حدیث نمبر :376

اور مسلم،بخاری میں ہے کہ عبداﷲ ابن زیدابن عاصم سے کہا گیا کہ آپ ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کریں تو آپ نے برتن منگایااس سے ہاتھوں پر پانی لے کرتین باردھویاپھراپنا ہاتھ برتن میں ڈالاپھرنکالا ۱؎ پھرایک چلوسے کلی کی اور ناک میں پانی لیا ۲؎ یہ تین بار کیا پھر اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا اپنا منہ تین باردھویا،پھر ہاتھ ڈال کر نکالا تو کہنیوں تک دو دو بار ہاتھ دھوئے پھر ہاتھ ڈال کر نکالا تو سر کا مسح کیا تو اپنا ہاتھ آگے پیچھے لے گئے پھر ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھوئے۳؎ پھرفرمایا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا وضو یوں ہی تھا۴؎ اورایک روایت میں ہے کہ دونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے لے گئے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر واپس لائے حتی کہ اسی جگہ لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر اپنے ہاتھ دھوئے اور ایک روایت میں ہے کہ کلی کی،ناک میں پانی لیا اور ناک جھاڑی تین بار تین چلو پانی سے ۵؎ اور دوسری روایت میں ہے کہ ایک ہاتھ سے کلی کی اور ناک میں پانی لیا ۶؎ یہ تین بار کیا اوربخاری کی روایت میں ہے کہ سر کا مسح کیا تو ہاتھ آگے پیچھے ایک بار لے گئے ۷؎ پھر ٹخنوں تک پاؤں دھوئے انہیں کی دوسری روایت میں ہے کہ تین بار کلی کی اور ناک جھاڑی ایک چلو سے۔

شرح

۱؎ یعنی چھوٹا برتن موجود نہ تھابڑے گھڑے یا مٹکے میں پانی تھاتو آپ نے کلائی تک ہاتھ توپانی انڈیل کر دھوئے،پھرکلی وغیرہ کے لیے اس میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔خیال رہے کہ مذہب حنفی میں مستعمل پانی وہ ہے جس سے حدث یعنی حکمی ناپاکی دور کی جائے،یااسے ثواب کی نیت سے وضویاغسل میں استعمال کیا جائے یہاں ان میں سے کچھ بھی نہ ہواکیونکہ ہاتھوں کا حدث تو دھل کرجاتارہا اوراب جو ہاتھ ڈالا وہ پانی لینے کے لئے تھا نہ کہ ثواب کے لئے دھونا مقصود نہیں۔لہذایہ حدیث احناف کے خلاف نہیں۔

۲؎ اسی طرح کہ ایک چلو کے آدھے سے کلی کی اور آدھاپانی ناک میں لیا،یہ بیان جواز کے لیے کیا،ورنہ مستحب یہ ہے کہ کلی علیحدہ چلو سے کرے اورناک میں علیحدہ چلو سے لے۔لہذا یہ حدیث احناف کے خلاف نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اس طرح بھی جائز ہے اگر چہ خلاف مستحب ہے،جیسے دو دوبارہاتھ دھوناجائزہے مگرخلاف مستحب ہے۔

۳؎ یہاں ثُمَّ تاخیر کے لیے نہیںکیونکہ اعضاءکو یکے بعد دیگرے فورًا دھونا ہمارے یہاں سنت ہے۔امام مالک کے ہاں فرض۔بلکہ یہ ثُمَّ محض بیان ترتیب کے لیے ہے،جیساکہ بہت جگہ قرآن شریف میں بھی یوں ہی مذکورہوا۔

۴؎ یعنی اکثر اوقات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا وضوءیوں ہی ہواکرتا تھا۔یہ بھی حضرت عبداﷲ کے علم کے لحاظ سے ہے،ورنہ حضور کا اکثر وضو تین باراعضاءدھوکرہوتا تھا،جیسا کہ احادیث میں ہے۔

۵؎ یعنی ہر کام علیحدہ تین چلو پانی سے کیا،کلی علیحدہ تین چلو سے،پھر ناک میں پانی علیحدہ تین چلوؤں سے تاکہ تمام احادیث متفق ہوجائیں۔

۶؎ جیساکہ شوافع کرتے ہیں۔ان کے ہاں فردکلی فرد استنشاق سے آگے ہو۔ہمارے ہاں تینوں کلیاں تینوں ناک کے پانی سے مقدم ہوں مگر یہ عمل بیان جواز کے لیے ہے،لہذا ہمارے خلاف نہیں،ہم بھی اسے جائز کہتے ہیں۔

۷؎ یعنی مسح ایک بار کیا۔یہ حدیث احناف کی دلیل ہے کہ مسح سر ایک بارہو۔امام شافعی کے ہاں مسح بھی تین بار ہونا چاہیئے۔