حدیث نمبر :25

روایت ہے حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوگواہی دے کہ اکیلے خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور محمداﷲ کے بندے اور رسول ہیں ۱؎ عیسٰے اﷲ کے بندے اور رسول اوراس کی بندی کے بیٹے ۲؎ اﷲ کا کلمہ ہیں جو مریم میں ڈالا ۳؎ اور اﷲکی طرف سے روح ہیں۴؎ اور جنت و دوزخ حق ہے اﷲ اُسے جنت میں داخل کرے گا مطابق عمل کے ۵؎

شرح

۱؎ بندۂ اعلٰی اور رسول اکمل جن کی عبدیت سے اﷲ کی ربوبیت چمکی اور جن کی رسالت رب کی الوہیت کا مظہر اتم ہے۔لہذا ان کی بندگی اور دوسروں کی بندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اور بندوں کو اس پر ناز ہے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔دستِ قدرت کو اس پر ناز ہے کہ میرے بندے محمدرسول اﷲہیں،فرماتا ہے:”ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرْسَلَ رَسُوۡلَہٗ”اور بندہ رب کو راضی کرنا چاہیں۔رب جناب مصطفےٰ کو راضی کرنا چاہے فرماتا ہے:”وَلَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی”اور بندے کشتیٔ اسلام میں پار لگنے کو سوار ہوئے،جناب مصطفےٰپار لگانے کو،جیسے جہاز کے مسافر اور کپتان کہ جہاز مسافروں کو پار لگاتا ہے اور کپتان جہاز کو،اسی لئے مسافر کرایہ دے کر جہاز میں بیٹھتے ہیں اور کپتان تنخواہ لے کر۔سواری ایک ہے مگر سواروں کی نوعیت میں فرق ہے،لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز،کلمہ پڑھنے،حج و تلاوت قرآن کرنے سے یہ نہ سمجھو کہ حضور ہماری طرح مؤمن ہیں۔ان اعمال سے ہماری عزت ہےاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کرنے کی وجہ سے ان اعمال کی عزت افزائی،ہمیں فخر ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں،نماز کو فخرہے کہ حضور نے مجھے پڑھا۔

۲؎ یہ فرمان نہایت جامع ہے۔عیسائی جناب مسیح کو خدا کا بیٹا،اور بی بی مریم کو رب کی بیوی کہتے تھے۔یہودی جناب مسیح کی نبوت کے بھی انکاری تھے اور پاک بتول مریم کو تہمت لگاتے تھے۔اس ایک کلمہ میں دونوں کی نفیس تردید ہوگئی۔زمانہ موجودہ کے قادیانی آپ کو یوسف نجار کا بیٹا کہتے ہیں۔اور حضرت مریم کا نکاح ان سے ثابت کرتے ہیں۔اس میں ان کی بھی اعلٰی تردید ہے کہ اگر جناب مسیح باپ کے بیٹے ہوتے تو اسی طرف آپ کی نسبت ہوتی،قرآن نے بھی انہیں عیسیٰ بن مریم فرمایا حالانکہ فرماتا ہے:”اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ “۔

۳؎ اس طرح کہ حضرت جبرئیل نے باذن الٰہی کُن کہہ کر حضرت مریم کے سینہ پر پھونکا جس سے آپ حاملہ ہوگئیں۔خیال رہے کہ جناب مسیح کا لقب کلمۃاﷲ ہے یا اس لیے کہ آپ کی پیدائش کلمہ کن سے ہےرب فرماتا ہے:”اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ”الخ،آدم علیہ السلام کو کلمۃ اﷲ اس لیے نہیں کہتے کہ ان کے جسم کی پیدائش مٹی سے ہے۔صرف روح پھونکنا کلمۂ کن سے رب فرماتا ہے:فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ مگر جناب مسیح کا جسم اور روح سب کُن سے نطفہ علقہ مضغہ کچھ نہیں۔(ازمرقاۃ)یا اس لیے کہ جناب مسیح ازسر تاپا اﷲ کی حجت ہیں گویا سراپا کلمہ ہیں۔یا اس لیے کہ آپ ایک کلمہ دم کرکے بیماروں کو تندرست،مردوں کو زندہ کرتے تھے(اس سے بزرگوں کی جھاڑ پھونک ثابت ہوئی)یا اس لیے کہ آپ نے پیدا ہوتے ہی کلمہ پڑھا کہ کہا” اِنّی عَبدُاﷲ” الخ

۴؎ مِنہُ کی مِن تبعیضیہ نہیں اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اﷲ کا ٹکڑا ہیں بلکہ “من”ابتدائیہ ہے،یعنی اﷲ کی جانب سے بلا واسطۂ نطفہ آپ کی پیدائش ہے۔آپ کا لقب روح اﷲ بھی ہے یا اس لیے کہ آپ روح الامین جبرئیل کی پھونک سے پیدا ہوئے یا اس لیے کہ آپ مردہ دلوں کو روح ایمان بخشتے ہیں۔

۵؎ کہ اعلٰی درجے کے متقی کو جنت کا اعلٰی مقام عطا فرمائے گا اور ادنی متقی کو وہاں کا ادنی مقام،یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں جنت کسب سے ملے،جو دوسروں کے طفیل جنت میں جائیں گے وہ ان کے ساتھ رہیں گے۔جیسے مسلمانوں کے شیر خوار بچے اور بیویاں لہذا حضرت ابراہیم ابن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج پاک جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے۔خیال رہے کہ جنت میں داخلہ ایمان کی بنا پر ہوگا،وہاں کے مراتب اعمال کے مطابق۔جنت کا داخلہ تین۳ طرح کا ہے کسی،وہبی،عطائی یہاں کسبی کا ذکر ہے۔