كُلُّ نَفۡسٍ ذَآٮِٕقَةُ الۡمَوۡتِؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 185
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآٮِٕقَةُ الۡمَوۡتِؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ
ترجمہ:
ہر شخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے، اور تمہارے کاموں کی جزا تو قیامت کے دن ہی دی جائے گی، سو جو شخص دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ہے ‘ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہر شخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تمہارے کاموں کی جزا تو قیامت کے دن ہی دی جائے گی۔ (آل عمران : ١٨٥)
جنگ احد کی ہزیمت پر مسلمانوں کو تسلی دینے کا بیان :
جنگ احد کی ہزیمت پر جو مسلمان رنجیدہ اور غمزدہ تھے اس آیت میں بھی گذشتہ آیات کی طرح ان کو تسلی دی گئی ہے اور منافقوں کے طعن کا جواب دیا ہے ‘ منافق یہ کہتے تھے اس جنگ میں ہمارے مشورہ پر عمل کیا جاتا اور مسلمان شہر بند ہو کر لڑتے تو اس جنگ میں اس قدر مسلمان مارے نہ جاتے ‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اگر بہ فرض محال وہ مسلمان اس جنگ میں نہ مارے جاتے تب بھی انہوں نے ایک نہ ایک دن مرنا تھا ‘ پہلے کوئی ہمیشہ پہلے زندہ رہا نہ اب ہمیشہ زندہ رہے گا ‘ پھر تم ان مسلمانوں کے مرنے پر غم کیوں کرتے ہو ! خصوصا اس لیے کہ وہ شہادت کی موت مرے ہیں اور شہداء اللہ کے نزدیک زندہ ہیں ان کو رزق دیا جاتا ہے اور وہ اللہ کی ان نعمتوں پر بہت خوش ہیں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو دنیا میں ایمان اور اعمال صالحہ کا اجر عطا فرمایا ہے ‘ تم کو جنگ بدر میں فتح عطا کی ‘ اور جب تک تم مکہ مکرمہ میں رہے تم کو کفار کے قتل کرنے سے بچائے رکھا حتی کہ تم ہجرت کر کے مدینہ میں آگئے اور جہاد میں اللہ تم کو جو فتح وظفر ‘ مال غنیمت اور دشمن پر تسلط عطا فرماتا ہے ‘ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دنیا میں تھوڑا سا اجر ہے اس کا پورا پورا اجر تم کو قیامت کے دن دیا جائے گا ‘ ’ A توفیہ “ کا معنی کسی چیز کو پورا پورا کرنا ہے ‘ مومنوں کو دنیا میں جو نعمتیں دی ہیں وہ تھوڑی ہیں ان کو پوری پوری نعمتیں آخرت میں دی جائیں گی
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا مومن کا قیدخانہ ہے اور کافر کی جنت ہے (کتاب الزھد ص ٣٧‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤١٤ ھ)
اسی طرح کفار کو جو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوتا ہے یا انکا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے یہ بہت تھوڑ عذاب ہے انکو پورا پورا عذاب آخرت میں دیا جائے گا جو دائمی عذاب ہوگا۔
موت سے مستثنی رہنے والے نفوس کا بیان :
اس آیت میں پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ذات پر نفس کا اطلاق کیا ہے ارشاد ہے :
(آیت) ” کتب علی نفسہ الرحمہ : (الانعام : ١٢)
ترجمہ : اس نے (محض اپنے کرم سے) اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے ‘
(آیت) ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “۔ (الزمر : ٦٨)
ترجمہ : اور صور پھونکا جائے گا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب بےہوش ہوجائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگوں کو موت نہیں آئے گی اور کچھ مخلوق ایسی ہوگی جو قیامت کے صور سے بھی صرف بےہوش ہوگی مرے گی نہیں اور زیر بحث آیت کا تقاضا ہے کہ ہر نفس پر موت آئے حتی کہ اللہ پر بھی اور ان پر بھی۔ اس کا جواب یہ ہے یہ زیر بحث آیت عام عام مخصوص نہ البغض ہے ‘ اللہ تعالیٰ اور جن کا اللہ تعالیٰ نے استثناء فرمایا ہے (مثلا انبیاء وہ شہداء) وہ اس آیت کے عموم سے مستثنی ہیں ‘ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس آیت میں نفس سے مراد وہ مکلف ہیں جو دار تکلیف میں حاضر ہیں (تفسیر کبیر ج ٣ ص ١١٢) لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا تقاضا ہے کہ پھر بچوں اور دیوانوں پر موت نہ آئے اسی طرح جمادات اور نباتات پر موت نہ آئے حالانکہ ان سب پر موت آئے گی صحیح جواب وہی ہے جس کو ہم نے ذکر کیا ہے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو جو شخص دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥)
دوزخ سے پناہ مانگنے اور جنت کو طلب کرنے کے متعلق احادیث اور بحث و نظر :
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا اس کے سوال اور کوئی مقصود نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے اور وہ جنت میں پہنچ جائے اور جو شخص دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہوجائے اس کیلیے یہ دنیا دھوکے کا سامان ہے اور جس نے اللہ کے احکام کی اطاعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر عمل کرنے کے لیے دنیا سے تعلق رکھا اس کے لیے دنیا اچھی متاع ہے ‘ اس آیت کے دو جز ہیں ‘ ایک جہنم سے دوری اور جنت کا وصال اس کو کامیابی فرمایا ہے اور دنیا کی بےثباتی ہے پہلے جز کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے اور اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو سو جو شخص دوزخ سے دور کیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ہے (آل عمران : ١٨٥)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی راہ میں صبح یا شام کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں تم میں سے کسی ایک کے کوڑے جتنی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (کتاب الزھد ص ٢٩۔ ٢٧ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤١٤ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی دوزخ سے پناہ اور جنت کے حصول کی دعا کی ہے :
امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی آپ جب عذاب کی آیت پڑھتے تو ٹھہر کر اس سے پناہ مانگتے اور جب بھی رحمت کی آیت پڑھتے تو ٹھیر کر اس کی دعا کرتے۔ (سنن نسائی ج ١ ص ١٥٦ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
امام ابودؤاد سجستانی متوفی ٢٧٥ ھ نے اس حدیث کو حضرت عون بن مالک اشجعی سے اور امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ نے اس حدیث کو حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ٢٢٩‘ رقم الحدیث ٨٧٣‘ مطبوعہ دارلجیل بیروت ‘ مسند احمد ج ٦ ص ١١٩‘ مطبوعہ بیروت)
امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا ہوتی تھی : اے اللہ ! ہم تجھ سے تیری رحمت کے موجبات اور مغفرت کے موکدات کا سوال کرتے ہیں اور ہر گناہ سے محفوظ رہنے کا اور ہر نیکی کے حصول کا اور جنت کی کامیابی کا ‘ اور تیری مدد سے دوزخ سے نجات کا ‘ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ (علامہ ذہبی نے بھی اس کو مقرر رکھا ہے) (المستدرک ج ١ ص ٥٢٥‘ مبطوعہ دارالباز مکہ مکرمہ)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وجہ اللہ کے وسیلہ سے صرف جنت کا سوال کیا جائے (سنن ابو داؤد ج ٢ ص ١٣١‘ رقم الحدیث ١٦٧١‘ مطبوعہ دارالجیل بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ میں سستی ‘ بڑھاپے ‘ قرض اور گناہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں دوزخ کے عذاب ‘ دوزخ کے فتنہ ‘ قبر کے فتنہ ‘ قبر کے عذاب ‘ مال کے شر کے فتنہ ‘ فقر کے شر کے فتنہ اور مسیح دجال کے شر کے فتنہ سے تیری پناہ میں میں آتا ہوں ‘ اے اللہ میری (بہ ظاہر) خطاؤں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھودے ‘ اے اللہ ! میری (بظاہر) خطاؤں سے میرے دل کو اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑے کو میل سے صفا کردیا جاتا ہے ‘ اے اللہ ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اس طرح دوری کر دے جس طرح تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری کی ہے۔ (صحیح البخاری ج ٧ ص ٣٠٧‘ ٦٣٧٥‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ‘ صحیح مسلم ج ٤ ص ٢٠٧٨‘ رقم الحدیث ٢٧٠٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ الجامع الصحیح ج ٥ ص ٥٢٥‘ رقم الحدیث ٣٤٩٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ سنن نسائی ج ٢ ص ٣١٥‘ مطبوعہ نور محمد کراچی ‘ مسنداحمد ج ٦ ص ٣٠٧‘ ٥٧‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
امام محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس دعا کی قرآن کی سورت کی طرح تعلیم دیتے تھے : اے اللہ ! میں عذاب جہنم سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ ج ٢ ص ١٢٦٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
علامہ شہاب الدین احمد بن ابوبکر بوصیری متوفی ٨٤٠ ھ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی اصل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث عائشہ میں ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (زوائد ابن ماجہ ص ٤٩٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٤ ھ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت کا سوال کیا جنت کہتی ہے اے اللہ ! اس کو جنت میں داخل کر دے اور جس نے تین بار جہنم سے پناہ طلب کی جہنم کہتی ہے اے اللہ اس کو جہنم سے پناہ میں رکھ۔ (الجامع الصحیح ج ٤ ص ٧٠٠‘ رقم الحدیث ٢٥٧٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت سنن ابن ماجہ ج ٢ ص ١٤٥٢‘ رقم الحدیث ٤٣٤٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ المستدرک ج ١ ص ٥٣٥‘ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو (الجامع الصحیح ج ٤ ص ٦٧٥‘ رقم الحدیث ٢٥٣٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت سنن کبری للبیہقی ج ٩ ص ١٥٢ ‘۔ ١٥‘ مطبوعہ نشر السنہ ملتان ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٧١‘ مطبوعہ بیروت ‘ تاریخ کبیر للبخاری ج ٤ ص ١٤٦‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٨٣)
امام ابو یعلی احمد بن علی موصلی متوفی ٣٠٧ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی آیا آپ نے اس کو عزت بخشی ‘ وہ آپ کے بلانے پر آیا تھا ‘ آپ نے اس سے فرمایا تم اپنی حاجت کا سوال کرو ‘ اس نے کہا ہمیں ایک اونٹنی دیجئے تاکہ ہم اس پر سوار ہوں اور ہمارے گھروالے اس کا دودھ دو ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم بنواسرائیل کی بڑھیا کی مثل ہونے سے بھی عاجز ہو ‘ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ! بنو اسرائیل کی بڑھیا کیسی تھی ؟ آپ نے فرمایا جب حضرت موسیٰ بنواسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو راستہ بھول گئے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس کا کیا سبب ہے ؟ تو علماء بنواسرائیل نے کہا جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم اس وقت تک مصر سے نہ نکلیں جب تک کہ ان کی نعش کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا ان کی قبر کا کس کو علم ہے ؟ تو انہوں نے کہا بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا کو اس کا علم ہے ‘ اس کو بلایا گیا وہ آئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہماری حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر کی طرف رہنمائی کرو ‘ اس بڑھیا نے کہا جب تک تم میری ایک بات نہیں مانو گے میں نہیں بتاؤں گی ‘ پوچھا تمہاری بات کیا ہے ؟ اس نے کہا میں جنت میں تمہارے ساتھ رہوں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو یہ مرتبہ دینا مکروہ جانا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ اس کو یہ مرتبہ دے دیں ‘ تب وہ ان کو ایک ایسی جگہ لے گئے جو سمندر کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی ‘ اس بڑھیا نے کہا اس جگہ کو پانی سے خالی کرو ‘ سو اس جگہ کو خالی کیا گیا ‘ بڑھیا نے کہا اس جگہ کھدائی کرو ‘ پھر انہوں نے وہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نعش کو نکالا ‘ جب انہوں نے ان کی نعش کو اوپر اٹھایا تو ان پر گم شدہ راستہ روز روشن کی طرح واضح ہوگیا۔ (اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ کے رسول جنت عطا کرتے ہیں اور ان سے جنت کا سوال کرنا جائز ہے)
مسندابو یعلی ج ٦ ص ٣٩٢، ٣٩١‘ رقم الحدیث ٧٢١٨‘ مطبوعہ مؤسسہ علوم القرآن بیروت ‘ حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ امام ابو یعلی کی اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٧١‘ ناصر البانی نے بھی یہی لکھا ہے ‘ سلسلۃ الصحیحہ رقم : ٥٣١٢ حاکم نیشا پوری نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے اور حافظ ذہبی نے اس کی تائید کی ہے ‘ المستدرک ج ٢ ص ٥٧٢‘ ٥٧١‘ ٤٠٥‘ ٤٠٤‘ امام ابن حبان نے بھی اس کو روایت کیا ہے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج ٢ ص ٧١‘ موارد الظمان ص ٦٠٣‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو درج کیا ہے ‘ المطالب العالیہ ج ٣ ص ٢٧٤‘ امام طبرانی نے بھی اس کو روایت کیا ہے المعجم الاوسط ج ٨ ص ٢٦٩۔ ٢٦٨‘ مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض)
حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی متوفی ٨٠٧ ھ بیان کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس بندہ نے سات بار جہنم سے پناہ مانگی جہنم دعا کرتی ہے کہ اے اللہ اس کو مجھ سے پناہ میں رکھ اور جس شخص نے سات بار جنت کا سوال کیا ‘ جنت دعا کرتی ہے کہ اے اللہ ! اس کو مجھ میں سکونت عطا فرما ‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یونس بن خباب ایک ضعیف راوی ہے (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٧١‘ مطبوعہ دارالکتاب العرابی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
ہر چند کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں حدیث ضعیف بالاجماع معتبر ہوتی ہے اور اس کی تائید میں ہم احادیث صحیحہ نقل کرچکے ہیں نیز قرآن مجید میں تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قیامت کے عذاب سے پناہ کی دعا کی اور جنت کے حصول کی دعا کی :
(آیت) ” ولا تخزنی یوم یبعثون “ (الشعراء : ٨٧)
ترجمہ : اور حشر کے دن مجھے شرمندہ نہ کرنا :
(آیت) ” واجعلنی من روثۃ جنۃ النعیم “۔ (الشعراء : ٨٥)
ترجمہ : اور مجھے نعمت والی جنت کے وارثوں میں شامل کردے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو جنت نہیں مدینہ چاہیے اس کا و جواب یہ ہے کہ ہمیں مدینہ کے محبوب ہونے سے انکار نہیں لیکن مدینہ اس لیے محبوب ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن ہے لیکن جس جگہ آپ کا جسد اطہر رکھا ہوا ہے وہ جنت ہے آپ نے فرمایا میرے منبر اور بیت کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے۔
(صحیح مسلم ج ٢ ص ١٠١٠ مطبوعہ بیروت ‘ سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص ٢٤٦‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ج ٢ ص ٥٦)
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی جنت میں ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں ہوں گے تو اول آخر جنت ہی مطلوب ہے ‘ البتہ یہ واضح رہے کہ جس جگہ آپ کا جسد اطہر رکھا ہوا ہے وہ جنت ہے آپ نے فرمایا میرے منبر اور بیت کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ١٠١٠ مطبوعہ بیروت ‘ سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص ٢٤٦‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ج ٢ ص ٥٦)
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی جنت میں ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں ہوں گے تو اول آخر جنت ہی مطلوب ہے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ جس جگہ آپ کا جسد اطہر ہے وہ جگہ کعبہ ‘ جنت حتی کہ عرش سے بھی افضل ہے۔
ہم نے اس عنوان پر کافی طویل بحث کی ہے کیونکہ ہمارے زمانہ میں بعض جعلی صوفی اور بناوٹی درویش جنت کی بہت تحقیر کرتے ہیں اور جنت طلب کرنے سے اپنا مقام بہت بلند سمجھتے ہیں ‘ الہ العلمین ! جنت تو بہت اعلی اور ارفع مقام ہے ہم جنت کے کب لائق ہیں اگر تو نے ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لیا تو تیرا یہ بھی ہم پر بہت بڑا کرم ہوگا ‘ اے ارحم الراحمین ‘ ہم تیری اور تیرے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں جنت کی طلب کرتے ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم جنت کے اہل نہیں ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥)
دنیا کی رنگینیوں اور دل فریبیوں سے بےرغبتی پیدا کرنے کے متعلق آیات :
(آیت) ” انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو وزینۃ و تفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاوالاد کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یھیج فتراہ مصفرا ثم یکون حطا ماوفی الاخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اللہ ورضوان وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور، (الحدید : ٢٠ )
ترجمہ : یقین کرو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے ‘ اور عارضی زینت اور ایک دوسرے پر فخر و برتری ہے اور مال اور اولاد میں زیادتی طلب کرنا ہے ‘ اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جس سے پیدوار کسانوں کو اچھی لگتی ہے پھر وہ (پیداوار) خشک ہوجاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور آخرت میں (نافرمانوں کے لیے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لیے) اللہ کی مغفرت ہے ‘ اور (اس کی) خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
ترجمہ : لوگوں کے لئے عورتوں سے خواہشات کی اور بیٹوں کی اور سونے اور چاندی کے خزانوں کی اور نشان زدہ گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتی باڑی کی محبت خوش نما بنادی گئی ہے یہ دنیا کی زندگی کا (عارضی) سامان ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔
(آیت) ” من کان یرید الحیوۃ الدنیا وزینتھا نوف الیھم اعمالھم فیھا وھم فیھا لایبخسون۔ اولئک الذین لیس فی الاخرۃ الا النار وحبط ما صنعوا فیھا وبطل ماکانوا یعملون “۔ (ھود : ١٦۔ ١٥)
ترجمہ : جو لوگ (صرف) دنیا اور اس کی زینت کے طالب ہیں ہم انہیں دنیا میں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے اور اس میں ان سے کمی نہیں کی جائے گی ‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا کچھ نہیں ‘ اور دنیا میں انہوں نے جو کام کیے وہ ضائع ہوگئے اور انہوں نے جو عمل کیے وہ رائیگاں چلے گئے۔
دنیا کی رنگینیوں اور دل فریبیوں سے بےرغبتی پیدا کرنے کے متعلق احادیث :
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا تم دنیا میں اس طرح رہو جیسے مسافر ہو یا سڑک پار کرنے والے اور حضرت ابن عمریہ کہتے ہیں تھے کہ جب شام ہو تو تم صبح کا انتظار نہ کرو ‘ اور جب صبح ہو تو تم شام کا انتظار نہ کرو (یعنی مسلسل نیک عمل کرتے رہو) اور اپنی صحت کے ایام میں بیمار کے لیے عمل کرلو ‘ اور زندگی میں موت کے لیے عمل کرلو (رقم الحدیث ٦٤١٦)
حضرت علی (رض) نے فرمایا دنیا سفر کرتی ہوئی جارہی ہے اور آخرت سفر کرتی ہوئی آرہی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں تو تم ابن الآخرت بنو الدنیا نہ بنو ‘ کیونکہ آج عمل کا موقع ہے اور حساب نہیں ہے اور کل حساب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں ہوگا۔ (رقم الحدیث ٦٤١٦)
عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی پھر آپ منبر کی طرف گئے اور فرمایا میں تمہارا پیش رو ہوں ‘ اور میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا ‘ اور خدا کی قسم ! بیشک میں اب بھی ضرور اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں ‘ اور بیشک مجھے روئے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم بیشک مجھے تمہارے متعلق ہرگز یہ خدشہ نہیں ہے کہ تم سب میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے ‘ لیکن مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔ (رقم الحدیث : ٦٤٢٦)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کو تلاش کرے گا ‘ اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ‘ اور توبہ کرنے والے کی توبہ کو اللہ قبول فرماتا ہے۔ (رقم الحدیث : ٦٤٣٦)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کون اپنے اس مال کا وارث ہے جو اس کو اپنے مال میں بہت پسند ہو ‘ صحابہ نے کہا ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کو بہت پسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے پہلے بھیج دیا اور جو اس نے بچا کر رکھا ہے وہ اس کے وارث کا مال ہے (رقم الحدیث : ٦٤٤٢)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سامان کی کثرت غنی نہیں ہے غنی نفس کا استغناء ہے۔ (رقم الحدیث : ٦٤٤٦)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوان پر نہیں کھایا حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا اور آپ نے پتلی چپاتی نہیں کھائی حتی کہ آپ فوت ہوگئے۔ (رقم الحدیث : ٦٤٥٠)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل نے جس دن بھی دو قسم کے طعام کھائے تو ان میں ایک قسم کھجور تھی۔ (رقم الحدیث : ٦٤٥٥)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر ایک چمڑا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (رقم الحدیث : ٦٤٥٦)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم پر ایسا مہینہ آتا تھا کہ پورے مہینہ آگ نہیں جلتی تھی ‘ ہم صرف کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے الا یہ کہ کبھی گوشت آجاتا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی اے اللہ ! آل محمد کو اتنا رزق دے جس سے رشتہ حیات برقرار رہ سکے۔ (رقم الحدیث : ٦٤٦٠) (صحیح البخاری ج ٧ ص ٢٣٢۔ ٢١٨‘ ملتقطا “ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ)
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے آپ کی آل نے تین دن مسلسل گندم نہیں کھایا حتی کہ آپ رفیق اعلی سے جا ملے۔ (رقم الحدیث : ٦٤٧٠)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی ایک دن میں دو مرتبہ روٹی اور زیتوں کا تیل پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ (رقم الحدیث : ٦٤٧٤)
حضرت عتبہ بن غزوان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ساتواں شخص تھا اور ہمارا طعام درخت کے پتوں کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی۔ (رقم الحدیث : ٦٤٦٧)
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بازار سے گزرے تو لوگوں نے آپ کو گھیر لیا ‘ آپ چھوٹے کانوں والے ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون شخص اس کو ایک درہم کے بدلہ میں خریدنا پسند کرتا ہے لوگوں نے کہا ہم اس کو کسی چیز کے بدلہ میں خریدنا پسند نہیں کرتے ‘ ہم اس کا کیا کریں گے ! آپ نے فرمایا کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ یہ تم کو مل جائے ؟ لوگوں نے کہا بہ خدا اگر یہ زندہ ہوتا پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کے کان چھوٹے ہیں اور اب تو یہ مردہ ہے ! آپ نے فرمایا بہ خدا اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی کم تر ہے (رقم الحدیث : ٢٩٥٧)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے ‘ اس کے ساتھ اس کے گھر والے ‘ اس کا مال اور اس کا عمل جاتا ہے اس کا اہل اور اس کا مال لوٹ آتے ہیں اور اس کا عمل رہ جاتا ہے۔ (الحدیث : ٦٠، ٢٩)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو مالی اور جسمانی حالت میں افضل دیکھے تو فورا اس شخص کو دیکھے جو اس سے کمتر ہو اور جس سے یہ افضل ہو۔ (رقم الحدیث : ٢٩٦٣) (صحیح مسلم ج ٤ ص ٢٢٨٣۔ ٢٢٧٣‘ ملتقطا مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن عفان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای : ابن آدم ان تین چیزوں کے سوا اور کسی چیز میں حق میں نہیں ہے ‘ اس کے رہنے کے لیے گھر ہو ‘ اس کا ستر ڈھانپنے کے لیے لباس ہو ‘ روٹی کا ٹکڑا اور پانی ہو۔ (رقم الحدیث : ٢٣٤١)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت سہل بن سعد (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اللہ کے نزدیک دنیا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس میں سے کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔ (رقم الحدیث : ٢٣٢٠)
حضرت ابوبکرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کون سا شخص سب سے اچھا ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے عمل اچھے ہوں ‘ اس نے کہا کون سا شخص سب سے برا ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے عمل برے ہوں (رقم الحدیث : ٢٣٣٠)
حضرت ابو طلحہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھوک کی شکایت کی اور ہم نے اپنا پیٹ کھول کر ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ سے (بندھے ہوئے) دو پتھر دکھائے (رقم الحدیث : ٢٣٧١)
حضرت خولہ بنت قیس (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے جس کو یہ مال حق کے ساتھ ملے اس کے لیے اس مال میں برکت دی جائے گی ‘ بسا اوقات لوگ اللہ اور اس کے رسول کے مال سے ناحق لے لیتے ہیں، ان کے لیے قیامت کے دن آگ کے سوا کچھ نہیں (رقم الحدیث : ٢٣٧٥) (الجامع الصحیح ج ٤ ص ٥٨٢۔ ٥٦٠‘ ملتقطا مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 185
[…] […]
[…] کی مکمل تفسیر آل عمران : ١٨٥ میں گزر چکی ہے ‘ یہاں مراد یہ ہے کہ دنیا سے دل نہیں […]