حدیث نمبر :126

روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ ایک یہودی عورت ان کی خدمت میں حاضرہوئی ۱؎ اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا۲؎ اور آپ سے عرض کیا اﷲ تمہیں عذاب قبر سے بچائے تب حضرت عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عذابِ قبر کے متعلق پوچھا۳؎ آپ نے فرمایا ہاں عذاب قبر حق ہے۴؎ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے کبھی نہ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور عذاب قبر سے رب کی پناہ نہ مانگی ہو۵؎ (مسلم،بخاری)

۱؎ ملنے یا کسی اور کام کے لیئے نہ کہ محبت وغیرہ کی بنا پر مسلمہ عورت کا بدکار عورتوں سے پردہ لازم ہے نہ کہ کافرہ عورتوں سے لہذا قولِ فقہاء اس حدیث کے خلاف نہیں۔

۲؎ کیونکہ توریت شریف میں پڑھا تھا یا اپنے پادریوں سے سُنا تھا۔معلوم ہوا کہ یہود و نصاری بھی عذاب قبر کے قائل ہیں جو مسلمان اسلام کا دعویٰ کرکے اس کا انکار کرے وہ ان سے بھی بدترہے تمام آسمانی کتب میں اس کا ذکر تھا معتزلہ روافض اور اس زمانہ کے بعض نئی روشنی کے دلدادہ اس کے انکاری ہیں۔

۳؎ کیونکہ اب تک آپ کو اس کی خبر نہ تھی اور یہود کی بات پر اعتبار نہ کیا۔اس سےمعلوم ہوا کہ کفار کی بتائی بات پر اعتبار نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی تصدیق علماء اسلام سے نہ ہوجائے۔

۴؎ کہ تمام آسمانی دین اس کے قائل ہیں۔خیال رہے کہ کفار کا عذابِ قبرکسی صورت سے دفع نہیں ہوسکتا۔مگر گنہگار مؤمن وں کا یہ عذاب سبزہ کی تسبیح،بزرگوں کی دعا،ایصال ثواب وغیرہ سے ختم یا کم ہوجاتا ہے۔جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پرکھجور کی ترشاخیں گاڑدیں،اب قبروں پر پھول ڈالنے گھاس اگانے کا بھی یہی منشاء ہے۔

۵؎ ہرنماز کے بعد بلند آواز سے،اس سے پہلے آہستہ دعا مانگتے تھے،یہ دعا امت کی تعلیم کے لیئے ہے تاکہ لوگ سیکھ لیں ورنہ انبیائے کرام سے نہ سوالِ قبر ہے نہ عذاب ان کی برکت سے لوگوں کے عذاب دور ہوتے ہیں۔