تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی ،جامعہ نظام مصطفی بہاولپور

(منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب)

عن ابن مسعود رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قرأ سورةَ الواقعة في کل لیلةٍ لم تُصبہ فاقة أبدًا وکان ابن مسعود یأمر بناتہ یقرأن بہا کل لیلة (رواہما البیہقي في شعب الإیمان)
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہر شب میں سورہ واقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی بھی فاقے کی حالت کو نہیں پہنچتا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہرشب یہ سورت پڑھا کریں۔ (بیہقی)

گزشتہ دنوں ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں منکرین حدیث کی طرف سے مذکورہ حدیث پر اعتراض کیا گیا تھا کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر مبارک میں کئی کئی دن فاقہ رہتا تھا تو مذکورہ حدیث کیسے درست قرار دی جا سکتی ہے. لہذا حدیثوں کا کوئی اعتبار نہیں .
اس اعتراض کا جواب پیش خدمت ہے.
1..ایک تو آپ حدیث کو غلط ثابت کرنے کے لیے خود حدیث ہی کا سہارا لے رہے ہیں، یعنی ایک حدیث کو درست مان کر دوسری حدیث کو غلط ثابت کر رہے ہیں. پس آپ کا تمام حدیثوں کو غیر معتبر قرار دینے کا دعوی خود آپ ہی کے کلام سے مسترد ہو گیا.
2..دوسرا یہ کہ یہ مسلمہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فاقہ اختیاری تھا، یعنی آپ کو فاقے سے رہنا پسند تھا اس لیے آپ کے کاشانہ اقدس میں فاقہ رہتا تھا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دو جہاں کی ساری دولت آپ کے خالی ہاتھ میں ہے. فلہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کی مثال دینا درست نہیں ہے.
3..تیسرا یہ کہ حدیث کو سمجھنا ہر کسی کا کام نہیں ہے.
ضابطہ ہے : اذا ثبت الشیئ ثبت بلوازمہ (جب کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو لوازمات سمیت ثابت ہوتی ہے) لہذا عین ممکن ہے کہ کوئی شخص سورہ واقعہ پڑھے اور اس کے گھر سے فاقہ نہ جائے. اس کا یہ ہرگز مطلب نہ ہو گا کہ حدیث غلط ہے، یقیناً بوجوہ اس کا پڑھنا قبول نہ ہوا ہو گا. مثلاً ہو سکتا ہے کہ وہ حرام کھاتا ہو، محرمات کا ارتکاب کرتا ہو، فرائض کو ترک کرتا ہو، ماں باپ اور اساتذہ کا نا فرمان ہو یا قرآن حکیم مجہول، غلط اور بے توجہی سے پڑھتا ہو تو ایسی صورتوں میں سورہ واقعہ پڑھنے کے باوجود بھی فاقہ میں افاقہ نہ ہو گا.
ورنہ ہزاروں تجربات سے ثابت ہے، لوگوں نے سورہ واقعہ پڑھی اور ان کے لیے دست قدرت نے رزق کا سامان فرما دیا.

نوٹ : کل ہی میں کلاس میں کہہ رہا تھا کہ جب اقبال و غالب کا کلام سمجھنا بھی ہر بندے کے بس میں نہیں تو کلام الہی کیسے ہر بندے کو خود بخود سمجھ آ سکتا ہے؟ شرح کلام الہی کے لیے حدیث ضروری ہے. پھر حدیث بھی خدا کے بعد کائنات کی سب سے بڑی ہستی کا بلند پایہ کلام ہے، اس کا سمجھ لینا بھی ہر کہہ مہہ کا کام نہیں ہے، فلہذا حدیث سمجھنے کے لیے فقہاء کی ضرورت ہے. اگر اقبال و غالب کے کلام کو غیر ماہر بندہ ازخود سمجھنے کی کوشش کرے تو کھلی ٹھوکر کھاتا ہے تو خدا رسول کا کلام تو کائنات کا سب سے بڑا کلام ہے. اسے اگر کوئی غیر ماہر بندہ ازخود سمجھنے بیٹھ جائے تو کیسے ٹھوکر نہیں کھائے گا.