1. *🕯امـــام احــمد رضــا کی شانِ تواضــع*🕯

تحریر: مولانا محمد توفیق برکاتی مصباحی

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

  • امام احمد رضا کون؟ نہیں جانتے؟ سنو! علم و حکمت کا تاج دار، معرفت و حقیقت کا گوہرِ آب دار، شریعت و طریقت کا آئینہ دار، فقہ و تدبّر کا مہرِ درخشاں، عشق و الفت کا نیرِ تاباں۔ وہی جو صرف اپنوں کا موضوعِ تحسین و تبریک نہیں، غیروں کا عنوانِ تحقیق و سخن ہے، عاشقوں کے لیے اندازِ عشق ہے اور گستاخوں کے لیے برقِ تپاں، صرف سنیوں کا مقتدا اور رہنما نہیں، اغیار عوام کا نہیں، بلکہ علما کے لیے ایک بہت بڑی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔

جس نے اپنا سب کچھ عشقِ نبوی کا چراغ دلوں میں جلانے میں گنوایا، لٹایا، دین کے لیے، سُنّیت کے لیے ہر ہر لمحہ وقف کر دیا، تجلیاتِ ربّانی نے جس کو ماہتاب کیا، اپنی آغوشِ رحمت میں لیا، نبوی انوار و عرفان نے جس کے دل کو، فکر و نظر کو، خیال و احساس کو تابندگی بخشی۔

جس نے اپنے ہر عمل سے، کردار سے، اخلاق سے، اطوار و گفتار سے، سنن ِ نبویﷺ کا احیا فرمایا، گرد و غبار کو صاف کیا، چمکایا، نگاہوں کو لبھایا، آنکھوں کو خیرہ کیا، جس کا منٹ منٹ اسی کام میں صرف ہوا، جو کچھ کیا دین کے لیے، عشقِ رسول کے لیے کیا، ایمان و ایقان کی پختگی و سلامتی کے لیے کیا۔

انہیں کارناموں نے امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کو بلند اقبال کیا، شہرت دی، چرچا کیا، علمی و ادبی مجالس میں، فقہی و شرعی محافل میں ان کا نام لیا جانے لگا تو دلوں میں درد پیدا ہوا، ضرورت مند بھی رقابت میں لگ گئے، الزامات کا دور شروع ہوا، بہتان تراشی ہونے لگی، یہ تو متکبر ہے، حاسد ہے، تقیہ باز ہے، فتنہ پرور ہے، اس وقت امام احمد رضا کو لکھنا پڑا، کہنا پڑا، صفائی دینی پڑی، ارقام فرماتے ہیں:

“فقیر میں لاکھوں عیب ہیں، مگر بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی میرے رب نے مجھے حسد سے بالکل پاک رکھا ہے؛ اپنے سے جسے زیادہ پایا، اگر دنیا کے مال و دنیا میں زیادہ ہے، قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا، پھر حسد کیا حقارت پر ؟ اور اگر دینی شرف و افضال میں زیادہ ہے، اس کی دست بوسی و قدم بوسی کو اپنا فخر جانا، پھر حسد کیا اپنے معظّمِ بابرکت پر؟ اپنے میں جسے حمایتِ دین پر دیکھا اس کے نشرِ فضائل اور خلق کو اس کی طرف مائل کرنے میں تحریراً و تقریراً ساعی رہا، اس کے لیے عمدہ القاب وضع کر کے شائع کیے، جس پر میری کتاب المعتمد المستند وغیرہ شاہد ہیں، حسد شہرت طلبی سے پیدا ہوتا ہے اور میرے ربِّ کریم کے وجہِ کریم کے لیے حمد ہے کہ میں نے کبھی اس کے لیے خواہش نہ کی، بلکہ ہمیشہ اس سے نفور اور گوشہ گزینی کا دلدادہ رہا۔”

آگے تحریر فرماتے ہیں:

“اور اب تو سالہا سال سے شدّتِ ہجوم کار و انعدام کلی فرصت وغلبۂ ضعف و نقاہت نے بالکل ہی بٹھا دیا ہے، جسے میرے احباب نے نازک مزاجی بلکہ بعض حضرات نے غرور و تکبر پر حمل کیا اور اللہ اپنے بندے کی نیت جانتا ہے۔”(۱)

(فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی ۱۹۹۴ء، ج ۱۲، ص ۱۳۳؛ مطبوعۂ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ج ۲۹، ص ۵۹۸ تا ۵۹۹)

امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗنے جو کچھ کیا تن پروری کے لیے نہیں، حصولِ جاہ و حشمت کے لیے نہیں، خالص لِوَجْہِ اللہ کام کیا، مریدین تیار کر کے واہ واہی نہ لوٹی، کام سے کام رکھا، جبھی تو شدید مرض کی حالت میں، نقاہت و کمزوری میں، سفر میں، کہیں بھی آرام نہ کیا، دین پیش کیا، قلم کے ذریعے، کتاب کے ذریعے۔ یہ تحریر دیکھیں، کیا شانِ تواضع ہے، کیسی تڑپ ہے، خلوص ہے، فرماتے ہیں:

“اس حقیر فقیر کے ذمّے کاموں کی بے انتہا کثرت ہے اور اس پر نقاہت و ضعف کی قوت اور اس پر محض تنہائی و وحدت، ایسے امور ہیں کہ فقیر کو دوسرے کام کی طرف متوجّہ ہونے سے مجبورانہ باز رکھتے ہیں، خود اپنے مدرسے میں قدم رکھنے کی فرصت نہیں………. یہ خدمت کہ فقیر سراپا تقصیر سے میرے مولائے اکرمﷺ محض اپنے کرم سے لے رہے ہیں، اہلِ سنّت و مذہبِ اہلِ سنّت ہی کی خدمت ہے۔”(۲)

(فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی ۱۹۹۴ء، ج ۱۲، ص ۱۴۱؛ مطبوعۂ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ج ۲۹، ص۶۱۰)

خدا وندِ قدّوس کی بارگاہِ عالی میں قرب و بزرگی کے حصول کے لیے جن خصائص و لطائف سے آراستہ و مزیّن ہونا ناگزیر ہے، امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کی ہمہ جہت ذاتِ والا صفات میں وہ تمام کمالات بدرجۂ اتم موجود ہیں، علما نے لکھا:

یہ تو برہانِ الٰہی ہیں، رسول اللہﷺ کا معجزہ ہیں، اللہ عَزَّوَجَلّ کی نشانی ہیں۔

تقرب الی اللہ کا منصب دلوانے والی صفات میں عجز و انکساری، تواضع و تذلل کو نمایاں مقام حاصل ہے، منکسر المزاجی خدائے تعالیٰ کو بہت پسند ہے، امام احمد رضا قادری برکاتی قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز بلاشبہ بحر العلوم ہیں، ماہر الفنون ہیں، لیکن ان تمام حقائق کے باوجود تواضع کی شان اور عجز و تذلل کی جان آپ کے کردار و عمل، تحریر و تقریر اور تصنیف و تالیف سے نہ صرف جھلکتی ہے بلکہ اپنے وجود کا پورا احساس دلاتی ہے، آپ کے فتاوٰی، تصانیف، خطوط و مکاتیب دیکھے، فتاوٰی پر نظر دوڑائی، ہر جگہ، ہر مقام پر “فقیر احمد رضا قادری عُفِیَ عَنْہ” نظر آیا، محظوظ ہوا۔

امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ نے حضورِ اقدس نورِ مجسمﷺ کی نسبت کو کس انداز میں برتا، دل میں رکھا، آنکھوں سے لگایا، اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ذریعۂ نجات جانا، اہلِ بیتِ عظام اور ساداتِ کرام کی غلامی امام احمد رضا کا طرۂ امتیاز ہے، یہ تحریر ملاحظہ کریں:

“یہ فقیرِ ذلیل بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی حضراتِ ساداتِ کرام کا ادنیٰ غلام و خاک پا ہے، ان کی محبّت و عظمت ذریعۂ نجات و شفاعت جانتا ہے”

(امام احمد رضا قادری، فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی ۱۹۹۴ء، ج ۲۹، ص ۱۲۵؛ مطبوعۂ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ج ۲۹، ص۵۸۷)

مسائلِ شرعیہ کی تحقیق و تفتیش میں اور امّتِ مسلمہ کی دینی ضرورتوں کی تکمیل میں امام احمد رضا اپنی ذات کو وقف جانتے تھے، معذرت، معافی اور عفوِ تقصیر کے لیے ہمہ وقت دل کھلا رکھتے۔

مولانا مولوی احمد بخش صاحب قبلہ کو اپنے ایک مکتوب میں یوں تحریر کرتے ہیں:

“تاخیرِ عریضہ ضروری ہوئی، اس کی معافی اور دعائے عفو و عافیت کا خواہاں ہوں، حاشا کہ مسائلِ سامیہ کو باعثِ تکلیف خیال کروں، ایسا خیال آنے سے جو تکلیف خاطرِ سامی کو اس کی بھی معافی چاہتا ہوں، یہ مشتِ استخواں ادھر کس مصرف کا کہ سوالِ مسائلِ دینیہ کو تکلیف جانے؟”

(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء، حصّۂ اوّل، ص ۱۲۶)

حضرت مولانا انوار الحق صاحب (لاہور) کو لکھتے ہیں:

“مولانا! یہ لفظ بہت سخت ہے، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ یہ فقیر حقیر ذلیل سیاہ کارنابکار کیا چیز ہے، ہاں! اکابر کے لیے یہ لفظ حدیث میں آیا ہے”

(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء، حصّۂ اوّل، ص ۱۸۵)

امام احمد رضا قادری قُدِّسَ سِرُّہٗ نے بارہا التجائیں کیں، دعائیں کیں؂

*کام وہ لے لیجیے تم کو جو راضی کرے*

*ٹھیک ہو نامِ رؔضا تم پہ کروروں دُرود*

2

(حدائقِ بخشش، رضوی کتاب گھر، دہلی، ۲۰۰۱ء، ص ۱۲۶)

آپ کی دعا قبولیت سے مشرف ہوئی، زندگی بھر خدا کی خوشنودی اور رضائے مصطفیٰ کے لیے جو کام کیا، گناہوں سے اپنا دامن بچائے رکھا، حسنات کے ارتکاب میں جوش و خروش کا کیا پوچھنا؟ خدا عَزَّوَجَلّ کی رحمت کاملہ خوب برسی، جل تھل ہوئے، نعمتیں ملیں، شکریہ ادا کیا، چرچا کیا، یہ تحدیثِ نعمت ہی تو ہے؂؂

*مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم*

*جس سمت آ گئے ہو سکّے بٹھا دیے ہیں*

(حدائقِ بخشش، رضوی کتاب گھر، دہلی، ۲۰۰۱ء، حصّۂ دوم، ص ۴۴)

اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:

“بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی فقیر نے ۱۴؍شعبان ۱۳۸۶ھ کو ۱۳؍برس کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا، اگر سات دن اور زندگی بالخیر ہے تو اس شعبان ۱۴۳۶ھ کو اس فقیر کو فتاوٰی لکھتے ہوئے بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی پورے پچاس سال ہو گئے، اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کر سکتا ہے۔”

(ڈاکٹر شمس مصباحی، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ۲۰۰۵ء، حصّۂ اوّل، ص ۳۶۵)

امام احمد رضا اَلْحُبُّ فِیْ اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہ کے مظہر تھے، آپ کسی سے محبّت بھی کرتے تو اللہ عَزَّوَجَلّ کے لیے اور مخالفت بھی اللہ ہی کے واسطے ہوتی۔

مولانا عبد الباری فرنگی محلّی کے نام اپنے ایک خط میں یوں لکھتے ہیں:

“نامی نامہ تشریف لایا، اِنْ شَآءَ اللہُ الْعَزِیْز آپ اس فقیر کو اُن بندگانِ خدا میں پائیں گے جو “لَا یُحِبُّوْنَ اِلَّا لِلّٰہِ وَلَا یَبْغُضُوْنَ اِلَّا لِلّٰہِ” اب میرے قلب میں وقعتِ سامی بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی پہلے سے بھی زائد ہے، میرا قلب صاف ہے، امید کہ قلبِ گرامی بھی ایسا ہی صاف ہو گا۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْز”

(ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی، تاریخِ مشائخ قادریہ،ج ۲، ص ۳۸۶)

ناموسِ رسالت مآبﷺ اور عظمتِ توحید کے تحفّظ میں کبھی مصلحت کوشی سے کام نہ لیا، جنابِ خدا اور رسول میں ذرّہ بھر بے ہودہ گوئی ناقابلِ برداشت تھی، جبھی تو فرماتے ہیں؂

*کلکِ رضؔا ہے خنجرِ خوں خوار برق بار*

*اعدا سے کہہ دو خیر منائیں نہ شر کریں*

(حدائقِ بخشش، رضوی کتاب گھر، دہلی، ۲۰۰۱ء، حصّۂ اوّل، ص ۴۳)

دینِ حق کی حمایت و نصرت اور مسلمانانِ اہلِ سنّت کی بہی خواہی کے لیے ہمیشہ کوشاں نظر آئے، معاملات و معمولات میں کہیں بھی تعصّب و تنگ نظری اور ضد و عناد کو راہ نہ دی۔

ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں:

“ایک خالص اسلامی قلب سے ادھر توجّہ کیجیے، میں بشہادتِ ربّ العزّت کہتا ہوں وَکَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا کہ فقیر کے اعتراض زنہار! زنہار! تعصّب و نفسانیت پر مبنی نہیں، صرف دینِ حق کی حمایت اور اہلِ سنّت کی خیر خواہی مقصود ہے، بغرضِ باطل یہ فقیر نالائق، ننگِ خلائق، نفسانیت بھی کرتا ہے تو حضرت افضل العلما تاج الفحول، محبِّ رسول محمد عبد القادر بد ایونی کو معاذ اللہ نفسانیت پر کیا حامل تھا؟”

(ڈاکٹر شمس مصباحی، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ۲۰۰۵ء، حصّۂ دوم، ص ۱۳۱)

امامِ اہلِ سنّت مجددِ اعظم قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْزنے بارہا اپنے خطوط و ملاقات میں حقیر، فقیر، ننگِ خلائق، سراپا تقصیر وغیرہا الفاظ استعمال فرمائے اور اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے عفو و عافیت کی دعاؤں کی درخواست کی۔

اپنے ایک خط میں یوں درخواست کرتے ہیں:

“اور اس فقیرِ ناکارہ کے لیے عفو و عافیتِ دارین کی دعا فرمائیں، فقیر آپ کے لیے دعا کرے گا اور کرتا ہے۔” (ڈاکٹر شمس مصباحی، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ۲۰۰۵ء، حصّۂ دوم، ص ۱۳۱)

ایک دوسرے مکتوب میں یوں استدعا کرتے ہیں:

“فقیر دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا کر لے اور ہمیشہ اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق بخشے اور آپ کے طفیل میں اس نالائق ننگِ خلائق کی بھی اصلاحِ قلب و اعمال، تحسینِ احوال و افعال و تحصیلِ مرادات و آمال فرمائے، اعدائے دین پر مظفر و منصور رکھے، خاتمہ ایمان و سنّت پر کرے۔ آمین۔”

(فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، ۱۹۹۴ء، ج ۱۰، ص۱۷۸؛ مطبوعۂ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ج ۲۵، ص ۴۶۹ )

شیخ الاسلام حضرت علامہ شاہ انوار اللہ صاحب کے نام ایک مکتوب کا یہ اقتباس پڑھیے اور زبان کی لجاجت اور عاجزی کا پیرایۂ بیان ملاحظہ فرمائیے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بشرف ملاحظہ والا ئے حضرت با برکت، جامع الفضائل، لامع الفواضل، شریعت آگاہ، طریقت دست گاہ، حضرت مولانا الحاج مولوی محمد انوار اللہ صاحب بہادر بالقابہ العز۔ سلام مسنون، نیازِ مشحون، مجلسِ ہمایوں۔

یہ سگِ بارگاہِ بے کس پناہِ قادریت غُفِرَلَہٗ، ایک ضروری دینی غرض کے لیے مکلّف اوقات گرامی ہے۔ پرسوں روزِ سہ شنبہ شام کی ڈاک سے ایک رسالہ “القول الاظہر” مطبوعۂ حیدرآباد، اجمیر شریف سے بعض احبابِ گرامی کا مرسلہ آیا، جس کی لوح پر حسب الحکم عالی جناب لکھا ہے۔ یہ نسبت اگر صحیح نہیں تو نیاز مند کو مطلع فرمائیں، ورنہ طالبِ حق کو اس سے بہتر تحقیقِ حق کا کیا موقع ملے گا۔

کسی مسئلۂدینیہ شرعیہ میں استکشافِ حق کے لیے نفوسِ کریمہ جن جن صفات کے جامع درکار ہیں، بِفَضْلِہٖ عَزَّوَجَلّ ذاتِ والا میں وہ سب آشکار ہیں۔ علم و فضل، انصاف، عدل، حق گوئی، حق جوئی، حق دوستی، حق پسندی، پھر بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی غلامیِ خاصِ بارگاہِ بے کس پناہِ قادریت جناب کو حاصل اور فقیر کا منھ تو کیا قابل؟ ہاں سرکار کا کرم شامل۔

اس اتّحاد کے باعث حضرت کی جو محبّت و وقعت قلبِ فقیر میں ہے مولیٰ عَزَّوَجَلّ اور زائد کرے، یہ اور زیادہ امید بخش ہے۔ اجازت عطا ہو کہ فقیر محض مخلصانہ شبہات پیش کرے اور خالص کریمانہ جواب لے۔ یہاں تک کہ حق کا مالک حق واضح کرے، فقیر بار ہا لکھ چکا اور اب بھی لکھتا ہےکہ اپنی غلطی ظاہر ہوئی، بے تامل اعترافِ حق کرے گا۔ یہ امر جاہل متعصّب کے نزدیک عار ہے مگر عند اللہ اور عند العقلا باعثِ اعزاز و وقار ہے اور حضرت تو ہر فضل کے خود اہل ہیں۔ وللہ الحمد!

امّید ہے کہ ایک غلامِ بارگاہِ قادری طالبِ حق کا یہ معمول حضورِ پُرنور سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واسطے مقبول ہو۔ اللھم اٰمین بالخیر یا ارحم الراحمین۔

اگرچہ یہ ایک نوعِ جرأت ہے، رجسٹری جواب کے لیے تین آنے کے ٹکٹ ملفوفِ نیاز نامہ ہیں۔

والتسلیم مع التکریم

فقیر احمد رضا قادری عُفِیَ عَنْہ

۱۲؍رمضان المبارک ۱۳۳۳ھ

(ڈاکٹر شمس مصباحی، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، حصّۂ اوّل، ص ۱۰۶ تا ۱۰۷)

کیا نیاز مندی اور فروتنی ہے؟ کیا تاریخ نے ایسی بے نفسی کبھی پیش کی؟

درجِ ذیل واقعہ ملاحظہ کریں اور شانِ تواضع پر عش عش کر اٹھیں۔

“سیّد ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضور کسی دوسرے شخص کی طرف متوجّہ تھے کہ پیچھے سے حاجی نصرت یار خاں صاحب قادری برکاتی نے آکر قدم چوم لیے، اعلیٰ حضرت کو اس سے بہت رنج ہوا، چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا، فرمایا: نصرت یار خاں اس سے بہتر تھا کہ میرے سینے میں تلوار کی نوک پیوست کر کے پیٹھ کی طرف سے نکال لیتے، مجھے سخت اذیت اس سے ہوئی کہ میری بے خیالی میں یہ حرکت کی، ان قدموں میں کیا رکھا ہے؟ خوب یاد رکھو! اب کبھی ایسا نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔”(۱۵)

(مولانا ظفر الدین رضوی: حیاتِ اعلیٰ حضرت، جدید، ممبئی، ج ۳، ص ۸۴)

آپ کی تواضع کا دوسرا واقعہ پڑھیں:

“حضرت سیّد شاہ اسماعیل حسن میاں صاحب مارہروی کا بیان ہے کہ حضرت جدِّ امجد سیّدنا شاہ برکت اللہ صاحب قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْزکا عرس شریف ایک زمانے میں میرے والدِ ماجد صاحب قُدِّسَ سِرُّہٗ نہایت اہتمام و انصرام اور اعلیٰ پیمانے پر کیا کرتے تھے، اس میں بارہا حضرت مولانا (امام احمد رضا) بھی تشریف لائے اور میرے اصرار سے بیان بھی فرمایا، مگر اس طرح کہ حاضرینِ مجلس سے فرماتے: میں ابھی اپنے نفس کو وعظ نہیں کہہ پایا، دوسروں کووعظ کے کیا لائق ہوں، آپ حضرات مجھ سے مسائلِ شرعیہ دریافت فرمائیں، ان کے بارے میں جو حکمِ شرع میرے علم میں ہو گا، چوں کہ بعدِ سوال اسے ظاہر کر دینا حکمِ شریعت ہے، میں ظاہر کر دوں گا۔”

(مولانا ظفر الدین رضوی: حیاتِ اعلیٰ حضرت، قدیم،بریلی، ج ۱، ص ۴۰)

اللہ والوں کی یہی شان ہوتی ہے، اپنے وقت کا مجددِ فقیہِ اسلام، محدثِ اعظم، اعلمِ علما اس انداز میں گفتگو فرما رہا ہے، کیا شانِ تواضع ہے!

امام احمد کے اس شعر پر گفتگو اختتام پذیر ہوتی ہے؂

*رضاؔئے خستہ جوشِ بحرِ عصیاں سے نہ گھبرانہ*

*کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن اُن کی رحمت کا*

(حدائقِ بخشش، دہلی، ۲۰۰۱ء، حصّۂ اوّل، ص ۱۶)

*کوئی کیا پوچھے تیری بات رضؔا*

*تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں*

[“پیغامِ رضا”ممبئی(فکر و تدبیر نمبر)، اپریل تا جون ۲۰۰۹ء، ص ۱۷۸تا۱۸۱]

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*المرتب⬅ شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖