4- قال ابن شهاب وأخبرني أبو سلمة بن عبدالرحمن، أن جابر بن عبد الله الانصارى قال وهو يحدث عن فترة الوحي، فقال في حديثه بينا انا امشی اذ سمعت صوتا من السماء ، فرفعت بصرى فإذا الملك الذي جاءنی بحراء جالس علی کرسي بين السماء والأرض، فرعبت منه فرجعت فقلت زملوني فأنزل الله تعالى(ياایها المدثر Oقم فانزر Oوربك فکبر Oوثیابک فطهرOوالرجز فاهجرO( المدثر 1-5) فحمی الوحى و تتابع

تابعہ عبد الله بن يوسف و ابو صالح وتابعه هلال بن رداد عن الزهري . وقال یونس ومعمر بوادرہ (الاطراف الحدیث:3238- 4922- 4924 -4925۔ ۴۹۲۶ – ۴۹۵۴ – ۶۲۱۴]

صحیح مسلم:161، سنن ترمذی :3325، سنن الکبری للنسائی :11631)

ابن شہاب نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے مجھے خبر دی کہ حضرت جابر بن عبد الله انصاری رضی اللہ عنہما وحی کے رکنے کا حال بیان کر رہے تھے انہوں نے کہا: جس وقت میں جارہا تھا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ تھا جو میرے پاس حراء میں آیا تھا وہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پربیٹھا ہوا تھا ،میں اس سے مرعوب ہو کر لوٹ آیا، میں نے کہا: مجھے چادر اڑھاؤ، پھر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل میں : “اے چادر اوڑھنے والےO اٹھیے پس لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے O اور اپنے رب کی کبریائی بیان کیجیےO اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے O اور بتوں کے ترک پر قائم رہیےO‘‘ (المدثر1-5) پھر به کثرت وحی کا نزول ہوا اور لگاتار وحی آنے لگی۔

عبد اللہ بن یوسف اور ابوصالح نے (لیث سے روایت میں) یحیی بن بکیر کی متابعت کی اور ھلال بن رداد نے (ابن شہاب) زہری سے روایت میں عقیل کی متابعت کی اور یونس اور معمر نے “آپ کا دل کپکپا رہا تھا کی بجائے کہا ہے: “آپ کے کندھوں کے درمیان گوشت کپکپارہا تھا۔

صحیح البخاری: 4 کے رجال کا تعارف

(1) اس حدیث کے پہلے راوی ہیں ابن شہاب اور وہ محمد بن مسلم الزہری ہیں، ان کا تعارف صحیح البخاری : ۳ کے رجال میں ہوچکا ہے

(۲)اس حدیث کے دوسرے راوی میں ابوسلمہ ان کا نام عبد الله یا اسماعیل ہے اور ان کی کنیت ابن عبد الرحمن بن عوف ہے اور حضرت عبد الرحمان بن عوف ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی بشارت دی گئی،یہ قرشی مدنی تابعی ہیں یہ سات فقہاء مدینہ میں سے ایک ہیں یہ72 سال کی عمر گزار کر الولید بن عبد الملک کے زمانہ میں ۹۴ھ میں فوت ہوۓ

(۳) اس حدیث کے تیسرے راوی حضرت جابر بن عبد الله انصاری میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 1540 احادیث روایت کی ہیں، امام بخاری اور امام مسلم نے ان میں ت 210 احادیث روایت کی ہیں ان میں 58 احادیث پر دونوں متفق ہیں 26 احادیث کے ساتھ امام بخاری منفرد ہیں اور 126 احادیث کے ساتھ امام مسلم منفرد ہیں یہ 94 سال کی عمر میں مدینہ میں فوت ہوگئے تھے وفات سے پہلے نابینا ہوگئے تھے ان کی وفات 74ھ – یا 78ھ-یا 79ھ میں ہوئی یہ آخری صحابی تھے جو مدینہ میں فوت ہوئے صحابہ میں جابر بن عبداللہ نام کے تین اشخاص ہیں : ایک یہ ہیں ،دوسرے جابر بن عبداللہ بن رباب بن نعمان ہیں، تیسرے جابر بن عبد الله الراسبی ہیں اور صحابہ میں صرف جابر نام کے چوبیس افراد ہیں ۔ (عمدة القاری ج 1 ص 117)

حدیث مذکور کی فنی حیثیت

علامہ کرمانی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند کے اول راویوں کا ذکر نہیں ہے اور اس کی سند کو ابن شہاب زہری سے شروع کیا ہے اور جس حدیث کی سند کے اول حصہ کو ذکر نہ کیا جائے اس کوتعلیق کہا جاتا ہے اور امام بخاری اس تعلیق کو ذکر کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک مسند ہو یا تو اس کی سند پہلے گزر چکی ہے جیسے انہوں نے حدیث نمبر ۳ کے شروع میں کہا ہے : ہمیں یحیی بن بکیر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں لیث نے حدیث بیان کی، انہوں نے عقیل سے روایت کی، پھر کہا: ابن شہاب زہری نے کہا: اور یا اس کی کوئی اور سند ہے جس کو کسی ایسی غرض سے ترک کر دیا جو تعلیق کی اغراض ہوتی ہیں مثلا یہ کہ وہ ثقات کے نزدیک معروف ہے یا اس وجہ سے کہ اس کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے یا اس طرح کی اور کوئی وجہ حافظ ابن حجر نے کہا: جس کا یہ زعم ہے کہ یہ سند معلق ہے اس نے خطا کی ۔ میں کہتا ہوں کہ حافظ نے اس سے علامہ کرمانی پر تعریض کی ہے حالانکہ تعریض کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کی سند به ظاہر صورتہ معلق ہے اگرچہ دوسری جگہ یہ حدیث مسند ہے کیونکہ یہ حدیث ” کتاب الادب” میں اور “کتاب االتفسیر” میں مذکور ہے اور وہاں اس حدیث کی پوری سند ذکر کی گئی ہے۔ (عمدة القاری ج 1 ص 117-118 دارالکتب العلمیہ بیروت 1421ھ)

انقطاع وحی کی مدت کی تحقیق

اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت جابر فترت وحی کا حال بیان کر رہے تھے، فترت کا معنی ہے: انقطاع وحی کا زمانہ چونکہ پہلی وحی کے موقع پر آپ کو سخت گھبراہٹ اور وحشت ہوئی تھی تو آپ کو وحی سے مانوس کرنے کے لیے اور آپ کو وحی کا اشتیاق دلانے کے لے کچھ عرصہ آپ پر وحی کا نزول روک لیا گیا تھا، اس مدت کے بیان میں محدثین کے حسب ذیل اقوال ہیں:

علامہ بدرالدین محمد بن بہادر الزرکشی المتوفی 794ھ لکھتے ہیں:

یه مدت اڑھائی سال تھی اور امام ابن اسحاق نے کہا ہے : یہ مدت تین سال تھی۔

(التنقیح لالفاظ الجامع الصحيح ج 1 ص 30 دارالکتب العلمیہ بیروت 1424ھ)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ھ لکھتے ہیں:

امام احمد بن حنبل نے اپنی “تاریخ” میں شعبی سے روایت کیا کہ انقطاع وحی کی مدت تین سال تھی اور اسی پر امام ابن اسحاق کا جزم ہے۔ (التوشح على الجامع الصحيح ج 1 ص 76 دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420ھ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852ھ نے فترت الوحی سے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے:

” تاریخ احمد بن حنبل ” میں شعبی سے روایت ہے کہ انقطاع وحی کی مدت تین سال تھی اور اسی پر امام ابن اسحاق کو اعتماد ہے اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ آپ کی ابتداء نبوت میں سچے خواب دیکھنے کی مدت چھ ماہ تھی، اس بناء پر آپ کی ولادت کے ماہ ربیع الاول سے چالیس سال پورے ہونے کے بعد سچے خوابوں سے آپ کی نبوت کی ابتداء ہوئی اور بیداری میں وحی کی ابتداء رمضان میں ہوئی اور فترت وحی کی تین سالہ مدت جو اقراء باسم ربك ‘‘اور “یاایها المدثر ‘‘کے نزول کا درمیانی عرصہ ہے، اس مدت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس دوران آپ کے پاس جبریل امین نہیں آتے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اقراء کے بعد تین سال تک قرآن نازل نہیں ہوا اور اس کے تین سال بعد سورة يايها المدثر نازل ہوئی ۔ “تاریخ احمد بن حنبل ” میں شعبی سے روایت ہے چالیس سال کی عمر میں آپ پر نبوت نازل ہوئی ،پھر تین سال تک اسرافیل آپ کی نبوت کے ساتھ رہے اور ان کی زبان سے آپ پر قرآن نازل نہیں ہوا، اور وہ آپ کو تعلیم دیتے رہے اور جب تین سال پورے ہوگئے تو جبریل آپ کے ساتھ رہے پھر ان کی زبان سے بیس سال تک آپ پرقرآن نازل ہوتارہا علامہ سہیلی نے کہا ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ انقطاع وحی کی مدت اڑھائی سال ہے اور بعض روایات میں ہے کہ انقطاع وحی کی مدت چھ ماہ ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: انقطاع وحی کی مدت چند ایام ہے،اس کی مفصل بحث ان شاءاللہ “کتاب تعبیر “میں آئے گی ۔ (فتح الباری ج 1 ص 506 دارالمعرفہ بیروت 1426ھ)

مشکل الفاظ کے معانی

اس حدیث میں” کرسی‘‘ کا لفظ ہے اس کی جمع” کراسی‘‘ ہے الماوردی نے کہا: کرسی‘‘ کا اصل معنی علم ہے اس لیے جس صحیفہ میں علم کی باتیں لکھی ہوئی ہوں اس کو “کراسة‘‘ کہا جاتا ہے زمخشری نے کہا “کرسی‘‘وہ چیز ہے جس پر بیٹھا جاتا ہے نیز اس میں “رعب‘‘ کا لفظ ہے اس کا معنی ہے: خوف، مرعوب ہونے کا معنی ہے : خوف زدہ ہونا “المدثر “ کا معنی ہے: چادر لپیٹنے والے عکرمہ نے کہا: اس کا معنی ہے: نبوت کی چادر لپیٹنے والے المدثر:۲ میں فرمایا: “ قم فاندر” اس کا معنی ہے : جولوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے ان کو عذاب سے ڈرائیے اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو بشارت دینے والے بھی ہیں اور ڈرانے والے بھی ہیں اس آیت میں صرف ڈرانے پر اقتصار کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بشارت اس کے لیے ہوتی ہے جو اسلام میں داخل ہو جائے اس وقت تک لوگ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے المدثر: ۳ میں فرمایا: “وربك فكبر” اس کا معنی ہے : الله کی تنظیم کیجئے اور جوصفات اللہ تعالی کی شان کے لائق نہیں ہیں ان سے اللہ تعالی کی برا ءت بیان کیجیے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز کی تکبیر ہے المدثر: 4 میں فرمایا: “وثيابك فطهر “ اس کا معنی ہے : اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک رکھیے ایک قول یہ ہے کہ” ثیاب ‘‘ سے مراد ہے نفس، یعنی اپنے نفس کو ہر عیب و نقص سے پاک رکھیے المدثر:۵ میں فرمایا: “والرجز فاهجر” اکثرین کے نزد یک” رجز “کا معنی بت ہیں، یعنی حسب معمول بتوں سے دور ہیں ۔ بعض نے کہا: “رجر“ سے مرادشرک ہے بعض نے کہا: اس سے مراد گناہ ہے لغت میں “رجز‘‘ کا معنی بتوں کی عبادت کرنا ہے اور اس حدیث میں “فحمی‘‘ کا لفظ ۔ حمی‘‘ کا معنی ہے کسی چیز کا گرم ہونا اور اس سے مراد ہے: کسی چیز که به کثرت ہونا جیسے کہتے ہیں: بازار گرم ہو گیا یعنی اس میں خرید وفروخت به کثرت ہو رہی ہے اور بازار ٹھنڈا ہوگیا یعنی اس میں خرید وفروخت کم ہورہی ہے اور “تتابع“ کا لفظ ہے اس سے مراد ہے کسی کام مسلسل ہونا منقطع نہ ہونا۔

یعنی پہلی وحی (اقراء باسم ربك ) کے بعد وحی کا آنا رک گیا تھا اور جمہور کے قول کے مطابق تین سال تک رکا رہا پھر اس کے بعد وحی کا نزول شروع ہو گیا اور تسلسل کے ساتھ جاری ہو گیا۔ ( عمدة القاری ج ا ص 118-119 ملخصا دارالکتب العربیہ بیروت 1421ھ)

اس کے بعد امام بخاری نے بتایا ہے کہ صحیح البخاری : ۳ کی جو سند ذکر کی گئی تھی اس میں دو راویوں (یحیی بن بکیر اور عقیل ) کے متابع بھی ہیں اب ہم ان کے متابع تفصیل سے بیان کریں گے اور متابعت کی تعریف ذکر کریں گے۔

صحیح البخاری :3 کی سند میں متابعت کی تفصیل

اگر کوئی راوی حدیث میں اپنے شیخ سے روایت میں متفرد ہو یعنی اس کے علاوہ اور کوئی راوی اس حدیث کو اس کے شیخ سے روایت نہ کر رہا ہوتو اس روایت کو غریب اور فرد کہا جاتا ہے لیکن اگر بعد میں تحقیق اور تتبع سے یہ معلوم ہو جائے کہ اور راوی بھی اس شیخ سے روایت کر رہے ہیں تو وہ روایت غرابت سے نکل جاتی ہے اور اس متفرد راوی کو متابع( ب کی زبر) اور متابعت کرنے والے کو متابع (ب کی زیر ) اور اس کے شیخ کو متابع علیہ کہا جا تا ہے۔ صحیح البخاری : ۳ کی سند میں یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ یحیی بن بکیر اس حدیث کی روایت میں اپنے شیخ لیث سے متفرد ہے، اس بناء پر اس حدیث کو غریب اور کہا جارہا تھا بعد میں تحقیق اور تتبع سے معلوم ہوا کہ عبد الله بن یوسف اور ابوصالح اس نے بھی اس حدیث کو لیث سے روایت کر رہے ہیں لہذا یہ حدیث غرابت سے نکل گئی اور عبد الله بن یوسف اور ابوصالح متابع ہیں اور یحیی بن بکیر متابع (ب پر زبر) ہیں اورلیث متابع علیہ ہے۔

اسی طرح اس حدیث کی سند میں عقیل کے بارے میں یہ گمان تھا کہ وہ اس حدیث کی روایت میں محمد بن مسلم ابن شہاب زہری

سے متفرد ہے لیکن بعد میں تحقیق اور تتبع سے معلوم ہوا کہ حلال بن رداد نے بھی اس حدیث کو ابن شہاب زہری سے روایت کیا ہے، لہذا یہ حدیث غرابت سے نکل گئی، سوحلال بن رداد متابع ہوا اور عقیل متابع (ب کی زبر) ہوا اور ابن شہاب زہری متابع علیہ ہوا۔

متابعت تامہ اور متابعت قاصرہ کی تعریفیں اور متابع اور شاہد کا فرق

علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ ھ لکھتے ہیں:

اعتبار کی تعریف یہ ہے کہ کسی حدیث کے راوی میں یہ غور کیا جائے کہ اس حدیث کی روایت میں کوئی اور راوی بھی اس کا شریک ہے یا نہیں، اگر شریک ہے تو وہ اس کے شیخ سے اس حدیث کو روایت کر رہا ہے یا اس کے شیخ الشیخ سے اگر دوسرا راوی اس کے شیخ سے اس حدیث کو روایت کر رہا ہے تو متابعت تامہ ہے اور اگر دوسرا راوی اس کے شیخ الشیخ سے اس حدیث کو روایت کر رہا ہے تو یہ متابعت قاصرہ ہے ،اسی طرح آخر اسناد تک غور کیا جائے اگر کوئی راوی اس روایت میں شریک نہ ہو تو پھر دیکھا جائے کہ کوئی اور راوی اس حدیث کے معنی کی روایت کر رہا ہے یا نہیں اگر کوئی اور راوی اس حدیث کے معنی کی روایت کر رہا ہوتو اس کو شاہد کہا جائے گا اور اگر کوئی اور راوی اس حدیث کے معنی کی بھی روایت نہ کر رہا ہو تو پھر وہ حدیث فرد اورغریب ہوگی ۔

( تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی ص 118، دار الكتاب العربی، بیروت، ۱۴۲۴ھ)

متابعت تامہ اور متابعت قاصرہ کی مثالیں

علامہ یحیی بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں:

اعتبار کی مثال یہ ہے کہ مثلا حماد اس سند سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں : از ایوب از ابن سیرین از ابوہریره از نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس سند میں ایوب کا کوئی متابع نہیں ہے، پھر تفتیش کی جائے گی کہ آیا ایوب کے علاوہ کوئی اور ثقہ راوی ابن سیرین سے اس حدیث کو روایت کرتا ہے، پھر اگر ایوب کے علاوہ ابن سیرین سے کوئی اور ثقہ راوی اس حدیث کو روایت نہ کرتا ہو تو پھر دیکھا جائے گا کہ آیا ابن سیرین کے علاوہ کوئی اور ثقہ راوی اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتا ہے پھر اگر حضرت ابو ہریرہ سے اس حدیث کو روایت کرنے والا ابن سیرین کے علاوہ نہ ملے تو پھر دیکھا جائے گا کہ آیا حضرت ابوہریرہ کے علاوہ کسی اور صحابی نے اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے یا نہیں ان مذکورہ امور میں سے جس چیز کا بھی ثبوت مل جائے تو پتا چل جائے گا کہ اس حدیث کی اصل ہے، پھر اس کی طرف رجوع کیا جائے گا اور متابعت یہ ہے کہ اس حدیث کو حماد کے علاوہ کوئی اور راوی ایوب سے روایت کرے تو پھر یہ متابعت تامہ ہوگی یا ابن سیرین کے علاوہ کوئی اور راوی حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرے یا حضرت ابوہریرہ کے علاوہ کوئی اور صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کرے تو ان میں سے ہر ایک کو متابعت کہا جائے گا اور پہلی صورت کے بعد جس قدر بعد والی صورتیں ہیں وہ متابعت قاصرہ ہیں اور متابعت کو شاہد بھی کہا جاتا ہے اور شاہد یہ ہے کہ اس حدیث کو کوئی ثقہ راوی معنی کے اعتبار سے روایت کرے اور متابعت کو شاہد نہیں کہا جاتا (یعنی شاہد خاص ہے کہ کوئی ثقہ راوی اس حدیث کو معنی روایت کرے اور متابع عام ہے کہ کوئی ثقہ راوی اس حدیث کو لفظا روایت کرے یا معنی روایت کرے)۔ ( تقريب النواوی مع تدریب الرادی ص ۱۲۰ دار الكتاب العرب ۱۴۲۴ھ)