حدیث نمبر :125

روایت ہے عبداﷲ ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے جب کوئی مرجاتا ہے تو صبح شام اس پر اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا رہتا ہے ۱؎ اگر جنتی ہے تو جنت کا ٹھکانہ اور اگر دوزخیوں میں سے ہے تو دوزخ کا ٹھکانہ۲؎ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے تاآنکہ قیامت کے دن اﷲ تجھے ادھربھیجے گا۳؎ 

(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یہاں صبح و شام سے مراد ہمیشگی ہے یعنی میت قبر سے ہر وقت اپنے جنتی یا دوزخی ٹھکانے کو دیکھتا رہتا ہے لہذا احادیث میں تعارض نہیں اس کی تائید اس آیت سے ہے”اَلنَّارُ یُعْرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا”۔(ازمرقاۃ)

۲؎ دیکھتا ر ہتا ہے اور قبر میں جنت کی خوشبوئیں،وہاں کی ٹھنڈی ہوائیں بلکہ وہاں کے پھل بھی آتے رہتے ہیں۔ایسے ہی کافر کی قبر میں کہ دوزخ کی لُو،وہاں کی بدبو اور سانپ بچھو قبر میں پہنچتے رہتے ہیں۔خیال رہے کہ قبر میں جنت کا آرام یا دوزخ کی تکلیف پہنچ جاتی ہے مگر جسم کا جنت میں ثواب کے لیئے پہنچنا بعد قیامت ہوگا۔ہاں شہداء کی رُوحیں مرتے ہی جنت میں پہنچ جاتی ہیں جسمانی داخلہ ان کا بھی بعد قیامت ہے۔

۳؎ خیال رہے کہ مؤمن کی روح قبر میں یا کسی اور مقام پر قید نہیں ہوتی بلکہ بعض ارواح تو تمام عالم میں چکر لگاتی ہیں جیساکہ مرقاۃ وغیرہ میں ہے مگر ہیڈ کوارٹر قبر ہی ہوتی ہے اور تعلق وہاں سے ہر وقت رہتا ہے۔جیسے سونے کی حالت میں سیلانی روح کا تعلق جسم سے،اسی لیئے زیارت قبور کی جاتی ہے اور وہاں میت کو ایصالِ ثواب اور عرض و معروض کیا جاتا ہے۔”ھٰذَا مَقْعَدُكَ “سے یہی مرادہے۔