تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

(افضلیت صدیق اکبر : قطعی اجماعی عقیدہ)

✍️(تمہیدی کلمات)
جمیع اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد شیخین یعنی حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما تمام انسانوں سے افضل ہیں. یہ عقیدہ قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس کا تعلق ضروریات اہل سنت سے ہے. اسلام میں سوئی کی نوک برابر بھی بعد از انبیاء حضرت صدیق اکبر سے کسی انسان کے افضل ہونے کی گنجائش نہیں ہے.
اس عقیدے سے انحراف کرنے والے لوگوں کو کسی بھی صورت اہل سنت ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جا سکتا. انہیں گم راہ، بد مذہب اور بد عقیدہ ہی سمجھا جائے گا.
اس وقت بعض حضرات کو اس بات پر شدید اصرار ہے کہ افضلیت صدیق اکبر کا عقیدہ قطعی اجماعی نہیں بلکہ یہ عقیدہ جمہور ہے.. جس کا مفاد یہ ہے کہ وہ تفضیل علی کے قائل کو بھی دائرہ سنیت میں داخل سمجھتے ہیں.. جبکہ “قائلین اجماع” تفضیلیہ کو دائرہ سنیت سے خارج سمجھتے ہیں.
دوسرے لفظوں میں جمہور کا قول کرنے والے حضرات اہل سنت میں تفضیل علی گنجائش باقی رکھنا چاہتے ہیں جبکہ قائلین اجماع اس دروازے کو کلیتا بند دیکھنا چاہتے ہیں.
جب ہم نے اس پر غور و فکر کیا اور جید ائمہ کی کتب کھنگالیں تو قائلین اجماع بر حق نظر آئے اور “قائلین مذہب جمہور” بالکل کمزور نظر آئے.
جمہور کے قول والے حضرات کا کل سرمایہ کچھ کمزور ترین روایات، چند غلط ترین استدلالات اور بعض مرجوح و مؤول حوالہ جات ہیں جو کسی بھی طور پر ایک عقل سلیم رکھنے والے دیانت دار شخص کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں.
اگرچہ قائلین مذہب جمہور اپنے باطل موقف پر رطب و یابس سے بھرپور کچھ ضخیم کتب بھی لکھ چکے ہیں لیکن یاد رہے کہ ایسی کتب خواہ لاکھوں کی تعداد میں کیوں نہ ہوں ان سے کوئی غلط نظریہ قطعا سند جواز حاصل نہیں کر سکتا. دیکھیے! وجود خدا کی نفی پر دہریوں نے کچھ کم کتابیں نہیں لکھیں ، اسی طرح ادیان باطلہ کے درست ہونے پر ان کے حاملین کی طرف سے دو چار نہیں لاکھوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن بایں ہمہ ان میں کسی بھی باطل و فاسد نظریے کو درست قرار دینے کی قطعا کوئی صلاحیت نہیں ہے.
اصل چیز دلیل کی قوت ہے نہ کہ کتب کی کثرت و ضخامت. اور اس لحاظ سے قائلین مذہب جمہور بالکل ہی بے دست و پا نظر آتے ہیں. ان کے دلائل سے کوئی عامی یا حجاب زدہ عالم یا عقیدت سے مغلوب شخص متاثر ہو جائے تو کچھ بڑی بات نہیں لیکن اصول دین، اصول شرع، اصول فقہ اور اصول اہل سنت پہ گہری نظر رکھنے والا کوئی ایک بھی شخص ان سے متاثر نہیں ہو سکتا.
تفضیل ابوبکر کو جمہور کا عقیدہ کہنے والے لوگ دراصل اسلام میں تفضیل علی کی گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں جو کہ شعوری یا لا شعوری طور پر ایک قطعی اجماعی عقیدے کے خلاف نہایت سنگین قسم کی سازش ہے،اگر خدانخواستہ یہ سازش کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ساری کی ساری سنیت کا زمیں بوس ہو جانا چند منٹوں کا کھیل ہے.
آئیے! ان تمہیدی کلمات کے بعد اب ہم عقیدہ افضلیت کے سو فیصد قطعی اجماعی ہونے پہ کلام کرتے ہیں.

✍️(اجماع کیا ہے؟)
سب سے پہلے تو یہ سمجھتے ہیں کہ اجماع کیا ہوتا ہے.
اصول فقہ کی معروف کتاب نور الانوار میں ہے:
وفی الشریعۃ اتفاق مجتہدین صالحین من امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی عصر واحد علی امر قولی او فعلی. ( نورالانوار)
(شرعا امت محمدیہ کے صالح مجتہدین کا عصر واحد میں کسی قولی یا فعلی مسئلے پر متفق ہو جانا اجماع کہلاتا ہے)
تفضیلیہ کا کہنا ہے کہ اگر افضلیت صدیق اکبر کا عقیدہ قطعی اجماعی ہوتا تو تفضیل علی کے قائل کو کافر قرار دیا جاتا لیکن علماء اہل سنت تفضیل علی کے قائل کو کافر نہیں کہتے.
تفضیلیہ کی یہ غیر عالمانہ بات سن کر اتنی حیرت ہوتی ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ، یہ لوگ تو اجماع کے متعلق ابتدائی بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتے.
یاد رکھیں کہ اجماع کی صرف ایک ہی قسم اور ایک ہی حکم نہیں ہے بلکہ اس کی تین قسمیں ہیں اور ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ حکم ہے.
اصول فقہ کی مشہور کتاب “توضیح تلویح” میں ہے:
“ثُمَّ الْإِجْمَاعُ عَلَى مَرَاتِبَ” فَالْأُولَى بِمَنْزِلَةِ الْآيَةِ وَالْخَبَرِ الْمُتَوَاتِرِ يَكْفُرُ جَاحِدُهُ..
وَالثَّانِيَةُ بِمَنْزِلَةِ الْخَبَرِ الْمَشْهُورِ يُضَلَّلُ جَاحِدُهُ..
وَالثَّالِثَةُ: لَا يُضَلَّلُ جَاحِدُهُ لِمَا فِيهِ مِنْ الِاخْتِلَافِ.
( اجماع کے تین مراتب ہیں. پہلا وہ اجماع جو آیت قرآن اور خبر متواتر کے قائم مقام ہے، اس کا منکر کافر ہوتا ہے..
دوسرا وہ اجماع جو خبر مشہور کے قائم مقام ہوتا ہے، اس کے منکر کو گم راہ قرار دیا جاتا ہے..
تیسرا وہ اجماع جس میں اختلاف ہوتا ہے، اس کے منکر کو گم راہ نہیں کہا جاتا)
پس معلوم ہوا کہ اجماع کی صرف ایک ہی قسم نہیں ہے کہ جس کا منکر کافر قرار پاتا ہے بلکہ ایسے اجماع بھی پائے جاتے ہیں جن کا منکر گم راہ و بد مذہب قرار دیا جاتا ہے. عقیدہ افضلیت کا تعلق جس اجماع سے ہے وہ اجماع کی دوسری قسم ہے.
یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ اجماع صرف متعلقہ علم و فن کے ماہرین کا ہی معتبر ہوتا ہے، جیسے مسائل فقہیہ میں فقہاء کا اجماع، مسائل کلامیہ میں متکلمین کا اجماع، مسائل تصوف میں صوفیہ کا اجماع.. وغیرہ

✍️(عقیدہ افضلیت کا تعلق علم کلام سے ہے)
یاد رہے کہ عقیدہ افضلیت کا تعلق علم کلام سے ہے.
اعلی حضرت مجدد ملت امام اہل سنت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
“بالجملہ مسئلہ افضلیت کا تعلق ہرگز بابِ فضائل سے نہیں کہ اس میں ضعیف حدیثیں بھی قابل قبول ہوں بلکہ مواقف و شرح مواقف ایسی کتب عقائد میں واضح لکھا ہے کہ مسئلہ افضلیت کا تعلق بابِ عقائد سے ہے جس میں صحیح آحاد (صحیح قرار دی جانے والی خبرِ واحد) روایتیں تک قابل قبول نہیں ( فتاوی رضویہ، مسہلا)

✍️(مسئلہ افضلیت کا تعلق ضروریات اہل سنت سے ہے)
مزید برآں عقیدہ افضلیت کا تعلق ضروریات اہل سنت سے ہے. آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ضروریات کیا چیز ہیں.
اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
”شریعت میں تسلیم کی جانے والی باتیں چارقسم کی ہوتی ہیں:
1..ضروریات دین:
ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی سے ہوتا ہے، جن میں نہ شبہ کی گنجائش، نہ تاویل کی راہ، اور ان کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔ (جیسے عقیدہ ختم نبوت)
2..ضروریات مذہب اہل سنت وجماعت:
ان کاثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں کچھ شبہ اورتاویل کا احتمال ہوتا ہے،اس لیے ان کا منکر کافر نہیں، بلکہ گم راہ، بد مذہب اور بد دین کہلاتا ہے۔ (جیسے عقیدہ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ)
3..ثابتات محکمہ:
ان کے ثبوت کے لیے دلیل ظنی کافی ہوتی ہے، بشرطیکہ جمہور علماء انہیں راجح قرار دیں اور مقابل نظریے کو نا قابل التفات قرار دیں.
ان کا حکم یہ ہے کہ معاملہ واضح ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی ان کا انکار کرے تو وہ خاطی و گناہ گار قرار دیا جائے گا .. ہاں البتہ وہ بد دین، گم راہ، کافر اور خارج از اسلام قرار نہیں دیا جائے گا.
4..ظنیات محتملہ:
ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنی بھی کافی ہے جس میں جانب مخالف کی بھی گنجائش موجود ہو۔. ان کے منکر کو صرف خاطی کہا جائے گا، گناہ گار کہنا بھی درست نہیں.
(فتاوی رضویہ، ملخصا و مسہلا)

✍️(مسئلہ افضلیت صدیق اکبر قطعی ہے)
قطعی سے مراد یہ ہے کہ یہ ایسے مضبوط ترین دلائل سے ثابت ہے جن میں بر عکس نظریے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں. ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کی قطعیت میں کچھ شبہ و تاویل کا احتمال ہے اس لیے اس عقیدے کے منکر کو کافر تو نہیں کہیں گے لیکن بد عقیدہ، بد مذہب، گم راہ، ضال اور مضل ضرور کہیں گے.
آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سے دلائل ہیں جن کی وجہ سے اس عقیدے کو قطعیت حاصل ہے.

✍️(قطعیت کا اولیں ماخذ : قرآن حکیم)
سب سے پہلے تو کتاب اللہ کی کئی آیات میں اشارۃ النص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( اور انبیاء کرام) کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت ہوتی ہے.
1..اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت صدیق اکبر کو اتقی قرار دیا اور دوسرے مقام پر فرمایا جو اتقی (سب سے بڑا متقی) ہوتا ہے وہی اکرم (سب سے افضل) ہوتا ہے.
2.. اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا : و لا یاتل اولو الفضل منکم ( تم میں فضیلت رکھنے والے قسم نہ اٹھائیں)
جب خود رب کائنات نے صدیق اکبر کو باقاعدہ فضیلت والا متعین فرما دیا، تو بات ہی ختم ہو گئی. یعنی فضیلت صدیق اکبر کا خاصہ بن گئی . یہ الفاظ اللہ تبارک و تعالی نے کسی اور صحابی کے لیے ارشاد نہیں فرمائے.
3.. اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ رسول اللہ کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ ملا کے کیا. اور بالکل اسی طرح کئی جگہ صدیق اکبر کا ذکر رسول اللہ کے ذکر کے ساتھ ملا کر کیا. مثلا
> والذی جاء بالصدق و صدق بہ..
> ولسوف یعطیک ربک فترضی اور ولسوف یرضی..
> محمد رسول اللہ و الذین معہ..
> اذ یقول لصاحبہ..
> ثانی اثنین اذ ھما فی الغار..
> لا تحزن ان اللہ معنا..
> الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ..
> فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین..
مذکورہ تمام آیات کریمہ میں سیدنا صدیق اکبر کا ذکر رسول اللہ کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہے. پس جیسے اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اللہ کا مرتبہ ہے اسی طرح رسول اللہ(و دیگر انبیاء) کے بعد صدیق اکبر کا مرتبہ ہے.
4..مزید بھی اشارتا تین آیات کریمہ میں صدیق اکبر کی افضلیت سامنے آ رہی ہے.
> لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل..
اس میں قبل از فتح انفاق و قتال میں صدیق اکبر کا کوئی ثانی نہیں.لہٰذا کوئی فضیلت میں ان کے برابر نہیں.
> و شاورھم فی الامر..
اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول پاک کو صحابہ کرام کے ساتھ مشورے کا امر فرمایا. رسول پاک نے اس پر یوں عمل فرمایا کہ جب بھی مشورہ فرماتے تو صدیق اکبر کو سب سے مقدم رکھتے. یہی تقدیم آپ کی افضلیت کی طرف مشیر ہے.
> و منہم سابق بالخیرات..
(ان صحابہ میں کچھ نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں) مفسرین نے لکھا کہ سابق بالخیرات کی خصوصیت صدیق اکبر میں سب سے بڑھ کر تھی. مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بھی حضرت صدیق اکبر کے وصال کے وقت اپنے خطبے میں ان کی اس خصوصیت کا بطور خاص ذکر فرمایا..( خطبہ آگے آ رہا ہے)

✍️( قطعیت کا دوسرا ماخذ : احادیث طیبہ)
اگر احادیث طیبہ میں غور و فکر کریں تو وہاں بھی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کی خوب خوب صراحتیں ملتی ہیں. حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ نے افضلیت صدیق پر کتاب لکھی. الطریقۃ الاحمدیہ فی حقیقۃ القطع بالافضلیۃ، اس میں آپ نے فضائل صدیق اکبر پر 652 احادیث بیان فرمائیں. ہم ذیل میں تبرکا چند احادیث تحریر کرتے ہیں.
1..رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں وہاں کسی دوسرے کا امامت کرانا کسی صورت درست نہیں.
2.. اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کو ابوبکر کے سوا کسی کی امامت قبول نہیں.
3.. ابوبکر کو میں مقدم نہیں رکھتا بلکہ خود اللہ تعالیٰ مقدم رکھتا ہے.
4.. اپنے مال اور صحبت کے حوالے سے مجھ (رسول اللہ) پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے.
5.. لوگوں میں سب سے زیادہ مجھے عائشہ اور ان کے والد محبوب ہیں.
6..فلاں بات پر میں،ابوبکر اور عمر ایمان رکھتے ہیں.
7.. میری امت میں ابوبکر سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے..
8..مجھ پر کسی کا بھی احسان تھا تو وہ میں نے چکا دیا ماسوائے ابوبکر کے، جن کا احسان اللہ تعالیٰ قیامت کے دن چائے گا.
9.. ابوبکر و عمر اہل جنت کے بڑی عمر والوں کے سردار ہیں.
10..لوگو! میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتدا کرنا.
11.. ایک مرتبہ رسول اللہ کے دائیں حضرت ابوبکر تھے اور بائیں حضرت عمر، فرمایا ہم قیامت کے دن بھی اسی طرح اٹھیں گے.
12.. زمین پر میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں.
13.. جتنا ابوبکر کے مال نے مجھے نفع دیا کسی کے مال نے نہیں دیا.
14.. حضرت حسان بن ثابت سے رسول اللہ نے حضرت ابوبکر کی مدح سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے کچھ اشعار پیش کیے جن میں کہا کہ ابوبکر رسول اللہ کے محبوب ہیں اور مخلوقات میں ان کے برابر کوئی نہیں، یہ سن کر رسول اللہ مسکرا دیے.
15.. عمر کی ستاروں جتنی سب نیکیاں ابوبکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں.
16.. میرے سمیت کسی بھی نبی کا کوئی صحابی ابوبکر کے ہم پلہ نہیں.
17.. جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ سے عرض کی کہ آپ کے بعد آپ کے بہترین فرد ابوبکر ہیں.
18.. ایک مرتبہ حضرت ابو درداء حضرت ابوبکر سے آگے چل رہے تھے، رسول اللہ نے تنبیہا فرمایا تم ایک ایسے شخص سے آگے چل رہے ہو کہ انبیاء کے بعد جس سے افضل شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا.
19.. شب معراج میں نے آسمانوں پر دیکھا، میرے نام کے ساتھ ابوبکر کا نام لکھا تھا.
20..اگر میں رب کے سواکسی کو خلیل چنتا تو ابوبکر کو چنتا.

✍️(قطعیت کا تیسرا ماخذ : اقوال صحابہ و ائمہ)
1..مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے عہد خلافت میں مسجد کوفہ میں منبر رسول پہ ارشاد فرمایا : لا اجد احدا فضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حدالمفتری (الاستیعاب)
یعنی اگر کسی نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی تو میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا.
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں : ان الفاظ سے صراحتا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ قطعی ہے، اس واسطے کہ شرعا امور ظنیہ میں سزا نہیں (فتاوی عزیزی)
2..امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہیں، تو آپ نے جواب دیا : ابوبکر صدیق اور پھر عمر فاروق۔
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:کیا یہ بھی کوئی شک والی بات ہے؟
(الصواعق المحرقۃ)
3..شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی ارشاد فرماتے ہیں: الاحادیث الدالۃ علی افضلیۃ الصدیق قد تواترت تواترا معنویا(فتح الباری)
(یعنی افضلیت صدیق اکبر پر جو احادیث دلالت کرتی ہیں وہ معنوی طور پر تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں)
اور سب جانتے ہیں کہ متواتر احادیث سے ثابت ہونے والا عقیدہ قطعی ہوتا ہے.
4..حضرت ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں : بےشک تفضیل ابوبکر قطعی ہے. (شرح فقہ اکبر)
5..شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے افضلیت صدیق اکبر پہ ایک مکمل کتاب لکھی.. “الطریقۃ الاحمدیہ فی حقیقۃ القطع بالافضلیۃ”
اس کتاب کا نام ہی اعلان کر رہا ہے کہ صدیق اکبر کی افضلیت قطعی ہے.
6..حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں : احادیث افضلیت حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں. (ازالۃ الخفاء)
7..امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
(حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے۔(مطلع القمرین)

✍️(قطعیت کا چوتھا ماخذ : فرامین مولا علی)
1..مولائے کائنات، حیدر کرار سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان تو آپ پڑھ آئے ہیں کہ جو مجھے شیخین پہ فضیلت دے گا میں اسے مفتری کی (80 کوڑے) سزا دوں گا.
2..جگرگوشۂ علیُّ المرتضیٰ حضرت محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ ارشاد فرمایا : ابوبکر ، میں نے پوچھا : پھر کون؟ ارشاد فرمایا : عمر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے ، اس لیے میں نے فورا کہا : حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں؟ آپ نے (بطور عجز و انکسار) ارشاد فرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔ (بخاری)
3..جب حضرت صدیق اکبر کا وصال ہوا تو اس موقع پر مولا علی نے ان کی شان میں ایک خطبہ دیا، آپ نے ارشاد فرمایا :
صدیق اکبر اسلام میں اول تھے ، ایمان میں سب سے بڑھ کر مخلص تھے ، یقین میں سب سے زیادہ پختہ تھے، خوف خدا میں سب سے بڑھ کر تھے ، سخاوت میں سب سے عظیم تر تھے ، رسول اللہ کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے ، مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ شفیق تھے ، اصحاب رسول کو سب سے زیادہ امان دینے والے تھے ، سب سے زیادہ رسول اللہ کی صحبت میں رہنے والے تھے ، مناقب میں سب سے افضل تھے ، بھلائیوں میں سب سے آگے، درجے میں سب بلند تھے، رسول اللہ کے سب سے زیادہ مقرب تھے ، اخلاق و سیرت میں سب سے زیادہ رسول اللہ کے مشابہ تھے ، حضور کے سب سے زیادہ معتمد تھے ، مرتبے میں سب سے بڑھ کر فضیلت والے تھے اور بارگاہ مصطفی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والے تھے … اللہ تعالیٰ اسلام کی طرف سے، رسول اسلام کی طرف سے اور تمام مسلمانوں کی طرف سے آپ کو بہترین جزا دے. (مسند البزار، مجمع الزوائد)
4..سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مسجد کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے علی الاعلان ارشاد فرمایا : خیر ھذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر ثم عمر.( تکمیل الایمان)
یعنی اس امت میں نبی پاک کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں… یہ روایت حضرت علی سے تواتر سے ثابت ہے.
5..حضرت ابو جحیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو جحیفہ ! رک جا،خیر تو ہے؟ کیا میں تجھے یہ نہ بتاؤں کہ رسول ﷲ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ ابو بکر و عمر ہیں اے ابو جحیفہ ! تجھ پر افسوس ہے میری محبت اور ابو بکر و عمر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور میرا بغض اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی۔ (تاریخ مدینہ و دمشق)

✍️(عقیدہ افضلیت پر اجماع امت کا بیان)
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ عقیدہ افضلیت اجماعی عقیدہ ہے جس پر جمیع صحابہ بشمول مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دنیا بھر میں پائے جانے والے جمیع اکابر و ائمہ اہل سنت کا چودہ صدیوں سے کامل اتفاق ہے. لیجیے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں .
1..امامِ بخاری ابن عمر سے روایت کرتے ہیں : ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے، ہم کہتے تھے ابوبکر سب سے افضل ہیں، ان کے بعد عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم.
طبرانی میں اس پر اضافہ ہے “فیسمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولا ینکرہ” یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے یہ سنتے تھے اور انکار نہیں فرماتے تھے.
اس روایت سے ایک تو افضلیت صدیق اکبر پہ اجماع صحابہ سامنے آیا اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عدم انکار کے سبب اس کی توثيق سامنے آئی.
اب اس سے بڑھ کر اجماع صحابہ کا اور کون سا ثبوت پیش کیا جائے.. دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا.
2..امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے تمام صحابہ سے افضل اور ان پہ مقدم ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں کیا۔(الاعتقاد)
3..امام نووی فرماتے ہیں: اہل سنت کا اتفاق ہے کہ صحابہ میں افضل ابوبکر ہیں پھر عمر۔ (شرح صحیح مسلم، نووی)
4..امام نووی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : اہل سنت کا اجماع ہے کہ مطلقاً سب صحابہ سے ابوبکر افضل ہیں، پھر عمر. (تہذیب الاسماء واللغات)
5..ابو منصور بغدادی فرماتے ہیں : ہمارے اصحاب کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ میں خلفائے اربعہ بالترتيب افضل ہیں. ( اصول الدین)
6..امام قسطلانی لکھتے ہیں:انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل البشر ابوبکر ہیں اور تحقیق سلف صالح نے ان کے افضل امت ہونے پر اجماع و اتفاق کیا ۔(ارشاد الساری شرح صحیح بخاری)
7..مزید امام قسطلانی لکھتے ہیں :
اہل سنت کے نزدیک بالاجماع ابو بکر سب سے افضل ہیں پھر عمر افضل ہیں. ( مواہب اللدنیہ)
8..امام غزالی لکھتے ہیں : صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ سب سے مقدم ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی (الاقتصاد فی الاعتقاد)
9.. علامہ عبد العزیز پرہاروی لکھتے ہیں : صوفیا کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے افضل ہیں ۔‘ (النبراس)
10..امام رازی لکھتے ہیں : افضلیت صدیق اکبر پر تمام مفسرین کا اجماع ہے (تفسیر کبیر)
11..علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: افضلیت صدیق اکبر پر اجماع ہے ( فتح الباری)
12..علامہ حافظ جلال الدین سیوطی نے افضلیت صدیق اکبر پر مکمّل کتاب لکھی “الحبل الوثیق فی نصرۃ الصدیق” اس میں آپ فرماتے ہیں : افضلیت صدیق اکبر کا عقیدہ اجماعی قطعی ہے، اس کا منکر خبیث ہے.
13..امام ذہبی لکھتے ہیں : عقیدہ افضلیت صدیق اکبر متواتر و قطعی ہے. اس کا منکر بدعتی خبیث منافق ہے. ( کتاب الکبائر)
14..حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں : صدیق اکبر اولین و آخرین اولیاء سے افضل ہیں، اس پر پوری امت کا اجماع ہے.. روا_فض کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں، سیدنا علی کو شیخین پہ فضیلت دینا اہل سنت و جماعت کے مذہب کے خلاف ہے( شرح فقہ اکبر)
15..علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں : افضلیت شیخین پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہے.(الصواعق المحرقۃ)
16..شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: تمام اکابر ائمہ نے افضلیت صدیق و فاروق کے باب میں اجماع نقل کیا ہے. (تکمیل الایمان)
17..اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام کے بعد حضرات خلفائے اربعہ تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت و عزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں پہنچتا…. پھر ان میں ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ،پھر عثمان غنی ، پھر مولا علی. ( فتاوی رضویہ)
18..شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی لکھتے ہیں : اس (افضلیت صدیق اکبر کے) اجماع کا منکر شذ فی النار کی وعید کے تحت ہے.

✍️(عقیدہ افضلیت : اکابر امت کا چودہ سو سالہ تاریخی ریکارڈ)
آپ اکابر اہل سنت کی عقائد وغیرہ علوم اسلامیہ کی جتنی مرضی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں، سبھی میں آپ کو افضلیت صدیق اکبر لکھی نظر آئے گی.
1..امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : من علامات السنۃ والجماعۃ تفضیل الشیخین ومحبۃ الختنین
اہل سنت کا شعار ابوبکر و عمر کی افضلیت اور عثمان و علی کی محبت ہے. ( تمہید ابو شکور سالمی)
2.. یہ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں، امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہیں، تو آپ نے جواب دیا : ابوبکر صدیق اور پھر عمر فاروق ۔. پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کیا یہ بھی کوئی شک والی بات ہے.(الصواعق المحرقۃ)
3..امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات بھی آپ پڑھ چکے : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے تمام صحابہ سے افضل اور ان پہ مقدم ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں کیا۔(الاعتقاد)
4..امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : ابوبکر سب سے افضل ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی.(السنۃللخلال)
5..حضور سیدنا غوث اعظم قدس سرہ فرماتے ہیں : سب صحابہ میں افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی. ( غنیۃ الطالبین)
6..امام طحاوی فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ کے بعد صدیق اکبر کے لیے خلافت اولیں طور پر ثابت مانتے ہیں، ہم آپ کو جمیع امت پر فضیلت دیتے ہیں اور سب پہ مقدم مانتے ہیں. ( عقیدہ طحاویہ)
7..شیخ اکبر محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں: خلفاء اربعہ کی ترتیب خلافت ہی ترتیب افضلیت ہے. ( فتوحات مکیہ)
8..مزید شیخ اکبر لکھتے ہیں : امت میں کوئی بھی شخص حضرت ابوبکر سے افضل نہیں ہے. ( فتوحات)
9..امام قرطبی لکھتے ہیں : صدیق اکبر تمام خلفاء سے افضل ہیں.(تفسیر قرطبی)
10..امام سخاوی لکھتے ہیں: صدیق اکبر کی افضلیت کا منکر اہل سنت سے خارج ہے. (فتح المغیث)
11..علامہ تفتازانی لکھتے ہیں: نبی پاک کے بعد افضل البشر صدیق اکبر ہیں پھر فاروق اعظم ہیں. (شرح عقائد)
12..امام ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں: افضلیت صدیق اکبر بر حق ہے. اس کے منکرین بدعتی ہیں، ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے. (فتح القدیر)
13.. امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں : صدیق اکبر کو سب صحابہ میں افضلیت حاصل ہے. اس کے منکر شیعہ اور معتزلہ ہیں. (الیواقیت والجواہر)
14..علامہ ابن حجر مکی نے عظمت ابوبکر و عمر اور مخالفین کے رد پر مکمل کتاب لکھی جس کا نام ہے “الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقہ”
15..علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں : افضلیت صدیق کا منکر تفضیلی راف_ضی ہے. اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے ( فتاویٰ شامی)
16.. حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے ( مکتوبات)
17..حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: چاروں خلفاء کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (تکمیل الایمان)
18..علامہ عبد العزیز پرہاروی لکھتے ہیں: علماء پر لازم ہے کہ مسئلہ افضلیت صدیق اکبر کو خصوصی اہمیت دیں.(النبراس)
19..حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس حوالے سے دو کتب تحریر فرمائیں ، قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین اور ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء.. آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم( تفہیمات الہیہ)
20..حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے رد تشیع میں پوری کتاب تحفہ اثنا عشریہ لکھی. اس میں آپ فرماتے ہیں : را_فضیہ کا تفضیلی فرقہ حضرت علی المرتضی کو تمام صحابہ سے افضل مانتا ہے.. یہ لوگ ابلیس لعین کے قریبی شاگرد ہیں.
21..حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: خلفائے اربعہ میں جو ترتیب خلافت کی ہے وہی فضیلت کی ہے (فتاوی مہریہ)
مزید آپ لکھتے ہیں : بعد از پیغمبر کوئی شخص ابوبکر سے افضل نہیں ( تصفیہ ما بین سنی و شیعہ)
22..اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے افضلیت صدیق اکبر سے متعلقہ موضوعات پر درج ذیل کتابیں لکھیں. مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین.. الزلال الانقی من بحر سبقۃ الاتقی.. غایۃ التحقیق فی امامۃ العلی والصدیق… دیگر بھی اس موضوع پر آپ کے بیسیوں فتاوی موجود ہیں.
23..عصر حاضر کے اکابر اہل سنت حضرت مفتی نعیم الدین مراد آبادی.. حضرت مفتی امجد علی اعظمی.. حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی.. حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی.. حضرت پیر کرم شاہ الازہری.. حضرت ابوابوالبرکات سید احمد قادری اور ان جیسے دیگر جملہ اکابر صدیق اکبر کی افضلیت پر متفق ہیں. اور اس عقیدے کے منکر کو گم راہ، بد دین اور خارج از اہل سنت قرار دیتے ہیں.
24..دنیا بھر کی تمام مساجد میں علماء کرام صدیوں سے جمعہ کے خطبوں میں یہ اعلان کرتے چلے آ رہے ہیں : افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ.
اگر اس سب کے بعد بھی لوگوں کو عقیدہ افضلیت قطعی اجماعی نظر نہیں آتا تو پھر یقیناً ان کی آنکھیں سو فیصد قابل علاج ہیں.

✍️( تفضیل علی اہل سنت کا نہیں روا_فض کا مذہب ہے)
1..امام قسطلانی فرماتے ہیں : شیعہ اور کثیر معتزلہ کا مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی افضل ہیں. (ارشاد الساری)
2..علامہ تفتازانی لکھتے ہیں : شیعہ اور جمہور معتزلہ کے نزدیک حضرت علی افضل ہیں (شرح مقاصد)
3..امام کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں : حضرت علی کو اصحاب ثلاثہ پر فضیلت دینے والا راف_ضی بدعتی ہے. (فتح القدیر)
4..ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں : شیعہ کا اطلاق اس فرقے پر ہوتا ہے جو تفضیل علی کا عقیدہ رکھتے ہیں (شرح الشفاء)
5..مولانا امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : جو شخص مولا علی کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کو صدیق یا فاروق رضی ﷲ عنہما سے افضل بتائے، گم راہ بدمذہب ہے۔… جیسا کہ آج کل سُنّی بننے والے تفضیلیے کہتے ہیں. ( بہار شریعت)
6..امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں : شیعہ اور کثیر معتزلہ کا مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی افضل ہیں (الیواقیت والجواہر)
7..اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جو وقت کے عظیم مجدد اور اجلہ علماء عرب و عجم کے نزدیک حق و باطل کو سمجھنے کی عظیم کسوٹی ہیں آپ تفضیلیہ کے متعلق درج ذیل کلمات ارشاد فرماتے ہیں :
شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے: جو افضلیت صدیق اکبر کا انکار کرے اس کا ایمان خطرے میں ہے…..اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت امام الاولیاء، مرجع العرفاء، امیر المومنین مولی المسلمین، سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ سے اکرم، افضل، اتم و اکمل ہیں، جو اس کا خلاف کرے اسے بدعتی، شیعی، راف_ضی مانتے ہیں…. تفضیلیہ اہلِ بدعت ہیں ان کی صحبت سے بچنا چاہیے، ان کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے… یہ گم راہ مخالفِ سنت ہیں….راف_ضیوں کے چھوٹے بھائی تفضیلیہ کی شامت، اسد اللہ الغالب کی بارگاہ سے اسّی کوڑوں کی سزا… افضلیت شیخین متواتر واجماعی ہے ، تفضیلیہ گم راہ ہیں… ان کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہیے…. ہم تفضیلیوں کے کافر ہونے کا قول نہیں کرتے لیکن اُن کا بدعتی ہونا ثابت ہے… راف_ضی اگر صرف تفضیلی ہو تو بد مذہب ہے اور اگر خلافتِ صدیق کا منکر ہو تو کافر ہے. ..جو شخص موذی بدمذہب ہو، مسجد میں آ کر نمازیوں کو تکلیف دیتا ہو، مثلاً راف_ضی، تفضیلی تو اسے مسجد سے روکنا ضرور واجب ہے…ایسے شیعہ لوگ جو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو شیخین پر فضیلت دیتے ہوں اگرچہ ان دونوں پر طعن نہ کرتے ہوں مثلاً فرقہ زیدیہ ، تو ان کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے…تفضیلیہ جو مولا علی کو شیخین سے افضل بتاتے ہیں ان کے پیچھے نماز بکراہت شدیدہ تحریمیہ مکروہ ہے کہ انھیں امام بنانا حرام، ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ اور جتنی پڑھی ہوں سب کا پھیرنا واجب…جس نے کسی فاسد العقیدہ بدمذہب بدعتی مثلاً تفضیلی یاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی کو برا جاننے والے کے پیچھے نماز پڑھی، عند التحقیق اس کی اقتداء بکراہت شدیدہ سخت مکروہ ہے۔.. جو کہے حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ کے برابر کسی صحابی کا رتبہ نہیں وہ اہل سنت سے خارج اور گم راہ فرقے تفضیلیہ میں داخل ہے جن کو ائمہ دین نے راف_ضیوں کا چھوٹا بھائی کہا ہے… جو مولا علی کو شیخین پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے، پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔
(اقتباسات از فتاوی رضویہ ملتقطا)

✍️(تفضیلیہ کے القاب)
چودہ صدیوں کے اکابر اہل سنت نے تفضیلیہ کو جن القاب سے نوازا ہے ان کا ملخص درج ذیل ہے:
ایمان خطرے میں .. خارج از اہل سنت.. راف_ضی.. جہنمی.. خبیث.. منافق.. بدبخت.. یزید کے ساتھی.. بدعتی.. بے دین.. لعنتی.. بے ایمان.. شیعہ.. معتزلہ.. امامت ممنوع.. جنازہ نا جائز.. روافض کے چھوٹے بھائی.. بد مذہب.. گم راہ.. مبتدع.. صحبت سے بچو.. مفتری.. فاسد العقیدہ.. مسجد میں نہ آنے دیا جائے.
ہمارے نزدیک تفضیلیہ اور مرزائیہ کا انداز ایک جیسا ہے .
> مرزائیہ عقیدہ ختم نبوت پر جس انداز سے ڈاکہ ڈالتے ہیں تفضیلیہ بالکل اسی طرح عقیدہ افضلیت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں. > مرزائیہ کے نزدیک نیا نبی مان لینے سے عقیدہ ختم نبوت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا اور بندہ مسلمان رہتا ہے جبکہ تفضیلیہ کے نزدیک مولا علی کو حضرت صدیق اکبر سے افضل مان لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور بندہ سنی رہتا ہے.
> مرزائیہ ضروریات دین پہ ڈاکہ ڈالنے کے مجرم ہیں جبکہ تفضیلیہ ضروریات اہل سنت پر ڈاکہ ڈالنے کے مجرم ہیں. پس جس طرح اسلام بچانے کے لیے مرزائیہ کا قلع قمع کرنا ضروری ہے اسی طرح اہل سنت کو بچانے کے لیے تفضیلیہ کا قلع قمع کرنا ضروری ہے.

✍️(تفضیلیہ کے بعض اعتراضات کا اصولی جواب)
تفضیلیہ لوگوں کو گم راہ کرنے کے لیے کبھی کہتے ہیں فلاں کتاب میں لکھا ہے بعض صحابہ حضرت علی کی افضلیت کے قائل تھے، کبھی امام رازی کی عبارت پیش کرتے ہیں، کبھی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی ایک دو عبارتیں اٹھا لاتے ہیں، کبھی ابن عبد البر کا سہارا لیتے ہیں. وغیرہ وغیرہ.
ان سب باتوں کا جواب یہ ہے کہ جب کسی عقیدے پر امت کا اجماع ہو جائے تو اس کو قبول کرنا فرض عین ہو جاتا ہے. پھر اگر اس کے خلاف حدیث صحیح بھی آ جائے تو قبول نہیں کی جائے گی ، پہلے تو اس کی تاویل کریں گے، اگر بالفرض تاویل نہیں ہو سکتی تو رد کر دیں گے.
اب خود سوچیے کہ جب اجماع کے مقابلے میں آنے والی حدیث صحیح بھی قابل قبول نہیں تو پھر اکا دکا بعض علماء کے اقوال کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے. شاذ روایات تو ہر مسئلے میں مل جاتی ہیں
مزید یہ کہ جو اقوال عام طور پر پیش کیے جاتے ہیں وہ کسی اور پس منظر میں کہے گئے ہوتے ہیں جنہیں تفضیلی اپنی کم عقلی کی وجہ سے اپنے باطل موقف کی دلیل بنائے پھرتے ہیں. بعض صحابہ کرام کے موقف یا اکابر کی چند عبارات جن سے بظاہر تفضیل علی ثابت ہوتی ہے، علماء کرام نے فرمایا کہ انہیں جزوی فضیلت پر محمول کیا جائے گا. یعنی مطلق افضلیت تو شیخین کو حاصل ہے لیکن بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جزوی طور پر ایسی فضیلتیں حاصل ہیں جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں. اور بالخصوص مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تو ایسی فضیلتیں شمار سے بھی باہر ہیں جو صرف انہیں کے ساتھ خاص ہیں،ان میں وہ یکتا و یگانہ ہیں.
مثلا وہ سیدہ کائنات سردار جنت کے زوج محترم ہیں، وہ جنتی جوانوں کے سردار حسنین کریمین کے والد گرامی ہیں، ان کے ہاتھوں پہ خیبر فتح ہوا، رسول اللہ نے انہیں اپنا بھائی قرار دیا، وہ اہل کساء میں شامل ہیں، انہیں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا اعزاز حاصل ہے، وہ جدھر ہو جائیں حق ادھر ہو جاتا ہے. ان کے نور نظر امام حسین نے کربلا میں لا زوال و بے مثال تاریخ رقم کی،وہ قیامت تک آنے والے جملہ سادات کے جد امجد ہیں، وہ سلاسل ولایت کے امام ہیں، جس کو بھی ولایت کا تاج ملتا ہے ان کے مبارک ہاتھوں سے ملتا ہے، امام مہدی ان کی حسنی اولاد سے ہوں گے اور سیدنا عیسی علیہ السلام ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے. وغیرہ وغیرہ وغیرہ، لا تعداد خصائص و فضائل.

مُرتَضیٰ شیرِ حق اَشجع الاشجَعیں
ساقیِ شِیر و شربت پہ لاکھوں سلام
اصلِ نسلِ صفا وجہِ وَصلِ خدا
بابِ فصلِ وِلایت پہ لاکھوں سلام
اوّلیں دافِعِ اہلِ رَفْض و خُروج
چارُمی رکنِ ملت پہ لاکھوں سلام
شیرِ شمشیر زَن شاہِ خَیبر شِکَن
پَرتَوِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
ماحیِ رفض و تَفْضِیل و نَصب و خُروج
حامیِ دین و سنت پہ لاکھوں سلام

✍️خلاصہ کلام:
چودہ صدیوں سے اہل سنت کے متکلمین، مفسرین، محدثین، صالحین مجتہدین مجددین اور اکابرین تواتر کے ساتھ جن متفقہ عقائد کا بیان کرتے چلے آ رہے ہیں ان سے سوئی کی نوک برابر انحراف بھی بندے کے لیے سخت ضرر رساں ہے. عقیدہ افضلیتِ صدیق و فاروق قطعی اجماعی عقیدہ ہے، یہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے. مسلک حق اہل سنت میں تفضیل علی کی سوئی کی نوک برابر گنجائش نہیں. تفضیل رفض کا زینہ ہے، اس وقت تفضیل علی کا فتنہ اہل سنت میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، اس کا سد باب فرض کا درجہ رکھتا ہے. ہماری یہ تحریر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. اللہ تبارک و تعالی بوسیلہ مصطفی اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور نافع خلائق بنائے.
نوٹ : ہمیں احساس ہے کہ ہماری یہ تحریر بعض حضرات کے لیے تشویش کا باعث ہو گی . لیکن ہمارا مطمح نظر وہی ہے جس کا وقت کے عظیم مجدد نے اس شعر میں ذکر فرمایا تھا :
نہ مرا نوش زتحسیں ،نہ مرا نیش زطعن
نہ مرا گوش بمدحے ،نہ مرا ہوش ذمے

ادنی نوکر پنجتن پاک و سادات کرام
عون محمد سعیدی مصطفوی
جامعہ نظام مصطفی بہاولپور