أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ‌ ؕ وَاِنۡ كُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوۡا‌ ؕ وَاِنۡ كُنۡتُمۡ مَّرۡضَىٰۤ اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡكُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَيَمَّمُوۡا صَعِيۡدًا طَيِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡهِكُمۡ وَاَيۡدِيۡكُمۡ مِّنۡهُ‌ ؕ مَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّلٰـكِنۡ يُّرِيۡدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَ لِيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو (اور تم بےوضو ہو) تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو ‘ اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو ‘ اور اگر تم جنبی ہو تو اچھی طرح پاکیزگی حاصل کرلو ‘ اور اگر تم بیمار ہو یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی قضاء حاجت کرکے آئے یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو پس تم پانی کو نہ پاؤ تو تم پاک مٹی سے تیمم کرو ‘ سو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس پاک مٹی سے مسح کرو ‘ اللہ تم پر تنگی کرنا نہیں چاہتا ‘ لیکن وہ تم کو خوب پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ تم پر اپنی نعمت کو پورا کردے ‘ تاکہ تم شکر ادا کرو۔

تفسیر:

آیت وضو ‘ کی سابقہ آیا سے مناسبت : 

انسان کے طبعی تقاضے دو چیزوں میں منحصر ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں اور عمل ازدواج اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ کھانے پینے کی چیزیں حلال ہیں اور کیا چیزیں حرام ہیں اور جنسی خواہشوں کی تکمیل کے لیے کون سی عورتیں اس کے لیے حلال ہیں اور کون سی عورتیں حرام ہیں۔ اور اس آیت میں یہ بتایا کہ ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے لیے اس پر اللہ تعالیٰ کی عبادات فرض ہیں اور ان عبادات میں سب سے اہم نماز ہے اور نماز کی شرط طہارت ہے اور طہارت غسل اور وضو سے حاصل ہوتی ہے اور اگر پانی نہ مل سکے تو طہارت تیمم سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اس آیت میں وضو ‘ غسل اور تیمم کا بیان فرمایا ہے۔ 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں ہوتی اور خیانت کے مال (مال حرام) سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ یہ حدیث اصح الاسانید ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ١‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٧٢‘ مسند احمد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٠٠‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ٤‘ ص ١٩١) 

نیز امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی طہارت ہے۔ علامہ احمدمحمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث : ١٤٥٩٧‘ مطبوعہ القاہرہ) 

آیت وضو کا شان نزول :

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مقام بیداء میں میرا ہار گرگیا اس وقت ہم مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی کو بٹھایا اور اونٹنی سے اتر گئے ‘ آپ نے میری گود میں سر رکھا اور سو گئے۔ حضرت ابوبکر آئے اور انہوں نے زور سے مجھے گھونسے مارے اور کہا تم نے تمام لوگوں کو ہار کی وجہ سے ٹھہرا دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آرام میں خلل پڑنے سے مجھے موت کی طرح لگ رہا تھا ‘ حالانکہ حضرت ابوبکر نے مجھے سخت تکلیف پہنچائی تھی پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اس وقت صبح ہوچکی تھی ‘ پانی کو تلاش کیا گیا تو پانی نہیں ملا ‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ “ الایہ (المائدہ : ٦) حضرت اسید بن حضیر نے کہا اے آل ابوبکر ! اللہ نے لوگوں کے لیے تم میں برکت رکھی ہے تمہارا وجود ان کے لیے محض برکت ہے۔ (صحیح البخاری ج ٥‘ رقم الحدیث : ٤٦٠٨‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) 

اس آیت میں وضو اور تیمم دونوں کا ذکر ہے۔ تیمم کا ذکر سورة النساء میں بھی ہے اور اس آیت میں بھی ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے ہار گم ہونے کے موقع پر سورة النساء کی آیت نازل ہوئی تھی یا سورة المائدہ کی زیر تفسیر آیت۔ محققین کے نزدیک ہار گم ہونے کے موقع پر سورة المائدہ کی آیت نازل ہوئی تھی۔ امام بخاری کی اس روایت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ 

امام بخاری نے حدیث ٣٣٤ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کردی اور اس آیت کی تعیین نہیں کی اور مذکور الصدر روایت میں تصریح کردی کہ یہ سورة المائدہ کی آیت ہے۔ (فتح الباری ‘ ج ١ ص ٤٣٢‘ مطبوعہ لاہور ‘ عمدۃ القاری ‘ ج ٤‘ ص ٥‘ مطبوعہ مصر) 

حافظ ابو عمرو یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں : 

حضرت عائشہ (رض) کا یہ سفر غزوہ مریسیع میں ہوا تھا ‘ جو بنو مصطلق بن خزاعہ کے خلاف تھا ‘ یہ واقعہ چھ ہجری کا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ پانچ ہجری کا واقعہ ہے۔ (الاستذکار ‘ ج ٣ ص ١٤١‘ مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ‘ بیروت ١٤١٣ ھ) 

آیت وضو کے نزول سے پہلے فرضیت وضوکا بیان : 

اس جگہ ایک بحث یہ ہے کہ آیت وضو تو پانچ یا چھ ہجری میں نازل ہوئی اور نماز ابتداء وحی کے ساتھ مکہ میں فرض ہوگئی تھی تو ابتداء میں نماز وضو کے ساتھ پڑھی جاتی تھی یا بلا وضو ؟ 

حافظ ابن عبد البرمال کی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں : 

حضرت عائشہ (رض) نے جو فرمایا ہے : ” پھر اللہ نے تیمم کی آیت نازل کردی “ اس سے مراد وہ آیت وضو ہے جو سورة المائدہ میں ہے۔ یا وہ آیت ہے جو سورة النساء میں ہے۔ ان دو آیتوں کے سوا اور کسی آیت میں تیمم کا ذکر نہیں ہے اور یہ دونوں مدنی سورتیں ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ غسل جنابت وضو سے پہلے فرض نہیں ہوا تھا۔ پس جس طرح مصنفین سیرت کے نزدیک یہ امر متحقق ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ میں نماز فرض ہوئی ہے اور غسل جنابت بھی مکہ میں فرض ہوا ہے ‘ اور یہ کہ آپ نے مکہ میں کوئی نماز بھی بغیر وضو کے نہیں پڑھی اور آپ اسی طرح وضو کرتے تھے جس طرح مدینہ میں آپ نے وضو کیا ‘ یا جس طرح اب ہم وضو کرتے ہیں اور یہ وہ امر ہے کہ اس سے کوئی عالم بھی ناواقف نہیں ہے اور سوائے ہٹ دھرم کے اس کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرے گا۔ (الاستذکار ‘ ج ٣ ص ١٥٥‘ مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ‘ بیروت ١٤١٣ ھ) 

علامہ بدرالدین محمودبن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : 

علامہ سفاقسی نے اس مسئلہ پر طویل بحث کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وضو کرنا ان پر لازم تھا اور تیمم کی آیت سورة المائدہ میں ہے اور سورة النساء میں ہے اور یہ دونوں سورتیں ہیں اور اس سے پہلے کوئی نماز بغیر وضو کے مشروع نہیں تھی۔ اس لیے جب تیمم کی آیت نازل ہوئی تو وضو کا ذکر نہیں کیا ‘ کیونکہ تیمم کا حکم وضو کے حکم کی فرع ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ پہلے اس آیت کا وہ حصہ نازل ہوا جس میں وضو کا ذکر ہے ‘ اور پھر اس آیت کا دوسرا حصہ نازل ہوا جس میں تیمم کا ذکر ہے۔ پھر یہ آیت پوری ہوگئی اور یہ بھی احتمال ہے کہ وضو کا حکم پہلے سنت سے مشروع ہوا نہ کہ قرآن سے ‘ پھر بعد میں ان دونوں کا حکم اکٹھے نازل ہوا ‘ اور حضرت عائشہ (رض) نے اس کو تیمم سے اس لیے تعبیر کیا کہ اس موقع پر یہی مقصود تھا (علامہ عینی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ امام حمیدی کی اس روایت پر مطلع ہوجاتے جس میں حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ہے : پھر یہ آیت نازل ہوئی “ 

(آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم۔ الایہ (المائدہ : ٦) تو ان تاویلات میں نہ پڑتے۔ (عمدۃ القاری ج ٤ ص ‘ ٥ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ) 

اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ وضو کا حکم پہلے سنت سے ثابت تھا اور یہ آیت بعد میں نازل ہوئی ہے۔ 

علامہ محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں : 

آیت وضو اجماعا مدنی ہے اور تمام اہل سیرت کا اس پر اجماع ہے کہ وضو اور غسل مکہ میں نماز کے ساتھ فرض ہوگئے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بغیر وضو کے نماز نہیں پڑھی ‘ بلکہ ہم سے پہلی شریعت میں بھی وضو فرض تھا ‘ کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے اور اصول فقہ میں یہ مقرر ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول بغیر انکار کے کوئی قصہ بیان کریں اور اس کا نسخ ظاہر نہ ہو ‘ تو وہ بھی ہماری شریعت ہے اور اس آیت کے نزول کا یہ فائدہ ہے کہ جو حکم پہلے ثابت ہوچکا تھا اس کو مقرر اور ثابت کیا جائے۔ (الدرالمختار علی رد المختار ج ١‘ ص ٦٢۔ ٦١ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

شرائع سابقہ اور مکی دور میں فرضیت وضو کے متعلق احادیث :

امام علی بن عمر دارقطنی متوفی ٣٨٥ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی منگوایا اور ایک ایک مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا پھر فرمایا : یہ وضو کا وہ طریقہ ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز کو قبول نہیں کرتا۔ آپ نے پھر پانی منگوایا اور دو دو مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا ‘ پھر فرمایا : جس نے اس طرح وضو کیا ‘ اس کے لیے دگنا اجر ہے۔ آپ نے تھوڑی دیر کے بعد پانی منگوایا اور اس سے اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا اور فرمایا یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے۔ (سنن دارقطنی ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٧‘ ٢٥٦‘ ٢٥٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢٠‘ المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٧٤‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١ ص ٨٠) 

امام دارقطنی نے اس حدیث کو متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ ہرچند کہ اس حدیث کی اسانید ضعیف ہیں لیکن تعدداسانید کی وجہ سے وہ حسن لغیرہ ہے۔ 

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ انبیاء سابقین کی شریعت میں بھی وضو مشروع تھا۔ 

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ حضرت ابراہیم نے صرف تین (ظاہری اور صوری جھوٹ بولے ‘ جب انہیں باطل خداؤں کی طرف بلایا گیا تو انہوں نے کہا ” انی سقیم “ میں بیمار ہوں اور انہوں نے کہا ” فعلہ کبیرھم ھذا “ ان کے اس بڑے نے یہ کام کیا ہے “ اور انہوں نے (حضرت) سارہ کے متعلق کہا یہ میری بہن ہے ‘ حضرت ابراہیم ایک بستی میں گئے جس میں ایک جابر بادشادہ تھا ‘ اس کو بتایا گیا کہ آج رات ابراہیم (علیہ السلام) سب سے حسین عورت کے ساتھ اس شہر میں داخل ہوئے ہیں ‘ اس بادشاہ نے ان کے اس اپنا ہر کا رہ بھیجا اور پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے کہا یہ میری ہے۔ اس نے کہا اس کو بھیج دو ۔ آپ نے ان کو اس کے ساتھ روانہ کیا اور فرمایا میری بات کو جھٹلانا نہیں میں نے اس کو یہ خبردی کہ تم میری بہن ہو اور اس سرزمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ 

جب حضرت سارہ اس کے پاس پہنچیں تو وہ آپ کی طرف اٹھا۔ حضرت سارہ نے وضو کیا اور نماز پڑھی ‘ اور اللہ سے دعا کی ‘ اے اللہ ! بیشک تجھے علم ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں۔ اور میں نے اپنے شوہر کے سوا ہر کسی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے۔ سو تو مجھ کو اس کافر کے تسلط سے بچا۔ سو اس کے منہ سے خر خر کی آواز آنے لگی اور اس کی ٹانگ زمین میں دھنس گئی پھر حضرت سارہ نے کہا ‘ یا اللہ ! اگر یہ مرگیا تو یہ کہا جائے گا کہ اس نے اس کو قتل کردیا ‘ پھر اس کو چھوڑ دیا گیا ‘ پھر تیسری یا چوتھی مرتبہ اس بادشاہ نے کہا ‘ تم نے میرے پاس کس جنی کو بھیجا ہے۔ اسے ابراہیم کو واپس کردو اور اس عورت کو ہاجرہ دیدو ‘ وہ واپس گئیں اور حضرت ابراہیم سے کہا ‘ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ نے اس کافر کے مکر کو باطل کردیا اور خدمت کے لیے ایک باندی دے دی۔ 

(مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٤٠٤۔ ٤٠٣‘ طبع قدیم ‘ بیروت ‘ احمد شاکر نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ سنن ابو داؤد ‘ سنن ترمذی ‘ اور مسند ابو یعلی میں بھی یہ حدیث اختصار سے مروی ہے) مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ٩ رقم الحدیث : ٩٢١٣‘ مطبوعہ دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ) 

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی وضو فرض تھا ‘ کیونکہ حضرت سارہ نے وضو کرکے نماز پڑھی تھی۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ بنو اسرائیل میں ایک شخص تھا جس کو جریج کہا جاتا تھا ‘ وہ نماز پڑھ رہا تھا ‘ اس کی ماں نے آکر اس کو بلایا ‘ وہ اس کے بلانے پر نہیں گیا اور کہا کیا نماز کی حالت میں اس کو جواب دوں ؟ اس کی ماں آئی اور اس نے کہا ‘ اے اللہ ! اس پر اس وقت تک موت طاری نہ کرنا ‘ جب تک یہ بدکار عورتوں کو نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے گرجا میں عبادت کرتا تھا ‘ ایک عورت نے کہا ‘ میں جریج کو فتنہ میں ڈالوں گی ‘ اس عورت نے اس کو گناہ کی دعوت دی ‘ جریج نے انکار کیا۔ اس نے ایک چرواہے سے اپنی خواہش پوری کرلی ‘ اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ‘ اس نے لوگوں سے کہا : یہ جریج کا بچہ ہے۔ لوگ آئے اور انہوں نے اس کا گرجا توڑ دیا اور اس کو گرجا سے نکال دیا اور اس کو برا کہا ‘ جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ پھر اس نوزائدہ بچہ سے کہا : اے لڑکے ! تیرا باپ کون ہے ؟ اس نے کہا چرواہا۔ لوگوں نے کہا ‘ ہم تمہارا گرجا سونے کا بنادیں ‘ اس نے کہا ‘ نہیں صرف مٹی کا ہی بنادو۔ ‘(صحیح بخاری ‘ ج ٣ رقم الحدیث : ٢٤٨٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت) 

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ بنواسرائیل کی شریعت میں بھی وضو فرض تھا ‘ کیونکہ جریج نے وضو کرکے نماز پڑھی تھی۔ 

امام عبدالمالک بن ہشام متوفی ٢١٣ ھ روایت کرتے ہیں : 

امام ابن اسحاق نے کہا : مجھے بعض اہل علم نے یہ حدیث بیان کی کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز فرض ہوئی تو آپ کے پاس جبرائیل آئے وہ اس وقت مکہ کی بلند وادی پر تھے۔ انہوں نے وادی پر اپنی ایڑی ماری تو اس سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا ‘ پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے وضو کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دیکھتے رہے ‘ کہ وہ نماز کے لیے کس طرح وضو کرتے ہیں ؟ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح وضو کیا جس طرح جبرائیل (علیہ السلام) نے وضو کیا تھا۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ‘ پھر جبرائیل (علیہ السلام) لوٹ گئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آئے ‘ پھر آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو وضو کرکے دکھایا کہ نماز کے لیے کس طرح وضو کرتے ہیں ‘ جس طرح آپ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دکھایا تھا پھر حضرت خدیجہ (رض) نے وضو کیا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا تھا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) کو اس طرح نماز پڑھائی جس طرح حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے نماز پڑھائی تھی۔ (السیرۃ النبویہ مع الروض الانف ‘ ج ١ ص ١٦٣۔ ١٦٣‘ مطبوعہ ملتان) 

علامہ سھیلی متوفی ٥٨١ ھ نے اس حدیث کی سند کو مقطوع لکھا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ایسی حدیث احکام شرعیہ کی اصل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ‘ لیکن ان کے استاذ قاضی ابوبکر محمد بن العربی متوفی ٥٤٣ ھ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔ ہرچند کہ اس کو اہل صحیح نے روایت نہیں کیا ‘ لیکن انہوں نے اس حدیث کو اس لیے ترک کردیا کہ ان کو اس کی ضرورت نہیں تھی اور صحابہ اور علماء اس حدیث سے تغافل کرتے تھے ‘ جس کی ان کو ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ (احکام القرآن ج ٢‘ ص ٤٨۔ ٤٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) 

تاہم علامہ عبدالرحمن بن عبد اللہ سھیلی متوفی ٥٨١ ھ نے اپنے استاذ حافظ ابن العربی کی سند سے روایت کیا ہے۔ 

حضرت زید بن حارثہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے ‘ اور آپ کو وضو سکھایا اور جب وضو سے فارغ ہوئے تو چلو میں پانی لے کر اپنی شرم گاہ پر چھڑکا ‘ اس حدیث کی بناء پر وضو مکہ میں فرض ہوا ‘ اور اس کی تلاوت مدینہ میں ہوئی۔ (الروض الانف ج ١ ص ١٦٣۔ ١٦٢‘ مطبوعہ مکتبہ فاروقیہ ‘ ملتان) 

وضو کے اجرو ثواب کے متعلق احادیث : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کو قیامت کے دن ” غیر محجل “ (جس کا منہ اور ہاتھ پیر سفید ہوں) کہہ کر پکارا جائے گا ‘ اس کا سبب وضو کے آثار ہیں۔ سو تم میں سے جو شخص اپنی سفیدی زیادہ کرنا چاہتا ہو (وہ اعضاء وضو کو مقررہ حد سے زیادہ دھو کر) اپنی سفیدی کو زیادہ کرلے۔ (صحیح بخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٦‘ صحیح مسلم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٦‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٣٧‘ سنن نسائی ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٥٠‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٤) 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ مسلم (یا مومن) وضو کرتا ہے تو وہ جب چہرے کو دھوتا ہے تو پانی کے قطروں کے ساتھ اس کے چہرے سے ہر وہ گناہ دھل جاتا ہے جو اس نے آنکھوں سے کیا تھا اور جب وہ ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے قطروں کے ساتھ اس کا ہر وہ گناہ دھل جاتا ہے جو اس نے ہاتھوں سے کیا تھا حتی کہ وہ گناہوں سے صاف ہوجاتا ہے۔ (سنن ترمذی ‘ ج ١“ رقم الحدیث :‘ ٢‘ صحیح مسلم ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٤‘ الموطا ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣‘ سنن دارمی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٣‘ مسند احمد ‘ ج ٣“ رقم الحدیث :‘ ٨٠٢٦‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ٨١‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤) 

امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جو شخص اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں جائجے اور اس کا مسجد میں جانا صرف نماز کیلیے ہو تو اس کے ہر قدم سے اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ حتی کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ ‘ ج ١ رقم الحدیث ‘ ٢٨١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا ‘ پھر کہا ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ‘ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین “۔ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ وہ جس دروازے سے چاہے ‘ جنت میں داخل ہوجائے۔ (سنن ترمذی ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥‘ صحیح مسلم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٣٤‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٩‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٠‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٣١٦) 

امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥‘ ھ روایت کرتے ہیں : 

ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں سلمان کے ساتھ تھا ‘ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ کو پکڑ کر ہلایا اور کہا ‘ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ (المصنف ج ١‘ ص ٨۔ ٧ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗ ١٤٠٦ ھ) 

امام ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر مالکی اندلسی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں : 

سالم بن عبداللہ بن عمر ‘ کعب احبار سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے ایک شخص نے بیان کیا اس نے خواب میں دیکھا ہے کہ لوگوں کو حساب کے لیے جمع کیا گیا ‘ پھر انبیاء (علیہم السلام) کو بلایا گیا۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی امت تھی اور اس نے دیکھا کہ ہر نبی کے ساتھ دو نور ہیں جو ان کے درمیان چل رہے ہیں ‘ اور ان کی امت میں سے جو ان کے متبعین تھے ‘ ان کے لیے ایک نور تھا ‘ حتی کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا گیا۔ آپ کے سر کے بالوں اور آپ کے پورے چہرے پر نور تھا ‘ جو ہر دیکھنے والے کو نظر آ رہا تھا ‘ اور آپ کی امت میں سے آپ کے متبعین کے لیے دو نور تھے ‘ جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کے لیے نور تھے۔ کعب بیان کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ خواب نہیں تھا ‘ انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ تم کو یہ حدیث کس نے بیان کی ؟ اور تم کو اس کا علم کس طرح ہوا تو اس نے بتایا کہ اس نے کہ خواب دیکھا تھا ‘ پھر کعب نے اسے اللہ کی قسم دے کر کہا کیا واقعی تم نے یہ خواب دیکھا تھا ؟ اس نے کہا ہاں ! میں نے یہی خواب دیکھا تھا۔ کعب نے کہا ‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! یا کہا ‘ اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بھیجا یہ سیدنا احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی صفت ہے ‘ اور اللہ کی کتاب تورات میں انبیاء کی صفت ہے جس طرح میں نے تورات میں پڑھا ہے۔ اور اس حدیث کی سند میں نے تمہید (ج ٢‘ ص ٢٥٩) میں بیان کی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ تمام امتیں وضو کرتی تھیں اور یہ چیز میرے نزدیک کسی سند سے ثابت نہیں ہے۔ (الاستذکار ‘ ج ٢ ص ١٨٠‘ مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ‘ بیروت ١٤١٣ ھ) 

ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا جواز : 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو اور اس وقت تم بےوضو ہو کر تم پر وضو کرنا فرض ہے ‘ اور جب کوئی شخص باوضو ہو تو اس پر نماز پڑھنے کے لیے دوبارہ وضو کرنا واجب نہیں ہے وہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے۔ البتہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا مستحب ہے۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے وقت وضو کرتے تھے۔ راوی نے پوچھا آپ کیا کرتے تھے حضرت انس (رض) نے کہا ‘ ہم میں سے کسی ایک شخص کے لیے وضو کافی ہوتا تھا ‘ جب تک کہ وہ بےوضو نہ ہو۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢١٤‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٧١‘ سنن ترمذی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٨) 

سوید بن نعمان بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے سال ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام صہباء پر پہنچے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر آپ نے جب طعام منگوایا تو صرف ستو لائے گئے ہم نے انکو کھایا اور پیا ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب کے لیے اٹھے ‘ آپ نے کلی کی اور ہم کو مغرب کی نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٢١٥) 

غزوہ خیبر ‘ غزوہ فتح مکہ سے پہلے سات ہجری میں ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ سے پہلے بھی ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھتے تھے۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن کئی نمازیں ایک وضو کے ساتھ پڑھیں اور موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا ‘ آج آپ نے ایک ایسا کام کیا ہے جو آپ (پہلے) نہیں کرتے تھے ‘ آپ نے فرمایا میں نے عمدا کیا ہے۔ (صحیح مسلم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٢٧٧) 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے ‘ جس سال فتح مکہ ہوا ‘ آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے پڑھیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ پہلے نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا ” میں نے عمدا کیا ہے “۔ (سنن ترمذی ‘ ج ١ رقم الحدیث ‘ ٦١‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) 

اس سے پہلے صحیح البخاری ( رقم الحدیث : ٢١٥) کے حوالہ سے گزر چکا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خبیر کے سال بھی دو نمازیں ایک وضو سے پڑھی ہیں۔ 

ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری نہیں ہے ‘ بلکہ جو شخص بےوضو ہو اور وہ نماز پڑھنے کا ارادہ کرے ‘ اس کے لیے وضو کرنا ضروری ہے۔ 

وضو کے متفق علیہ فرائض :

وضو کے فرائض میں سے پورے چہرے کو دھونا فرض ہے۔ سر کے بال جہاں سے اگنے شروع ہوتے ہیں وہاں سے ٹھوڑی کے نچلے حصہ تک چہرہ کی لمبائی ہے اور دو کانوں کا درمیانی حصہ چوڑائی ہے۔ جس آدمی کی چھدری داڑھی ہو ‘ اس پر بالوں کو اور بالوں کے نیچے کھال کو دھونا ضروری ہے اور جس کی گھنی داڑھی ہو ‘ ہو صرف بالوں میں خلال کرے ‘ داڑھی کو دھونا اس پر واجب نہیں ہے۔ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے ‘ اس کی تفصیل انشاء اللہ ہم عنقریب بیان کریں گے۔ 

وضو میں ہاتھوں کو دھونا بھی فرض ہے ‘ انگلیوں کے سروں سے لے کر کہنیوں تک ہاتھ ہیں اور کہنیاں بھی ہاتھوں میں داخل ہیں۔ 

سر کے مسح کی مقدار میں مذاہب ائمہ : 

وضو میں تیسرا فرض سر کا مسح کرنا ہے ‘ مسح کی مقدار میں اختلاف ہے۔ امام شافعی نے کہا مسح کی اتنی مقدار ہے جس سے کم سے کم مقدار پر مسح کا اطلاق آسکے۔ 

علامہ ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردی شافعی متوفی ٤٥٠ لکھتے ہیں : 

امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ کم از کم تین بالوں یا ان سے زائد پر مسح کا جائے ‘ یہ مقدار فرض ہے۔ کیونکہ ‘(آیت) ” وامسحوا برء وسکم “ میں با کا معنی تبعیض ہے ‘ اور آیت کا معنی ہے اپنے سر کے بعض حصہ پر مسح کرو۔ اور حدیث میں اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن سیرین نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پیشانی پر ‘ یا سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : المسلسل ٢٧٤‘ رقم الحدیث الکتاب ٨٢۔ ٨١) اور ابو معقل نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کر رہے تھے اور آپ کے سر پر قطری عمامہ تھا ‘ آپ نے اپنا ہاتھ عمامہ کے نیچے داخل کیا اور سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ١٤٧‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ج ١‘ ص ٦١) البتہ امام شافعی کے نزدیک پورے سر کا مسح کرنا مستحب ہے ‘ کیونکہ حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت مقدام بن معدی کرب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے سرکا مسح کیا تھا۔ (الحاوی الکبیر ‘ ج ١‘ ص ١٣٨۔ ١٣٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ) 

امام شافعی کی اس دلیل پر دو وجہ سے نقض ہے۔ ایک تو یہ کہ باء کا متفق علیہ معنی الصاق ہے۔ تبعیض نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر تین بالوں پر مسح کرنا فرض ہوتا ‘ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان جواز کے لیے کبھی تو صرف تین بالوں پر مسح کرتے یا پھر یا اس مقدار کا صراحتا بیان فرماتے۔ 

امام مالک کے نزدیک پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ 

امام ابوبکرمحمد بن عبداللہ ابن العربی متوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں۔ 

چہرہ اس عضو کا نام ہے جس پر آنکھیں ‘ ناک اور منہ ہے۔ اسی طرح سر اس عضوکا نام جس پر بال ہیں ‘ سو جس طرح چہرہ دھونے کا معنی یہ ہے اس تمام عضو کو دھویا جائے جس پر آنکھیں ‘ ناک اور منہ ہے۔ اسی طرح سر پر مسح کرنے کا معنی ہے کہ اس کے تمام بالوں پر مسح کیا جائے۔ امام مالک سے کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص وضو کرے اور سر کے بعض حصہ مسح کرے اور بعض کو ترک کر دے تو آیا یہ صحیح ہے ؟ امام مالک نے جواب دیا ‘ اگر کوئی شخص وضو کرے اور چہرے کے بعض حصہ کو دھوئے اور بعض کو ترک کردے تو آیا یہ جائز ہوگا ؟ (احکام القرآن ج ٢ ص ‘ ٦٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ) 

علامہ ابن العربی نے امام مالک کے موقف پر حسب احادیث سے استدلال کیا ہے : 

حضرت عبداللہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ آپ اپنے ہاتھوں کو سر کے ابتدائی حصہ سے پیچھے اپنی گدی کی طرف لے گئے اور پھر گذی سے اگلے حصے تک لائے۔ جہاں سے آپ نے ابتداء کی تھی۔ (صحیح البخاری “ رقم الحدیث :‘ ١٨٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٣٥‘ سنن ابوداؤد ‘ ١١٨‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث ٣٢‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٣٤‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ ص ٣٩۔ ٣٨‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١ ص ٥٩‘ کتاب المعرفہ ج ١‘ ص ٢١٢) 

حضرت مقدام بن معدی کرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے ہوئے دیکھا جب آپ سر کے مسح پر پہنچے تو آپ نے سر کے اگلے حصے پر دونوں ہتھیلیاں رکھیں ‘ پھر آپ ان ہتھیلیوں سے مسح کرتے ہوئے ان کو گدی تک لائے ‘ پھر ان سے مسح کرتے ہوئے ان کو واپس اسی جگہ لے گئے جہاں سے ابتداء کی تھی۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ١٢٣۔ ١٢٤‘ سنن کبری للبہقی ‘ ج ٥٩) 

علامہ ابن قدامہ حنبلی متوفی متوفی ٦٢٠ ھ نے لکھا ہے کہ سر کے مسح کے متعلق امام احمد کے تین قول ہیں۔ 

(١) پورے سر کا مسح فرض ہے۔ 

(٢) پیشانی کے برابر یعنی چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔ 

(٣) سر کے اکثر حصہ کا مسح کرنا فرض ہے۔ 

(المغنی ‘ ج ١ ص ٨٧۔ ٨٦‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

پورے سر کا مسح کرنے یا اکثر حصہ کا مسح کرنے کا قول اس لیے صحیح نہیں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر پر پیشانی کی مقدار کے برابر بھی مسح کیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن ابو داؤد کے حوالوں سے گزر چکا ہے۔ 

امام ابوحنیفہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے اور بعض مشائخ احناف کے نزدیک تین انگلیوں کی مقدار مسح کرنا فرض ہے۔ 

علامہ علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی ٥٩٣ لکھتے ہیں : 

پیشانی کی مقدار چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے کوڑا ڈالنے کی جگہ پر آئے ‘ پھر پیشاب کیا اور پیشانی کی مقدار (پر) مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا ‘ اور قرآن مجید میں مسح کی مقدار مجمل ہے اور یہ حدیث اس کا بیان ہے اور یہ حدیث امام شافعی کے خلاف دلیل ہے ‘ جو تین بالوں کی مقدار کا قول کرتے ہیں اور امام مالک پر بھی حجت ہے جو پورے سرکے مسح کو فرض کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے ہاتھ کی تین انگلیوں کی مقدار مسح کرنے کو فرض کہا ہے ‘ کیونکہ مسح کرنے کا آلہ ہاتھ ہے اور اس کی اکثر مقدار تین انگلیاں ہیں۔ (ھدایہ اولین ‘ ص ١٧‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ‘ ملتان) 

سر پر مسح کرنا فرض قطعی ہے اور اس کی مقدار فرض ظنی ہے ‘ فرض قطعی میں اختلاف یا اس کا انکار جائز نہیں ہے اور فرض ظنی میں مجتہد دلائل سے اختلاف کرسکتا ہے ‘ اسی طرح ربوالفضل کی حرمت بھی ظنی ہے اور اسکی حرمت کی علت میں بھی مجتہدین کا اختلاف ہے۔ 

پیروں کے دھونے پر دلائل : 

قرآن مجید ‘ احادیث اور اجماع علماء سے وضو میں پیروں کے دھونے کی فرضیت ثابت ہے اور وضو میں پیروں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے اور شیعہ اس کے قائل ہیں کہ وضو میں پیروں پر مسح کیا جائے ‘ ان کو دھویا نہ جائے ‘ ہماری دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے ” وارجلکم “ اور لام پر نصب ہے اور اس کا عطف (آیت) ” وجوھکم وایدیکم “ پر ہے یعنی اپنے چہروں ‘ ہاتھوں اور پیروں کو دھوؤ۔ صحابہ میں سے حضرت علی (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) کی یہی قرات ہے اور قراء میں سے ابن عامر ‘ نافع ‘ اور کسائی کی یہی قرات ہے اور عاصم سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ (الحاوی الکبیر ‘ ج ١ ص ٤٩) اور اس قرات کا یہ تقاضا ہے کہ پیروں کا دھونا فرض ہو اور حسب ذیل احادیث میں بھی اس پر دلیل ہے کہ پیروں کا دھونا فرض ہے۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں بیان کرتے ہیں ایک سفر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہم سے آ ملے ‘ درآنحالیکہ ہم نے عصر کی نماز میں دیر کردی تھی ‘ سو ہم وضو کرنے لگے اور پیروں پر مسح کرنے لگے ‘ تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین بار فرمایا : ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہو۔ 

یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی مروی ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جن ایڑیوں کو دھویا نہ گیا ہو ‘ ان کو آگ کا عذاب ہو۔ (صحیح البخاری ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٥۔ ١٦٣ صحیح مسلم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٢۔ ٢٤١۔ ١٤٠‘ سنن ترمذی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤١‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٩٧‘ سنن نسائی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١١١‘ سنن ابن ماجہ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٤٥٠‘ مسنداحمد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٥٧٠) 

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : 

مغیرہ بن حنین بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا ایک شخص وضو کر رہا تھا اور وہ اپنے پیروں کو دھو رہا تھا ‘ آپ نے فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔ حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھوؤ۔ 

ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنے پیر میں ناخن جتنی جگہ کو دھونے سے چھوڑ دیا تھا ‘ آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اپنے وضو اور نماز کو دہرائے۔ (جامع البیان ‘ جز ٦ ص ١٧٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

پیروں کے دھونے پر علماء شیعہ کے اعتراضات کے جوابات : 

شیعہ کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس آیت کی دو قرایتیں ہیں۔ نصب کی قرات (ارجلکم) سے دھونا ثابت ہوتا ہے اور جر کی قرات (ارجلکم) سے مسح ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس کا عطف بروسکم پر ہوگا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ جر کی تقدیر پر بھی (آیت) ” ارجلکم “ کا عطف (آیت) ” ایدیکم “ پر ہے ‘ اور اس پر جوار کی وجہ سے جر ہے۔ اس کی نظیر یہ آیت ہے : 

(آیت) ” انی اخاف علیکم عذاب یوم الیم “۔ (ھود : ٢٦) 

ترجمہ : بیشک میں تم پر درد ناک عذاب کے دن کا خوف رکھتا ہوں۔ 

اس آیت میں (آیت) ” الیم “ عذاب کی صفت ہے ‘ اس اعتبار سے اس پر نصب (زبر) ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ اس کے جوار میں یوم پر جر ہے ‘ اس لیے اس کو بھی جر دی گئی۔ اس کو جر دی گئی۔ اس کو جر جوار کہتے ہیں اسی طرح (آیت) ” ارجلکم “ کا عطف (آیت) ” وجوھکم “ اور (آیت) ” ایدیکم “ پر ہے۔ اس وجہ سے اس پر نصب ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے جوار میں (آیت) ” برء وسکم “ چونکہ مجرور ہے ‘ اس لیے اس کو بھی جردی گئی۔ لہذا یہ جر جوار ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ (آیت) ” ارجلکم “ کا عطف (آیت) ” برء وسکم پر ہے ‘ اور اس سے پہلے (آیت) ” وامسحوا “ مقدر ہے ‘ لیکن (آیت) ” وامسحوا برء وسکم ‘ میں مسح کا معنی حقیقی مراد ہے۔ یعنی گیلا ہاتھ پھیرنا اور (آیت) ” وامسحوابارجلکم “ میں مسح کا مجازی معنی مراد ہے ‘ یعنی دودھونا۔ اہل عرب کہتے ہیں مسح المطرالارض بارش نے زمین کو دھو ڈالا۔ سو مسح مجازا دھونے کے معنی میں بھی مستعمل ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔ معطوف علیہ میں حقیقت اور معطوف میں مجاز مراد ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی نظریہ آیت ہے : 

(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبلا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا “۔ (نساء : ٤٣) 

ترجمہ : اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ‘ حتی کہ تم یہ سمجھنے لگو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور نہ جنابت حالت میں مسجد کے قریب جاؤ حتی کہ تم غسل کرلو ‘ الا یہ کہ تم نے (مسجد میں صرف) رستہ عبور کرنا ہو۔ 

اس آیت میں (آیت) ” ولا جنبا “ کا عطف (آیت) ” لا تقربوا الصلوۃ “ پر ہے اور اس سے پہلے بھی (آیت) ” لا تقربو الصلوۃ “۔ مقدر ہے ‘ لیکن معطوف علیہ میں الصلوۃ کا معنی حقیقتا مراد ہے یعنی نماز اور معطوف میں الصلوۃ کا معنی مجازا مراد ہے ‘ یعنی مسجد اور محل صلوۃ۔ اسی طرح آیت وضو میں (آیت) ” وامسحوابرء وسکم “ میں مسح کا حقیقی معنی مراد ہے اور (آیت) ” وامسحوا بارجلکم “ میں مسح کا مجازی معنی مراد ہے ‘ یعنی دھونا۔ 

تیسرا جواب یہ ہجے کہ (آیت) ” ارجلکم “ اور (آیت) ” ارجلکم “ دو متواتر قرابتیں ہیں اور جس طرح قرآن مجید کی آیات میں باہم تعارض نہیں ہے ‘ اسی طرح مجید کی قرات میں بھی باہم تعارض نہیں ہے اور (آیت) ” ارجلکم “ کا معنی ہے پیروں کا دھونا اور (آیت) ” ارجلکم “ کا معنی ہے پیروں پر مسح کرنا۔ اسی لیے (آیت) ” ارجلکم “ کی قرات اس حال پر محمول ہے جب اس نے موزے پہنے ہوئے ہوں۔ یعنی جب موزے پہنے ہوں ‘ تو پیروں پر مسح کرلو اور جب موزے نہ پہنے ہوں تو پیروں کو دھو لو۔ اس طرح ان دونوں قراتوں میں کوئی تعارض نہیں رہے گا۔ 

علماء شیعہ نے کہا کہ قاعدہ یہ ہے کہ وضو میں ان اعضاء کو دھویا جاتا ہے جن پر تیمم میں مسح کیا جاتا ہے اور جن اعضاء کو تیمم میں ترک کردیا جاتا ہے ‘ ان پر وضو میں مسح کیا جاتا ہے۔ اگر وضو میں پیروں کو دھونے کا حکم ہوتا تو تیمم میں پیروں پر مسح کیا جاتا اور جبکہ تیمم میں پیروں کو ترک کردیا جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ وضو میں پیروں کا حکم مسح کرنا ہے نہ کہ دھونا۔ 

اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ یہ قاعدہ قرآن مجید میں مذکور ہے نہ حدیث میں ‘ یہ محض ان کی ذہنی اختراع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وضو میں جن اعضاء کو دھونے کا حکم دیا ہے اور وہ چہرہ ‘ ہاتھ اور پیر ہیں ‘ تو ان کو دھویا جائے ‘ اور جس عضو پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ سر ہے تو اس پر مسح کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے تیمم یا وضو کے لیے کسی ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کا حکم نہیں دیا ‘ بلکہ دونوں کے الگ الگ صراحتا احکام بیان فرمائے اور ان دونوں کا تفصیلی حکم اسی آیت میں ہے۔ قیاس اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی چیز کا صراحتا حکم بیان نہ کیا گیا ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس اور قاعدہ غسل سے ٹوٹ جاتا ہے ‘ کیونکہ تیمم جس طرح وضو کی فرع ہے ‘ اسی طرح غسل کی فرع ہے ‘ اور جب تیمم میں چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جاتا ہے اور باقی بدن کو ترک کردیا جاتا ہے ‘ تو چاہیے کہ غسل میں صرف چہرے اور ہاتھوں کو دھو لیا جائے اور باقی بدن پر صرف مسح کرلیا جائے اور جب کہ بالاتفاق غسل میں ایسا نہیں کیا جاتا ‘ تو معلوم ہوا کہ یہ قاعدہ اور قیاس فاسد ہے۔ 

وضو کے مختلف فیہ فرائض : 

امام شافعی رحمۃ اللہ عنہ کے نزدیک وضو سے پہلے وضو کی نیت کرنا بھی فرض ہے : 

علامہ ابوالحسن علی بن محمد ماوردی شافعی متوفی ٤٥٠ لکھتے ہیں : 

غسل اور وضو سے اس وقت تک طہارت حاصل نہیں ہوگی جب تک کہ نیت نہ کرے ‘ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : اعمال کا مدار صرف نیت پر ہے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١) نیز بغیر نیت کے جائز نہیں ہے ‘ اور یہ دونوں طہارتیں ہیں تو دونوں کا حکم مختلف کیسے ہوگا۔ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک طہارت کی شرط ہے۔ (مغنی ‘ ابن قدامہ ‘ ج ١ ص ٧٨‘ الحادی الکبیر ‘ ج ١ ص ١٠٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٤ ھ) 

اعمال کا دارومدار صرف نیت پر ہے۔ اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ تمام اعمال کی صحت کا مدار نیت پر ہے۔ ورنہ لازم آئے گا کہ بیع ‘ شراء ‘ نکاح ‘ طلاق ‘ رد اور قبول کوئی چیز بھی نیت کے بغیر صحیح نہیں ہو۔ اس لیے اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ تمام اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے۔ لہذا اگر طہارت کے قصد کے بغیر کوئی شخص بارش میں نہا لیا تو اس کا غسل اور وضو صحیح ہوگا اور اس سے نماز صحیح ہوگی ‘ اگرچہ طہارت کا ثواب اس کی نیت سے ملے گا۔ 

علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : 

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ عنہ کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وضوء غسل اور تیمم سب میں پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے ‘ کیونکہ امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص وضو نہ کرے ‘ اس کی نماز نہیں ہوگی اور جو شخص بسم اللہ نہ پڑھے ‘ اس کا وضو نہیں ہوگا۔ (سنن ابوداؤد ج ١ رقم الحدیث : ١٠١‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٥‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٩٧) علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے کہا ہے اس کی اسناد جید حسن ہے) پہلی روایت کی وجہ یہ ہے کہ وضو طہارت ہے اور باقی طہارتوں کی طرح اس میں بھی بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ‘ اور اس حدیث میں وضو کی نفی نفی کمال پر محمول ہے ‘ جیسے آپ نے فرمایا مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی اور دوسری روایت اس حدیث کے ظاہر معنی پر محمول ہے۔ اگر اس نے عمدا بسم اللہ کو ترک کیا تو وضو نہیں ہوگا اور اگر بھول گیا تو وضو ہوجائے گا۔ (المغنی ج ١ ص ٧٤۔ ٧٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ ‘) 

امام شافعی کے نزدیک اعضاء وضو میں وہ ترتیب بھی فرض ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے ‘ یعنی پہلے چہرہ دھوئے ‘ پھر ہاتھ پھر سر کا مسح کرے اور پھر پیروں کو دھوئے۔ 

علامہ ابوالحسن علی بن محمد ماوردی شافعی متوفی ٤٥٠ لکھتے ہیں : 

ہماری دلیل اس آیت میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” فاغسلوا وجوھکم وایدیکم “۔ (الایہ) اور ” فا “ تعقیب اور تاخیر کا تقاضا کرتی ہے۔ امام احمد کا بھی یہی موقف ہے۔ (الحاوی الکبیر ‘ ج ١ ص ١٦٨) 

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ عنہ اور امام مالک رحمۃ اللہ عنہ کے نزدیک وضو میں ترتیب فرض نہیں ہے ‘ کیونکہ ان کے درمیان حرف واؤ کے ساتھ عطف کیا گیا ہے اور واؤ مطلقا جمع کے لیے آتی ہے۔ نیز حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے فرمایا : مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں خواہ کسی عضو کے ساتھ وضو کی ابتداء کروں۔ (سنن کبری ‘ للبیہقی ج ١ ص ٨٧) نیز حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا اگر تم وضو میں ہاتھوں سے پہلے پیروں کو دھوؤ تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ج ١ ص ٣٩) امام بیہقی نے بھی اس اثر کو روایت کیا ہے۔ (سنن کبری ‘ ج ١ ص ٨٧) نیز جب بےوضو آدمی وضو کی نیت سے نہر یا دریا میں غسل کرے تو ترتیب ساقط ہوجائے گی اور بالاتفاق اس کا وضو ہوجائے گا۔ 

امام مالک موالات فرض ہے ‘ یعنی ایک عضو کے فورا بعد دوسرے عضو کو دھونا بشرطیکہ اس کو یاد رہے۔ 

علامہ احمد بن رشد مالکی اندلسی متوفی ٥٩٥ ھ لکھتے ہیں 

امام مالک کے نزدیک موالات فرض ہے ‘ بشرطیکہ اس کو یاد ہو اور کوئی عذر نہ ہو اور امام شافعی ‘ امام ابوحنیفہ اور امام احمد کے نزدیک موالات فرض نہیں ہے۔ امام مالک کا استدلال اس آیت میں لفظ ” فا “ سے ہے کیونکہ ” فا “ ترتیب علی الفور کے لیے آتی ہے (بدایۃ المجتہد ‘ ج ١ ص ١٢) اور جمہور کا استدلال لفظ ” واؤ“ سے ہے ‘ کیونکہ ” واؤ“ مطلقا جمع کے لیے آتی ہے اور ان اعضاء کے درمیان ” واؤ“ کے ساتھ عطف کیا گیا ہے۔ دوسری دلیل یہ حدیث ہے ‘ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت میمونہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح وضو کیا جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہیں مگر پیروں کو نہیں دھویا ‘ آپ نے استنجاء کیا اور جو ناگوار لگی تھی ‘ اس کو صاف کیا ‘ پھر تمام جسم پر پانی ڈالا۔ اس کے بعد ایک طرف ہو کر اپنے پیروں کو دھویا ‘ یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٢٤٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) 

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ نے پیروں کے دھونے کو باقی اعضاء سے موخر کردیا ‘ اس سے واضح ہوگیا کہ وضو میں موالات فرض نہیں ہے۔ 

وضو کی سنتیں : 

پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین بار ہاتھ دھو لینے چاہئیں۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے ہاتھ کو دھو لے ‘ کیونکہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے ؟ صحیح مسلم کی روایت میں تین دفعہ ہاتھ دھونے کا ذکر ہے۔ اسی طرح سنن ترمذی اور سنن ابوداؤد وغیرہ میں ہے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٢‘ صحیح مسلم ٢٧٨‘ سنن ابو داؤد ١٠٣‘ سنن ترمذی ٢٤‘ سنن ابن ماجہ ٣٩٣ سنن دارقطنی ١٢٧‘ مسنداحمد ٢‘ ص ٥٠٧۔ ٤٧١‘ ٤٥٥‘ ٢٦٥‘ طبع قدیم) 

وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ 

امام ابو داؤد سجستانی متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کا وضو نہ ہو ‘ اس کی نماز نہیں ہے اور جو بسم اللہ نہ پڑھے ‘ اس کا وضو نہیں ہے۔ (سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ١٠١‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٩٩‘ سنن دارقطنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢٠‘ المستدرک ‘ ج ١ ص ١٤٦) 

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوہریرہ ! جب تم وضو کرو تو کہو بسم اللہ والحمدللہ ‘ پھر تمہارے کراما کاتبین اس وقت تک تمہاری نیکیاں لکھتے رہیں گے جب تک تم اس وضو پر قائم رہو گے۔ (المعجم الصغیر ‘ رقم الحدیث : ١٩٧) اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن محمد متفرد ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا اس کی روایات منکر ہیں۔ (میزان الاعتدال ‘ ج ١‘ ص ١٨١) امام ابن عدی نے کہا اس کی روایات ضعیف ہیں (کتاب الضعفاء ‘ ج ١ ص ٢٦٠) حافظ الہثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (مجمع الزوائد ‘ ج ١‘ ص ٢٢٠) 

مسواک کرنی چاہیے ‘ لکڑی کی معروف مسواک نہ ہو تو انگلی سے یا برش سے دانت صاف کرنے سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اٹھتے تو مسواک کرتے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٥‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٢٥٥‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٦‘ سنن دارمی ‘ رقم الحدیث : ٦٨٩) 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ٨٨٧‘ مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٢‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٦‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٧‘ سنن دارمی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٨٧‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٥٣١‘ طبع قدیم) 

بعض روایات میں ہر وضو کے وقت مسواک کا حکم دینے کا ذکر ہے ‘ امام بخاری نے تطیقا روایت کیا ہے : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو انہیں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (صحیح البخاری ‘ باب السواک الرطب والیابس للصائم ‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ‘ ج ١ ص ٣٥‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٤٦٠۔ ٥٧١) 

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں سے ایک شخص نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ہمیں مسواک کرنے کی ترغیب دی ہے۔ کیا اس کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارے وضو کے وقت تمہاری دو انگلیاں مسواک ہیں جن کو تم دانتوں پر پھیرتے ہو ‘ بغیر نیت کے کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا ‘ اور ثواب کی نیت کے بغیر کوئی اجر نہیں ہوتا۔ امام بیہقی نے کہا ‘ اس حدیث کی سند محفوظ ہے۔ (سنن کبری ج ١ ص ٤١‘ مطبوعہ نشرالسنہ ‘ ملتان) 

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) زوجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسواک کے ساتھ نماز کی فضیلت بغیر مسواک کے ساتھ نماز پر ستر درجہ زیادہ ہے۔ (علامہ احمد شاکر ‘ متوفی ١٣٧٧ ھ نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ‘ تحقیق احمد شاکر ‘ ج ١٨‘ رقم الحدیث : ٢٦٢١٨‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ ج ١ ص ٧١‘ برقم ١٣٧‘ حاکم نے کہا یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی۔ المستدرک ‘ ج ١ ص ١٤٦) 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کیا کہ جو نماز مسواک کے ساتھ پڑھی گئی ہو ‘ اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نماز پر ستر درجہ فضیلت دیتے تھے جو مسواک کے ساتھ نہ پڑھی گئی ہو۔ (مسند ابو یعلی ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٣٨‘ مطبوعہ دارالمامون ‘ بیروت ‘ مسند البزار ‘ ج ١ ص ٢٤٤‘ برقم ٥٠١‘ سنن کبری ج ٢ ص ٣٨) 

کلی کرنا ‘ ناک میں پانی ڈالنا اور پورے سر کا مسح کرنا سنت ہے۔ 

عمرو بن ابی حسن نے حضرت عبداللہ بن زید (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کے متعلق سوال کیا ؟ انہوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور انہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح وضو کر کے دکھایا۔ انہوں نے اس برتن سے پانی انڈیل کر تین مرتبہ ہاتھ دھوئے ‘ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا ‘ پھر ہاتھ میں پانی لے کر تین مرتبہ چہرہ دھویا پھر اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دو مرتبہ دھویا ‘ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر سر کا مسح کیا ‘ ایک مرتبہ ہاتھوں کو سر کے اگلے حصہ سے پچھلے حصہ تک اور ایک مرتبہ پچھلے حصہ سے اگلے حصہ تک پھیرا۔ پھر اپنے دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھویا۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٦‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٣٥‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ١١٨۔ ١١٩‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢۔ ٢٨‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٠٥‘ سنن دارمی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٩٨) 

کانوں کا مسح کرنا سنت ہے۔ 

امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کانوں کا مسح کیا ‘ کانوں کے اندر اپنی انگلیاں (سبابہ) ڈالیں اور کانوں کی پشت پر اپنے انگوٹھے رکھے اور کانوں کے ظاہر اور باطن پر مسح کیا۔ (سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٣٩‘ صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ١٤٠‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ١٠١) 

داڑھی میں خلال کرنا سنت ہے : 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عثمان بن عفان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داڑھی میں خلال کرتے تھے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٣١‘ المستدرک ‘ ج ١‘ ص ١٥٠۔ ١٤٩) 

ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں میں خلال کرنا سنت ہے : 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں میں خلال کرو۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٣٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٤٧) 

ہر عضو کو تین تین بار دھونا سنت ہے : 

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کس طرح ہوتا ہے ؟ آپ نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے ہاتھوں کو تین بار دھویا پھر اپنے چہرے کو تین بار دھویا ‘ پھر اپنی کلائیوں کو تین بار دھویا ‘ پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی دو (سبابہ) انگلیوں کو اپنے کانوں میں داخل کیا اور اپنے انگوٹھوں سے اپنے کانوں کی پشت پر مسح کیا اور انگلیوں سے کان کے باطن پر مسح کیا پھر اپنے دونوں پیروں کو تین تین بار دھویا ‘ پھر فرمایا : اس طرح وضو ہوتا ہے جس نے اس پر زیادتی کی ‘ یا کمی کی ‘ اس نے برا کام کیا اور ظلم کیا۔ (سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ١٤٥) 

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس نے تین بار دھونے کو طہارت کے لیے ناکافی جان کر زیادتی کی ‘ اس نے ظلم کیا۔ ورنہ اگر مزید صفائی کے قصد سے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے تین بار سے زیادہ دھویا تو وہ مباح ہے اور یا جس نے تین بار دھونے کو طہارت کے لیے زائد جان کر کمی کی ‘ اس نے ظلم کیا ورنہ ایک بار دھونا بھی آپ سے ثابت ہے۔ 

وضو کے مستحبات : 

وضو میں نیت کرنا ‘ علامہ ابوالحسن احمد قدوری متوفی ٤٢٨ ھ کے نزدیک مستحب ہے اور علامہ المرغینانی المتوفی ٥٩٣ ھ حنفی کے نزدیک سنت ہے۔ کیونکہ وضو کرنا عبادت ہے اور ہر عبادت میں ثواب کی شرط اخلاص ہے اور اخلاص کا معنی نیت ہے۔ قرآن مجید میں ہے : 

(آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین “۔ (البینہ : ٥) 

ترجمہ : اور ان کو یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں درآنحالیکہ وہ صرف اسی کے لیے اخلاص سے اطاعت کرنے والے ہیں۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے منبر پر کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا مدارصرف نیات پر ہے ‘ ہر شخص کے لیے وہی صلہ ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ سو جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف ہو ‘ جس کو وہ پائے یا کسی عورت کی طرف ہو جس سے وہ نکاح کرے تو اس کی ہجرت اس کی طرف (محسوب ہوگی) جس کی طرف اس نے نیت کی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٠٧‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢٠١‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٤٧‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٧٥‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢٢٧‘ مسند احمد ‘ رقم الحدیث :‘ ج ١ ص ٤٣۔ ٢٥‘ طبع قدیم) 

وضو کو اس ترتیب سے کرنا جس ترتیب سے قرآن مجید میں اعضاء کو دھونے کا حکم ہے ‘ یہ بھی مستحب ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید میں اس ترتیب کا مذکور ہونا ہے ‘ اور بکثرت احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس ترتیب سے وضو کرنا لکھا ہے۔ علامہ قدوری کے نزدیک یہ مستحب ہے ‘ اور علامہ المرغینانی کے نزدیک سنت ہے۔ 

دائیں عضوکو بائیں عضو سے پہلے دھونا مستحب ہے۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر کام میں دائیں طرف سے ابتداء کرنا پسند تھا ‘ حتی کہ جوتی پہننے میں ‘ کنگھی کرنے میں ‘ وضو کرنے میں اور تمام کاموں میں۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١٧٨‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٦٨‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٤١٤٠‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٦٠٨‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث ١١٤‘ مسند احمد ‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث ‘ ٢٥٨٢١‘ مطبوعہ دارالفکر ١٤١٤ ھ) 

وضو کے آداب : 

(١) اسراف کو ترک کرنا۔ 

(٢) بہت کم پانی لینے کو ترک کرنا۔

(٣) اس کپڑے سے اعضا وضو کو نہ پونچھنا جن سے استنجا کی جگہ کو پونچھا ہو۔ 

(٤) لوگوں سے باتیں نہ کرنا۔ 

(٥) بلاضرورت وضو میں لوگوں سے مدد نہ لینا۔ وبری نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ‘ کیونکہ احادیث صحیحہ میں ہے کہ حضرت انس ‘ حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کراتے تھے۔ 

(٦) وضو کے لیے خود پانی لانا۔ 

(٧) استنجاء کے وقت اس انگوٹھی کو اتار لینا جس پر اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہو۔ 

(٨) وقت سے پہلے وضو کی تیاری کرنا۔ 

(٩) ہر عضو دھوتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا۔ 

(١٠) قبلہ رو ہو کر وضو کرنا۔ 

(١١) انگوٹھی کے نیچے سے پانی گزارنا۔ 

(١٢) چہرے پر پانی سے چھپکے نہ مارنا۔ 

(١٣) جن اعضاء کو دھوئے ان پر ہاتھ پھیرے۔ 

(١٤) اطمینان سے وضو کرنا۔ 

(١٥) مل مل کر دھونا ‘ خصوصا سردیوں میں۔ 

(١٦) چہرے ‘ ہاتھوں اور پیروں کو مقررہ حدود سے زیادہ دھونا ‘ تاکہ قیامت کے دن زیادہ سے زیادہ اعضا سفید ہوں۔ 

(١٧) وضو کے بعد یہ پڑھنا ” سبحانک اللہم اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ‘ اللھم اجعلنی من التوابین “ (الخ) 

(١٨) قبلہ رول کھڑے ہو کر وضو کا پانی پینا۔ ایک قول یہ ہے کہ اگر چاہے تو بیٹھ کر (اسی طرح آب زمزم قبلہ رو کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے۔ 

(آیت) ” ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب “ (الحج : ٣٢) 

ترجمہ : اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم بجا لایا تو یہ دلوں کے تقوی سے ہے “ علامہ شامی نے لکھا ہے یہ مستحب نہیں ‘ مباح ہے۔ افضل ان پانیوں کو بیٹھ کر پینا ہے۔ لیکن شاید انہوں نے اس آیت پر غور نہیں کیا۔ سعیدی ‘ غفرلہ) 

(١٩) وضو کے بعد دو رکعت نماز سنت الوضو پڑھنا۔ 

(٢٠) اپنے کپڑوں کو وضو کے قطروں سے بچانا۔ 

(٢١) بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا۔ 

(٢٢) وضو کے پانی میں نہ تھوکنا۔ 

(٢٣) تین دفعہ سے زیادہ نہ دھونا۔ 

(٢٤) دھوپ میں گرم شدہ پانی سے وضو نہ کرنا۔ ( فتح القدیر ج ١ ص ‘ ٣٧ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

وضو توڑنے والے امور :

سبیلین یعنی اگلے مخرج اور پچھلے مخرج سے جو چیز نکلے مثلا بول اور براز اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت میں وضو ٹوٹنے کے اسباب میں بیان فرمایا ہے : 

(آیت) ” اوجاء احد منکم من الغآئط “ (المائدہ : ٦) 

ترجمہ : یا تم میں سے کوئی قضاء حاجت کرکے آئے۔ 

جسم سے خون یا پیپ نکلے یا منہ بھر کر قے آئے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسی عورت ہوں جس کو مسلسل حیض آتا رہتا ہے اور میں بالکل پاک نہیں ہوتی۔ کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں۔ نہیں ! یہ صرف رگ (سے خون نکلتا ہے ‘ رحم سے نہیں نکلتا) ہے۔ سو جب تمہیں حیض آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہوجائے تو تم خون دھولو اور نماز پڑھو۔ پھر ہر نماز کے لیے ایک بار وضو کرلو ‘ حتی کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢٨‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٣‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٩٨۔ ٢٩٧‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ١٢٥‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٢٤‘ الموطاء ‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٧‘ مسند احمد ‘ ج ٩“ رقم الحدیث :‘ ٢٥٦٧٩‘ طبع دارالفکر ‘ ١٤١٤ ھ ج ٦ ص ٢٦٤۔ ٢٠٤۔ ٤٢‘ طبع قدیم) 

اس حدیث میں رگ سے نکلنے والے خون کو وضو ٹوٹنے کی علت فرمایا۔ سو جہاں بھی یہ علت پائی جائیگی ‘ وضو ٹوٹ جائیگا۔ 

امام علی بن عمر دارقطنی متوفی ٢٨٥ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بہنے والے خون سے وضو (لازم) ہے۔ 

اس حدیث کی سند منقطع ہے ‘ کیونکہ عمر بن عبدالعزیز کا تمیم داری سے سماع نہیں ہے اور اس کی سند میں یزید بن خالد اور یزید بن محمد ضعیف ہیں۔ (سنن دارقطنی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٥٧١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) 

امام دارقطنی نے اس حدیث کو دو مختلف سندوں کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خون کے ایک قطرہ یا دو قطروں سے وضو نہیں ہے ‘ سوا اسکے کہ بہنے والا خون نکلے۔ (سنن دارقطنی ‘ رقم الحدیث : ٥٧٣۔ ٥٧٢) 

امام دارقطنی نے ان دونوں سندوں کو بھی ضعیف کہا ہے ‘ لیکن تعدد اسانید سے حدیث حسن لغیرہ ہوجاتی ہے اور وہ لائق استدلال ہوتی ہے۔ ابن جریج اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے منہ بھر کر قے کی یا اس کی نکسیر پھوٹ کئی وہ واپس لوٹے اور وضو کرے اور اپنی نماز پوری کرے۔ (سنن دارقطنی ‘ رقم الحدیث :‘ سنن ابن ماجہ ‘ ١٢٢١‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١ ص ١٥٣‘ کامل ابن عدی ‘ ج ١‘ ص ٢٩٣ ‘۔ ٥٦٠‘ ٥٦١) نیز امام دارقطنی نے اس حدیث کو ابن جریج کے والد سے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث : ٥٦٣) دو سندوں کے ساتھ حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث : ٥٥٦۔ ٥٦٥) نیز اور کئی سندوں سے روایت کیا ہے۔ (رقم الحدیث : ٥٧٠ ‘۔ ٥٦٩‘ ٥٦٨‘ ٥٦٧) 

ہرچند کہ اس حدیث کی اسانید ضعیف ہیں ‘ لیکن تعدد اسانید کی وجہ سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ‘ اور لائق استدلال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک قے کرنے سے اور غیر مخرجین سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (الحاوی الکبیر ‘ ج ١ ص ٢٤٤) 

امام شافعی کا استدلال اس حدیث سے ہے۔ امام ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وضو صرف پاد نکلنے سے یا ہوا خارج ہونے سے لازم آتا ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٧٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٥١٥‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٩٣٢٣‘ دارالفکر ‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ١١٧)

اس حدیث سے اس استدلال درست نہیں ہے ‘ ورنہ لازم آئے گا کہ بول وبراز نکلنے سے نیند سے اور جماع سے بھی وضو نہ ٹوٹے۔ جب کہ شوافع کے نزدیک عورت کو چھونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس حدیث میں ان میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے اس حدیث میں غیر مخرجین سے خون نکلنے اور منہ بھر کے قے کا ذکر نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث اس شخص کو سنائی ہے جس کو ہوا خارج ہونے کا شخص ہوتا رہتا تھا ‘ اس لیے انہوں نے کہا جب تک آواز نہ نکلے ‘ یا بدبو نہ آئے ‘ وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 

امام شافعی نے حدیث سے بھی استدلال کیا ہے۔ امام داؤد متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں گئے ایک شخص نے کسی مشرک کی بیوی کو قتل کردیا ‘ اس مشرک نے قسم کھائی میں اس وقت تک ان کا پیچھا کرتا رہوں گا جب تک کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں۔ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیچھا کرتا رہا حتی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ قیام فرمایا۔ آپ نے فرمایا ہمارا پہرہ کون دے گا ؟ ایک مہاجر اور ایک انصار نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ آپ نے فرمایا تم دونوں گھاٹی کے منہ پر کھڑے رہنا ‘ جب وہ دونوں گھاٹی کے منہ پر پہنچے تو مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اس مشرک نے اس انصاری کو دیکھا تو سمجھ لیا کہ یہ مسلمانوں کی حفاظت کر رہا ہے ‘ اس نے اپنا تیر نکال کر کمان میں رکھا اور لگا تار تین تیر مارے۔ وہ انصاری ‘ اسی طرح نماز میں رکوع اور سجود کرتارہا۔ حتی کہ مہاجر بیدار ہوگیا۔ جب اس مشرک کو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ چوکنے ہوگئے ہیں تو وہ بھاگ گیا ‘ جب مہاجر نے انصاری کے جسم سے خون بہتا ہوا دیکھا تو کہا : سبحان اللہ ! جب تمہیں پہلا تیر لگا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا ؟ انصاری نے کہا ‘ میں قرآن مجید کی جس سورت کو پڑھ رہا تھا میں نے اس کو منقطع کرنا پسند نہیں کیا۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٨‘ مسند احمد ‘ ج ٣ ص ٣٤٤۔ ٣٤٣‘ طبع قدیم ‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١ ص ١٤٠‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦‘ سنن دارقطنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٨٥٨‘ المستدرک ‘ ج ١ ص ١٥٦) 

امام شافعی رحمۃ اللہ عنہ کا اس حدیث سے استدلال اس وقت صحیح ہوتا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا جاتا اور آپ اس نماز کو دہرانے کا حکم نہ دیتے۔ ثانیا : حافظ منذری نے لکھا ہے کہ جب کہ تیر لگ کر بہنے والا خون اس انصاری کے بدن ‘ اس کی کھال اور اس کے کپڑوں پر بھی یقینا لگا ہوگا اور امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں نماز صحیح نہیں ہوتی خواہ خون تھوڑا ہی ہو ‘ اور اگر یہ کہا جائے کہ خون کی دھار اس طرح بہی تھی کہ اس کے کپڑوں اور بدن پر خون نہیں لگا تو یہ بہت تعجب خیز بات اور بہت بعید احتمال ہے۔ (مختصر سنن ابوداؤد ‘ ج ١ ص ١٤٣) 

علامہ ماوردی شافعی نے بعض آثار صحابہ سے بھی استدلال کیا ہے۔ لیکن وہ سب ضعیف ہیں۔ 

اگر کسی شخص کو لیٹے ہوئے نیند آجائے یا کسی چیز سے اس طرح ٹیک لگائے ہوئے نیند آجائے کہ اگر اس چیز کو ہٹایا جائے تو وہ گرجائے ‘ تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں سوئے ہوئے تھے ‘ حتی کہ آپ نے خراٹے لیے ‘ پھر آپ نے کھڑے ہو کر نماز پوری کی۔ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو سو چکے تھے۔ آپ نے فرمایا وضو اس شخص پر واجب ہوتا ہے ‘ جو لیٹ کر سوئے۔ کیونکہ جب انسان لیٹ جاتا ہے تو اس کے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٧٧‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٢‘ سنن کبری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٢١‘ مسند احمد ‘ ج ١ ص ٢٥٦‘ طبع قدیم) 

اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ امام ترمذی نے سند صحیح سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ 

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سوتے تھے ‘ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اور وضو نہیں کرتے تھے۔ 

حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا نیند سے ہل رہا تھا کہ اچانک کسی نے پیچھے سے مجھے گود میں بھر لیا ‘ میں نے دیکھا تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مجھ پر وضو واجب ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا نہیں ‘ جب تک کہ تم اپنا پہلو زمین پر نہ رکھو۔ (سنن کبری ‘ ج ١ ص ١٢٠‘ کامل ابن عدی ‘ ج ٢ ص ٥٥) 

امام بیہقی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے ‘ لیکن چونکہ یہ حدیث اسانید سے مروی ہے اس لیے یہ حسن لغیرہ ہے اور استدلال کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 

امام دارقطنی نے روایت کیا ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ آنکھ سرین کی رسی ہے جب آنکھ سو جاتی ہے تو یہ رسی ڈھیلی ہوجاتی ہے۔ امام طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے سو جو شخص سو جائے وہ وضو کرے۔ (سنن دارقطنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٥٨٧‘ المعجم الکبیر ‘ ج ١٩‘ رقم الحدیث :‘ : ٨٧٥‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ ص ٩٧۔ ٩٦‘ مسند ابو یعلی ‘ ج ١٣‘ رقم الحدیث :‘ : ٧٣٧٢‘ سنن دارمی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٧٢٢‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٧‘ سنن کبری ‘ ج ١ ص ١١٨‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٣‘ مجمع الزوائد ‘ ج ١ ص ٢٤٧‘ الجامع الصغیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٧٤٩‘ الجامع الکبیر ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٤٥٦٣) 

اس حدیث کی سند میں ابوبکر بن عبداللہ بن ابی مریم ضعیف راوی ہے اور بقیہ ابن الولید مدلس ہے۔ امام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ حافظ الہیثمی اور حافظ سیوطی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ حدیث دیگر احادیث صحیحہ اور حسنہ کی موید ہے۔ 

نماز میں قہقہہ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وضو نہ ٹوٹے ‘ کیونکہ بدن سے کوئی نجاست نہیں نکلی ‘ لیکن حدیث میں یہ تصریح ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ عنہ قیاس پر حدیث کو مقدم رکھتے ہیں۔ ہرچند کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ 

امام علی بن عمر دارقطنی متوفی ٣٨٥ ھ روایت کرتے ہیں : 

ملیح بن اسامہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں ‘ ایک نابینا شخص آیا اور ایک گڑھے میں گرگیا ‘ ہم اس سے ہنس پڑے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو پورا وضو دوبارہ کرنے کا حکم دیا اور نماز کو شروع سے دہرانے کا حکم دیا۔ (سنن دارقطنی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٥٩١) 

اس حدیث کی سند میں حسن بن دینار متروک ہے۔ (میزان الاعتدال ‘ ج ٢‘ ص ٢٣٤) 

امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جب مرد عورت کے یا عورت مرد کے بدن کو بلاحجاب چھوئے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ زیر تفسیر آیت میں ” اولمستم النساء فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا “ (المائدہ : ٦) وہ اس آیت میں لمس کا معنی چھونا کرتے ہیں یعنی یا تم نے عورتوں کو مس کیا ہو ‘ پس تم پانی کو نہ پاؤ تو تیمم کرو۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس آیت میں لمس جماع سے کنایہ ہے ‘ یعنی جماع اور مباشرت سے وضو ٹوٹتا ہے ‘ صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا قرآن مجید میں لمس ‘ مس کے الفاظ جماع سے کنایہ ہیں۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٣ ص ٦٦ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سو رہی تھی اور میرے دونوں پیر آپ کے سامنے تھے۔ جب آپ سجدہ میں جاتے تو آپ میرے پیروں کو ہاتھ لگاتے ‘ میں اپنے پیر کھینچ لیتی ‘ جب آپ کھڑے ہوتے تو میں اپنے پیر پھیلا دیتی۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : ان دنوں میں گھروں میں چراغ نہیں تھے۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٢‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ المسلسل ‘ ٥١٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٧٢‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٧١٣‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٧‘ الموطا رقم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٨‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ ص ٢٥٥‘ ٢٢٥‘ ١٤٨‘ ٥٥‘ ٤٤‘ طبع قدیم) 

اس حدیث کی فقہ یہ ہے کہ عورت کے بدن کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ‘ کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے پیروں کو ہاتھ لگاتے اور نماز میں بدستور مشغول رہتے۔ 

امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی زوجہ کو بوسہ دیتے ‘ پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔ امام نسائی نے کہا ہے کہ اس باب میں یہ سب سے حسن حدیث ہے۔ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے۔ (امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک حدیث مرسل مقبول ہوتی ہے) (سنن نسائی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٠‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ : ١٨٠۔ ١٧٩۔ ١٧٨‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٨٦‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٥٠٢‘ مسند احمد ج ١٠‘ رقم الحدیث : ٢٥٨٢٤‘ مطبوعہ دارالفکر) 

علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام ‘ فقہاء تابعین اور ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے ‘ اور صحیح یہ ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ عنہ کے نزدیک مس ذکر (شرم گاہ کو چھونا) سے وضو نہیں ٹوٹتا ‘ امام شافعی کے نزدیک اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ‘ اور امام احمد کے اس میں دو قول ہیں (المغنی ‘ لابن قدامہ ‘ ج ١ ص ١١٦) امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ حدیث ہے۔ 

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : 

خلق بن علی اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” وہ تمہارے جسم کا ایک عضو ہی تو ہے “۔ (سنن ترمذی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٨٥‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٢‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٣‘ مسند احمد ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٤٩٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ ‘ ج ١ ص ١٦٥‘ مصنف عبدالرزاق ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢٦) 

اس حدیث کی سند قوی ہے۔ امام شافعی کا استدلال درج ذیل حدیث سے ہے : 

بسرہ بنت صفوان بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اپنے ذکر (شرم گاہ) کو چھوا ‘ وہ وضو کیے بغیر نماز نہ پڑھے۔ (سنن ترمذی ج ١‘ رقم الحدیث ٨٢‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث ١٨١‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٧٩‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے) 

امام ابوجعفر احمد بن محمد طحطاوی متوفی ٣٢١ ھ نے اس کے خلاف بکثرت آثار روایت کیے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں ذکر کو چھوؤں یا کان کو چھوؤں۔ 

حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں ذکر کو چھوؤں یا ناک کو چھوؤں۔ 

حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا یہ میری یا تمہاری ناک کی طرح عضو ہے اور تمہارے چھونے کے لیے اور اعضا بھی ہیں۔ 

حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اس کو چھوؤں یا ناک کو چھوؤں۔ (شرح معانی الآثار ‘ ج ١ ص ٤٧‘ مطوعہ مجتبائی ‘ پاکستان) 

اس مسئلہ میں دونوں جانب احادیث اور آثار ہیں اور قیاس صحیح کا تقاضا یہ ہے کہ مس ذکر سے وضو واجب نہیں ہوتا۔ 

کیونکہ اولا : تو یہ دیگر اعضاء کی طرح ایک عضو ہے جس طرح دیگر اعضاء کو چھونے سے وضو واجب نہیں ہوتا ‘ اس کو چھونے سے بھی وضو واجب نہیں ہوتا۔ ثانیا : اس لیے کہ خون ‘ پیپ اور بول ‘ براز کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ‘ جو نجس العین ہیں تو جو عضو فی نفسہ طاہر ہے ‘ اس کو چھونے سے وضو کیسے ٹوٹے گا ؟ 

تیمم کی شرط ‘ طریقہ اور دیگر احکام : 

علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی ٥٩٣ لکھتے ہیں : 

جو شخص سفر کے دوران پانی نہ پائے ‘ یا وہ شخص شہر سے باہر ہو اور شہر اس سے ایک میل یا اس سے زیادہ فاصلہ پر ہو تو وہ پاک مٹی سے تیمم کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

(آیت) ” فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا “ (المائدہ : ٦)

ترجمہ : پس تم پانی کو نہ پاؤ تو تم پاک مٹی سے تیمم کرو “۔ 

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے۔ خواہ اس کو دس سال تک پانی نہ ملے ‘ سو جب اس کو پانی مل جائے تو اس سے اپنی کھال تر کرتے ‘ یعنی وضو کرے ‘ یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ محمود کی روایت میں ہے کہ پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ١٢٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٢‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢١‘ سنن دارقطنی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٧١١‘ مسند احمد ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٢١٦٢٤‘ المستدرک ‘ ج ١ ص ١٧٧‘ سنن کبری ‘ ج ١ ص ٢٢٠‘ ١١٢) 

ایک (شرعی) میل کا اعتبار اس لیے کیا ہے کہ ایک میل کی مسافت سے وضو کے لیے شہر میں جانے سے ضرر ہوگا ‘ اعتبار مسافت کا ہے ‘ تنگی وقت یا نماز فوت ہونے کے خوف کا اعتبار نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ تقصیر اس کی طرف سے ہے اور اگر اس کو پانی دستیاب ہو لیکن وہ بیمارہو اور اس کو یہ خدشہ ہو کہ اگر اس نے پانی استعمال کیا تو اس کا مرض بڑھ جائے گا ‘ تو وہ تیمم کرے۔ اگر جنبی کو یہ خدشہ ہو کہ اگر اس نے غسل کیا تو وہ سردی سے مرجائے گا یا بیمار ہوجائے گا ‘ تو وہ تیمم کرے ‘ خواہ وہ شہر میں ہو۔ 

حضرت عمرو بن العاص (رض) ایک سردی کی رات میں جنبی ہوگئے۔ انہوں نے تیمم کیا اور یہ آیت پڑھی ‘۔ 

(آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما “۔ (النساء : ٢٩) 

ترجمہ : تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو ‘ بیشک اللہ تم پر مہربان ہے ‘ ‘۔ 

پھر انہوں نے اس کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو آپ نے ان کو ملامت نہیں کی۔ (صحیح بخاری ‘ کتاب التیمم ‘ باب : ٧) 

تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر دو بار ہاتھ مارے۔ ایک بار ہاتھوں کو اپنے چہرے پر ملے اور دوسری بار کہنیوں سمیت ہاتھوں پر ملے ‘ ہاتھوں سے مٹی کو جھاڑے ‘ تاکہ چہرہ خراب نہ ہو۔ 

امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک زمین کی جنس سے ہر چیز کے ساتھ تیمم کرنا جائز ہے۔ مثلا مٹی ‘ ریت ‘ پتھر ‘ چونا اور ہڑتال (ایک قسم کی زرد اور زہریلی دھات) وغیرہ سے۔ تیمم ہر اس چیز سے ٹوٹ جاتا ہے ‘ جس سے وضو ٹوٹتا ہے۔ نیز جب انسان کو پانی مل جائے اور وہ اس کے استعمال پر قادر ہو تو اس سے بھی تیمم ٹوٹ جاتا ہے۔ تیمم سے فرائض اور نوافل سب کچھ پڑھ سکتا ہے۔ ‘ اگر نماز جنازہ یا عید کے فوت ہونے کا خطرہ ہو تو شہر میں بلا عذر بھی تیمم کرنا جائز ہے۔ (ہدایہ اولین ‘ ص ٥٦۔ ٤٩‘ ملخصا ‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ‘ ملتان) 

تیمم سے متعلق دیگر مباحث ہم نے (النساء : ٤٣) میں بیان کردیئے ہیں۔ وہاں مطالعہ فرمائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 6