تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

(صحابہ و اہل بیت اور ہمارے رویے)

 

سچ پوچھیے تو صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کا معاملہ انتہائی حساس ہے.. آیات و احادیث شاہد ہیں کہ ایمانیات کا ان ہستیوں سے گہرا تعلق ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی آگاہ فرما دیا تھا کہ ان ہستیوں کے معاملے میں بہت سے لوگ ٹھوکر کھا جائیں گے اور ساتھ ہی اس کا بہترین حل بھی خود ہی ارشاد فرما دیا تھا.

اہل سنت و جماعت کے اسلاف و اکابر نے اس معاملے کو کانٹے کی تول کے ساتھ درست انداز میں آگے بڑھایا جو کہ نسل در نسل ہم میں متوارث چلا آ رہا ہے.

میں نے دیکھا ہے کہ صحابہ و اہل بیت کا معاملہ بالکل پل صراط جیسا ہے. کم ہی لوگ یہاں توازن برقرار رکھ سکتے ہیں جبکہ اکثر لوگ ڈگمگا جاتے ہیں.

 

اس وقت صحابہ و اہل بیت کے حوالے سے پانچ طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں.

 

1..ایک طبقہ صحابہ کرام کو سخت برا بھلا کہتا ہے اور اہل بیت سے محبت کا علم بردار ہے. اسے رافضی کہا جاتا ہے.

 

2..ایک طبقہ اہل بیت سے عداوت رکھتا ہے اور دفاع صحابہ کے جھنڈے اٹھائے پھرتا ہے. اسے ناصبی کہا جاتا ہے.

 

3..ایک طبقہ اہل بیت اور صحابہ دونوں کو ہی مانتا ہے لیکن اہل بیت سے کچھ اس طرح کی محبت کرتا ہے کہ ان کے فضائل تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور بڑھ چڑھ کے بیان کرتا ہے لیکن صحابہ کرام کے بارے میں غلط نظریات رکھنے والوں کو کچھ نہیں کہتا. اگر کوئی صحابہ کرام کو اول فول بکتا ہے تو یہ اوپر اوپر سے تو مذمت کرتا ہے لیکن دل ہی دل میں کمینی سی خوشی محسوس کرتا ہے. کبھی کبھی اشاروں کنایوں میں یہ صحابہ کرام پر طعن بھی کر جاتا ہے. اگر صحابہ کرام کی عظمت و شان کا تذکرہ ہو تو اسے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے جس کا اظہار وہ مختلف زاویوں اور طور طریقوں سے کرتا ہے،جسے اہل فہم ہی سمجھ سکتے ہیں. وہ صحابہ کا تذکرہ صرف فیس سیونگ کے لیے کرتا ہے.

اسے نیم رافضی کہا جاتا ہے.

 

4..ایک طبقہ اہل بیت اور صحابہ دونوں کو ہی مانتا ہے لیکن صحابہ کرام سے کچھ اس طرح کی محبت کرتا ہے کہ ان کے فضائل تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور بڑھ چڑھ کے بیان کرتا ہے لیکن اہل بیت کے بارے میں غلط نظریات رکھنے والوں کو کچھ نہیں کہتا. اگر کوئی اہل بیت کو اول فول بکتا ہے تو یہ اوپر اوپر سے تو مذمت کرتا ہے لیکن دل ہی دل میں کمینی سی خوشی محسوس کرتا ہے. کبھی کبھی اشاروں کنایوں میں یہ اہل بیت پر طعن بھی کر جاتا ہے. اگر اہل بیت کی عظمت و شان کا تذکرہ ہو تو اسے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے جس کا اظہار وہ مختلف زاویوں اور طور طریقوں سے کرتا ہے،جسے اہل فہم ہی سمجھ سکتے ہیں.

وہ اہل بیت کا تذکرہ صرف فیس سیونگ کے لیے کرتا ہے.

اس طبقے کو نیم ناصبی کہا جاتا ہے.

 

5..ایک طبقہ صحابہ و اہل بیت دونوں کے بارے میں کامل توازن رکھتا ہے، ان کا دل و جان سے احترام کرتا ہے اور شریعت کے عین مطابق ان کے بارے میں درست عقیدہ رکھتا ہے. اسے اہل سنت و جماعت کہا جاتا ہے.

 

نوٹ: اہل سنت میں چھپے نیم رافضیوں اور نیم ناصبیوں کی پہچان کے لیے ہم نے ایک ضابطہ لکھا تھا، اگر وہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو نیم رافضیت و نیم ناصبیت دونوں طشت از بام ہو جائیں . ضابطہ یہ ہے.

 

*اس وقت خاطی حد فاصل ہے…ایک غلط ذہنیت کے نزدیک خاطی کو خطا پہ کہنا نیم رافضیت اور سیدہ کائنات کو خطا پہ کہنا سنیت ہے…جبکہ اہل حق کے نزدیک خاطی کو خطاء پہ کہنا سنیت اور سیدہ کائنات کو خطا پہ کہنا نیم ناصبیت ہے….. رہ گئے نیم رافضی تو ان کے لیے کسوٹی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات ہے. جو ان کے ذکر سے منہ بنائے سمجھ لیں کہ نیم رافضی ہے*

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی رافضی و نیم رافضی خود کو رافضی نیم رافضی کہلانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ناصبی و نیم ناصبی خود کو ناصبی و نیم ناصبی کہلانا پسند کرتا ہے.

No photo description available.