو…. اس طرح نوکریاں بھی زیادہ ہوں گی اور گناہ وغیرہ کرنا بھی آسان نہ ہو گا

الحدیث:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ

بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (نامحرم،جن سےخلوت و اختلاط ممنوع ہو ان)عورتوں کے ساتھ خلوت،اختلاط،میل جول سے خود کو بچاؤ

(بخاري حدیث5232)

الْخَلْوَةُ بِالْأَجْنَبِيَّةِ مَكْرُوهَةٌ وَإِنْ كَانَتْ مَعَهَا أُخْرَى كَرَاهَةَ تَحْرِيمٍ…..هَذَا أَنَّ الْخَلْوَةَ الْمُحَرَّمَةَ تَنْتَفِي بِالْحَائِلِ، وَبِوُجُودِ مَحْرَمٍ أَوْ امْرَأَةٍ ثِقَةٍ قَادِرَةٍ….وَيَظْهَرُ لِي أَنَّ مُرَادَهُمْ بِالْمَرْأَةِ الثِّقَةِ أَنْ تَكُونَ عَجُوزًا

غیر محرم عورت کے ساتھ ہونا(اختلاط، کو ایجوکیشن) مکروہ تحریمی و گناہ ہے اگرچہ عورت کے ساتھ دوسری عورت ہو پھر بھی گناہ ہے….ہاں اگر مرد اور عورت کے بیچ میں دیوار ہو یا مضبوط پردہ ہو یا عورت کے ساتھ محرم مرد ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ دوسری ثقہ قادرہ عورت ساتھ ہو…ثقہ قادرہ عورت سے مراد ایسی ایجڈ عورت جو حفاظت وغیرہ پر قادر ہو تو اختلاط و باہر نکلنا جائز ہے

(رد المحتار,6/368ملتقطا)

.

مثلا:

تعلیم کے لئے ، نوکری کے لیے ، شاپنگ کے لئے ، خریداری کے لئے مجبورا اتنا تو لازمی ہو کہ کسی امن والی ایجڈ عورتوں کے ساتھ نکلنے کی لڑکیوں کو اجازت ہو ورنہ زیادہ بہتر بلکہ ضروری یہ ہے کہ مرد محرم ساتھ ہو

.

مثلا:

جلد از جلد اچھی عمر میں شادی کرا دینی چاہیے اور اس کے اخراجات وغیرہ کم سے کم رکھے جائیں ، شادی کو جلد اور آسان بنایا جائے

.

اس طرح زنا فحاشی برائی کو مشکل سے مشکل تر بنایا جائے اور نکاح و وفا و برداشت کو آسان و مرغوب بنایا جائے………!!

.

*جماع،ہمبستری کے کچھ مسائل…………!!*

کچھ لوگ حیاء کی حدیں پار کر جاتے ہیں اور کچھ لوگ انتہائی حیاء و شرم یا بڑائی کی وجہ سے جائز و بہتر لطف اندوزی بھی نہیں کرتے اور کبھی اس وجہ سے میاں بیوی میں محبت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے،چڑچڑا پن اور غصہ بار بار آتا ہے، گھریلوں پریشانیاں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں یا عورت اپنی لطف اندوزی قربان کر دیتی ہے،قلت و اولاد پے اکتفاء کر لیتی ہے….اس لیے یہ تحریر سرعام پبلک کر رہا ہوں تاکہ ان سب مسائل کا تدارک ہو…بےحیائی سے بھی بچا جائے اور انتہائی شرمیلی پن سے بھی بچا جائے، کبھی کبھار یا وقتا فوقتا جائز لطف اندوزی کی جائے،عورت کو لطف اندوزی کرنے کا بھی موقعہ دیا جائے…کچھ لوگ جائز و بہتر لطف اندوزی کو دین سے الگ سمجھ کر کافروں انگریزوں فاسقوں کی عادت سمجھتے ہیں جبکہ جائز لطف اندوزی کی اجازت دین اسلام نے دی ہے…دین اسلام تو جائز دنیا و دین کا حسین امتزاج ہے،ہاں دنیا و لطف اندوزی میں غرق رہنا عبادات کم کرنا یا نہ کرنا ٹھیک نہیں،اسی طرح دین میں بےجا سختی تکلف بھی ٹھیک نہیں…جائز لطف اندوزی کو برا مت سمجھیے بلکہ نیت اچھی ہو تو ثواب ہے..لیھذا کبھی کبھار ایسی تحاریر لکھنا پھیلانا تو بیانِ حق ہے، بےحیائی پھیلانا نہیں….!!

.

قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا. وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ. وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا. فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ؟ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي

ترجمہ:

ان میں سے ایک صحابی نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو…! اللہ تعالیٰ کی قسم…! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو کبھی نہیں بھی رکھتا۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے

(بخاری حدیث5063)

دیکھا آپ نے کہ اسلام تو دین و عبادات و اچھی دنیا کا حسین امتزاج ہے

.

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ اپنی عورت کے ساتھ ملاعبت و لطف اندوزی کی جائے

(دیکھیے ابن ماجہ حدیث1860)

.

دنیا کی رنگینیوں میں مگن مت ہو جاؤ(بلکہ دین عبادات و اچھی دنیا دونوں کو اپناؤ)(نسائی سنن کبری حدیث10652)

.

 

سوال:

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

علامہ صاحب کی بارگاہ میں سوال ہے کہ ڈاکٹر حمل کے پہلے تین ماہ عورتوں کو شوہر سے ہمبستری سے روک دیتے ہیں

ایسی صورت میں اگر شوہر بیوی کے پستان ران یا کسی بھی حصے پر اپنے عضو خاص کو رگڑ لگاکر فارغ ہوتا ہو تو ایسا کرنا کیسا ہے اور اس صورت میں غسل دونوں کو کرنا ہوگا یا ایک کو۔ان سب معاملات میں حکم شرعی کیا ہوگا؟

.

جواب:

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ

الظَّاهِرُ أَنَّهَا كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ مَا لَوْ أَنْزَلَ بِتَفْخِيذٍ أَوْ تَبْطِينٍ تَأَمَّلْ وَقَدَّمْنَا عَنْ الْمِعْرَاجِ فِي بَابِ مُفْسِدَاتِ الصَّوْمِ: يَجُوزُ أَنْ يَسْتَمْنِيَ بِيَدِ زَوْجَتِهِ أَوْ خَادِمَتِهِ

خلاصہ:

بیوی یا لونڈی اپنے مرد کے عضو تناسل سے کھیلے اور مرد فارغ ہوجائے تو یہ مکروہ تنزیہی ہے گناہ نہیں ، اسی طرح رانوں اور پیٹ(اور اسی طرح پستانوں)پے جماع کرنا مکروہ تنزیہی ہے گناہ نہیں، اسی طرح بیوی یا لونڈی کے ہاتھ سے مشت زنی کی جاءے تو جائز ہے(مکروہ تنزیہی ہے مگر گناہ نہیں ان صورتوں میں غسل صرف مرد پے فرض ہوگا اگر فارغ ہوجائے تو….اسی طرح عورت شوہر کی انگلی سے فارغ ہوجائے یا شوہر انگلی سے فارغ کرے تو گناہ نہیں اس صورت میں غسل عورت پر ہوگا اگر فارغ ہوجائے تو)

(رد المحتار, المعروف فتاوی شامی 4/27)

یہ تو عام حالات کا حکم ہے، اگر مجبوری ہو مثلا بیوی حاملہ ہو اور مستند ڈاکٹر جماع سے روک دیں تو مکروہ تنزیہی بھی نہیں کہلائے گا..

نیز

بیوی یا لونڈی اپنے مرد کی شرمگاہ کو چھوئے کھیلے یا مرد انکی شرمگاہ کو چھوئے کھیلے تاکہ لطف ملے ، جماع کےلیے تیار ہوجائے مگر باہر فارغ نہ ہو بلکہ شرمگاہ میں فارغ ہوتو یہ شرمگاہ سے کھیلنا دیکھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز و امیدِ ثواب ہے

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ الْأَوْلَى النَّظَرُ إلَى عَوْرَةِ زَوْجَتِهِ عِنْدَ الْجِمَاعِ لِيَكُونَ أَبْلَغَ فِي تَحْصِيلِ مَعْنَى اللَّذَّةِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ سَأَلْت الْإِمَامَ عَنْ الرَّجُلِ يَمَسُّ فَرْجَ أَمَتِهِ أَوْ هِيَ تَمَسُّ فَرْجَهُ لِيُحَرِّكَ آلَتَهُ أَلَيْسَ بِذَلِكَ بَأْسٌ قَالَ أَرْجُو أَنْ يَعْظُمَ الْأَجْرُ

خلاصہ:

عظیم صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بہتر ہے کہ عورت مرد ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھیں(چھوئیں کھیلیں)تاکہ جماع میں زیادہ لذت ملے، امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا کہ کیا مرد عورت ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چھو سکتے ہیں؟ ایک دوسرے کی شرمگاہ کھیل سکتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس پے زیادہ اجر و ثواب ملے گا

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,8/220)

.

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے مذکورہ فتوی کو دلیل بنا کر فتوی دیا کہ شوہر اپنی عورت کے پستان منہ میں لے سکتا ہے بلکہ امید اجر ہے(دیکھیے فتاوی رضویہ جلد23 ص377) اس عمل سے عورت کو بھی بہت لذت و لطف ملتا ہے اس لیے وقتا فوقتا اس پر عمل کرنا چاہیے مگر ایامِ دودھ میں احتیاط کرنی چاہیے، دودھ کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے اتارا تو گناہ ہے

.

فتاوی رضویہ میں ہے:

مرد کے لئے جائز ہے کہ اپنی بیوی کے سر سے لے کر پاؤں تک جیسے چاہے لطف اندوز ہو سوائے اس کے جس سے ﷲ تعالی نے(قرآن میں یا بزبانِ نبی حدیث پاک میں) منع فرمایا ہے،بوسہ(گالوں کا بوسہ، گردن کا بوسہ، اسی طرح جسم کے کسی صاف جگہ کا بوسہ، ہونٹوں کا بوسہ،ہونٹ اور زبان چوسنا) تو مسنون و مستحب ہے اور اگر بنیت صالحہ ہو تو باعث اجر و ثواب ہے۔ رہا پستان کو منہ میں دبانا، تو اس کا حکم بھی ایسا ہی ہے جب کہ بیوی دودھ والی نہ ہو اور اگر وہ دودھ والی ہے اور مرد اس بات کا لحاظ رکھے کہ دودھ کا کوئی قطرہ اس کے حلق میں داخل نہ ہونے پائے تو بھی حرج نہیں، اور اگر اس دودھ میں سے جان بوجھ کر کچھ پیا تو یہ پینا حرام ہے۔ اور اگر وہ زیادہ دودھ والی ہے اور اسے ڈر ہے کہ پستان منہ میں لے گا تودودھ حلق میں داخل ہوگا تو اس صورت میں پستان کو منہ میں لینا مکروہ ہے

(فتاوی رضویہ جلد12 ص267بحذف و شرح)

.

أَمَّا تَقْبِيل الزَّوْجِ فَمَ زَوْجَتِهِ وَالْعَكْسُ فَجَائِزٌ

میاں بیوی کا ایک دوسرے کےہونٹوں کا بوسہ جائز ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية ,32/211)

 

دلائل:

①قران،حدیث:

وكان من امر اهل الكتاب ان لا ياتوا النساء إلا على حرف وذلك استر ما تكون المراة، فكان هذا الحي من الانصار قد اخذوا بذلك من فعلهم، وكان هذا الحي من قريش يشرحون النساء شرحا منكرا ويتلذذون منهن مقبلات ومدبرات ومستلقيات، فلما قدم المهاجرون المدينة تزوج رجل منهم امراة من الانصار فذهب يصنع بها ذلك فانكرته عليه، وقالت: إنما كنا نؤتى على حرف، فاصنع ذلك وإلا فاجتنبني، حتى شري امرهما، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223، اي مقبلات ومدبرات ومستلقيات، يعني بذلك موضع الولد.

ترجمہ:

اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں سے ایک ہی طرف سے صحبت کرتے تھے، اس میں عورت کے لیے پردہ داری بھی زیادہ رہتی تھی، چنانچہ انصار نے بھی یہودیوں سے یہی طریقہ لے لیا اور قریش کے اس قبیلہ کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں کو طرح طرح سے ننگا کر دیتے تھے اور آگے سے، پیچھے سے، اور چت لٹا کر ہر طرح سے لطف اندوز ہوتے تھے، مہاجرین کی جب مدینہ میں آمد ہوئی تو ان میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ وہی طریقہ اختیار کرنے لگا اس پر عورت نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں تو ایک ہی طریقہ رائج ہے، لہٰذا یا تو اس طرح کرو، ورنہ مجھ سے دور رہو، جب اس بات کا چرچا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر لگ گئی چنانچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» نازل فرمائی یعنی آگے سے پیچھے سے، اور چت لٹا کر(مکمل کپڑے اتار کر یا کچھ کپڑے اتار کر مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہوکر)بچہ پیدا ہونے کی جگہ یعنی الٹا سیدھا آگے پیچھے اوپر نیچے دائیں بائیں کسی طرف لٹا کر بٹھا کر سو کر کوئی بھی طریقہ ہو جائز ہے بشرطیکہ جماع آگے کے مقام میں ہو

(ابوداود حدیث2164مشرحا ماخوذا)

.

②الحدیث:

احفظ عورتك إلا من زوجتك او ما ملكت يمينك،

ترجمہ:

سب سے پردہ کر مگر اپنی بیوی اور لونڈی کے پورا جسم(سوائے ایام حیض کے اور سوائے پچھلے مقام کے سب جگہ) سے استمتاع(لذت اٹھانا دیکھنا چھونا جماع کرنا)جائز ہے..(ترمذی حدیث2769)

.

مذکورہ آیت و احادیث سے یہ واضح ہے کہ مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہونا جائز ہے، مکمل بےلباس ہونا بھی جائز ہے اگرچہ بہتر ہے کہ بڑی چادر کے اندر بےلباس ہوا جائے…ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھنے سے لطف زیادہ اتا ہو تو کبھی کبھار یا وقتا فوقتا ایسا کرسکتے ہیں، شرم گاہ کے ساتھ کھیلنے سے لطف زیادہ آتا ہو تو ایسا کرنا چاہیے ، اپنی عورت کے پستان چوسنے سے لطف آتا ہو تو ایسا کرنا چاہیے.. الٹا سیدھا ، دائیں بائیں ، اوپر نیچے ، اگے پیچھے ، بیٹھ کر ، سو کر ، لیٹ کر ، کھڑے ہوکر جماع کے مختلف طریقے جائز ہیں، یہ سب جائز لطف اندوزی کے طریقوں میں سے ہیں جائز ہیں…بس خیال رہے کہ پچھلے مقام میں جماع ناجائز ہے

.

جماع کے مختلف طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت اوپر ہو اور مرد نیچے ہو اور عورت مرد کے اوپر ہوکر آگے پیچھے ہو محنت کرے جس طرح مرد کرتا ہے تو اس میں دونوں کو بہت لذت ملتی ہے اور اس طرح کرنے سے عورت زیادہ لطف اندوز ہوتی ہے اور عورت جلد فارغ ہو جاتی ہے..(پڑہیے ازدواجی خوشیاں ص89)

کبھی کبھار یا وقتا فوقتا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا چاہیے

اور

لطف اندوزی کے دیگر جائز طریقے بھی اپنانا چاہیے

تاکہ عورت لذت حاصل کرے مطمئین ہو، لطف و خوشی زیادہ ہو اور جگھڑے وغیرہ کم ہوں، ختم ہوں، محبت بڑھے

.

وہ جو ایک روایت ہے کہ شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے بھولنے کی بیماری ہوتی ہے تو اس روایت کے متعلق محققین نے فرمایا ہے کہ وہ ضعیف و منکر یا من گھڑت ہے جس سے حرام و مکروہ وغیرہ حکم شرعی ثابت نہیں کیا جاسکتا………!!

.

 

دلیل③

كُنَّا نَعْزِلُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

ہم(صحابہ کرام) نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے عہد مبارک میں عزل(شرمگاہ کے باہر فارغ ہونا)کیا کرتے تھے(اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار نہ دیا)

(بخاری حدیث5207)

.

دلیل④:

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْزَلَ عَنِ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا

ترجمہ:

نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے بیوی کے ساتھ عزل سے منع کیا مگر یہ کہ اسکی اجازت سے عزل کیا جائے

(ابن ماجہ حدیث1928)

.

دلیل① اور دلیل④ سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنا جنسی پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے، عورت کے اگلے مقام میں جماع کرنا چاہیے

اور

دلیل②کے اطلاق اور دلیل③کی صراحت سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے پورے جسم سے لطف اندوزی کی جاسکتی ہے، اپنا جنسی پانی ضائع کرنا جائز ہے لیھذا رانوں میں پستانوں میں جماع کرکے پانی ضائع کرنا، لطف اندوز ہونا جائز ہے

لیھذا

دونوں قسم کے دلائل پے عمل کرتے ہوئے علماء نے فرمایا کہ بلامقصد عام طور پر پانی ضائع کرنا ، رانوں میں، پستانوں میں جماع کرنا مکروہ تنزیہی ہے مگر گناہ نہیں اور اگر مقصد صحیح ہو مثلا حمل ٹہر جائے گا تو بچوں کی تربیت دیکھ بھال اچھے طریقے سے نہ کر پائیں گے یا عورت فالحال طبی لحاظ سے حمل کے لیے مناسب تیار نہیں یا حمل ہے اور اگلے مقام میں جماع سے تکلیف یا نقصان کا اندیشہ ہے تو ان صورتوں میں رانوں پستانوں وغیرہ میں جماع کرنا یا اپنی عورت کے ہاتھ سے مشت زنی کرنا مکروہ بھی نہ کہلائے گا

.

الحاصل:

جماع و لطف اندوزی کے مختلف طریقے جائز ہیں،بس خیال رہے کہ پچھلے مقام میں جماع جائز نہیں

الحدیث:

مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا

ترجمہ:لعنتی ہے وہ شخص جو اپنی عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے..(ابوداود حدیث2162)

.

پچھلے مقام میں جماع گناہ ہے مگر اگر کر لیا تو اس سے نکاح نہیں ٹوٹتا، اسی طرح اپنی عورت کے پستان منہ میں لینے چوسنے سے دودھ منہ میں آجائے تو باہر تھوک دے کہ پینا حرام ہے مگر پی لیا تو اگرچہ گناہ ہے مگر نکاح نہیں ٹوٹے گا(دیکھیے بہار شریعت حصہ7 ص42 وغیرہ)

.

دلیل⑤قرآن و حدیث سے:

اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّهُ يُبَاحُ لِكُلٍّ مِنَ الزَّوْجَيْنِ النَّظَرُ إِلَى جَمِيعِ بَدَنِ صَاحِبِهِ بِدُونِ كَرَاهَةٍ سِوَى الْفَرْجِ وَالدُّبُرِ، سَوَاءٌ أَكَانَ النَّظَرُ بِشَهْوَةٍ أَمْ بِغَيْرِهَا، مَادَامَتِ الزَّوْجِيَّةُ قَائِمَةً بَيْنَهُمَا، وَاخْتَلَفُوا فِي حُكْمِ نَظَرِ الْوَاحِدِ مِنْهُمَا إِلَى فَرْجِ الآْخَرِ أَوْ دُبُرِهِ فَذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ فِي الْمَذْهَبِ إِلَى إِبَاحَةِ ذَلِكَ، وَأَنَّهُ يَحِل لِكُلٍّ مِنْهُمَا النَّظَرُ إِلَى جَمِيعِ بَدَنِ الآْخَرِ، وَلاَ يُسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ أَيُّ عُضْوٍ، وَاسْتَدَلُّوا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ… فَاسْتَثْنَى سُبْحَانَهُ مِنَ الأَْمْرِ بِحِفْظِ الْفُرُوجِ، الزَّوْجَاتِ وَالْمَمْلُوكَاتِ، وَيَدْخُل فِي ذَلِكَ الاِسْتِمْتَاعُ بِجَمِيعِ أَنْوَاعِهِ، وَلاَ خِلاَفَ فِي دُخُول الْمَسِّ وَالْوَطْءِ فِي هَذَا الاِسْتِثْنَاءِ، فَكَذَلِكَ النَّظَرُ مِنْ بَابِ أَوْلَى وَاسْتَدَلُّوا بِمَا وَرَدَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قُلْتُ: يَا رَسُول اللَّهِ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ؟ قَال: احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلاَّ مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ

خلاصہ:

سورہ المومنون آیت5,6 اور ترمذی حدیث2769 سے فقہاء احناف اور فقہاء مالکیہ نے دلیل پکڑی کہ مرد اپنی عورت اور عورت اپنے مرد کے سارے جسم و شرمگاہ کی طرف دیکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں،مختلف جائز طریقوں سے لذت و لطف اندوزی حاصل کرسکتے ہیں(سوائے اس کے کہ پچھلے مقام میں جماع کرنا جائز نہیں کہ حدیث پاک میں اس عمل پے لعنت آئی ہے)

(الموسوعة الفقهية الكويتية ,40/363)

.

*#حمل میں جماع کا اچھا طریقہ*

حمل کے دوران نقصان سے بچنے کے لیے جماع کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ دائیں یا بائیں کروٹ پے عورت کو سلایا جائے اور مرد پیچھے کی طرف سے اگلی شرمگاہ میں دخول کرے اس طرح مرد کے عضو خاص کا تھوڑا حصہ عورت کی شرمگاہ میں جائے گا تو نقصان کا خدشہ کم سے کم ہوگا اور کام بھی پورا ہوجائے گا

(پڑہیے ازدواجی خوشیاں ص189)

.

*#حالت حیض(ماہواری)کا حکم الگ ہے*

الحدیث:

أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا يَحِلُّ لِي مِنِ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ ؟ قَالَ : ” لَكَ مَا فَوْقَ الْإِزَارِ “. وَذَكَرَ مُؤَاكَلَةَ الْحَائِضِ أَيْضًا

عرض کی یا رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عورت جب حیض،ماہواری کی حالت میں ہو تو کیا جائز ہے؟ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ عورت(ناف سے گھٹنے یا پاوں تک)ازار(یا شلوار)باندھے پھر تمھارے لیے حلال ہے اور یہ بھی ذکر فرمایا کہ حیض ماہواری میں اس کے ساتھ اکھٹے کھانا کھانا جائز(بلکہ سنت)ہے

(ابوداود حدیث212)

مذکورہ حدیث پاک سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں

①حیض،ماہواری میں ازار یا شلوار عورت باندھے پھر شلوار کے اوپر رگڑنا یا پستانوں میں رگڑنا یا رانوں میں رگڑنا، بوس و کنار کرنا ، پیار و مباشرت کرنا جائز ہے

②حیض، ماہواری کی حالت میں عورت کو ناپاک سمجھ کر الگ سلانا ، اکھٹے نہ کھانا ، برتن الگ کرنا ، کھانا پکانے سے روکنا وغیرہ جاہلیت کی باتیں ہیں….اسلام میں ایسا کچھ نہیں…حیض ماہواری کی حالت میں اکھٹے سونا، اکھٹے کھانا، کھانا پکانا ، پیار و مباشرت بوس و کنار کرنا جائز ہے بلکہ اچھی نیت ہو تو ثواب ہے

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہﷺاعلم بالصواب

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574