أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ هَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ يَّبۡسُطُوۡۤا اِلَيۡكُمۡ اَيۡدِيَهُمۡ فَكَفَّ اَيۡدِيَهُمۡ عَنۡكُمۡ‌ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ  ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو : تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کرو ‘ جب ایک قوم نے تمہاری طرف ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا تو اللہ نے تم سے ان کے ہاتھوں کو روک لیا اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو : تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کرو ‘ جب ایک قوم نے تمہاری طرف ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا تو اللہ نے تم سے ان کے ہاتھوں کو روک لیا اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔ (المائدہ : ١١) 

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اس آیت کے حسب ذیل دو شان نزول بیان کیے ہیں۔ 

یزید بن ابی زیاد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر (رض) حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) کے ساتھ بنو نضیر کے پاس ایک دیت کے معاملہ میں گئے (دو عامری مسلمانوں کو عمرو بن امیہ ضمری نے قتل کردیا تھا ‘ آپ یہودیوں سے ان کی دیت وصول کرنے تشریف لے گئے تھے) آپ نے ان یہودیوں سے فرمایا : اس دیت (کی وصول یابی میں) میری مدد کرو۔ انہوں نے کہا ہاں ! اے اباالقاسم ! اب آپ کو ہم سے کام درپیش ہوا ہے۔ آپ بیٹھئے ہم آپ کو کچھ کھلاتے ہیں اور آپ کا مطلوب مہیا کرتے ہیں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب بیٹھ گئے اور اس کا انتظار کرنے لگے۔ آپ سے یہ گفتگو حیی بن اخطب نے کی تھی ‘ وہ یہودیوں کا سردار تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ‘ جس قدر اب یہ تمہارے قریب ہیں ‘ اس سے زیادہ قریب تم ان کو کبھی نہ پاؤ گے۔ ان کو پتھروں سے مار کر قتل کردو ‘ پھر اس کے بعد تم کو کبھی مصیبت کا سامنا نہیں ہوگا۔ وہ چکی کا ایک بہت بڑا پاٹ لے کر آئے ‘ تاکہ اس کو آپ پر گرا دیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے آپ کو بچا لیا اور جبرائیل (علیہ السلام) آپ کو وہاں سے اٹھا کرلے گئے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو ! تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کرو ‘ جب ایک قوم نے تمہاری طرف ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا تو اللہ نے تم سے ان کے ہاتھوں کو روک لیا۔ (جامع البیان ‘ جز ٦ ص ١٩٨‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک منزل پر ٹھہرے اور مسلمان مختلف درختوں کے نیچے ان کے سایوں میں لیٹ گئے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دیئے ‘ ایک اعرابی آیا اس نے آپ نے تلوار درخت سے اتارلی اور وہ آپ کے سامنے تلوار سونت کر کھڑا ہوگیا ‘ اور کہنے لگا آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ ! اس اعرابی نے تلوار میان میں ڈال لی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو بلایا اور ان کو اعرابی کے واقعہ کی خبر دی ‘ درآنحالیکہ وہ آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا ‘ آپ نے اس کو کوئی سزا نہیں دی۔ قتادہ نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض دشمن آپ کی غفلت میں آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس اعرابی کو بھیجا تھا۔ (جامع البیان ‘ ج ٦‘ ص ٣٠١، ٣٠٠‘ صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٢٩١٣‘ ٢٩١٠‘ مسند احمد ج ٥‘ رقم الحدیث : ١٤٣٤١) 

علامہ ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس آیت کے اعتبار سے پہلی روایت میں بیان کیا ہوا شان نزول راجح ہے۔ کیونکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے کافروں کے ہاتھ کو روک لیا اور پہلی روایت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان دونوں سے ہاتھ روکنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہاتھ روکنے کا ذکر ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 11