مولوی گالیاں دیتے ہیں

سینئر صحافی جناب حامد میر کے گزشتہ کل کے کیپیٹل ٹاک کا عنوان وہ علماء تھے جو گالیاں دیتے ہیں.حامد میر اور چند اور ایسے اینکرز ہیں کہ جن کے پروگرام بہت ہی اہم ہوتے ہیں اور جب وہ کوئی موضوع زیر بحث لاتے ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے.ایسے پروگرام کے لیے انہی مہمانوں کو بلایا جاتا ہے جو اینکر کی بات سمجھتے ہوں.ان پروگراموں کے ذریعے ایک بڑے فیصلے کے لیے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے اور پھر فیصلہ دیا جاتا ہے.

یہ پورا پروگرام جن دو لوگوں کے لیے کیا گیا ہے وہ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری ہیں.اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان دونوں نے بعض بہت ہی معتبر اور صاحب علم شخصیات کو بدترین گالم گلوچ کی ہے.ریاستی اداروں کو بہت گھناونے طریقے سے حدف تنقید بنایا ہے.علامہ رضوی صاحب کو تو چند سال ہوئے منظر عام پر آئے ہوئے,پیر افضل قادری کی تو پوری زندگی ہنگامہ آرای ,تشدد اور فساد میں گزری ہے.لبیک میں بھی انکی قبولیت کو میں جانتا ہوں.یہاں تک بات بالکل درست ہے کہ ان لوگوں نے باعزت لوگوں کو گالیاں دی ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی لوگوں میں صرف یہی دو ہیں جو اپنے مدمقابل کو گالیاں دیتے ہیں.??کیا میں کیپیٹل ٹاک کے گزشتہ رات کے مہمانوں کی خدمت میں عاجزانہ سا سوال کر سکتا ہوں کہ کیا اسلام کی مقدس ترین شخصیات کو بر سر منبر گالیاں دینا کار ثواب نہیں سمجھا جاتااور نیچے مجمع سے واہ واہ نہیں ہوتی???آپ نے اپنے مسلک کے اندر رہ کر کیا کیااقدامات کیے ہیں جن سے گالیاں دینے والے رک گئے ہوں? تنقید کرنا بہت آسان ہے مگر عملی کام جب کرنا پڑتا ہے تو ہمیں “ہنسی” آجاتی ہے.

آپ نےگالیوں کی مذمت پر تو بڑی لمبی بحث کی ہے لیکن آپکی نظروں میں وہ ہزاروں اسیران نہیں ہیں جنہیں بے گناہ جیل بھیج دیاگیا ہے.وہ عمر رسیدہ علماء نہیں ہیں جو جیلوں میں مر رہے ہیں.وہ مسجدیں نہیں ہیں جو ابھی تک مقفل ہیں.وہ طلباء نہیں ہیں جہنیں بے قصور دھر لیا گیا,ان کی کلاسوں سے انہیں اٹھا لیا گیا,وہ اپنے پیپر نہ دے سکے.ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم کسی کو خوش کرنے کے لیے اسی کی سوچ کے مطابق بات کرتے ہیں.آپ کو اگر اللہ نے موقع دیا تھا تو مسئلہ کے تمام پہلیوں پر بات کرتے.گالی پر بات ضرور ہونی چاہیے تھی اور اسکی مذمت بھی لیکن گالیاں کیوں دی جاتی ہیں اس پر بھی… افضل قادری کی مذمت ہونی چاہیے تو عاصمہ حدید کی بھی جس نے جاہلانہ طرز تکلم اختیار کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے مسجد اقصی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی.العیاذ باللہ.

اگر ان سفید داڑھی والوں نے کچھ لوگوں کو یہودی اور مرزائی کہا ہے تو اس پروگرام میں بیٹھے ساجد میر نے بھی کسی کو مرزائی یا قادیانی کہا تھا.ہمیں یاد ہے.حامد میر صاحب نے ان سے بہت ہی نارمل لہجے میں یہ سوال بھی کیا اور پھر آگے نکل گئے.فضل الرحمن صاحب آج بھی اس حکومت کو یہودیوں کی حکومت کہتے ہیں.ان کو تو سوائے نقشبندی صاحب کے سب شرکائے پروگرام اپنا قائد مانتے ہیں.دوہرے معیارات منافقت کی دلیل ہوتے ہیں.

ایک بات بڑی واضح ہے اگر ان دونوں مولویوں کو سزا ہوتی ہے تو ہو یالبیک پر پائبندی لگتی ہے تو لگے.لیکن یاد رکھیں اگر کوئی یہ سمجھے کہ ان کے ختم ہو جانے کے بعدمحافظان ختم نبوت ختم ہوجائیں گے,محافظان ناموس رسالت ڈر کر خاموش ہوجائیں گے,ایسا نہیں ہوگااور کبھی بھی ایسا نہیں ہوگا.میں آپ لوگوں سے اور اپنے وطن عزیز کے ریاستی اداروں سے بھی گزارش کرونگا کہ وہ لبیک اور اس کے رہنماوں کو اور مسئلہ ختم نبوت و ناموس رسالت کو ایک نظر سے نہ دیکھیں.اس ملک میں ناموس رسالت بہت مسائل کا شکار ہے.اس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کریں.لبیک والے ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے نکلے تھے لیکن طریقہ غلط تھا.مگر اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ابھی لوگ موجود ہیں کہ جب ناموس رسالت پر حرف آیا تو وہ نکلیں گے اور درست طریقے سے نکلیں گے.وہ ختمی مرتبت کی رسالت وناموس کا تحفظ کریں گے اور وطن عزیز کے ہر ہر چپے کا بھی.

اللہ میرے دین کی خیر فرمائے,میرے وطن کی بھی اور موجودہ حکومت کو بھی تمام مسائل حل کرنے کی مستقیم قوت عطا فرمائے اور انہیں ریاست مدینہ اسکی روح کے مطابق قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

طالب دعاء

گلزار احمد نعیمی.