حدیث نمبر :223

روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اﷲ اس بندے کو ہرا بھرا رکھے جو میرا کلام سنے اسے یاد رکھے خیال رکھے اور پہنچادے ۱؎ کیونکہ بہت سے فقہ اٹھانے والے خود غیر فقیہ ہیں اور بہت لوگ اپنے سے بڑے فقیہ تک فقہ اٹھاتے ہیں۲؎ مسلمانوں کا دل تین چیزوں پر خیانت نہیں کرتا۳؎ اﷲ کے لیے عمل خالص کرنا۴؎ مسلمانوں کی خیرخواہی اور ان کی جماعت کو لازم پکڑنا ۵؎ کیونکہ ان کی دعا ماسوا کو شامل ہے ۶؎ اسے شافعی اور بیہقی نے مدخل میں روایت کیا۔احمد،ترمذی،ابوداؤد،ابن ماجہ اور دارمی نے زید ابن ثابت سے روایت کیا مگر ترمذی اور ابوداؤد نے “ثَلٰثُ لَا یَغُلُّ”الخ کا ذکر نہ کیا۔

شرح

۱؎ یہ حدیث تاقیامت محدثین کو شامل ہے،یعنی اﷲ تعالٰی حافظ اورمبلغ حدیث کو دنیا میں پھلا پھولا رکھے اور آخرت میں اس کا چہرہ ترو تازہ رکھے اور اس زمرے میں داخل کرے”وُجُوۡہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ “حضور کی یہ دعا قبول ہے خدام حدیث بفضلہٖ تعالٰی دین و دنیا میں شادوآبادہیں جیساکہ تجربہ بتارہا ہے۔حدیث کا ذکرکرنا حفظ ہے اور یاد رکھنا بھول نہ جانا دعاء،بعض محدثین قرآن کی طرح حدیث بھی یادکرتے ہیں۔

۲؎ اس حدیث میں صراحتًا فرمایا گیا کہ محدث براہ راست حدیث پرعمل نہ کرے ورنہ دھوکاکھائے گا بلکہ مجتہد فقیہ پر پیش کرے اس کی تقلیدکرکے اس کے بتائے ہوئے مطالب پرعمل کرے۔فقیہ روحانی طبیب ہے اور محدث روحانی عطار(پنساری)۔عطّار اپنی دکان کی دوائیں حکیم سے پوچھ کر ہی استعمال کرتا ہے اسی لیئے قریبًا سارے محدثین مقلد ہیں۔اسی حدیث پر عامل ہیں اسی سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیئے جو چندہ ریشوں کے تراجم پڑھ کرتقلید سے منہ پھیرلیتے ہیں۔قرآن وحدیث کے سمندرمیں خودچھلانگ نہ لگاؤکسی امام کے جہاز میں بیٹھ کر پارکرو۔فقہ سے مراد وہ حدیث ہے جس سے شرعی احکام مستنبط ہوسکیں۔سرکار کا مقصد شریف یہ ہے کہ بہت دفعہ ایسا ہوگا کہ میری حدیث یاد کرنے والے مسائل استنباط نہ کرسکیں گے اورجنہیں حدیث پہنچے گی ان میں استنباط کی قدرت نہ ہوگی،لہذا محدث حدیث کو قید نہ کریں بلکہ فقہاء تک پہنچائیں۔خیال رہے کہ حدیث کا مبداء حضور کی ذات اقدس ہے اور منتہی فقیہ پر پہنچ کر ہی ختم ہوتا ہے۔

۳؎ اس جملہ کی دوتفسیریں ہیں۔ایک یہ کہ عَلےٰ بمعنی(ب)ہے،یعنی جس دل میں ان تین عملوں میں سے کوئی عمل آجائے تو اس دل میں خیانت،کینہ،حسد نہیں رہتا۔دوسرے یہ کہ عَلےٰ اپنے ہی معنے میں ہے یعنی مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ ان تین کاموں میں کوتاہی نہیں کرتا۔پہلےمعنی زیادہ قوی ہیں یہ تین چیزیں دلی بیماریوں کی دوائیں ہیں۔

۴؎ کہ نیک اعمال نہ دنیا حاصل کرنے کے لئے کرے نہ جنت پانے اور دوزخ سے بچنے کے لئےل،محض رب کی رضا کے لیئے کرے،جب رب راضی ہوجائے سب کچھ حاصل ہے۔

۵؎ اس طرح کہ بقدر طاقت مسلمانوں کی مددکرے جو اپنے لیئے پسند نہ کرے ان کے لئے بھی پسند نہ کرے۔عقائد اور نیک اعمال میں ان کے ساتھ رہے،خلوت پر جلوت کو ترجیح دے،اسی لیئے اسلام نے جمعہ و عیدین وغیرہ میں جماعت فرض کی۔

۶؎ یعنی جماعت مسلمین کی دعا لوگوں کو گمراہی،شیطان کے فریب سے محفوظ رکھتی ہے،جماعت سے الگ رہنے والا ان کے دعا سےمحروم ہے۔معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی دعا حفاظتی قلعہ ہے۔