بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالۡهُدٰى فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُهُمۡ وَمَا كَانُوۡا مُهۡتَدِيۡنَ‏
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمرای کو ہدایت کے بدلہ میں خریدا سو ان کی تجازت نفع بخش نہ ہوئی اور نہ یہ ہدایت یافتہ تھے
اس جگہ خریدو فروخت کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ انہوں نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی کو اختیار کرلیا ‘ ان کے سامنے قرآن کریم اور رسول اللہ کی پیش کردہ ہدایت بھی تھی اور اس کے مقابلہ میں یہودیت کے عارضی منافع بھی تھے لیکن انہوں نے ہدایت کے بدلہ میں گمراہی کو اختیار کرلیا ‘ اس تجارت میں ان کا راس المال بھی ضائع ہوگیا کیونکہ ان کی فطرت میں ہدایت کو قبول کرنے کی جو استعداد اور صلاحیت تھی وہ بھی ضائع ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی اور جب اس کا ماحول روشن ہوگیا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا۔ (البقرہ ١٧)
منافقین کے احوال کی پہلی مثال :
علامہ ابن جریررحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قتادہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ جب منافق ” لا الہ اللہ “ کہتا ہے تو اس کیلیے دنیا میں روشنی ہوجاتی ہے وہ مسلمانوں سے اپنی جان ومال کو محفوظ کرتا ہے ‘ زکوۃ صدقات اور مال غنیمت کے فوائد حاصل کرتا ہے اور مسلمانوں میں نکاح کرتا ہے اور ان کا وارث ہوتا ہے اور جب اس کو موت آتی ہے تو اسلام کے تمام ثمرات اور فوائد ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان نہ تھا۔ (جامع البیان ج ١ ص ١١١، ١١٠‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان کو ظلمات (اندھیروں) میں چھوڑ دیا۔ (البقرہ : ١٧)
ظلمت اس چیز کو کہتے ہیں جو دیکھنے سے منع کرتی ہے ‘ منافقوں کے لیے کئی ظلمات ہیں ‘ ظلمت کفر ‘ ظلمت نفاق اور ظلمت یوم قیامت ‘ جس دن مومنوں کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب چمک رہا ہوگا ‘ اور منافقوں کے سامنے اندھیرا ہوگا ‘ یا اس سے مراد ہے گمراہی کی ظلمت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ظلمت اور دائمی عتاب کی ظلمت۔
اس آیت اس میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مثال بیان کی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک طرح کی ہدایت مہیا کی اور انہوں نے اس کو ضائع کردیا اور جنت کو حاصل نہیں کیا ‘ اس آیت کے عموم میں یہ منافق بھی داخل ہیں کیونکہ انہوں نے کلمہ پڑھا لیکن کفر کو مخفی رکھنے اور اپنے شیطانوں کی موافقت کرنے کی وجہ سے اس کو ضائع کردیا ‘ اس آیت کے عموم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور اس آیت میں وہ بھی داخل ہیں جو مقام ارادت (یہ احوال سالک کی ابتداء ہے جس سے وہ نفسانی خواہشوں کو ترک کرتا ہے راضی بہ رضاء الہی رہتا ہے تو اس پر انوار الہیہ کا فیضان ہوتا ہے) پر فائز ہوتے ہیں اور اس سے اگلے مقام ‘ مقام محبت کا دعوی کربیٹھتے ہیں تو مقام ارادت کا نور بھی جاتا رہتا ہے۔
[Tibyan-ul-Quran 2:16]