بوڑھے والد کی شادی ۔۔۔۔۔۔۔تحریر :محمد اسمٰعیل بدایونی
(ایک سماجی مسئلہ پر چشم کشا تحریر )
فون کی بیل مسلسل بج رہی تھی ۔۔۔۔ اتنی رات گئے کون کال کررہا ہے ؟میں نے آنکھیں ملتے ہوئے موبائل فون اٹھایا
ارسلان کی کال اس وقت !!!!!
ارسلان میری مسجد کا پکا نمازی تھا اس کی اس وقت کال سے میں پریشان ہو گیا کہ نا جانے کیا معاملہ ہے جو ارسلان نے اس وقت کال کی
السلام علیکم ! سب خیریت تو ہے نا ارسلان !
امام صاحب ! میں خود کشی کرنا چاہتا ہوں ۔
ارے یہ کیا کہہ رہے ہو ؟
بس امام صاحب ! میں اب اس معاشرے میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہا ۔۔۔۔۔
ہوا کیا ہے ؟
امام صاحب ! میرے والد صاحب ساٹھ سال کی عمر میں دوسری شادی کرنے جا رہے ہیں ہمیں انہوں نے کہیں بھی منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا ۔ارسلان رونے لگا
کیا تم صبح فجر میں مجھ سے مل سکتے ہو ؟
جی جی امام صاحب ! ارسلان نے فون رکھ دیا
فجر کی نماز کے نمازیوں سے مصافحہ کے بعد ارسلان میرے پاس آیا مجھے اندازہ تھا کہ وہ پوری رات جا گتا رہا ہے
اب بتا ؤ ! کیا مسئلہ ہے ؟
ابو اس عمر میں شادی کررہے ہیں ؟
کیا تمہاری والدہ حیات ہیں ؟
نہیں ان کا تو ۵ سال پہلے انتقال ہو گیا تھا
تمہارے والد کا خیال کون رکھتا ہے اب ؟
وہ خود اپنا خیال رکھتے ہیں
دیکھو ارسلان ! تمہارے تمام بہن بھائیوں کی بھی شادی ہو چکی ہے جہاں تک میرے علم میں ہے تم گھر کے سب سے چھوٹے ہو اور تمہاری بھی پچھلے سال شادی ہو چکی ہے
جی امام صاحب
تمہارے والد کو ایک ساتھی کی ضرورت ہے ۔۔۔ایک غمگسار کی ضرورت ہے ۔۔۔
لیکن میں اور میرے بہن بھائی باہر کیا منہ دکھائیں گے ؟
امام صاحب ! دنیا کیا کہے گی ؟۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ کیا کہیں گے ؟ ۔۔۔۔ہم تو کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے ۔
اف ! یہ لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔۔دنیا کیا کہے گی ؟ یہ احمق سوچتے ہیں
تمہارے والد شادی کررہے ہیں کوئی زنا نہیں کررہے جو تم شرم کے مارے زمین میں گڑے جا رہے ہو ۔
تمہارے والد ریٹائرڈ ٹیچر ہیں اس وقت وہ ساٹھ سے اوپر ہیں اور یقینا وہ جن خاتون سے شادی کررہے ہوں گے وہ بھی ۵۰ کے آس پاس ہوں گی ؟
جی وہ بیوہ خاتون ہیں اور تقریبا ۴۸ سال عمر ہو گی ان کی ۔ ارسلا ن نے نظریں جھکاتے ہوئے مجھے بتایا ۔
دیکھو ارسلان ! تم سب بہن بھائی مصروف رہتے ہو ان کی تنہائی ان کو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے ایک زندگی کا ہمسفر ان کے لیے بہت ضروری ہے ۔
اب تمہارے والد بیمار بھی رہتے ہیں کچھ ہی دنوں بعد اللہ نہ کرے یہ بستر سے لگ گئے واش روم جانے کے لائق بھی نہیں رہے تو ان کی خدمت کون کرے گا ؟
نہ تم کرو گے نہ تمہارے بہن بھائی کریں گے اور تمہاری بیوی کرے گی
لیکن بیوی یہ خدمت کر لے گی اس طرح ایک تو تمہارے والد کو ایک خدمت گزار خاتون مل جائیں گی اور دوسرا تمہارے والد کے بعد اس بیوہ خاتون کو آدھی پنشن بھی ملتی رہے گی اور وہ سوتیلی ماں تم پر بھی بوجھ نہیں بنیں گی ۔
یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔ارسلان کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی
امام صاحب !آپ نے تو میرا بڑا مسئلہ حل کر دیا ۔ارسلان خوش ہوتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت پر ہونے والے کسی بھی عمل کو رسم و رواج کے بھینٹ مت چڑھائیے
میرے دوستو! اگر آپ کے والد حیات ہیں اور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ درپیش ہو تو خود ان کی شادی کرا دیجیے یقین جانیے انہیں اس وقت ایک غمگسار کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/