امام ابو نعیم اصفہانی کا امام اعظم پرجروحات سے رجوع اور بطور ازالہ مسند ابی حنیفہؓ جمع کرنا!!!

تحریر :اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

s.yimg.com/aah/yhst-141393827066280/musnad-al-i...

 

امام ابو نعیمؒ اصفہانی ایک صوفی اصول میں اشعری اور فروع میں شافعی تھے

 

امام ذھبی انکا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

لإمام، الحافظ، الثقة، العلامة، شيخ الإسلام، أبو نعيم المهراني، الأصبهاني، الصوفي

امام حافظ ثقہ علامہ شیخ الاسلام ابو نعیم مھرانی اصفہانی صوفی ۔

 

انکے شیوخ میں امام طبرانی اور امام ابو احمد حاکم نیشاپوری جیسے حفاظ کے ساتھ ایک بہت بڑی تعداد ہے

اور انکے مشہور تلامذہ میں امام خطیب بغدادی ہیں اور کثیر تعداد ہے انکے تلامذہ کی ۔۔۔۔

امام ابو نعیم چونکہ اشعری شافعی تھے تو اصحاب الحدیث میں متعصب حنابلہ انکے بہت بڑے مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ امام خطیب بغدادی شافعی اشعری ہونے کے سبب اصحاب احمد بن حنبل سے منحرف تھے ۔

 

جیسا کہ امام ذھبی ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قال أبو طاهر السلفي: سمعت أبا العلاء محمد بن عبد الجبار الفرساني يقول:حضرت مجلس أبي بكر بن أبي علي الذكواني المعدل في صغري مع أبي، فلما فرغ من إملائه قال إنسان: من أراد أن يحضر مجلس أبي نعيم، فليقم.وكان أبو نعيم في ذلك الوقت مهجورا بسبب المذهب، وكان بين الأشعرية والحنابلة تعصب زائد يؤدي إلى فتنة، وقيل وقال، وصداع طويل، فقام إليه أصحاب الحديث بسكاكين الأقلام، وكاد الرجل يقتل .

امام ابو طاہر سلفی کہتے ہیں میں نےسنا ابو علاء فراسانی سے وہ کہتے ہیں : میں کم عمری مین اپنے والد کے ساتھ ابی بکر ابن علی زکوانی کی مجلس میں تھا جب اس نے املاء ختم کی تو ایک شخص نے کہا : جوبھی ابو نعیم صفھانی کی مجلس میں جانا چاہے اسکو جانے دیا جائے اور امام ابو نعیم تنہا کر دیے گئے تھے انکے مذہب (اشعری) کے سبب جو کہ تعصب تھا حنابلہ و اشاعرہ کے مابین ۔جو کہ ایک فتنے کی طرف لے گیا ۔ اور کہا گیا ہے وہ کہتے ہیں یہ ایک طویل سردردی تھی ۔تو اس شخص کے پاس اصحاب الحدیث آئے قلموں کی چھریاں لیکر اور انہوں نے اس شخص کو تقریبا قتل کر دیا

 

امام ذھبی ان حنبلی اصحاب الحدیث کی جہالت کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قلت: ما هؤلاء بأصحاب الحديث، بل فجرة جهلة، أبعد الله شرهم.

میں کہتا ہوں یہ کیسے اصحاب الحدیث تھے بلکہ احمق و جاہل کا گروح تھا ۔ اللہ انکے شرسے دور رکھے ۔

[سیر اعلام النبلاء برقم: ۳۰۵]

 

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو نعیم اصفہانی کے رجوع کا سبب یہ واقعات بھی ہو سکتے ہیں کہ انکو بھی یہ محسوس ہوا ہو کہ جس طرح اشعری ہونے کے سب متشدد حنابلہ جو قیاس و اجتہاد کے منکر اور جاہل لوگ تھے وہ ان سے اتنا بغض و حسد رکھ سکتے ہیں تو امام ابو حنیفہ کے ساتھ یہ کیوں نہیں ہو سکتا اصحاب الحدیث کی طرف سے ۔۔۔

تو امام ابو نعیم نے اپنے پہلے ادوار کی لکھی مشہور کتاب الحلیہ الاولیاء میں امام ابو حنیفہ سمیت انکے کسی اصحاب کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا بلکہ جہاں موقع ملا ان پر طعن نقل کیا اور اسی طرح اپنی دوسری کتاب الضعفاء میں امام ابو حنیفہ پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

النعمان بن ثابت أبو حنيفة مات ببغداد سنة خمسين ومائة قال بخلق القرآن واستتيب من كلامه الرديء غير مرة كثير الخطأ والأوهام

نعمان بن ثابت ابو حنیفہ جو بغداد میں ۱۵۰ھ میں فوت ہوئے یہ قرآن کو مخلوق کہتے ، اور ان سے توبہ کرائی گئی برے کلام سے بعد میں یہ کثیر غلطیاں کرنے والے تھے اور انکو اوھام واقع ہو جاتے ۔

[الضعفاء ابو نعیم برقم: 255]

 

لیکن اسکی تصریح نہیں مل سکی کہ یہ امام ابو حنیفہ کی تعظیم اور انکی فقاہت اور علمی جلالت کے قائل کس طرح ہوئے برحال انہوں نے جب مسند ابی حنیفہؓ لکھی تو انہوں نے امام اعظم کی مدح و توثیق اور مناقب بیان کیے اور کوئی جرح کا ایک لفظ بھی نہ لکھا

 

جیسا کہ وہ کتاب کے مقدمہ میں کہتے ہیں :

ما انتهي إلينا من مسانيد حديث الإمام أبي حنيفة النعمان بن الثابت الكوفي فقيه أهل العراق ومفتيهم رحمه الله تعالى.

ہم تک امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت جو کہ کوفہ و عراق کے فقیہ (مجتہد) ہیں اور صاحب فتویٰ ہیں انکی اسناد سے مسانید پہنچی ہیں اللہ کی ان پر رحمت ہو .

(نوٹ: امام ابو حنیفہؓ اگر امام ابو نعیم کے نزدیک قران کو مخلوق کہنے والے ہوتے اور اس مسلہ پر ان سے توبہ متعدد بار کرائی گئی ہوتے تو ایسے شخص کو کیسے فقیہ سمجھتے اور پھر ان کے لیے اللہ کی رحمت کی دعا کیسے کرتے ؟)

 

آگے امام ابو نعیم فرماتے ہیں :

وكان حينئذ يذكر عنه إقبالا على العبادة والصلاة الكثيرة، ثم أقبل على التفقه، فلزم حماد بن أبي سليمان، وضرباءه من أصحاب إبراهيم النخعي، فعلم علم الشريعة، وتفقه في أصول الأحكام.وكان ممن سلم له دقة النظر، وغوص الفكر، ولطف الحيل ولى القضاء للمنصور والصحيح أنه امتنع، وتوفي ببغداد ودفن بمقبرة الخيزرانية، وتقدم في الصلاة عليه الحسن بن عمارة النخعي الكوفي، وذلك سنة خمسين ومائة

اور انکو کثیر عباداتگزاری سے موصوف کیا گیا ہے ۔پھر انہوں نے تفقہ میں امام حماد بن ابی سلیمان کی صحبت کو اختیار کیا ۔ جو کہ امام ابراہیم النخعی کے نمایا تلامذہ میں سے تھے ۔ اور ان سے شریعت ، فقہ اور احکام کے اصول اخذ کیے (ابو حنیفہ نے)

اور ابو حنیفہؓ ان لوگوں سے سے ہیں جن کی دقت نظری ، فکر کی گہرائی ، اور حیلہ شرعی کی عمدگی تسلیم کی گئی ہے ۔ منصور بادشاہ کے زمانہ میں قضاء کے عہدے پر فائز کیے گئے ہیں ۔ اور صحیح یہ ہے کہ انہوں نے عہدہ قضاء قبول کرنے سے منع کر دیا تھا ۔ انکی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی ، ان کی تاریخ پیدائش ۸۰ھ ہے ۔

انکی کل عمر ۷۰ سال ہوئی ، اور امام ابو حنیفہ لوگوں کو اہل بیت سے محبت ، ان کی مدد اور انکی اتباع کی طرف پاتے تھے ۔

[مسند ابی حنیفہ بروایت ابو نیعم ص ۱۷]

 

اسکے بعد امام ابی نعیم نے امام ابو حنیفہ کے کثیر فضائل بیان کیے اور انکا شمار تابعین میں کیا ہے ، بطور نمونہ امام ابو نعیم کی نقل کردہ چند رمروایات نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی سند سے بیان کی ہیں :

حدثنا محمد بن إبراهيم بن علي، قال: سمعت حمزة بن علي، قال: سمعت حمزة بن علي البصري، يقول: سمعت الربيع يقول: سمعت الشافعي، يقول: الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه.

أخبرنا القاضي محمد بن عمر بن سلم، وأذن لي في الرواية عنه، حدثني إبراهيم بن محمد بن داود، ثنا إسحاق ابن بهلول، قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: ما مقلت عيني مثل أبي حنيفة.

امام ابن عیینہ کہتے ہیں میں نے ابو حنیفہ کی مثل نہیں دیکھا

 

حدثنا محمد بن إبراهيم، ثنا أبو عروبة الحراني يقول: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: إن كان أحدا ينبغي أن يقول برأيه، فأبو حنيفة ينبغي له أن يقول برأيه.

امام ابن مبارک کہتے ہیں کسی کو رائے سے کلام کرنے کی ضرورت ہے تو وہ امام ابو حنیفہ ہیں کہ وہ رائے سے کلام کریں (وسندہ صحیح)

 

حدثنا أبو عبد الله أحمد بن بندار، ثنا أبو بكر بن أبي عاصم، ثنا الحسن بن علي، ثنا نعيم بن حماد، قال: سمعت ابن المبارك يقول: سمعت أبا حنيفة، يقول: ما جاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقدم عليه أحد، وما جاء عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اخترنا.

امام ابن مبارک کہتے ہیں میں نے امام ابو حنیفہ سے سنا وہ کہتے ہیں جو رسولﷺ سے آجائے تو اس پر کسی کو مقدم نہیں کیا جائے اور جب اصحاب رسولﷺ سے مروایات آجائیں تو اس میں اختیار ہے ۔

(نوٹ اسکی سند کے سب رجال ثقہ ہیں سوائے نعیم بن حماد کے لیکن غیر مقلدین کے نزدیک یہ صدوق ہے تو انکے منہج پر یہ سند صحیح ہے ۔ نیز ہمارے نزدیک اس کی کثیر شواہد صحیح الاسناد موجود ہیں تو جس سے تقویت حاصل کرکے یہ ثابت ہے)

 

أخبرنا الحسين بن منصور إجازة، وحدثني عنه محمد بن إسحاق، ثنا محمد بن إسحاق، ثنا أحمد بن محمد بن علي، قال: سمعت يحيى بن معين، وذكر أبو حنيفة عنده، فقال: هو أنبل من أن يكذب.

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں : کہ امام ابو حنیفہ کا مقام اس سے کہیں بلند تھا کہ وہ غلط بیانی کرتے۔

(صحیح عن ابن معین)

 

اللہ کی رحمت ہو تمام فقھاء و محدثین اہلسنت پر

 

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

AsadTahawi.comامام ابو نعیم اصفہانی کا امام اعظم پرجروحات سے رجوع اور بطور ازالہ مسند ابی حنیفہؓ جمع کرنا!!!

تحریر :اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

امام ابو نعیمؒ اصفہانی ایک صوفی اصول میں اشعری اور فروع میں شافعی تھے

 

امام ذھبی انکا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

لإمام، الحافظ، الثقة، العلامة، شيخ الإسلام، أبو نعيم المهراني، الأصبهاني، الصوفي

امام حافظ ثقہ علامہ شیخ الاسلام ابو نعیم مھرانی اصفہانی صوفی ۔

 

انکے شیوخ میں امام طبرانی اور امام ابو احمد حاکم نیشاپوری جیسے حفاظ کے ساتھ ایک بہت بڑی تعداد ہے

اور انکے مشہور تلامذہ میں امام خطیب بغدادی ہیں اور کثیر تعداد ہے انکے تلامذہ کی ۔۔۔۔

امام ابو نعیم چونکہ اشعری شافعی تھے تو اصحاب الحدیث میں متعصب حنابلہ انکے بہت بڑے مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ امام خطیب بغدادی شافعی اشعری ہونے کے سبب اصحاب احمد بن حنبل سے منحرف تھے ۔

 

جیسا کہ امام ذھبی ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قال أبو طاهر السلفي: سمعت أبا العلاء محمد بن عبد الجبار الفرساني يقول:حضرت مجلس أبي بكر بن أبي علي الذكواني المعدل في صغري مع أبي، فلما فرغ من إملائه قال إنسان: من أراد أن يحضر مجلس أبي نعيم، فليقم.وكان أبو نعيم في ذلك الوقت مهجورا بسبب المذهب، وكان بين الأشعرية والحنابلة تعصب زائد يؤدي إلى فتنة، وقيل وقال، وصداع طويل، فقام إليه أصحاب الحديث بسكاكين الأقلام، وكاد الرجل يقتل .

امام ابو طاہر سلفی کہتے ہیں میں نےسنا ابو علاء فراسانی سے وہ کہتے ہیں : میں کم عمری مین اپنے والد کے ساتھ ابی بکر ابن علی زکوانی کی مجلس میں تھا جب اس نے املاء ختم کی تو ایک شخص نے کہا : جوبھی ابو نعیم صفھانی کی مجلس میں جانا چاہے اسکو جانے دیا جائے اور امام ابو نعیم تنہا کر دیے گئے تھے انکے مذہب (اشعری) کے سبب جو کہ تعصب تھا حنابلہ و اشاعرہ کے مابین ۔جو کہ ایک فتنے کی طرف لے گیا ۔ اور کہا گیا ہے وہ کہتے ہیں یہ ایک طویل سردردی تھی ۔تو اس شخص کے پاس اصحاب الحدیث آئے قلموں کی چھریاں لیکر اور انہوں نے اس شخص کو تقریبا قتل کر دیا

 

امام ذھبی ان حنبلی اصحاب الحدیث کی جہالت کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قلت: ما هؤلاء بأصحاب الحديث، بل فجرة جهلة، أبعد الله شرهم.

میں کہتا ہوں یہ کیسے اصحاب الحدیث تھے بلکہ احمق و جاہل کا گروح تھا ۔ اللہ انکے شرسے دور رکھے ۔

[سیر اعلام النبلاء برقم: ۳۰۵]

 

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو نعیم اصفہانی کے رجوع کا سبب یہ واقعات بھی ہو سکتے ہیں کہ انکو بھی یہ محسوس ہوا ہو کہ جس طرح اشعری ہونے کے سب متشدد حنابلہ جو قیاس و اجتہاد کے منکر اور جاہل لوگ تھے وہ ان سے اتنا بغض و حسد رکھ سکتے ہیں تو امام ابو حنیفہ کے ساتھ یہ کیوں نہیں ہو سکتا اصحاب الحدیث کی طرف سے ۔۔۔

تو امام ابو نعیم نے اپنے پہلے ادوار کی لکھی مشہور کتاب الحلیہ الاولیاء میں امام ابو حنیفہ سمیت انکے کسی اصحاب کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا بلکہ جہاں موقع ملا ان پر طعن نقل کیا اور اسی طرح اپنی دوسری کتاب الضعفاء میں امام ابو حنیفہ پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

النعمان بن ثابت أبو حنيفة مات ببغداد سنة خمسين ومائة قال بخلق القرآن واستتيب من كلامه الرديء غير مرة كثير الخطأ والأوهام

نعمان بن ثابت ابو حنیفہ جو بغداد میں ۱۵۰ھ میں فوت ہوئے یہ قرآن کو مخلوق کہتے ، اور ان سے توبہ کرائی گئی برے کلام سے بعد میں یہ کثیر غلطیاں کرنے والے تھے اور انکو اوھام واقع ہو جاتے ۔

[الضعفاء ابو نعیم برقم: 255]

 

لیکن اسکی تصریح نہیں مل سکی کہ یہ امام ابو حنیفہ کی تعظیم اور انکی فقاہت اور علمی جلالت کے قائل کس طرح ہوئے برحال انہوں نے جب مسند ابی حنیفہؓ لکھی تو انہوں نے امام اعظم کی مدح و توثیق اور مناقب بیان کیے اور کوئی جرح کا ایک لفظ بھی نہ لکھا

 

جیسا کہ وہ کتاب کے مقدمہ میں کہتے ہیں :

ما انتهي إلينا من مسانيد حديث الإمام أبي حنيفة النعمان بن الثابت الكوفي فقيه أهل العراق ومفتيهم رحمه الله تعالى.

ہم تک امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت جو کہ کوفہ و عراق کے فقیہ (مجتہد) ہیں اور صاحب فتویٰ ہیں انکی اسناد سے مسانید پہنچی ہیں اللہ کی ان پر رحمت ہو .

(نوٹ: امام ابو حنیفہؓ اگر امام ابو نعیم کے نزدیک قران کو مخلوق کہنے والے ہوتے اور اس مسلہ پر ان سے توبہ متعدد بار کرائی گئی ہوتے تو ایسے شخص کو کیسے فقیہ سمجھتے اور پھر ان کے لیے اللہ کی رحمت کی دعا کیسے کرتے ؟)

 

آگے امام ابو نعیم فرماتے ہیں :

وكان حينئذ يذكر عنه إقبالا على العبادة والصلاة الكثيرة، ثم أقبل على التفقه، فلزم حماد بن أبي سليمان، وضرباءه من أصحاب إبراهيم النخعي، فعلم علم الشريعة، وتفقه في أصول الأحكام.وكان ممن سلم له دقة النظر، وغوص الفكر، ولطف الحيل ولى القضاء للمنصور والصحيح أنه امتنع، وتوفي ببغداد ودفن بمقبرة الخيزرانية، وتقدم في الصلاة عليه الحسن بن عمارة النخعي الكوفي، وذلك سنة خمسين ومائة

اور انکو کثیر عباداتگزاری سے موصوف کیا گیا ہے ۔پھر انہوں نے تفقہ میں امام حماد بن ابی سلیمان کی صحبت کو اختیار کیا ۔ جو کہ امام ابراہیم النخعی کے نمایا تلامذہ میں سے تھے ۔ اور ان سے شریعت ، فقہ اور احکام کے اصول اخذ کیے (ابو حنیفہ نے)

اور ابو حنیفہؓ ان لوگوں سے سے ہیں جن کی دقت نظری ، فکر کی گہرائی ، اور حیلہ شرعی کی عمدگی تسلیم کی گئی ہے ۔ منصور بادشاہ کے زمانہ میں قضاء کے عہدے پر فائز کیے گئے ہیں ۔ اور صحیح یہ ہے کہ انہوں نے عہدہ قضاء قبول کرنے سے منع کر دیا تھا ۔ انکی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی ، ان کی تاریخ پیدائش ۸۰ھ ہے ۔

انکی کل عمر ۷۰ سال ہوئی ، اور امام ابو حنیفہ لوگوں کو اہل بیت سے محبت ، ان کی مدد اور انکی اتباع کی طرف پاتے تھے ۔

[مسند ابی حنیفہ بروایت ابو نیعم ص ۱۷]

 

اسکے بعد امام ابی نعیم نے امام ابو حنیفہ کے کثیر فضائل بیان کیے اور انکا شمار تابعین میں کیا ہے ، بطور نمونہ امام ابو نعیم کی نقل کردہ چند رمروایات نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی سند سے بیان کی ہیں :

حدثنا محمد بن إبراهيم بن علي، قال: سمعت حمزة بن علي، قال: سمعت حمزة بن علي البصري، يقول: سمعت الربيع يقول: سمعت الشافعي، يقول: الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه.

أخبرنا القاضي محمد بن عمر بن سلم، وأذن لي في الرواية عنه، حدثني إبراهيم بن محمد بن داود، ثنا إسحاق ابن بهلول، قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: ما مقلت عيني مثل أبي حنيفة.

امام ابن عیینہ کہتے ہیں میں نے ابو حنیفہ کی مثل نہیں دیکھا

 

حدثنا محمد بن إبراهيم، ثنا أبو عروبة الحراني يقول: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: إن كان أحدا ينبغي أن يقول برأيه، فأبو حنيفة ينبغي له أن يقول برأيه.

امام ابن مبارک کہتے ہیں کسی کو رائے سے کلام کرنے کی ضرورت ہے تو وہ امام ابو حنیفہ ہیں کہ وہ رائے سے کلام کریں (وسندہ صحیح)

 

حدثنا أبو عبد الله أحمد بن بندار، ثنا أبو بكر بن أبي عاصم، ثنا الحسن بن علي، ثنا نعيم بن حماد، قال: سمعت ابن المبارك يقول: سمعت أبا حنيفة، يقول: ما جاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقدم عليه أحد، وما جاء عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اخترنا.

امام ابن مبارک کہتے ہیں میں نے امام ابو حنیفہ سے سنا وہ کہتے ہیں جو رسولﷺ سے آجائے تو اس پر کسی کو مقدم نہیں کیا جائے اور جب اصحاب رسولﷺ سے مروایات آجائیں تو اس میں اختیار ہے ۔

(نوٹ اسکی سند کے سب رجال ثقہ ہیں سوائے نعیم بن حماد کے لیکن غیر مقلدین کے نزدیک یہ صدوق ہے تو انکے منہج پر یہ سند صحیح ہے ۔ نیز ہمارے نزدیک اس کی کثیر شواہد صحیح الاسناد موجود ہیں تو جس سے تقویت حاصل کرکے یہ ثابت ہے)

 

أخبرنا الحسين بن منصور إجازة، وحدثني عنه محمد بن إسحاق، ثنا محمد بن إسحاق، ثنا أحمد بن محمد بن علي، قال: سمعت يحيى بن معين، وذكر أبو حنيفة عنده، فقال: هو أنبل من أن يكذب.

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں : کہ امام ابو حنیفہ کا مقام اس سے کہیں بلند تھا کہ وہ غلط بیانی کرتے۔

(صحیح عن ابن معین)

 

اللہ کی رحمت ہو تمام فقھاء و محدثین اہلسنت پر

 

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

AsadTahawi.com