بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاذۡكُرُوۡنِىۡٓ اَذۡكُرۡكُمۡ وَاشۡکُرُوۡا لِىۡ وَلَا تَكۡفُرُوۡنِ

سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور میری ناشکری نہ کرو

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرہ : ١٥٢)

ذکر کی اقسام اور ذکر کے متعلق اقوال :

کسی عمل کے وقت تم میرے امر اور نہی کو یاد کرو ‘ یعنی میرے حکم کے مطابق کسی کام کو کرو یا میرے منع کرنے کے مطابق کسی کام سے رکو تو میں تم کو اس عمل کی جزا سے یاد کروں گا ‘ تم مجھے عبادت اور اطاعت سے یاد کرو میں تم کو ثواب سے یاد کروں گا ‘ ایک قول یہ ہے کہ تم راحت میں مجھ کو عبادت اور دعا سے یاد کرو میں مصیبت میں تم کو عطاء اور نعمت سے یاد کروں گا ‘ ایک قول یہ ہے کہ تم مجھ کو سوال سے یاد کرو میں تم کو عطا سے یاد کرو میں تم کو آخرت میں یاد کروں گا۔

کبھی ذکر زبان سے ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنا ‘ تسبیح کرنا ‘ قرآن مجید کی تلاوت کرنا ‘ وعظ اور نصیحت کرنا ‘ اور کبھی ذکر دل سے ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے دلائل پر غور وفکر کرنا ‘ (علامہ جصاص نے لکھا ہے کہ یہ ذکر کی سب سے افضل قسم ہے ‘ احکام القرآن ج ١ ص ١٩٣) اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے کے طریقوں پر غور کرنا ‘ اور اللہ کی مخلوق کے اسرار پر غور کرنا ‘ اور کبھی اعضاء سے ذکر ہوتا ہے جیسے اپنے جسم کے تمام اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرنا ‘ عام مؤمنین کا ذکر زبان سے ذکر کرنا ہے ‘ امام ابن ماجہ حضرت عبداللہ بن بسر سے روایت کرتے ہیں : ایک اعرابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اسلام کے احکام بہت ہیں مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جو میں اپنے اوپر لازم کرلوں ‘ آپ نے فرمایا : تم اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے ہمیشہ تر رکھو۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٦٨) نیز حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب بندہ میرے ذکر سے اپنے ہونٹ ہلاتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٦٨)

خواص مؤمنین اور عارفین دل کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ‘ ان کے دل میں ہر وقت صرف اللہ کی یاد رہتی ہے اور وہ اپنے دل میں غیر کا خیال نہیں آنے دیتے۔ ذکر کا اصل معنی ہے : یاد کرنا ‘ قرآن مجید میں ہے ؛ (آیت) ” واذکر ربک اذا نسیت “۔ (الکہف : ٢٤)

” جب آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کیجئے “۔ زبان سے ذکر کو بھی اس لیے ذکر کہتے ہیں کہ زبان دل کی ترجمان ہے ‘ تاہم بغیر حضور قلب کے فقط زبان سے ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے ‘ ابو عثمان سے کسی نے شکایت کی کہ ہم زبان سے ذکر کرتے ہیں مگر دل میں اس کی حلاوت محسوس نہیں کرتے ‘ انہوں نے کہا : اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے کم از کم تمہارے ایک عضو کو تو اپنی اطاعت میں لگا لیا ہے۔ ابوعثمان نہدی نے کہا : میں اس وقت کو جانتا ہوں جب اللہ تعالیٰ مجھے یاد کرتا ہے ‘ پوچھا : وہ کون سا وقت ہے ؟ کہا : جب میں اسے یاد کرتا ہوں۔ ذوالنون مصری نے کہا : جو حقیقت میں اللہ کا ذکر کرتا ہے وہ اس کے ماسوا کو بھول جاتا ہے اور اللہ ہر چیز سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کو ہر چیز کا بدل عطا فرماتا ہے ‘ اور حضرت معاذ بن جبل (رض) نے فرمایا : اللہ کے ذکر سے زیادہ اور کوئی عمل اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٦٨‘ الجامع الاحکام القرآن ج ٢ ص ١٧٢۔ ١٧١)

حق تو یہ تھا کہ ہم اس کو یاد کرتے رہتے اور وہ توجہ نہ فرماتا ‘ کیونکہ ہم بندے ہیں اور وہ مولی ہے ‘ ہم حاجت مندہ ہیں اور وہ بےنیاز ہے ! لیکن یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے بندہ اور مولی سے قطع نظر فرما مساوی سلوک کی دعوت دی : آؤ تم مجھے یاد کرو ‘ میں تمہیں یاد کروں گا ‘ لیکن ہم اس کے ساتھ مساوی سلوک پر بھی تیار نہیں ‘ ہم اس کو یاد نہیں کرتے اور چاہتے یہ ہیں کہ وہ ہمیں یاد رکھے ‘ ہماری ہر ضرورت پوری کرکے ہماری ہر دعا قبول کرے۔ (آیت) ” وما قدروا اللہ حق قدرہ “ (الانعام : ٩١) بنواسرائیل سے فرمایا : (آیت) ” اذکروانعمتی “ (البقرہ : ٤٠) ” میری نعمت کو یاد کرو “ اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے فرمایا : (آیت) ” فاذکرونی “ (البقر : ١٥٢) ” میری ذات کو یاد کرو “ ‘ ان کے نبی اللہ کی صفت کے مظہر تھے تو انہیں صفت کو یاد کرنے کا حکم دیا ‘ ہمارے نبی اللہ کی ذات کے مظہر تھے تو ہمیں ذات کو یاد کرنے کا حکم دیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور میری ناشکری نہ کرو۔۔ (البقرہ : ١٥٢)

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کرکے میرا شکر ادا کرو اور معصیت کرکے میری ناشکری نہ کرو ‘ اور اس کا یہ معنی بھی ہے کہ میری نعمتوں کا اعتراف کرکے میری حمد وثناء کرو۔ شکر کا معنی یہ ہے کہ انسان نعمت دینے والے کا احسان مند ہو ‘ اس کے احسان کی قدر کرے ‘ اس کی دی ہوئی نعمت کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرے اور وہ اپنے منعم اور اپنے محسن کا وفادار رہے اور کفران نعمت یہ ہے کہ یا تو انسان سرے سے اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اس نعمت کو اپنی ذاتی قابلیت یا کسی اور کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ‘ یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اس کو ضائع کردے یا منعم کی تعظیم نہ کرے یا اس کی نعمت کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرے یا اس کے احسانات کے باوجود اس سے بےوفائی اور غداری کرے ‘ اس قسم کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی ‘ نمک حرامی ‘ غداری اور ناشکرے پن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 152