حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا

فیضان عزیزی

عورت کی سب سے اچھی خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اُس کو دیکھ پائے

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیا و رسل کو اپنے بندو ں کی ہدایت کے لیے بھیجا ،اس لیے ان کی زندگی بندوں کے لیے ہمیشہ نمونہ اور آئیڈیل بنتی رہی۔

بالخصوص جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام امت کے لیے نمونہ ہے ،مردوں کے لیے تو آسان ہے کہ وہ براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اپنی زندگی کے مسائل تلاش کریں ،مگر خواتین کس کی زندگی کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے نمونہ بنائیں؟جو اُن ہی کی جنس سے ہو ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ بھی ہو۔

اس پیمانے پرحضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات طیبہ مکمل اترتی ہےاورہرخاص وعام خواتین کی زندگی کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے طور و طریق کی خوبی،اخلاق و کردار کی پاکیزگی،اٹھنے بیٹھنے،طرز گفتگو اور لب و لہجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا ، ان کی رفتار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھی ۔

 مزید بیان فرماتی ہیں کہ فاطمہ سے زیادہ سچ بولنے والا میں نے کسی کونہ پایا۔ (حاكم )

اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابھی بیان فرماتی ہیں کہ فاطمہ رفتارو گفتار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین نمونہ تھیں ۔

 ولادت باسعادت

 صحیح روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کی پیدائش بعثت نبوی سے پانچ سال پہلےاس وقت ہوئی جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہورہی تھی،اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر۳۵ ؍ سال اور حضرت خدیجۃالکبریٰ کی عمر ۵۰ ؍سال تھی ۔

عہدِ بچپن 

 حضرت فاطمہ بچپن ہی سے نہایت سنجیدہ اور تنہائی پسند طبیعت کی مالکہ تھیں ،بچپن میں بھی انھوں نے نہ کبھی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ گھر سے باہر قدم نکالا ۔اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اورچہیتی بیٹی تھیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو حضرت فاطمہ سے حد درجہ محبت تھی۔ بچپن ہی سے حضرت فاطمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر ادا اورطورو طریقے کو بغور دیکھتیں اور اُس پر عمل کرتیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی باہر سے گھر  تشریف لاتے تو بلند آواز سے ’’السلام علیکم ‘‘ کہتے، پھر کچھ دیر ٹھہرتے اوراُس کے بعد گھر میں داخل ہوتے

۔ حضرت فاطمہ آواز سن کر دوڑتی ہوئی آتیں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پکڑکر اندرلے جاتیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کو اپنی آغوش میں بٹھالیتے اور پیار سے اُن کی پیشانی کو بوسہ دیتے ۔

 تربیت وپرورش 

 عام طور پر بچپنے میں بچوں کے دماغ میں کچھ سوالات آتے ہیں ،ان سوالات سے بچوں کی ذہنی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے اور اُن کا رجحان بھی واضح ہوتاہے،ایسی صورت میں ماں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کے سوال کو غور سے سنے اور کوئی اچھاسا جواب بھی دے ،تاکہ بچہ مطمئن ہو سکے ۔ حضرت فاطمہ بھی اپنی اَمّی جان سے سوال کیاکر تیں تھیں۔

 ایک مرتبہ حضرت فاطمہ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے سوال کیا کہ اَمّی جان! اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں اور دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ،کیا وہ ہمیں نظر بھی آ سکتا ہے؟

 حضرت خدیجۃالکبریٰ نےجواب دیا: ہاں بیٹی! اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ، اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور نیکی سے پیش آئیں،اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں  سے باز رہیں ، کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائیں ، صرف اسی کو عبادت کے لائق سمجھیں اور اللہ کے رسول پر ایمان لائیں تو قیامت کے دن ہم ضرور اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے ، اسی دن نیکی اور بدی کا حساب بھی ہوگا ۔

صبرکامظاہرہ 

 کسی بھی باپ کے لیے اس کی بیٹی جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے مگر محبت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب بیٹی اپنے والد کے ہر رنج وغم میں برابر کی شریک ہو ۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی جن مشکلات اور پریشانیوں میں گزری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔راستے میں کانٹے کابچھایاجانا، سرپر کوڑا،خاک اور کیچڑ ڈالاجانا، حالت نماز میں اوجھری کا ڈالاجانا، گالیاں دینا، ہنسی اڑانا ، پاگل اور مجنوں جیسے الفاظ کا شان مبارک میں استعمال کرنا کفار کا عام طریقہ تھا ، لیکن ایسے حالات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و شکر کے ساتھ زندگی بسرکی اور ایک بھی حرف شکایت زبان پرنہ لایا۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ کفار نے آپ کی پشت مبارک پر اوجھڑی ڈال دی، حضرت عبداللہ ابن مسعود کی خبر پر حضرت فاطمہ دوڑی ہوئی آئیں اور اپنے ہاتھوں سےاوجھڑی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ کیا۔

یوں ہی جب کفار ومشرکین نے تین سال کے لیےحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوربنو مطلب کو سماجی ومعاشی بائیکاٹ کیا ،تو کئی کئی روز تک کھانے کو کچھ نہ ملتا۔

اس وقت کی مشکلات کا اندازہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ رات میں ان کو سوکھے ہوئے چمڑے کا ایک ٹکڑا کہیں سے مل گیا ، انھوں نے اسے پانی سے دھویا، پھر آگ پر بھونااور کوٹ کر پانی میں گھولنے کے بعد ستو کی طرح پی گئے ۔ اس حال میں بھی حضرت فاطمہ صبر کرتی رہیں ۔

شادی اورازدواجی زندگی 

 ہجرت کے بعدپہلے حضرت ابوبکر صدیق، پھر حضرت عمر نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ سے نکاح کے لیے پیغام دیا لیکن آپ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ حکم الٰہی کا انتظار کرو،یا اِس معاملے میں مجھے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار ہے ۔اسی کے کچھ دنوں بعد حضرت علی کے ساتھ حضرت کا رشتہ طے پایا اور آپ دونوں کا نکاح ہوا۔

 نکاح کب ہوا؟اس سلسلے میں تین رواتیں ملتی ہیں:

۱۔مدینہ منورہ میں ہجرت کے ایک سال بعد ۔

۲۔ہجرت نبوی کے پانچ سال بعدماہ رجب میں،جب کہ حضرت فاطمہ اٹھارہ سال کی تھیں۔

۳۔واقعۂ اُحدکے بعد جب کہ حضرت فاطمہ ساڑھے پندرہ سال کی تھیں۔ (ثغورباسمہ از جلال الدین سیوطی)

روئے زمین پر بہترین گھر وہ ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون کا ذریعہ ہوں اورزندگی کے ہر موڑپر ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں ،اوراپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی بھی نہ کریں،لیکن کسی بھی شخص کے لیے ازدواجی فرائض کی ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب اس کواِن فرائض کا علم بھی ہو ۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں  تحریر فرماتے ہیں :

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرما دی تھی ۔ چنانچہ گھر کے اندر جتنے کام تھے، مثلاً چکی پیسنا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا، وغیرہ وہ سب سیدہ فاطمہ کے ذمہ تھے اور باہر کے سب کام، مثلاً بازار سے سودا سلف لانا ، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ حضرت علی کے ذمہ ، اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں ایک خوشگوار توازن (Balance)پیدا ہو گیا تھا ۔

فرائض کی ادائیگی کا احساس

 ایک مرتبہ حضرت فاطمہ کو بخار آگیا ، رات انھوں نے سخت بے چینی میں کاٹی ۔ حضرت علی کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا، پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی ، فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ فاطمہ وضو کر رہی ہیں ، میں نے مسجد میں جا کر نماز اداکی اور واپس آیا تو دیکھا کہ فاطمہ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں۔

 میں نے کہا : فاطمہ! تمھیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا ، رات بھر تمھیں بخارتھا ،صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اوراب چکی پیس رہی ہو، اللہ نہ کرے زیادہ بیمار ہو جائو تو؟

 حضرت فاطمہ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ میں اگر اپنے فرائض ادا کرتے کرتے مر بھی جائوں تو کچھ پروا ہ نہیں ، میں  نے وضو کیا اور اللہ کی اطاعت کے لیے نماز اداکی،اوراَب آپ کی اطاعت اور بچوں کی خدمت کے لیے چکی پیس رہی۔

قابل رشک بیوی

 کوئی بھی انسان اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو اس محبت کی بنیاد کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی ہے ،بالخصوص بیوی شوہر کی سچی محبت اسی وقت حاصل کر سکتی ہے جب وہ اپنی محبت اور افعال و کردار سےاس کے دل میں جگہ بنا لے۔ حضرت فاطمہ کے ان گنت ایسے کمالات تھے جن کی وجہ سے حضرت علی ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی سے حضرت فاطمہ کے بارے میں پوچھا تو آپ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا:

 فاطمہ جنت کا خوشبو دار پھول تھی جس کے مر جھانے کے باوجود اُس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے ، اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا مو قع نہیں دیا ۔

ذکروفکر

 حضرت فاطمہ کو عبادت الٰہی کا بے انتہا شوق تھا ،جب تمام دنیاسورہی ہوتی تووہ راتوں کواٹھ کرنمازادا کرتیں اور دنوں میں روزہ رکھتیں،اللہ کا خوف ہمیشہ ان پر طاری رہتا ، مسجد نبوی کے پہلو میں ہی ان کا گھر تھا ،گھر میں بیٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنا کرتیں اورجب کبھی آخرت اور خوفِ الٰہی کا ذکر آتا تو آپ پر ایسی رقت طاری ہوجاتی کہ روتے روتے بے ہوش ہوجاتیں ،تلاوت قرآن کے وقت بھی آپ کا یہی حال رہتا ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی جاتی ہیں اور اللہ کا ذکر کرتی جاتی ہیں۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن بھی تلاوت کرتی رہتی تھیں ۔

علم و فضل 

 ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:

بیٹی! عورت کی سب سے اچھی خوبی کیا ہے؟

 حضرت فاطمہ زہرا نے جواب دیا:

 عورت کی سب سے اچھی خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اُس کو دیکھ پائے۔

عورت اور گھر کی اصلاح 

یہ بات تجربوں سے ثابت ہے ، اور سورج کی طرح  روشن ہےکہ اگر گھر کی عورت چاہے تو کسی بھی حال میں گھر بگڑ نہیں سکتا،اور اگرگھرکی عورت چاہے تو کسی بھی حال میں گھر سدھر نہیں سکتا،کیوں کہ گھر کا تمام کارو بار عورت ہی کے ہاتھ میں  ہوتا ہے ، مثلاًبچوں کی تربیت سے لے کر شوہر کی دل جوئی تک، تمام کڑیاں اسی سے جڑی ہوتی ہیں ۔مگر کوئی نمونہ سامنے رکھے بغیریہ سب ایک مشکل عمل ہے ۔

آج کے اس تناتنی کے ماحول میں ہماری مائیں اور بہنیں گھروں کو ٹی وی پر آنے والے سِیریلس کی روشنی میں  چلانے کی کوشش کرتی ہیں ،انھیں حضرت فاطمہ زہراکی انمول اور قابل رشک زندگی سے سبق لینے کی ضرورت ہے ،کیوں کہ حضرت فاطمہ زہرانےجس طرح اپنے شوہر کی خدمت کی اور مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی انتہائی صبروضبط کا مظاہرہ کیاوہ آج کی آرام پسند خواتین کے لیے بالخصوص قابل عبرت ہے ۔