ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے !

۲۰ جولائی کی تاریخ تھی; کوئی کہ رہا تھا، ”تاج الشریعہ دنیا میں نہ رہے“، کوئی کہ رہا تھا، ”تاج الشریعہ داغ مفارقت دے گئے“، کہیں اعلان ہو رہاتھا ، ”علامہ ازہری میاں کا انتقال ہو گیا“، تو کوئی خبر دے رہا تھا، ”ازہری میاں کا وصال ہوگیا“، کسی نے بولا، ”تاج الشریعہ وفات پا گئے“تو کسی نے کہا، ”اہل سنت یتیم ہوگئی“. سب یہی کہ رہے تھے، لیکن خود حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ”ازہری میاں“ کیا کہ رہے تھے؟

اختر قادری خلد میں چل دیا خلد واہے ہر اک قادری کے لئے

شعر کے دوسرے مصرع میں جہاں متوسلین ومحبین کو تسلی دی، وہیں ایک باریک نکتے کی طرف بھی اشارہ فرماگئے: کچھ دیدہ کور اب بھی کہ رہے ہیں کہ تاج الشریعہ نے کیا کیا؟. یہی کیا کم ہے کہ حضور مفتی اعظم کے سچے وفادار جانشین نے کروڑوں لوگوں کو غوث اعظم کا شیدائی ”قادری“ مرید بنایا. اور بقول ان کے ”خلد وا ہے ہر اک قادری کے لئے“. اسے صرف شعری تخیل و تصور خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بہجۃ الاسرار شریف کی عبارت کی ترجمانی ہے. حضور غوث الاعظم دستگیر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے، ”میرے ہر مرید کا خاتمہ ایمان پر ہوگا“. اور ”اس سلسلے میں داخل ہونے والا ہر مرید میرا مرید ہے“ (تفصیل کے لئے مذکورہ کتاب کا ذکر فضل اصحابہ و بشراہم دیکھیں ) .تاج الشریعہ نے ہم گنہ گاروں کے ہاتھوں کو پکڑ کر انہیں غوث پاک کے ہاتھوں میں تھما دیا.

کوئی سیکڑوں میں ایک ہوتا ہے کوئی ہزاروں میں، کوئی لاکھوں میں ایک ہوتا ہے تو کوئی کڑوڑوں میں. میرے تاج الشریعہ واحد شخص ہیں جو اپنے وقت میں پورے پانچ ارب لوگوں میں ایک تھے. اپنے وقت میں سب سے افضل، سب سے اعلٰی، ممتاز، افقہ، اتقٰی اور مرجع خلائق تھے. اس خاندان کی ایک خاصیت ہے کہ پچھلے ڈیڑھ صدی سے یہ سب سے ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے. امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ وقت کے سب سے عظیم فقیہ اور عالم تھے، ان کے صاحب زادے کا تو لقب ہی ”مفتی اعظم عالم“ تھا. جارڈن کی انسانی اعداد شمار کے تعلق سے مشہور تنظیم ”Royal Islamic Strategic Studies Centre” نے حضور ازہری میاں علیہ الرحمہ کو عصر حاضر کا سب سے بڑا مفتی اور دنیا کا بائیسواں با اثر مسلم شخصیت قرار دیا تھا. اور صاف صاف لکھا کہ South Asia (دکھن ایشیا) میں ان کے فالوورس(متبعین) کی تعداد 200 ملین [20 کڑوڑ] سے زائد ہیں. (لیکن یہ دیکھ کر کافی افسوس ہوا کہ اس میں آپ کو بریلوی مذہب کے بانی کا پوتا کہا گیا ہے. جملہ یہ He is the great grandson and successor of …..Ahmed Raza Khan…… .Who is the founder of Barelvi movement in south Asia). مشہور ندوی عالم اور کئی کتابوں کا مصنف ڈاکٹر ہاروں ندوی صاحب نے اپنے چینل پر بر ملا اعتراف کیا کہ ”حضور تاج الشریعہ اعلٰی حضرت کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے“.

ویسے تو وہ شخص مفرد تھے لیکن تھے منفرد. اپنی ذات میں انجمن تھے. وہ فقیہ اسلام تھے، مدرس بے بدل تھے، محدث لاثانی تھے، محقق تھے، مفسر تھے، مفکر تھے، قائد و مصلح تھے، قاضی اور مفتی تھے، مشہور سہ لسانی صاحب طرز ادیب و شاعر تھے، سب سے بڑے روحانی رہنما تھے. وہ کیا نہیں تھے؟ یوں کہ لیں کہ وہ اکیسویں صدی میں سب کچھ تھے. وہ جوانی میں بزرگ تھے اور بزرگی میں ولی کامل ہو گئے تھے. اس مقام پر اشرف مارہروی صاحب کا وہ قطعہ آپ کی ذات پر حرف حرف صادق آتا ہے جو انہوں نے آپ کے مربی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے لئے کہا تھا،

وہ بچپن سے ہی اچھے تھے، بزرگوں سے سنا ہم نے

ولیوں کی نگہ ان کی ادائیں چوم لیتی تھی

خدا نے جب انہیں پیری عطا کی تب یہ عالم تھا

اجابت بڑھ کے خود ان کی دعائیں چوم لیتی تھی

ان میں حق گوئی و بے باکی تھی، ایمانی جذبہ تھا، جرأت رندانہ تھی، حمیت تھی، مسلکی درد تھا، سوزو ساز تھا، ادراک و شعو تھا، خوف خدا عشق رسول ﷺ تھا، ان کے باوصف آہ سحر گاہی اور نوائے شوق بھی تھا.

فقہ و افتا، تدریس اور بیعت و ارشاد آپ کے اصل میدان تھے، تصنیفی خدمات ویسے تو آپ کے عظیم کارناموں کا ایک درمیانی باب ہے، حاصل حیات نہیں ہے، لیکن بذات خود بہت ہی وسیع، عظیم اورہمہ جہت ہے. عمر کا ابتدائی حصہ تحصیل علم میں صرف کیا. اخیر میں روحانیات غالب رہی. جو لکھا ضروتا لکھا. زیادہ تر ایک خاص مدت میں لکھا. لیکن ایسا لکھا کہ پھر ضرورت تشنہ کام نہ رہی. وہ ایک مصنف تھے، کتابوں کی فہرست بڑھا کر دھونس جمانے والے لکھاری نہیں تھے، وارث علوم اعلٰی حضرت تھے. جو بھی لکھا لاجواب لکھا، محققانہ لکھا، بصیرت افروز اور چشم کشا لکھا، ایک ایک تحریر پتھر کی لکیر، حرف آخر ثابت ہوئی. فتوٰی دے دیاتو پھر موقف پر نظر ثانی کی نوبت نہ آئی.

”تصویروں کا شرعی حکم“ لکھ کر حکم شرع بتایا کہ جاندار کی دستی، عکسی، معظم و غیر معظم ہر طرح کی تصویر حرام ہے، پھر اس فتوے پر ایسی استقامت برتی کہ اس کا اثر آج پوری دنیائے اہل سنت شدت سے محسوس کر رہی ہے. ”ہجرت رسول“ لکھ کر بتایا کہ اسلام اور فروغ اسلام میں ہجرت کا کتنا بڑا کردار ہے، کیسے بے سروساماں مہاجرین دنیا میں سب سے بڑا انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے. ”سنو! چپ رہو!“ لکھ کر قرآن کی عزت و حرمت کو بتایا. ”الحق المبين“ لکھ کر فاضل بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر کیے گئے چند اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیا جو آپ ہی کا حصہ تھا. ”ٹائی کا مسئلہ“ لکھ کر یہ بتایا کہ ”ٹائی“ صلیب کی علامت (The sign of the Cross) اور عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے، اسلام میں اس کے جواز کی کوئی گنجائش موجود نہیں. اس فتوے کا یہ اثر ہوا کہ بڑے بڑوں نے گلوں سے پھانسی کا یہ پھندا اتار پھینکا. ”الصحابة نجوم الاهتداء“ اور ”تحقيق انَّّ ابا سيّدنا ابراهيم عليه السلام (تارح) لا (آزرَ)“ تصنیف فرمائی تو دنیا کی سب سے بڑی مذہبی یونیورسٹی جامعۃ الازہر کے اساتذہ اپنی موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے. قصیدہ بردہ شریف کی شرح لکھنے پہ آئے تو ”الفردة“ لکھ کر جدید عربی ادب کی بکھڑی زلفیں سنوار دی، نکات کے ایسے سوتے پھوٹے کہ عرب بھی دنگ رہ گیا. ”اسمائے سورہ فاتحہ کی وجہ تسمیہ“ لکھ کر یہ ثابت کیا کہ اس وقت علم تفسیر پر بھی سکہ حضور تاج الشریعہ کا ہی چلتا ہے. میں نے علامہ سید محمد طنطاوی(سابق شیخ جامعۃ الازہر، مصر) کی ”التفسير الوسيط“ پڑھی ہے. اسمائے سورہ فاتحہ اور ان کے وجوہ تسمیہ کو پہلے دوسرے صفحے میں ہی ذکر فرمایا ہے. میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ اس مقام پر ان کا قد تاج الشریعہ سے کہیں بھی اونچا نہیں ہے. ”آثار قیامت“ لکھ کر عوام اہل سنت کی اصلاح کی اور ان کو ترغیب و ترہیب کا سامان فراہم کیا. ”القول الفائق“ لکھ کر یہ بتایا کہ فاسق بالخصوص بے ریش کی اقتدا سے اپنی نمازیں کیسے بچائی جائے. ”ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن“ لکھا تو ایسی منفرد تحقیق پیش کی کہ جواز کے کئی قائل آپ کی شاہ کار تحقیق پڑھ کر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر لیے. ”دفاع کنز الایمان“ لکھ کر اعلی حضرت کے ترجمہ قرآن کا شاندار دفاع کیا اور ایسا کیا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہی. ”شدّ المشارع“ لکھ کر ایک با طل نظریہ (اسلام کو شارع علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ضرورت نہیں) کی دھجیاں اڑائی. ”نهاية الزين في التخفيف عن ابي لهب يوم الاثنين“ لکھ کر ثابت کیا کہ یہ سچ ہے کہ ولادت رسول ﷺ کی خبر سن کر اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کرنے کی برکت سے پیر کے دن ابولہب کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے. ”تین طلاق کا شرعی حکم“ لکھ کر ایک نششت میں تین طلاق کے وقوع کے مخالفین کو دندان شکن جواب دیا. یہ تو نثر تھا. نظم کی بات کریں تو اس میدان کے بھی شہسوار نظر آتے ہیں. اس عنوان پر ادبی بحث ہوتے رہتے ہیں کہ شعر کہنا مشکل ہے یا نثر نگاری. لیکن اس بات پر سبھی متفق نظر آتے ہیں کہ دونوں میں کمال حاصل کرنا بہت مشکل ہے. علامہ اختر رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے دونوں میں نہ صرف کمال حاصل کیا بلکہ اسے بخوبی برتا بھی ہے.

تاج الشریعہ اکیسویں صدی میں وفات پانے والی عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے بلکہ کئی جہت سے سب سے بلند تھے. اکیسویں صدی نے مارگریٹ تھیچر (Margreat Thtcher)، افریقی گاندھی سے مشہور نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela)، مشہور سائنٹسٹ ڈاکٹر اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking)، پرنس چارلس، مشہور امریکی کاروباری اور امیر ترین کمپنی ”ایپل“ کے بانیوں میں سے ایک اسٹیو جابز (Steve Jobs)، نوبل یاسر عرفات، کوفی عنان اور سید محمد علوی مالکی، سید احمد طنطاوی، محمد علی، بے نظیر بھٹو سمیت سیکڑوں مدبرین، سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور محققین کو مرتے/وفات پاتے دیکھا ہے. لیکن تاج الشریعہ کی بات سب سے نمایاں تھی. ذہن و دماغ، کردار و عمل پر قومی و ملی اعتبار سے جو اثر حضور تاج الشریعہ کی ذات پھر آپ کی وفات نے ڈالا ہے ایسی مثال کم از کم اکیسویں صدی میں تو کہیں نظر نہیں آتی.

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

_____________________________________

انصار احمد مصباحی،

دارالعلوم معینیہ رضویہ، ناسک

9860664476