وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَاؕ-وَ اللّٰهُ مُخْرِ جٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ(۷۲)

اور جب تم نے ایک خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے اور اللہ کو ظاہر کرنا جو تم چھپاتے تھے

فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَاؕ-كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰىۙ-وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۷۳)

تو ہم نے فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو (ف۱۲۲) اللہ یونہی مردے جلائے گا اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو(ف۱۲۳)

(ف122)

(۱۲۲) بنی اسرائیل نے گائے ذبح کرکے اس کے کسی عضو سے مردہ کو مارا وہ بحکمِ الٰہی زندہ ہوا اس کے حلق سے خون کے فوارے جاری تھے اس نے اپنے چچازاد بھائی کو بتایا کہ اس نے مجھے قتل کیا اب اس کو بھی اقرار کرنا پڑا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر قصاص کا حکم فرمایا اس کے بعد شرع کا حکم ہوا کہ

مسئلہ: قاتل مقتول کی میراث سے محروم رہے گا

مسئلہ : لیکن اگر عادل نے باغی کو قتل کیا یا کسی حملہ آور سے جان بچانے کے لئے مدافعت کی اس میں وہ قتل ہوگیا تو مقتول کی میراث سے محروم نہ ہوگا۔

(ف123)

اور تم سمجھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ مردے زندہ کرنے پر قادر ہے اور روز جزا مردوں کو زندہ کرنا اور حساب لینا حق ہے۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةًؕ-وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُ جُ مِنْهُ الْمَآءُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۷۴)

پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے (ف۱۲۴) تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کَرّے(سخت) اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں (ف۱۲۵) اور اللہ تمہارے کوتکوں(بُرے کاموں) سے بے خبر نہیں

(ف124)

اور ایسے بڑے نشانہائے قدرت سے تم نے عبرت حاصل نہ کی۔

(ف125)

بایں ہمہ تمہارے دل اثر پذیر نہیں پتھروں میں بھی اللہ نے ادرک وشعوردیا ہے انہیں خوف الہی ہوتا ہے وہ تسبیح کرتے ہیں۔” اِنۡ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ” مسلم شریف میں حضرت جابر رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اطراف مکہ میں گیا جو درخت یا پہاڑ سامنے آتا تھاالسلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کرتا تھا۔

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵)

تو اے مسلمانو! کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ یہودی تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وہ تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے(ف۱۲۶)

(ف126)

جیسے انہوں نے توریت میں تحریف کی اور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بدل ڈالی۔

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا ۚۖ-وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۷۶)

اور جب مسلمانوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے (ف۱۲۷) اور جب آپس میں اکیلے ہوں تو کہیں وہ علم جو اللہ نے تم پر کھولا مسلمانوں سے بیان کیے دیتے ہو کہ اس سے تمہارے رب کے یہاں تمہیں پر حجت لائیں کیا تمہیں عقل نہیں

(ف127)

شان نُزول یہ آیت ان یہودیوں کی شان میں نازل ہوئی جو سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہودی منافق جب صحابہ کرام سے ملتے تو کہتے کہ جس پر تم ایمان لائے اس پر ہم بھی ایمان لائے تم حق پر ہو اور تمہارے آقا محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے ہیں ان کا قول حق ہے ہم ان کی نعت و صفت اپنی کتاب توریت میں پاتے ہیں ان لوگوں پر رؤساء یہود ملامت کرتے تھے اس کا بیان ” وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ” میں ہے۔(خازن) فائدہ اس سے معلوم ہوا کہ حق پوشی اور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف کا چھپانا اور کمالات کا انکار کرنا یہود کا طریقہ ہے آج کل کے بہت سے گمراہوں کی یہی عادت ہے۔

اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(۷۷)

کیا نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں

وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(۷۸)

اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب (ف۱۲۸) کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا (ف۱۲۹) یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں

(ف128)

کتاب سے توریت مراد ہے۔

(ف129)

امانی اُمنیہ کی جمع ہے اور اس کے معنی زبانی پڑھنے کے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ کتاب کو نہیں جانتے مگر صرف زبانی پڑھ لینا بغیر معنی سمجھے۔(خازن) بعضے مفسرین نے یہ معنی بھی بیان کیے ہیں کہ امانی سے وہ جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں مراد ہیں جو یہودیوں نے اپنے علماء سے سن کر بے تحقیق مان لی تھیں

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْۗ-ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ(۷۹)

تو خرابی ہے ان کے لیے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں پھر کہہ دیں یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے عوض تھوڑے دام حاصل کریں (ف۱۳۰) تو خرابی ہے ان کے لیے ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ان کے لیے اس کمائی سے

(ف130)

شان نُزول : جب سید انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو علماء توریت ورؤساء یہود کو قوی اندیشہ ہوگیا کہ ان کی روزی جاتی رہے گی اور سرداری مٹ جائے گی کیونکہ توریت میں حضورکا حلیہ اور اوصاف مذکور ہیں جب لوگ حضور کو اس کے مطابق پائیں گے فوراً ایمان لے آئیں گے اور اپنے علماء اور رؤساء کو چھوڑ دیں گے اس اندیشہ سے انہوں نے توریت میں تحریف و تغییر کر ڈالی اور حلیہ شریف بدل دیا۔ مثلاً توریت میں آپ کے اوصاف یہ لکھے تھے کہ آپ خوب روہیں بال خوب صورت آنکھیں سرمگیں قد میانہ ہے اس کو مٹا کر انہوں نے یہ بتایا کہ وہ بہت دراز قامت ہیں آنکھیں کنجی نیلی بال الجھے ہیں۔ یہی عوام کو سناتے یہی کتاب الہی کا مضمون بتاتے اور سمجھتے کہ لوگ حضور کو اس کے خلاف پائیں گے تو آپ پر ایمان نہ لائیں گے ہمارے گرویدہ رہیں گے اور ہماری کمائی میں فرق نہ آئے گا۔

وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةًؕ-قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۰)

اور بولے ہمیں تو آگ نہ چھوئے گی مگر گنتی کے دن (ف۱۳۱) تم فرمادو کیا خدا سے تم نے کوئی عہد لے رکھا ہے جب تو اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کرے گا (ف۱۳۲) یا خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں

(ف131)

شان نُزول : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہود کہتے تھے کہ وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہ ہوں گے مگر صرف اتنی مدت کے لئے جتنے عرصے ان کے آباء و اجداد نے گو سالہ پوجا تھا اور وہ چالیس روز ہیں اس کے بعد وہ عذاب سے چھوٹ جائیں گی اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

(ف132)

کیونکہ کذب بڑا عیب ہے ،اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال’ لہذا اس کا کذب تو ممکن نہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے تم سے صرف چالیس روز کے عذاب کے بعد چھوڑ دینے کا وعدہ ہی نہیں فرمایا تو تمہارا قول باطل ہوا۔

بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۸۱)

ہاں کیوں نہیں جو گناہ کمائے اور اس کی خطا اسے گھیر لے (ف۱۳۳) وہ دوزخ والوں میں ہے انہیں ہمیشہ اس میں رہنا

(ف133)

اس آیت میں گناہ سے شرک و کفر مراد ہے اور احاطہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ نجات کی تمام راہیں بند ہوجائیں اور کفر و شرک ہی پر اس کو موت آئے کیونکہ مومن خواہ کیسا بھی گنہگار ہو گناہوں سے گھرانہیں ہوتا اس لئے کہ ایمان جو اعظم طاعت ہے وہ اس کے ساتھ ہے۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۸۲)

اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا