أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذۡ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيۡسٰۤى اِنِّىۡ مُتَوَفِّيۡكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡكَ فَوۡقَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ ‌‌ۚ ثُمَّ اِلَىَّ مَرۡجِعُكُمۡ فَاَحۡكُمُ بَيۡنَكُمۡ فِيۡمَا كُنۡتُمۡ فِيۡهِ تَخۡتَلِفُوۡنَ

ترجمہ:

(اے رسول مکرم ! یاد کیجئے) جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ بیشک میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور آپ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور آپ کو کافروں (کے بہتان) سے پاک کرنے والا ہوں اور آپ کے پیروکاروں کو (دلائل کے ذریعہ) قیامت تک کافروں پر فوقیت دینے والا ہوں ‘ پھر تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے پھر میں تمہارے درمیان اس چیز کا فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کرتے تھے

تفسیر:

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ وفات کا تعلق بہ معنی موت نہ ہونے کی تحقیق : 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا ہے : اے عیسیٰ ! میں تم کو وفات دوں گا اور تم کو اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اس کا ظاہر معنی یہ ہے کہ میں تم پر موت طاری کروں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا لیکن یہ معنی حدیث کے خلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے حسن سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے فرمایا عیسیٰ پر موت نہیں آئی وہ قیامت سے پہلے تمہاری طرف لوٹ کر آئیں گے۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٠٢) اس لئے یہاں ” توفی “ کے معنی میں غور کرنا ضروری ہے ‘ وفات کے معنی ہیں پورا کرنا ‘ موت کو بھی وفات اس لئے کہتے ہیں کہ موت کے ذریعہ عمر پوری ہوجاتی ہے۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

وافی اس چیز کو کہتے ہیں جو تمام اور کمال کو پہنچ جائے قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” واوفو الکیل اذا کلتم “۔ (بنواسرائیل : ٣٥)

ترجمہ : اور جب تم ناپوتو پورا ناپو۔

(آیت) ” ووفیت کل نفس ماعملت “۔ (الزمر : ٧٠)

ترجمہ : اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

موت پر وفات کا اطلاق کیا جاتا ہے کیونکہ موت کے ذریعہ زندگی کی مدت پوری ہوجاتی ہے ‘ اور نیند بھی موت کی بہن ہے کیونکہ نیند میں بھی اعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور حواس اور مشاعر معطل ہوجاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی وفات کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔ (المفردات ص ٥٢٩۔ ٥٢٨‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

(آیت) ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا “۔ (الزمر : ٤٢)

ترجمہ : اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جنہیں موت نہیں آئی انہیں انکی نیند میں۔

امام رازی نے ذکر کیا ہے کہ یہ ہے کہ اے عیسیٰ میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور آپ کو زمین پر نہیں چھوڑوں گا تاکہ وہ آپ کو قتل کردیں بلکہ اپنی طرف اٹھالوں گا۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٥٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے بھی اپنی سند کے ساتھ اس آیت کے متعدد محامل بیان کئے ہیں :

ربیع بیان کرتے ہیں کہ اللہ آپ پر نیند کی وفات طاری کرے گا اور آپ کو نیند میں آسمان پر اٹھا لے گا۔

کعب احبار نے بیان کیا کہ اللہ نے آپ کی طرف یہ وحی کی کہ میں آپ کو جسم مع روح کے قبض کرلوں گا اور آپ کو اپنی طرف اٹھالوں گا ‘ اور میں عنقریب آپ کو کا نے دجال کے خلاف بھیجونگا آپ اس کو قتل کریں گے پھر اس کے بعد آپ چوبیس سال تک زندہ رہیں گے۔ پھر میں آپ پر موت طاری کروں گا۔ کعب احبار نے کہا یہ معنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کی تصدیق کرتا ہے آپ نے فرمایا وہامت کیسے ہلاک ہوگی جس کے اول میں میں ہوں اور جس کے آخر میں عیسیٰ ہیں۔ اور بعض علماء نے کہا واو مطلق جمع کے لئے آتی ہے ترتیب کا تقاضہ نہیں کرتی اس لئے اس آیت کا معنی یہ ہے : اے عیسیٰ ! میں تمہیں اپنی طرف اٹھاؤں گا اور میں تمہیں کافروں (کی تہمت) سے پاک کروں گا اور اس کے بعد دنیا میں نازل کرکے تم پر وفات طاری کروں گا۔

امام ابو جعفر طبری کہتے ہیں کہ ان اقوال میں میرے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ میں آپ کو روح مع جسم کے قبض کرلوں گا پھر آپ کو اپنی طرف اٹھاؤں گا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر احادیث میں ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) زمین پر نازل ہو کر دجال کو قتل کریں گے پھر ایک مدت تک زمین پر رہیں گے پھر وفات پائیں گے پھر مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کو دفن کریں گے۔ پھر امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام انبیاء علاتی (باپ کی طرف سے) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین واحد ہے اور میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور وہ میری امت پر میرے خلیفہ ہوں گے ‘ وہ زمین پر نازل ہوں گے جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کو پہچان لو گے وہ متوسط الخلق ہیں ان کا رنگ سرخی مائل سفید ہوگا۔ ان کے بال سیدھے ہوں گے گویا ان سے پانی ٹپک رہا ہے اگرچہ وہ بھیگے ہوئے نہیں ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے فیاضی سے مال تقسیم کریں گے اسلام کے لئے لوگوں سے جہاد کریں گے حتی کہ ان کے زمانہ میں تمام باطل دین مت جائیں گے اور اللہ ان کے زمانہ میں مسیح الدجال کو ہلاک کر دے گا اور تمام روئے زمین پر امن ہوگا اونٹ سانپوں کے ساتھ چر رہے ہوں گے ‘ بیل چیتوں کے ساتھ چر رہے ہوں گے اور بکریاں بھیڑیوں کے ساتھ۔ اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیل رہے ہوں گے اور کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ وہ چالیس سال تک زمین میں رہیں گے پھر وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کو دفن کردیں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عیسیٰ بن مریم ضرور زمین پر نازل ہوں گے وہ برحق فیصلہ کریں گے اور نیک امام ہوں گے ‘ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کریں گے وہ بڑی فیاضی سے مال تقسیم کریں گے حتی کہ کوئی شخص اس مال کا لینے والا نہیں ہوگا اور وہ مقام روحاء پر حج یا عمرہ کرنے کے لئے جائیں گے۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ٢٠٤۔ ٢٠٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

بعض روایات میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر چند گھنٹوں کے لئے موت آئی تھی اور پھر ان کو زندہ کردیا گیا لیکن یہ روایات صحیح نہیں ہیں۔ احادیث صحیحہ میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا اور وہ زمین پر نازل ہونے کے بعد طبعی وفات پائیں گے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 55