واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
________________________________________________
ہمارے ادھر ایک کہاوت ہے کہ کھیرا چوری کرے یا ہیرا، چور چور ہوتا ہے۔تاہم اس میں ایک چیز کا ذکر ضروری ہے کہ چوری کی دونوں قسمیں شرع و سماج کے نزدیک ایک جرم ہیں۔ مگر دونوں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔دونوں کی سنگینی الگ ہو سکتی ہے۔ہیرا چرانا جتنا سنگین ہے کھیرا چرانا اتنا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔ٹھیک اسی طرح کوئی سٹی سنٹر سے چوری کرے، دوسرا شہر کی جامع مسجد سے۔دونوں کی چوری ایک جیسی نہیں۔مسجد کا چور ہر لحاظ سے بڑا مجرم مانا جاتا ہے۔اسی طرح کسی ہوش مند کو ٹھگنا اور کسی نابالغ کمسن کو ٹھگنا دونوں میں فرق ہے۔اپنا مال جھوٹ بول کر بیچنا یا پھر مذہب کا کارڈ کھیل کر بیچنا دونوں میں آخری قسم زیادہ خطرناک ہے۔فراڈی صورت بنا کر ٹھگنا اور مذہبی شکل بنا کر ٹھگنا دوسری صورت زیادہ بری ہے۔

مسلم شریف کی حدیث ہے کہ آپﷺ ایک دفعہ بازار تشریف لے گئے۔غلے کے ایک تاجر کے پاس سے گزرے۔ غلے کے ڈھیر میں آپ نے اپنا دستِ مبارک ڈالا تو انگلیوں پر کچھ تری محسوس ہوئی۔ آپ ؐ نے اس غلے والے سے پو چھا یہ کیا ہے سوداگر نے کہا یا رسول اللہﷺ اس ڈھیر پر بارش ہو گئی تھی۔آپ ؐ نے فرمایا پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے؟ پھر آپ نے فرمایا جو شخص خرید و فروخت میں دھوکہ دے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہود کے تعلق سے قرآن میں ایک آیت ہے “ولاتشتروا بأیتی ثمنا قلیلا” توریت کی ایتوں کو تھوڑے داموں کے بدلے مت بیچو۔مطلب تھوڑی سی دنیا کے لیے میری آیتوں کا غلط مفہوم مت بیان کرو۔ایک اور آیت ہے جس کے مخاطب مومنین ہیں “ولاتشتروا بعہد اللہ ثمنا قلیلا” کہ اللہ کے عہد کے بدلے تھوڑا دام نہ لو۔رب سے جو عہد ہے اسے قلیل قیمت کے بدلے مت بیچو۔

دنیا میں ہر شخص اپنے دائرۂ اثر و احاطۂ کار میں ایک تاجر ہے۔ہر کوئی بھلے برے کی تجارت کرنے ہی آتا ہے خواہ یہ تجارت اہل دنیا کے ساتھ ہو یا اللہ کے ساتھ۔اپنے وجود و فکر کے حساب سے ہر کوئی تاجر ہے۔اب اہم یہ رہ جاتا ہے کہ وہ کس سے بیع و شرا کر رہا ہے کس طریقے پر کر رہا ہے۔

دین میں دنیا کو مزرع آخرت کہا گیا ہے۔مطلب ایک عقل مند کسان کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ گلاب بوۓ اور ببول کاٹے۔ویسے ببول نو کر گلاب کی امید بھی عبث ہی ہے۔اس لیے دین ہمیں اس بات کا پابند بناتا ہے کہ تجارت چاہے جس سے جب بھی کریں اتنا خیال رہے کہ آخرت کی بھلائی محفوظ رہے۔
“ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار” یہ قرآن کی سکھائی گئی وہ دعا ہے جسے پیغمرﷺ نے اپنی ظاہری زندگی میں بارہا مانگی ہے۔امت کو بطور تحفہ یہ دعا عطا کی گئی ہے۔
اس دعائیہ آیت کو آپ کا بارہا تلاوت کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک مومن کا یہ حق ہے کہ خدا سے آخرت کی بھلائی کے ساتھ دنیا کی بھلائیاں طلب کرے بلکہ آیت میں الفاظ کی ترتیب سے پتہ چلتا ہے کہ اولاً خدا سے دنیا کی خیر و راحت مانگی جائے پھر آخرت طلب کی جاۓ۔اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ ایک آسودہ حال شخص ہی دل جمعی، انہماک فکر و حضور قلبی کے ساتھ معبود باری تعالی کی عبادت کر سکتا ہے۔خانہ خراب و خراب حال شخص عبادت میں خود کو کلیۃ حاضر کر لے یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ پیٹ بھرا رہے گا تو عبادت میں دل لگے گا۔

ایک مومن کے لیے دارین کی بھلائیاں نصیب ہونا کامیابی ہے۔ناکامی صرف یہ نہیں کہ دنیا کے عہدے، منصب و مدارج پیچھے رہ جائیں، بلکہ بڑی ناکامی یہ ہے کہ انسان دنیا کمانے کے باوجود فکر آخرت سے یکسر غافل رہے۔دنیا سے کنارہ کر لینا یا رہبانیت کا لبادہ اوڑھ کر خلوت نشیں ہو جانا دین کے مزاج سے مختلف ہے۔
مذکورہ آیت کے لفظ حسنۃ کا مطلب ہی یہ ہے کہ دنیا پوری کی پوری شر و سیئآت کی چیز نہیں بلکہ رب نے اس میں حسنات کے کھلے آپشن بھی رکھے ہیں ورنہ دعا میں حسنات دنیا مانگنے کی بات نہ ہوتی۔

اگر دنیا کا کچھ بھی حصہ ہاتھ نہیں آیا تو تب بھی مشکل، اگر آخرت چھوٹ جاۓ تب بھی برباد۔یہ حقیقت ہے کہ ہر کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔کسی کو دنیا کا بہت حصہ ملا پر آخرت سے رہ گیا۔کوئی دنیا میں مفلوک الحال و مسکین صورت رہا تاہم آخرت میں کافی حصہ تھا۔لیکن مومن کے لیے دارین کی بھلائی و خیر نصیبے کی بات ہے۔

میں جب خود احتسابی کرنے بیٹھتا ہوں (ویسے خود محتسب ہوں نہیں)مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اس بازارِ خرید و فروخت میں، میں تو کہیں کا نہیں ہوں۔نہ مکمل طور پر معبود کا ہو سکا نہ اتنی دنیا ہی ہاتھ آئی کہ خواہشیں تمنائیں پوری کر لی جاتیں۔مطلب ہم اس تجارت میں منافع تو کجا گھاٹے کا سودا کر بیٹھے ہیں۔نہ ہمیں خدا مل پایا نہ وصال صنم کی لذتیں ملیں۔اگر ہم تیس روز نماز باجماعت نہیں پڑھ سکے تو خدا سے بہت دور ہیں۔اگر دس بیس ہزار کی کوئی خواہش یا ضرورت پوری نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے دنیا نے بھی ہمیں ٹھکرا دیا ہے۔

دنیا کے ٹاپ دس بزنس مین میں سے اڈانی، امبانی،ایلن مسک،زوکر برگ، وارن بفٹ، جیف بوزیز، بل گٹس جیسے لوگ دنیا پر راج کرتے ہیں۔دنیا کی ایک بڑی آبادی پر ان کا کنٹرول چلتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ۹۸ فیصد دولت دس بڑے تاجروں کے پاس ہی ہے باقی دو فیصد میں ہی دیگر سارے لوگ ہیں۔یہ لوگ تجارت میں سو فیصد کامیاب ہیں۔وہیں ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا کے منافع میں ہمارا حصہ زیرو ہے۔مذکورہ تجار اپنے پروڈکٹس بیچ کر دنیا کو مٹھی میں قید کر رکھے ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ سواۓ خریدنے کے، بیچنے لائق تو ہیں ہی نہیں۔
تجارت میں بیع اور شرا دونوں ضروری ہیں۔صرف خریدنے والا صارف،کنزیومر یا گراہک ہوتا ہے۔بیچنے والا manufacturer کہلاتا ہے۔اس لیے اشیا کی قیمتیں پروڈکشن ادارے ہی طے کرتے ہیں۔
دنیا و آخرت کی اس تجارت میں اہل تدبر کے لیے ایک سبق ہے جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ دنیا کے سارے بزنس مین مجھے خود سے بہتر اور کامیاب لگتے ہیں کہ وہ اپنے پروڈکٹس بیچ کر دنیا کماتے ہیں۔مگر ہم جیسوں کا حال تو یہ ہے کہ دین بیچ کر دنیا کمانے کا فراق رہتا ہے۔نیچے سے اوپر تک کم و بیش ہر کوئی کلام اللہ و حدیث رسول بیچ کر پاپی پیٹ کا انتظام کرتا ہے۔اس میں دو چار کا استثنا ممکن ہے۔
اس تجارت میں سب سے بڑی بے توفیقی یہ ہے کہ شاعر اسٹیج پر نعت بیچتا ہے۔خطیب منبر پہ خطبہ بیچتا ہے۔واعظ اپنے وعظ کا دام لگاتا ہے۔شیخ اپنی ارادت کا دام بنام نذرانہ وصول کرتا ہے۔دین کے تقدسات و تبرکات کا سہارا لے کر جو کچھ بھی قوم سے وصولا جاۓ وہ تجارت کا حصہ ہے۔دین کو تجارت کا سورس بنانے کی جتنی ممکنہ شکلیں ہیں وہ کبھی بھی محمود نہیں ہو سکتی ہے۔الا یہ کہ جس پر فقہاۓ شرع نے اتفاق کر لیا ہو۔
حبیب جالب کی سنیں۔جالب صاحب نے بڑے طنز بھرے لہجے میں ارباب کلاہ و ریش کو ان کی اصل حیثیت بتائی ہے کہتے ہیں
مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنے شکم کا
ایک اپنی خودی، ایک خدا بیچ رہا ہے

دین کے راستے دنیا کمانے کی جتنی شکلیں ہیں وہ نا محمود ہی ہیں۔میرے مشاہدے میں دو ایسے معالج گزرے ان میں کا ایک ہومیوپیتھ کے بڑے ڈاکٹر تھے۔ان کا مطب مریضوں سے بھرا رہتا تھا۔دوسرے کلاہ و ریش والے مسجد کے امام صاحب۔ڈاکٹر صاحب تو اللہ کو پیارے ہو گئے مگر ان کا معمول تھا کہ ہفتے میں ایک دن جمعہ کو بنا فیس کے مریض دیکھتے تھے۔اس میں بھی کلاہ و ریش والوں کے لیے خصوصی رعایت تھی اگر دوا دو سو کی ہے پریسکرپشن پہ ہی لکھ دیتے تھے کہ صرف سو روپے لینا ہے۔
دوسرے امام صاحب نے دعا تعویذ کی دکان کھول لی، نام رکھا روحانی شفا خانہ۔جب خواتین کی کثرت ہونے لگی تو انہوں نے ایلوپیتھک ڈاکٹر کی طرح باضابطہ تین سو روپے فیس باندھ دی۔یہ تین سو صرف چیک اپ کے وصولے جاتے تھے، باقی علاج پراسس کے حساب سے پیسے لگیں گے۔دعا بیچنے، تعویذ فروخت کرنے، سفید کاغذ پہ زعفران سے آیات لکھ کر مال کمانے کا یہ وہ راستہ ہے جو ناصرف مارواڑی ذہنیت کی تجارت ہے بلکہ غیر شرعی بھی ہے۔اس میں غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ “اولئک الذین اشتروا الضلالۃ بالھدی فما ربحت تجارتھم وماکانوا مھتدین” جیسی آیات کا اطلاق کہیں ہمارے ایسے عمل پر تو نہیں ہوتا۔ربحِ تجارت کی توفیق خدائی تحفہ ہے۔

مشتاق نوری
۵؍دسمبر ۲۰۲۲ء