امام عبداللہ بن مبارک

آپ نہایت عظیم تاجر تھے اور حدیث وفقہ کے امام بھی ،چار مہینے طلب حدیث میں گذارتے ،چارماہ میدان جہاد میں ، اور چار ماہ تجارت کرتے تھے ۔فقہ میں امام اعظم رضی اللہ  تعالیٰ عنہ کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ۔

طلب علم حدیث وفقہ میں ذوق علمی کا یہ واقعہ بڑامشہور ہے کہ ایک مرتبہ والد ماجد نے آپ کو پچاس ہزار درہم تجارت کیلئے دیئے توتمام رقم طلب حدیث میں خرچ کرکے واپس آئے والد ماجد نے دراہم کی بابت دریافت کیا تو آپ نے جس قدر حدیث کے دفتر لکھے تھے والد کے حضور پیش کردیئے اور عرض کیا : میں نے ایسی تجارت کی ہے جس سے ہم دونوں کو جہان میں نفع حاصل ہوگا ۔والد ماجد بہت خوش ہوئے اور مزید تیس ہزار درہم عنایت کرکے فرمایا : جایئےعلم حدیث وفقہ کی طلب میں خرچ کرکے اپنی تجارت کامل کرلیجئے ۔(انوار امام اعظم مصنفہ مولانا محمد منشاتا بش قصوری، ۴۳)

تجارت کا پیشہ والد سے وراثت میں ملاتھا ،تجارت سے کافی آمدنی ہوتی تھی اوراکثر علم حدیث وفقہ کے طالبین پرخرچ فرماتے ،کسی نے ان حضرات پر خرچ کی تخصیص سے متعلق پوچھا توفرمایا :۔

قوم لھم فضل وصدق طلبوا الحدیث فأحسنواالطلب للحدیث لحاجۃ الناس الیہم احتاجوا ،فان ترکنا ہم ضاع علمہم وان اغناہم سوی العلم لامۃ

محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ولااعلم بعدالنبوۃ افضل من العلم ۔( تاریخ بغداد للخطیب، ۱/۱۶۰)

ان حضرات کو فضل علم اور صدق مقال کی دولت حاصل ہے ،حدیث کی طلب میں ان حضرات نے جس سلیقہ سے کام لیا ،انکی یہ کوششیں لوگوں کی ضرورت کے تحت تھیں ،اگر ان کو چھوڑ دیا جائے تویہ علم ضائع ہوجائیگا ، اوراگر ان کو آسودہ حال رکھا جائے تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امت کیلئے علم کی راہیں ہموار ہونگی ،اورمیں نبوت کے بعد اس علم سے بہتر کسی کو خیال نہیں کرتا ۔

اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یوں بیان کیا جاتاہے کہ جب رومیوں کے مقابلہ میں جہاد کیلئے مصیصہ کی سرحد ی چوکی کو جاتے ہوئے شہر رقہ سے گذرتے توایک نوجوان آپ سے کچھ احادیث پڑھ لیتاتھا ۔ایک مرتبہ جب آپ وہاں پہونچے تووہ جوان ملنے نہیں آیا ،لوگوں سے اس کا حال دریافت کیا ،معلوم ہوا کہ کسی کااس پر کاقرض چڑھ گیاتھا ،قرض خواہ نے نوجوان کو جیل میں ڈلوادیاہے ۔

یہ سنکر آپ خاموش ہوگئے ،دوسرے دن اس قرض خواہ کے پاس پہونچے اورپوچھا کہ تمہاراکتنا قرض فلاں پررہ گیا ہے ،بولا دس ہزاردرہم ۔اسی وقت آپ نے رقم اداکردی اوررقہ سے تشریف لے گئے ۔جوان جیل سے چھوٹ کرجب شہرآیا توآپکی آمد کی اطلاع ملی اورمعلوم ہواکہ کل یہاں سے روانہ ہوگئے ہیں ۔یہ جوان اسی وقت روانہ ہوا اورچند منزل بعد ملاقات ہوگئی ،فرمایا: کہاں تھے ؟ ساراواقعہ سنایا اورکہاخداجانے میرے قرض کو کس نے اداکیا جسکی وجہ سے مجھے رہائی مل گئی ،فرمایا: خداکاشکر اداکرو ،اللہ رب العزت نے کسی سے دلوادیا ہوگا ۔اس جوان کواس حسن سلوک کا پتہ اس وقت چلا جب آپ کا وصال ہوچکاتھا ۔

حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپکے ساتھی اوردوست ہیں ،امام اعظم قدس سرہ سے فقہ وحدیث کی تعلیم پائی ،ایک دن آپکے تجارتی مشاغل دیکھ کر کچھ کہا توآپ نے فرمایا : ۔

لولاک واصحابک مااتجرت ۔(تاریخ بغداد للخطیب، ۱/۱۶۰)

اگر آپ اورآپکے ساتھی محدثین وصوفیہ نہ ہوتے تو میں ہرگز تجارت نہ کرتا۔

غرضکہ علم حدیث کے طلبہ پر آپکی نوازشات عام تھیں ۔