یہ ایک تابناک حقیقت ہے کہ جس دل میں عشقِ محمدی کی شمع فروزاں ہوتی ہے وہ دل کعبۂ ابراہیمی سے بھی زیادہ تقدس مآب ہوتا ہے اور جو انسان شرابِ حُبِ نبی سے سرشار ہوجاتا ہے اس کی عظمتوں کے آگے دنیا کی ساری عظمتیں و رفعتیں ہیچ نظر آتی ہیں کیوں کہ محبت ایسا کندن ہے جو پتھر کو بھی سونا بنا دیتا ہے اور ذرے کو ستارہ۔

یوں تو محبت کا لغوی معنیٰ دل کے میلان کے ہیں لیکن یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت اور ناقابلِ انکار سچائی ہے کہ محبت صرف زبانی جمع خرچ کانام نہیں بلکہ اس کے بھی اپنے کچھ تقاضے اور کچھ مطالبات ہیں جن کی ادائیگی کے بغیر دنیا کا کوئی بھی دعوے دار محبت اپنے دعوے میں سچا قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ دعوئے محبت کی صداقت و سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اس کے تقاضے اور اس کے مطالبات کی انجام دہی از بس ضروری ہے، چنانچہ ایک مسلمان جو محبوب پروردگارﷺ کی محبت کو ہی اپنا سب سے عظیم سرمایہ تصور کرتا ہے ہمیشہ ان تقاضوں کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی محبت سے متعلق ہیں اور وہ اس ذاتِ گرامی سے محبت اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کیوں نہ کرے؟ جب کہ ایک طرف تو قرآن کریم کی آیتیں اس بات کا حکم دیتی ہیں کہ آپﷺ سے محبت کی جائے اور اس کے تقاضوں کو پورا کر کے دکھایا جائے قرآنِ کریم میں خالقِ کونین کا ارشاد نورانی ہے (ترجمہ) ’’تم فرما دو اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کا مکان، یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا‘‘ (سورۂ توبہ:۲۴)

اور سرکار دوعالم ﷺ کے رہنما اقوال بھی اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ کی محبت ایک مسلمان کے لئے لابدی شئی ہے آپ کا ارشاد عرفانی ہے: ’’لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین‘‘

تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں، باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔ (بخاری، مسلم)

شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ محبت کے دو اسباب ہوتے ہیں (۱)حسن (۲)احسان اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ کی ذات با برکات حسن میں یکتا اور بے مثال ہے اور وہ بھی ایسی بے مثال کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے ساختہ کہہ اٹھے ؎ و احسن منک لم تر قط عینی و اجمل منک لم تلد النساء

آپ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور آپ سے خوبصورت کسی ماں نے آج تک کوئی بچہ نہیں جنا۔

اور حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ بول پڑے ؎

منزہ عن شریک فی محاسنہ

فجوہر الحسن فیہ غیر منقسم

آپ اپنے محاسن و فضائل میں شرکت غیر سے بری ہیں کیوں کہ حسن کا جوہر آپ میں غیر منقسم ہے۔

آپ کے احسانات کا کہنا ہی کیا، رہتی دنیا تک اسلامیان عالم بلکہ پوری انسانیت آپ کے احسانات سے سبکدوش نہیں ہو سکتی، مسلمانوں پر اور پوری انسانیت پر آپ کے کیا کیا احسانات ہیں ان کا شمار اور ان کے جائزے میں دفتر کے دفتر سیاہ ہو جائیں گے لیکن ایسا شمار اور ایسا جائزہ جو تمام پہلؤوں کو محیط ہو ممکن نہ ہو سکے گا۔ قرآنِ عظیم کا یہ فرمان ہی اس مقام پر شہادت کے لئے کافی ہے، ارشاد ہے ’’وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین‘‘ (الانبیاء ۱۰۷) ہم نے آپ کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے ’’لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم‘‘ (التوبہ:۱۲۸)

بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقّت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت خواہاں اور مسلمانوں پر کمال مہربان۔

چنانچہ ہر دور، ہر زمانہ میں ایمان والوں نے اپنے نبی کی محبت کے وہ گل بوٹے کھلائے ہیں کہ پورا زمانہ ہی مشک زار بن کر رہ گیا ہے۔ بلا واسطہ مشکوٰۃ نور نبوت سے استفادہ کرنے والی جماعت، جماعتِ صحابۂ کرام کی زندگی کے زریں اوراق الٹے جائیں تو ان کی کتاب زندگی کا ہر صفحہ عشقِ نبوی کی ایک نئی داستان لئے نظر آتا ہے اور پورے ماحول کو معطر کرتا معلوم ہوتا ہے۔ آئیے ایسی چند مثالیں ملاحظہ کرتے چلیں، ہمارے مشام جاں معطر ہو جائیں گے۔

جنگِ احد کا موقع ہے، جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے بہت سارے صحابۂ کرام جامِ شہادت نوش فرما چکے ہیں، مدینہ طیبہ میں یہ خبر وحشت اثر سن کر بہت سی عورتیں تحقیق حال کے لئے گھر سے نکل پڑیں، ایک انصاریہ نے مجمع کو دیکھا تو بڑی بے تابی کے ساتھ احمد مجتبیٰﷺ کی خیریت دریافت کرنے لگیں، اسی مجمع میں سے کسی شخص کی یہ آواز آئی کہ تمہارے والد گرامی انتقال کر چکے ہیں یہ سن کر انہوں نے ’’انا للہ‘‘ پڑھی اور پھر بے تابانہ انداز میں بول پڑیں حضورﷺ کیسے ہیں؟ پھر کسی نے ان کے شوہر نامدار کے انتقال کی خبر سنائی تو کسی نے بیٹے کے قتل کئے جانے کی، لیکن وہ برابر یہی سوال کرتی رہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ کیسے ہیں؟ آخر کار لوگوں نے جواب دیا الحمد للہ! آپ بخیریت ہیں اور تشریف لا رہے ہیں، پھر بھی انہیں اطمینان نہ ہوا اور بولیں مجھے بتائو آپ کہاں ہیں، لوگوں نے اشارہ کر کے بتایا کہ اس مجمع میں ہیں، وہ اضطراری کیفیت سے دوچار حالت میں دوڑتی ہوئی پہنچیں اور راحتِ قلب و سینہﷺ کی زیارت باسعادت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے بعد گویا یوں عرض گزار ہوئیں ؎

تسلی ہے پناہِ بے کساں زندہ سلامت ہیں

کوئی پرواہ نہیں،سارا جہاں زندہ سلامت ہے (سیرۃ المصطفی)

یوں ہی صلحِ حدیبیہ کے موقع پہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے صحابۂ کرام کے جن حالات کا اندازہ کیا اور پھر واپس جا کر کفار سے جو کہا وہ یہ تھا ’’اے قریش میں بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں، قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی مجلسیں بھی دیکھی ہیں لیکن خدا کی قسم میں نے کسی جماعت کو نہ دیکھا کہ وہ اپنے رہنما اور آقا کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسی محمد (ﷺ) کے جاں نثاران ان کی کرتے ہیں، اگر وہ تھوکتے ہیں تو جس کا ہاتھ ان کے لعاب سے شرف یاب ہو جاتا ہے وہ اس کو اپنے بدن اور منہ پر مل لیتا ہے اور جو بات ان کے منہ سے نکلتی ہے اس کی تعمیل کے لئے سب کے سب ٹوٹ پڑتے ہیں، ان کے وضو کا پانی آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم کرتے ہیں، زمین پر گرنے نہیں دیتے، اگر کسی کو قطرہ نہ ملے تو وہ دوسرے کے تر ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے مل کر اپنے منہ پر مل لیتا ہے، ان کے سامنے بولتے ہیں تو ان کی آواز پست ہوتی ہے، ادب کی وجہ سے نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے، اگر ان کے سر یا داڑھی کا کوئی بال گرتا ہے تو اسے تبرک کے طور پر اٹھا لیتے ہیں اور اس کا بے حد احترام کرتے ہیں، غرض میں نے کسی جماعت کو اپنے سردار سے ایسی محبت و الفت کا اظہار کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد (ﷺ) کی جماعت ان کے ساتھ کرتی ہے۔ (بخاری شریف)

ان دونوں مثالوں سے محبت، اس کے ثمرات اور اس کے تقاضے خوب صاف جھلکتے نظر آتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں مثالیں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے تعلق سے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے جذبۂ ادب اور ان کے جذبۂ اطاعت و جاں نثاری کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ ایک established factہے کہ محبت ہی ادب سکھاتی ہے اور یہی اتباع و جاں نثاری پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اتباع کے باب میں اس کا عکس بھی ممکن ہے کیوں کہ بسا اوقات انسان اپنے شامت نفس کی وجہ سے سرکار دو عالمﷺ کی اتباع تو نہیں کرتا لیکن اس کے دل میں بھی آپ ا کی محبت راسخ ہوتی ہے اور اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپا ہوا یہ شیر اس وقت بپھر کر باہر نکل آتا ہے جب کوئی گستاخ اس کے محبوب کی توہین پر اتر آتا ہے۔چنانچہ پاکستان کے مشہور صحافی شورش کاشمیری نے اپنے مشہور اخبار ’’چٹان‘‘ میں لکھا ہے کہ اختر شیرانی جو ایک مشہور شاعر تھے اور غزل میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے اور کسی کو اپنے پلے کا خیال نہیں کرتے تھے، ایک مرتبہ لاہور کے ’’عرب‘‘ ہوٹل میں اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ جمع ہو ئے جو لادینی نظریات کے حامل اور نہایت چرب زبان تھے، ان اوباش نوجوانوں نے اختر شیرانی کو نشہ میں دھت دیکھ کر مختلف شعراء و حکماء کے متعلق ان کی ناقدانہ رائے لینے کے فراق پڑ گئے اور سوالات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا، وہ بھی نشہ کے عالم میں اپنے نشتر تنقید سے سب کو چھلنی کئے جا رہے تھے کہ اچانک ایک کمینی طبیعت کے نوجوان نے یہ سوال کر دیا کہ آپ کی محمدﷺ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انتا کہنا ہی تھا کہ گویا اس نوجوان کے اوپر بجلی گر پڑی اور شاعر نے شیشے کا گلاس اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا اور بول پڑا او بے ادب! یہ ناپاک سوال تم ایک ایسے انسان سے کر رہے ہو جو معاصی کے بے کراں سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، آخر تم اس گنہگار سے کیا سننا چاہتے ہو؟ یہ کہتے وقت اس کے پورے وجود پر رعشہ طاری تھا اور پھر اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا اور اس بے حیا نوجوان کی طرف دوبارہ متوجہ ہو کر غیظ و غضب کے عالم میں بول پڑا: ارے خبیث تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم اس مقدس ذات کے نام نامی کو اپنی ناپاک زبان پر لے آئے؟ تم اور دوسری گفتگو بھی کر سکتے تھے؟ تم نے ناموسِ رسالت کے حرم میں داخل ہونے کی جرأت کیسے کر لی؟ اس گستاخانہ سوال پر توبہ کر، میں تم لوگوں کی بد باطنی کو خوب جانتا ہوں، یہ کہتے ہوئے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ شاعر اس کی بوٹی بنا دے گا اور پھر بپھرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ اس کو مجلس سے باہر کر دیا جائے اور خود پوری شب گریہ و زاری کرتے یہ کہتے گزار دی کہ یہ بے دین بے ادبی اور بے حیائی کی اس حد تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہماری آخری بچی کھچی دولت بھی ختم ہو جائے، ہمارے عشقِ رسول کا سرمایہ بھی ضائع ہو جائے، یقینا میری ذات گناہوں میں ڈوبی ہے لیکن ان کی کوشش تو یہ ہے کہ ہمارے گلے سے ان کی غلامی کا قلادہ بھی اتر جائے۔ قسم خدا کی! میں اس کے لئے کبھی راضی نہیں ہوں گا۔

(الطریق الی المدینۃ المنورۃ، ابوالحسن علی ندوی ص:۹۱…۸۸)

غرضیکہ محبت کرنے والا انسان اپنے محبوب کی بے ادبی برداشت نہیں کر سکتا کیوں کہ محبت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اپنے نبی کا ہر مت والا ان کی تعظیم بجا لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہے وہ بحرِ عصیاں میں مستغرق ہی کیوں نہ ہو، وہ کتنا ہی گنہگار ہی کیوں نہ ہو، لیکن چوں کہ تعظیم بھی اس وقت تک پایۂ تکمیل کو نہیں پہونچ سکتی جب تک کہ محبوب کی اتباع نہ کر لی جائے۔ اسی و جہ سے جہاں قرآن کریم میں تعظیم و توقیر نبی کا درس دیا گیا ہے وہیں اطاعتِ رسول کی بات بھی کہی گئی ہے بلکہ دعوئے محبت کرنے والوں پر نبیٔ کریم ا کی زبان سے یہ واضح کرا دیا گیا ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرتے ہو تو میری اطاعت کو حرزِ جاں بنانا ہوگا، گویا جب تک اطاعت نہ ہوگی اس وقت تک ہم اپنی محبت کا دم بھرنے میں حق بجانب نہیں ہو سکتے اور صحابۂ کرام سے لے کر آج تک ملت اسلامیہ کی تاریخ سے بھی اسی بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اتباع ہی اصل ہے اور یہی مدار نجات ہے۔

لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم چہار دانگ عالم میں عشقِ مصطفی ﷺ کے ذریعہ پہچانے جانے کے باوجود اور ہمارے اس دعوے کے با وصف کہ محمد عربی نبی ہاشمیﷺ کے دامنِ مقدس سے وابستگی کی صورت میں ہی ہم منزلِ مقصود تک پہونچ سکتے ہیں، ہماری حالت ناگفتہ بہ ہے، ہم کس بنیاد پر اپنے دعوے میں سچے کہے جاسکتے ہیں جب کہ محبوب رب کائناتﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘‘ ’’نماز دین کا ستون ہے جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اس کو ڈھا دیا اس نے دین کو ڈھا دیا‘‘ اور فرماتے ہیں ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں کسی کو نماز کی امامت کا حکم دوں اور میں گھروں کا دورہ کروں اور جو ترکِ جماعت کا مرتکب نظر آئے اس کے گھر میں آگ لگا دوں‘‘ اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمیشہ اپنے عمل سے ’’قرۃ عینی فی النوم‘‘(میری آنکھوں کی ٹھنڈک سونے میں ہے) کا نعرۂ مستانہ لگاتے نظر آتے ہیں، ہمیشہ پنجگانہ کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے دیکھے جاتے ہیں اور ترکِ جماعت تو گویا ہمارے نزدیک کوئی گناہ ہی نہیں، رمضان المبارک کے خیر و برکت بھرے ماہ میں خرابی صحت کا بہانہ بنا کر ہم روزے سے گریز اختیار کرتے نظر آتے ہیں، زکوٰۃ نکالنے میں بخل سے کام لیتے ہم مشاہدہ کئے جاتے ہیں اور دیگر ان تمام معاصی و سیئات کا گہوارہ ہماری ذات ہے جن کے ارتکاب سے اس ذاتِ گرامی وقار نے منع فرمایا ہے جن کی محبت کا دم بھرتے ہم نہیں تھکتے۔ ایک برائی ہو تو کوئی اسے شمار کرائے یہاں تو پورا وجود ہی گناہوں کے ڈھیر سے عبارت ہے۔ ؎

اک ہنگامۂ محشر ہو تو کوئی بات بنے

سیکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے

ہم کیا نہیں کرتے، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، شراب نوشی ہماری فطرت ثانیہ اور حرام خوری، قمار بازی، سینہ زوری ہمارا محبوب مشغلہ ہے، یہاں یہ کہہ کر دامن بچانے کی کوشش نہ کی جائے کہ یہ باتیں حقیقت سے اس بناء پر کوسوں دور ہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نیک و صالح اور پیکرِ رشد و ہدایت بھی ہے کیوں کہ جس جماعت کا آپ حوالہ دینا چاہتے ہیں ان کی حیثیت سالن میں نمک کے برابر ہے۔

غرضیکہ ساری برائیوں کا مجسمہ ہم ہیں، کوئی بھی ہمارے ظاہر کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ہم مسلمان ہیں، خصوصا عصرِ حاضر کے نوجوانوں کی معاشرت Society انحطاط کی اس کھائی میں جا پڑی ہے جہاں سے نکلنے کی دور دور تک کوئی سبیل نہیں نظر آرہی ہے، کوئی بھی دیکھنے والا ہمارے ان خوب رو نوجوانوں کو دیکھ کر یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ غلامانِ مصطفی ہیں البتہ اس یقین کو وہ اپنی سینے سے ضرور چمٹا لیتا ہے کہ یہ ہالی ووڈ یا بالی ووڈ اسٹارز کے زبردست فین ہیں، آخر یہ رسول سے کیسی محبت ہے؟ نبی سے عشق کا یہ کون سا انداز ہے؟ دعویٰ تو محبتِ رسول کا ہو اور زبان و دل فلمی نغمے گنگنانے میں مست ہوں، نام تو فدایانِ محمد جیسا ہو اور کام فلمی ستاروں کے پیروکاروں جیسا ؎

ع سمجھ میں کچھ نہیں آتا الٰہی ماجرا کیا ہے

خدارا! رحم کیجئے اپنے دعوائے محبت پر نظرِ ثانی کیجئے، دیکھئے دنیا آپ کے اس دعویٰ کا کس قدر بھونڈے انداز میں مذاق اڑا رہی ہے، اغیار بھی مضحکہ آمیز نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنوں کے بھیس میں رہنے والے گندم نما جو فروش بھی آپ کو غلامانِ محمد کی فہرست سے خارج جماعت کی حیثیت سے پیش کرنے کے لئے شب و روز کوشاں ہیں، خواب غفلت سے بیدار ہو جائیے، سحر ہوئے بہت دیر ہوچکی ہے، ساری دنیا اپنے اپنے مقصد کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ زمانہ چال قیامت کی چل گیا ہے اور آپ ہیں کہ بے خبر سو رہے ہیں؟ اٹھئے آنکھوں سے نیند کا خمار دور کیجئے، اغیار کا جائزہ لیجئے، ان کے طعنوں کا محاسبہ کیجئے اور اپنے دعوئے محبت کو اسی طرح سچ کر دکھائیے جس طرح ماضی میں آپ کے اسلاف نے سچ کر دکھایا تھا، آپ تو اس امام کے نام کو سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں جن کے عشق نبی کی دھوم سارے جہاں میں ہے، انہوں نے تو حبِ نبی کی ہی جنگ لڑی تھی، انہوں نے یہی تو پیغام دیا تھا کہ نبی رحمت ا کے دامن کرم سے وابستگی میں ہی ہماری کامیابی ہے، سرورِ دو جہاں ا کی ان عبادتوں کا واسطہ جن کی وجہ سے پائے مقدس ورم کر جایا کرتے تھے، اس گریۂ شب کا واسطہ جس کے بارے میں روایتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ خوف الٰہی سے روتے وقت آپ کی آواز اس طرح نکلتی تھی گویا ہانڈی ابل رہی ہو، آقا کی اطاعت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیجئے اپنی خواہشات نفسانیہ کو اطاعتِ رسول کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیجئے، مسجدوں کو اپنی جبینِ نیاز خم کر کے آباد کر دیجئے، محبوب رب العالمین کی اطاعت و فرماں برداری، وفاداری و جاں نثاری اور اپنے سچے امتی ہونے کا ثبوت دے دیجئے، ساتھ ہی ساری دنیا کو عشقِ نبی کا جام پلا کر ایسا مخمور کر دیجئے کہ آپ کے خلاف منصوبہ بند سازشوں کا تانا بانا ہی بکھر کر رہ جائے اور اپنی زندگی کا مقصد ان الفاظ میں واضح کر دیجئے ؎

ہمیں کرنی ہے شہنشاہِ بطحا کی رضا جوئی

وہ اپنے ہو گئے تو رحمتِ پروردگار اپنی

اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ یقین اپنے نقشِ دل پر ثبت کر لیجئے کہ ساری دنیا ایک دن آپ کے قدموں میں ہوگی اور ساری مزاحمتیں خود بخود دم توڑ جائیں گی کیوں کہ یہ ربانی پکار ہے ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭٭٭٭