متحدہ اپوزیشن کی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف

افتخار الحسن رضوی

شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم پہلی تقریر بہت معنی خیز تھی۔ وہ مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے، تقریر لکھ کر، نشان لگا کر اور مخصوص نکات پر مکمل وضاحت کے ساتھ انہوں نے بات چیت کی۔ مراعات کا اعلان خوشگوار ہے، وہ الگ بات کے خزانہ نہ صرف خالی ہے بلکہ منفی میں چل رہا ہے لیکن اس انتخاب سے ملک میں جاری سیاسی، عسکری اور آئینی بحران تھم گیا ہے اور اس سب کا بوجھ خزانے پر ہی جانے والا ہے۔ شہباز شریف کے مسلم ممالک کے ساتھ ُقریبی’ اور خاص تعلقات ہیں، اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ واجب الاداء قرضے موخر کر دیے جائیں، ڈالر سستا ہو جائے اور وقتی معاشی استحکام آ جائے۔

شہباز شریف کی ترجیحات میں سی پیک شامل رہے گا کہ اس پر سب سے زیادہ کام ن لیگ ہی کا ہے، اگر آپ کو یاد ہو تو نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت یعنی سال ۱۹۹۷۔۱۹۹۸ میں احسن اقبال ۲۰۱۰ ترقیاتی پروگرام کے سربراہ تھے، وہی احسن اقبال سی پیک کے سربراہ بنے، لہٰذا انہیں یہ سب نئے سرے سے کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ پہلے سے جاری منصوبے کو عروج پر پہنچانے کی کوشش ضرور کریں گے۔

روشن ڈیجیٹل اکاونٹ دو حصوں میں بٹ جائے گا، بلاد عرب میں مقیم مزدور طبقہ بہر صورت رقوم پاکستان منتقل کرے گا کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور نہ ہی عرب ممالک مستقل سکونت یا پاسپورٹ دیتے ہیں، تاہم یورپ اور دیگر جمہوری ممالک میں مقیم پاکستان اپنی انویسٹمنٹ نکال لیں گے۔ یورپی ممالک میں مقیم سرمایہ کار پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان کی حامی ہے اور وہ شریف خاندان کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا صحت کارڈ، روشن ڈیجیٹل اکاونٹ جیسے متعدد پروجیکٹس بند ہو جائیں گے یا خسارے میں جائیں گے۔

شہباز شریف ایک کمزور اور بندھے ہاتھوں والے وزیر اعظم ہوں گے کیونکہ انہیں ہر صبح و شام میں متعدد ساسیں، داماد اور بہوئیں راضی کرنی ہوں گی، ایم کیو ایم نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کر دی ہے، وزارتوں میں انہیں تقسیم و توازن کا ماحول سازگار رکھنا ہو گا اور یہ سب سیاسی رشوت کی مثالیں ہیں۔ زرداری صاحب کم از کم وقت میں بھرپور ہونجا پھیریں گے، اور زرداری مذہب میں ہونجا پھیرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی سیاست میں ہونجا بطور راس المال شامل ہوتا ہے۔ پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت ایم کیو ایم کی مجبوری، ضرورت بلکہ وہ ان کا اے ٹی ایم ہے اور یہ سہولت انہیں پرویز مشرف نے دی تھی، اس سے وہ کسی صورت دستبردار نہیں ہونا چاہیں گے۔ فضل الرحمٰن اینڈ کمپنی کا کاسہ بہت گہرا اور چوڑا ہے، پنجابی میں اسی منہ چوئی تے ٹِڈ کھوئی کہتے ہیں لیکن یہاں منہ بھی بہت بڑا کھو ہے اور ٹِڈ تو ایک عدد آگ کا دریا ہے جس میں ڈوبے بغیر شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کامیاب نہیں ہو گی لیکن اب کی بار انہوں نے ’’ تختر قے عائین قے طناظر میں صدرِ پاقسطان ’’ بننے کی خواہش پالی ہے، خدا کرے یہ فقط خواہش ہی ہو۔

پاکستانی سفارتی مشن میں شامل ایک اعلٰی افسر دوست تو یہاں تک کہتے سنے گئے کہ شہباز شریف کے علاوہ ایک اور صاحب کے سائز کی اچکن بھی تیار کروا رکھی ہے تاکہ مستقبل قریب میں بوقت ضرورت کام آئے۔

تو حاصل کلام یہ ہے کہ ’’رجؔو’’ غنڈوں میں باقاعدہ پھنس چکی ہے ، بعض دوستوں نے ’’رجؔو’’ کو ہڈی کا نام بھی دیا ہے لیکن روزے کی حالت میں ایسی تشبیہ دینا مناسب نہیں، خیر سانوں کی، رجو ہو یا ہڈی، دو چار دنوں کی بات ہے، بیچ چوراہے بھانڈا بھی پھوٹے ہی پھوٹے اور چیتھڑے تو ویسی ہی اڑیں گے جیسے ۲۳ مارچ کی پریڈ میں اپنے شہہ جوان پریڈ گراونڈ کے اوپر جہازوں سے رنگ اڑاتے ہیں۔

آخر ی بات یہ کہ ایک مزدور کے گھر میں چور گھسے، پورے گھر کی تلاشی لی، چھان مارا، سوائے آٹا دلیا چاول چینی اس گھر سے کچھ نہ ملا، گرمیوں کی راتیں تھیں، مزدور بے چارہ اپنی قمیص اتار کے کھلے آسمان تلے سو رہا تھا۔ چوروں نے پوچھا تیرے گھر میں کچھ نہیں؟ اس نے کہا یہ تار پر میری قمیص لٹکی ہوئی ہے، اس میں جو ہے لے جاو، چوروں کو اس کی جیب میں گیارہ روپے ملے، وقتِ رخصت چور نے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا کم بخت، اپنے بچوں کے لیے بھی کمایا کرو اور ہمارا حصہ بھی رکھا کرو۔ اخے متحدہ اپوزیشن کی حکومت بن گئی ہے اور پرانا پاکستان واپس آ گیا ہے۔ : )