*اردو بے چاری مسلمان ہوگئی*…..

اردو کتابوں کو لیکر بریلی کالج میںABVP کا طوفان بدتمیزی

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

جنرل سیکریٹری تحریک فروغ اسلام دہلی

gmnaimi@gmail.com. come

خدا جانے جذب وشوق کی کس کیفیت میں جناب داغ نے کہا تھا :

اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

آج اگر جناب داغ موجود ہوتے تو اردو کا “قصیدہ” نہیں “مرثیہ” لکھتے.

“سارے جہان میں اردو کی دھوم ہے”

اس پر داغ صاحب سے اتنا ہی عرض ہے کہ حضور اپنے”سارے جہان”سے وطن عزیز ہندوستان کو خارج فرمادیں. کیوں کہ فرقہ پرستوں کی نگاہ میں اب اردو بھی مسلمانوں کی طرح کھٹکنے لگی ہے.اس لئے اردو کی شکل دیکھنا بھی شدت پسندوں کو برداشت نہیں ہے.

ہماری ہی طرح ویران ہوگئی

اردو بیچاری مسلمان ہوگئی

*اردو دشمنی کا تازہ واقعہ*

یوں تو تقسیم ہند کے بعد ہی “مظلوم اردو” مسلمان ہونے کا طعنہ سن رہی ہے.اسی لئے شاطرانہ چالوں کے ذریعے اردو کو قومی زبان کے درجے سے ہٹا کر ہندی کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا.لیکن 2014 میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ہی اردو کے بچے کھچے”اچھے دن” بھی رخصت ہو گئے.

اردو دشمنی کا تازہ واقعہ بریلی کالج، بریلی کا ہے. جہاں 14 اکتوبر2018 کو HRD وزارت کے تحت چلنے والے ادارے “قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان” (NCPUL) کی “اردو بس” کالج میں آئی.جس کو لیکر آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم “ABVP”

[اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد] کے لیڈروں نے غنڈہ گردی کرتے ہوئے وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا جس کے آگے پورا کالج انتظامیہ جھک گیا اور “اردو بس” کو واپس جانا ہی پڑا.

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان(NCPUL)کی جانب سے اردو کی تشہیر اور اردو طلبہ تک کتابیں پہنچانے کے لئے ایک پروگرام چلایا جارہا ہے جس کے تحت ملک بھر کے جن قومی وصوبائی کالجز اور یونیورسٹیوں میں شعبہ اردو قائم ہے وہاں کے طلبہ تک اردو لیٹریچر عام کرنے کے لئے “اردو بس”چلائی جارہی ہے.اسی سفر کا حالیہ پڑاؤ بریلی کالج تھا. جہاں کالج کے ذمہ داران نے خود “اردو بس” کو آنے کی دعوت دی تھی.

منظوری ملنے کے بعد بس کالج پہنچ گئی. بس کے پہنچتے ہی اردو شائقین کی بھیڑ لگ گئی.اور شعبہ اردو کے علاوہ دیگر اردو شائقین بھی اپنے اپنے ذوق کی کتابوں کی تلاش میں مگن ہوگئے. پرسکون ماحول میں کتابوں کی ورق گردانی ہورہی تھی. لیکن آج کل فرقہ پرستوں کو “سکون” سے خدا واسطے کا بَیر ہوگیا ہے اس لئے جہاں کا ماحول بھی پرسکون پاتے ہیں فوراً ہی سکون غارت کرنے پہنچ جاتے ہیں. یہاں بھی ایسا ہی ہوا،سکون کے چند لمحات ہی گزرے تھے کہ اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے ہوئے ABVP کے لڑکے پہنچ گئے. بی جے پی نواز طلبہ کے اشتعال انگیز نعرے دیکھیں:

🔹ہم بریلی کالج کو علی گڑھ نہیں بننے دیں گے.

🔹اردو زبان دہشت گرد تیار کرتی ہے.

🔹اردو دہشت گردوں کی زبان ہے.

🔹یہاں اردو کتابیں نہیں چلنے دیں گے.

ہنگامہ بڑھتے دیکھ ڈاکٹر شاویہ ترپاٹھی نے ان لڑکوں کو سمجھانے کی کوشش کی. لیکن “سنسکاری”طلبہ خاتون ٹیچر سے ہی بدتمیزی کرنے لگے.

بعد میں چیف پراکٹر ڈاکٹر وندنا شرما نے کہا کہ ہمارے کالج میں شعبہ اردو قائم ہے تو اردو کتابیں تو آئیں گی ہی، پھر یہ پروگرام حکومت ہند کا ہے. اور کتابوں میں قابل اعتراض مواد بھی نہیں ہے پھر بھی ہنگامہ کیوں کیا جارہا ہے ؟

لیکن ABVP کے غنڈے نما طلبہ کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تھے. اخیر میں چیف پراکٹر نے ABVP کے لڑکوں کو خبردار کیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں!!

محترمہ وندنا صاحبہ کی اس تنبیہ “آئندہ ایسی حرکت نہ کریں” پر ہنسی بھی آئی اور ان کی ‘بیچارگی’ پر افسوس بھی ہوا کہ چند اوباش طلبہ کے سامنے چیف پراکٹر کتنا بے بس وکمزور ہے. اگر یہی ہنگامہ مسلم طلبہ نے کیا ہوتا،کیا تب بھی کالج انتظامیہ اتنا کمزور رویہ دکھاتا؟

نہیں بلکہ انتظامیہ پولیس کو بلا کر پہلی فرصت میں جیل رسید کراتا.لیکن آج کل بی جے پی حامیوں کو سات خون معاف ہیں. اس لئے وندنا شرما صاحبہ نے بھی “پُھس پُھسی تنبیہ” دیکر اپنا فرض پورا کردیا اور ان طلبہ کی غنڈہ گردی سے ڈر کر “اردو بس” کو کالج واپس کردیا گیا.

یہاں چیف پراکٹر وندنا جی سے ایک سوال ہے کہ کل ABVP کی غنڈئی پر آپ کیا ایکشن لیں گی یہ بعد کی بات ہے ابھی جو طوفان بدتمیزی ہوا ہے کیا اس پر کوئی ایکشن لیا جائے گا!!

آر ایس ایس کے طلبہ کی نگاہ میں چیف پراکٹر کی “تنبیہ” کا کتنا اثر ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ABVPکے ضلع سیکرٹری راہل چوہان نے چیف پراکٹر کو خبردار کیا ہے کہ آئندہ کالج میں”اردو بس” نہ آئے ورنہ تو ہم “دیکھ لیں گے”

اب آر ایس ایس کے “دیکھ لینے” کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ ہندوستان کے لوگوں سے ڈھکا چھپا نہیں ہے.

*طلبہ سے اپیل*

بی جے پی مسلم دشمنی میں اتنا گر گئی ہے کہ پڑھنے والے طلبہ کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر بھرنے میں لگی ہوئی ہے. اسی نفرت کے زیر اثر طلبہ نے اردو زبان اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پر دہشت گردی کا الزام لگایا. حالانکہ علی گڑھ یونیورسٹی صرف ملک میں ہی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی قابل افتخار یونیورسٹی ہے. بریلی کالج کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے صدیوں کا سفر طے کرنا پڑے گا.

اردو زبان پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے طلبہ کو چاہیے کہ پہلے کچھ پڑھ لیں پھر بات کریں. ابھی وہ صرف بی جے پی کے برین واش میں پھنس کر بول رہے اگر کتابیں پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اردو کے دامن میں جہاں غالب ومیر جیسے نام موجود ہیں تو وہیں رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری،کالیداس گپتا رضا اور منشی پریم چند جیسے غیر مسلم بھی موجود ہیں. اس لئے طلبہ کو چاہیے کہ وہ نفرت کی سیاست کرنے والے لیڈروں کے آلہ کار بننے کی بجائے کتابوں سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اپنے سماج اور وطن کا نام روشن کریں.

غلام مصطفےٰ نعیمی

13 صفر المظفر 1440ھ

23 اکتوبر2018ء بروز منگل