دبستان بریلی کے خوش فکر شاعر نعت

محمد حسین، مشاہد رضوی، نوری مشن مالیگائوں، ناسک

بادئہ حجاز کے سرمستوں اور آبلہ پایانِ راہ محبت سرکارﷺنے بلا لحاظ رنگ ونسل اور زبان وعلاقہ اپنے آپ کو رسول کریم علیہ افضل الصلوات والتسلیم کی تعریف وتوصیف میں مصروف ومشغول رکھا ۔عہد صحابہ سے لیکر آج تک نعت رسول ﷺ قلم بند کرنے کا پاکیزہ سلسلہ جاری وساری ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ تا قیامت چلتا ہی رہے گا ۔اردو شاعری کی جملہ اصناف میں سب سے زیادہ قابل تعظیم اور لائق تکریم صنف ہے ۔حضرت حسان بن ثابت ،حضرت عبد اللہ بن رواحہ وغیرہم اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکثر وبیشتر بارگاہ مصطفویﷺ میں آقائے دوجہاںﷺ کی مدحت سے مزین ومرصع کلام پیش فرمایا کرتے تھے۔خود خدائے قدیر وجبار جل شانہ نے قرآن میں جابجا محبوب پاک صاحب لولاک ﷺ کی ایک ایک ادائے دلنواز کا تذکرئہ جمیل فرما کر امت محمدی کو آپ کی بارگاہ عالی وقار کا ادب واحترام اور آپ کی تعریف وتوصیف کا سلیقہ وشعور بخشاہے۔

بر صغیر ہند وپاک میں حضرت امیر خسرو،غلام امام شہیدی اور مولانا کفایت علی کافی سے سے لیکر لطف بدایونی ،مرزا بیدل اور بیدم وارثی تک ،امیر مینائی اور شاہ نیاز علی بریلوی سے لیکر ابو الحسن نوری اور محسن کاکوروی تک،اقبال وامام احمد رضا بریلوی اور حسن رضا بریلوی سے لیکر حامد رضا ومصطفیٰ رضا بریلوی اور جمیل قادری بریلوی تک ،اور حفیظ جالندھری ،عبد الحمید صدیقی سے لیکر قتیل دانا پوری ،راز الہٰ آبادی اور قوس حمزہ پوری تک نعت گو شعرائے کرام کی ایک طویل ترین فہرست ہے جنھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ ذکر رسول اور نعت رسول ﷺ میں رطب اللسان رکھا یہی وجہ ہے کہ آج ان شعرائے کرام کے اسمائے گرامی،مدحت گران پیغمبر اعظماکے طور پر لیا جاتا ہے ۔

عصر حاضر میں اپنے شعور وفکر کو نعت رسول اور ذکر رسول اکے لئے مکمل طور پر خود کو وقف کرنے والوں میں اختر رضا بریلوی،سید آل رسول نظمی مارھروی،بیکل اتساہی، اجمل سلطان پوری،صوفی حماد احمد صابر قادری،شبنم کمالی ،راجہ رشید محمود اور طلحہ رضوی ،برق دانا پوری وغیرھم کا نام سر فہرست ہے۔ان حضرات کی پیہم مساعیٔ جمیلہ نے اردو نعتیہ ادب کو بام عروج پر پہنچادیا ہے۔

عروس البلاد بمبئی کی مذہبی وملی اور علمی وادبی حیثیت پوری دنیا پرمسلم ہے ۔یہ شہر ہمیشہ سے علم وادب کی مختلف تحریکات کا مرکز رہا ہے ۔یہ شہر جہاں ایک طرف جرائم اور بے حیائیوں کی وجہ سے مشہور ومعروف ہے تو وہیں دوسری طرف اصلاح معاشرہ اور تبلیغ سنت کی مختلف النوع تحریکات کے مرکز کے طور پر بھی یہ شہر پوری دنیامیں جانا پہچاناجاتاہے ۔ اصلاح معاشرہ کی غیر سیاسی عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی کا بھی یہ شہر بین الاقوامی مرکز ہے ۔اس تحریک کے سربراہ اعلیٰ مولانا حافظ محمد شاکر علی نوری بمبئی کے ایک میمن خانوادے کے چشم وچراغ ہیں ۔دین ومذہب سے حد درجہ لگائو ہے رسول اللہﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ محبت اور عشق ہے ۔موصوف عالمی سطح پر امام احمد رضا بریلوی کی تحریک عشق رسالت کے مبلغ اور داعی کی حیثیت سے اسلام وایمان کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ومشغول ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی دیگر علماء کرام کی طرح اپنے عشق رسول ا کے اظہار کے لئے نعتیہ شاعری کے میدان کو منتخب کیا ۔یوں تو آپ کی گھریلو زبان اردو نہیں لیکن پھر بھی آپ نے نعتیہ شعروادب کے لئے اردو کا استعمال بڑی کامیابی کے ساتھ کیا ۔

جابجا آپ نے اپنی نعتوں میں زبان وبیان کے نت نئے تجربات بھی کئے ،الفاظ کو اس طرح برتا کہ طبیعت کو اکتاہٹ کی بجائے لطف وسرور حاصل ہونے لگا اور پوری فضا خوشگوار ہوگئی ۔

شاہ مدینہ مجھ کو طیبہ بلالئے ہیں

سوئی ہوئی تھی قسمت آقا جگادیئے ہیں

قسمت پہ رشک میری کرتے ہیں سب فرشتے

پھر سے مدینے والے مہماں بنا لئے ہیں

زائرِ قبرِ منور کی شفاعت ہوگی

ہے یہی آپ کا فرمان رسول عربی

آیا ہوں بن کے سائل سلطان دوجہاں

رحمت ہو پھر سے مائل سلطان دوجہاں

گریاں ہے قلب ِشاکرؔکردو کرم بھی وافر

اپنوں میں کرلو شامل سلطانِ دوجہاں

بر صغیر ہند وپاک میں اردو کی شعری کائنات میں دودبستان ’’ لکھنواور دہلی ‘‘ بہت زیادہ مشہور ہیں ’’ دہلی کی شاعری کا محور شراب و شباب اور محبوب کی جفا شعاریوں کاذکر ہے تو لکھنو کی شاعری کا محور رقص و سرود اور مجازی محبوبوں کے نازو اداعشوہ و غمزہ اور زلف و گیسو کا تذکرہ ہے جبکہ ان دونوں تصورات سے بالکل پرے محبوبِ حقیقی کے محبوب اکبر مصطفے جان رحمت ا کے عشق و ادب کا جلوہ بکھیرتی ہوئی نہایت پاکیزہ شاعری امام احمد رضا بریلوی اور ان کے معتقدین کی شاعری ہے جسے ہم ’’دبستانِ بریلی ‘‘کی ملکوتی شاعری کہہ سکتے ہیں یہاں کاتصور عشق محبت ِ سرکار دوعالم اہے کہ یہی مقصود قرآن ہے ،یہاں کا محور عشق رسول گرامی وقار ا کی ذات گرامی ہے کہ انہی کی محبت و الفت ایمان کی جان ہے اس محبت کے علاوہ دنیا کی محبت کی کوئی وقعت نہیں کہ دنیا کی محبت پریشانیوں میں اضافہ کی باعث ہے جبکہ عشق رسول ابے قرار دلوں کے لئے وجہ طمانیت ، مصیبتوں اور پریشانیوں کاعلاج اور مداوائے ہر رنج و غم ہے یہی وجہ ہے کہ مولانا حافظ شاکر علی نوری بھی دنیا کی محبت کی بجائے سرکار کی محبت کے طلبگار ہیں جذبات محبت کی سچائی، عاشق کی نیاز مندی اور طالب عشق رسالت کا عجزو انکسار ملاحظہ کریں ؎

دل کی دنیاکوسجائو آقا اپنی الفت میں جلائو آقا

حُب دنیا سے بچانامجھ کو

مجھ کو اپنا ہی بنائو آقا

غم ِ دنیا میں نہ آنسو نکلے

اپنی الفت میں رلائو آقا

الفت میں اپنی مجھ کو ایسا گما لو آقا

خود سے نہ ہوں میں غافل سلطان دوجہاں

ساری کائنات کے مرکز عقیدت و محبت مدینہ منورہ کی حاضری و زیارت قبر نبوی علیہ الصلوۃ والسلام ہر عاشق دلگیر کے لئے جان و جگر اور سرور قلب و نظر ہے ۔یہاں کی حاضری وجہ تحصیل سعادت سرمدی ہے۔ یہاں کی حاضری غم دنیا اور غم عقبیٰ سے یکسر آزاد کردیتی ہے ۔اسی مقدس ترین دیار میں حاضری کے لئے سرکار ابد قرارا سے حافظ شاکر علی نوری یوں عرض کرتے ہیں انداز عرض بڑا ہی دل کش اور اچھوتا ہے ؎

میرے سرکار مدینے میں بلا تے رہنا

غم دنیا غم عقبیٰ سے بچاتے رہنا

نبھالو تم نبھا لو تم نبھالو یا رسول اللہ

بلالو اب مدینے میں بلالو یا رسول اللہ

دل تڑپتا ہے حضوری کو حضور

صدقے مرشد کے بلائو آقا

سرکار دوعالم ا نے کرم فرمایا بارگاہ خدا وندی سے مدینہ طیبہ کی حاضری کا اذن حاصل ہوگیا اب اہل شوق کا مبارک کارواں سوئے طیبہ کوچ کررہا ہے ایسے پُر مسرت موقع پر عاشق مچلتے ہوئے بڑے ناز وادا کے ساتھ یوں کہتا ہے ؎

میں نے رخ کرلیا مدینے کا

کیا بگاڑے کوئی سفینے کا

چشم رحمت پڑی ہے مجھ پر بھی

لطف آئیگا اب تو جینے کا

اور جب قسمت کی ارجمندی رسول رحمت ا کے دربار گہر بار کی زیارت سے شاد کامی حاصل ہوگئی تو پھر خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا اور پھر اس اعزاز خسروانہ کا اظہار موصوف نے یوں کیا کہ ؎

میرے آقا نے مدینے میں بلایا مجھ کو

سایۂ گنبد خضریٰ میں بٹھا یا مجھ کو

شاہ مدینہ مجھ کو طیبہ بلا لیئے ہیں

سوئی ہوئی تھی قسمت آقا جگا دیئے ہیں

قسمت پہ رشک میری کرتے ہیں سب فرشتے

پھر سے مدینے والے مہماں بنا لئے ہیں

ہے کرم آپ کا سرکار رسول عربی

پھر دکھایا مجھے دربار رسول عربی

ایسے عاصی کو مدینے کا بنایا مہماں

جو ہے سرتا پا خطا کار رسول عربی

جس کے دل میں الفت سرکار دوعالم ا ہے وہی کامیاب ترین فرد ہے کہ یہی محبت ایمان کی جان ہے مولانا موصوف رسول رحمت ا کے دربار میں پہنچ کر اسی محبت کی بھیک طلب کرتے ہیں ۔یہاں بھی طالب محبت کا عاجزانہ طرز اظہار قابل دید ہے ؎

اپنی الفت کا جام دو مجھ کو

مست کردو مجھے مدینے کا

الفت میں مجھ کو اپنی ایسا گمادو آقا

خود سے رہوں میں غافل سلطان دوجہاں

روضۂ رسول کی زیارت سے مشرف ہوئے اور محبت رسول ا کے انوار سے ظلمت کدئہ دل کو روشن کرکے ظاہر وباطن کو مزید تابندگی ودرخشندگی کے لئے عاشق یہ چاہتا ہے کہ جمال جہاں آرائے سرکار دو عالم ا کی سعادت عظمیٰ سے بھی سرفرازی حاصل ہوجائے۔حافظ شاکر علی نوری اس جذبات قلبی اور تمنائے ایمانی کا اظہار یوں کرتے ہیں ؎

شوق دیدار میں سوئو ں جس شب

اپنا دیدار کرائو آقا

سنہری جالیوں کے سامنے پہنچاہوں میں آقا

مجھے اپنی زیارت تم کرادو یا رسول اللہ

شاکر رضویؔ کو طیبہ تو دکھایا لیکن

وقت رخصت رخ زیبا بھی دکھانا مجھ کو

فرمان رسول  رسول اللہﷺ کے مطابق روضۂ رسول  رسول اللہﷺ کی زیارت کرنے والے ہر امتی کی آپ شفاعت فرمائیں گے من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کی تشریح کرکے بارگاہ محبوب کردگار میں یوں عرض کرتے ہیں ؎

دیکھ کر آپ کے گنبد کا وہ حسیں منظر

نکلے دل کے سبھی ارمان رسول عربی

زائر قبر منور کی شفاعت ہوگی

ہے یہی آپ کا فرمان مدینے والے

ہر عاشق یہ چاہتا ہے کہ وہ سر زمین طیبہ پر جب بفضل خدا رسائی حاصل کرلے تو اس کی روح بدن سے جدا ہوجائے اور اس مقدس خاک میں مل کر یہ بدن بھی خاک ہوجائے ۔طیبہ کی مقدس ترین زمین میں دفن ہونے کی خواہش موصوف یوں کرتے ہیں ؎

آخری وقت دفن ہونے کو

دیدو ٹکڑا مجھے مدینے کا

شاکرؔ صاحب نے چھوٹی بحروں میں بھی نعتیں قلم بند کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہیں ۔مگر چھوٹی بحروں میںمعنیٰ کی کمی اور مبہم انداز کے بجائے معانی کی فراوانی ،لفظوں کا تناسب اور انداز بیان کی قد رت پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لب و لہجے میں بہترین ساز وآہنگ بھی ہے ؎

جانبِ نار میں نہ جاؤں گا

میں نے رخ کر لیا مدینے کا

میں مدینے میں آتا جاتا رہوں

بخت چمکا ئیے کمینے کا

ابر رحمت کو اب برسنے دو

داغ دھل جائے میرے سینے کا

جشن میلاد ہم منائیں گے

رب سے صدقہ نبی کا پائیںگے

دور دل کی سیاہی کرنے کو

محفل نور ہم سجائیں گے

دیکھ کر قبر میں حضور کو ہم

نعت صل علیٰ سنائیں گے

مجھ کو طیبہ بلا ہی لیتے ہیں

مجھ کو اپنا بنا ہی لیتے ہیں

کوئی حسن عمل نہیں پھر بھی

میرے آقا نبھا ہی لیتے ہیں

اردو دنیا کے معروف ادیب اور مذہبی دنیا کے مشہور روحانی پیشوا حضرت سید محمد اشرف برکاتی مارہروی کی زبان میں ’’ لفظوں کا تناسب ‘‘ معنی کی وسعت ، جذبوں کی فراوانی ،مضامین کی بلندی ، عاشق کی نیاز مندی ،طالب کا عجزاور اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوے حافظ شاکر علی نوری کی درج ذیل نعت میں حد درجہ پنہاں ہیں ۔ نعت پڑھتے وقت قلب میں سوز و گداز اور کیف و جذب پیداہوتا ہے طبیعت میں وجدانی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے ،جی چاہتا ہے کہ بار بار اس نعت کے اشعار کی تکرارکرتے رہیں ؎

سرکارِ دوعالم کی نظر مجھ پہ پڑی ہے

پہونچا ہوں وہاں خلدِ بریں کی جو گلی ہے

آیا جو مدینے میں تو قسمت نے پکارا

بگڑی ہوئی تقدیر یہاں آکے بنی ہے

محشر کی کڑی دھوپ کا کھٹکا نہیں مجھ کو

چادر میرے سرکار کے گیسو کی تنی ہے

للہ! مجھے اپنا رخ ِانور تو دکھادو

پلکوں میں میری دیدکی خاطر تو نمی ہے

دے ڈالئے مجھ کو بھی غلامی کی سند اب

بخشش کو مرے شاہ یہ خیرات بڑی ہے

اللہ کو محبوب سے کتنی ہے محبت

ہاں طٰہٰ و یٰسین میںاسرارِ جلی ہے

عالم میں مسلمان پریشاں ہے پریشاں

بے چین نظر آپ کے ہی در پہ جھکی ہے

شاکرؔ نہ ہو غمگین تری جھولی وہ بھریں گے

بِن مانگے دئے ہیں کہ یہ دربارِ نبی ہے

حضرت مولانا موصوف کی نعتیہ شاعری میں ’’ دبستان بریلی ‘‘ کے معاصر شعرائے کرام کی طرح سوزو گداز،کیف و جذب اور محبت رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی سچی تڑپ اور کسک پائی جاتی ہے آپ کی شاعری کے مضامین میں آورد نہیں بلکہ آمد آمد ہے۔طرز ادا کا بانکپن ،اظہار ِ مدُّعا میںعاجزانہ پن ، آسان اورسہل الفاظ میں بات کو پیش کرنا ،افراط و تفریط سے مبرَّا، محتاط وارفتگی کے ساتھ شاعرانہ پیکر تراشی کا چابکدستی سے استعمال اور جانِ ایمان مصطفے جان رحمت ا کی سچی محبت و الفت کا اظہار و اشتہارآپ کے کلام کی نمایا ں خصوصیات ہیں ۔ آپ کی مختلف نعتوں سے منتخب اشعار ملاحظہ ہوں ۔

میرے آقا میرے سلطان مدینے والے

تم پہ سو جان سے قربان مدینے والے

qwwwwq

دردِ دل چاہئے چشم تر چاہئے

مجھ کو آقا کی پیاری نظر چاہئے

مرضِ عصیاں سے اب تو شفاہو نصیب

سنتو ں پر عمل عمر بھر چاہئے

کوئی مشکل نہیں ایسی جو نہ ٹالی تم نے

میرے داتا میری بگڑی کو بناتے رہنا

ہے مصائب میں گھری آپ کی امت آقا

ظلم ظالم سے اسے آپ بچاتے رہنا

وحشت ِ قبر سے گھبرائے جو شاکر ؔ آقا

تھپکیاں دے کے اسے آپ سُلاتے رہنا

اخیر میں مولانا حافظ شاکرؔ علی نوری کے اک شعر پر قلم کو روکتا ہوں یہ نہ صرف موصوف کی دلی خواہش ہے بلکہ ہر خوش عقیدہ مومن کی تمنائے قلبی ہے اور یہی میری ایمانی آرزو ہے ۔ ؎

نعت میں لکھتا رہوں نعت میں پڑھتا رہوں

ہو یہی زیست کاسامان مدینے والے